از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
ماہِ شعبان ایک بابرکت مہینہ ہے، یہ مہینہ اسلامی تعلیمات کی رو سے بابرکت مہینوں میں شمار ہوتا ہے اور احادیث میں اسے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب کیا گیا ہے۔اسلامی کیلنڈر کے مطابق شعبان المعظم آٹھواں مہینہ ہے جو رجب المرجب اور رمضان المبارک کے درمیان واقع ہوتا ہے۔ احادیث کی روشنی میں بلا شبہ یہ ماہ بہت سی فضیلتوں کا حامل ہے، چنانچہ رمضان کے بعد آپ ا سب سے زیادہ روزے اسی ماہ میں رکھتے تھے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’شعبان میرا مہینہ ہے ، رجب اللہ کا اور رمضان المبارک میری امت کا، شعبان گناہوں کو دور کرنے والا ہے اور رمضان بالکل جلا کر پاک کر دینے والا مہینہ ہے‘‘۔حضرت سیدنا اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں میں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میں آپﷺ کو شعبان کے روزے رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں کہ آپ ﷺ کسی بھی مہینے میں اس طرح روزے نہیں رکھتے فرمایا رجب اور رمضان کے بیچ میں یہ مہینہ ہے لوگ اس سے غافل ہیں اس میں لوگوں کے اعمال اللہ رب العزت کی طرف اٹھائے جاتے ہیں اور مجھے یہ محبوب ہے کہ میرا عمل اس حال میں اٹھایا جائے کہ میں روزہ دار ہوں۔(سنن نسائی)
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رمضان کے علاوہ رسول اللہ ا کو کبھی پورے مہینے کے روزہ رکھتے نہیں دیکھا، سوائے شعبان کے کہ اس کے تقریباً پورے دنوں میں آپ روزہ رکھتے تھے۔ (بخاری، مسلم، ابو داؤد) بعض دیگر احایث میں شعبان کے آخری دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا گیا ہے تاکہ اس کی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے رکھنے میں دشواری نہ ہو۔ (بخاری، کتاب الصوم۔ مسلم، کتاب الصیام)حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایاکہ شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے۔(کنزالعمال )حضور اکرم ﷺ نے امت کو یہ حکم فرمایا:رمضان کے لیے شعبان کے چاندکو اچھی طرح یاد رکھو۔(ترمذی)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا تو حضور اکرم ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے:اللّٰھمَّ باَرِکْ لَنَافِيْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَارَمَضَاناے اللہ!ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا۔ (مسند احمد ،رقم الحدیث2228)
تفسیر کشاف میں ہےکہ اللہ تعالیٰ نے شب برات کی رات کو چھ فضیلتیں بخشی ہیں۔پہلی فضیلت اس رات تمام حکمت والے کام فرشتوں میں بانٹ دئیے جاتے ہیں تاکہ وہ اس کے مطابق اپنے پورے سال میں فرائض سرانجام دیں۔دوسری فضیلت اس میں عبادت سے جو ثواب ملتا ہے دوسری راتوں کے مقابلہ میں زیادہ ہوتا ہےتیسری فضیلت اس رات کو حضورﷺ کی امت پر خاص رحمت اترتی ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ اس رات میں میری امت کے اتنے لوگوں پر خاص رحمت فرماتا ہے جتنے بنی کلب قبیلے کی بکریوں کے بال ہیں۔چوتھی فضیلت اس رات بخشش ہوتی ہے چنانچہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ بے شک اس رات میں اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو بخشش دیتا ہے مگر اس رات کاہن اور جادوگر اور دل میں بغض و دشمنی رکھنے والے ، شراب کے عادی، ماں باپ کے نافرمان اور زناء کے عادی کی بخشش نہیں ہوتی (جب تک یہ لوگ سچے دل سے تونہ کر کے باز نہ آجائیں)۔پانچویں فضیلت اس رات میں رسولﷺ کو تمام امت کی شفاعت دی گئی وہ اس طرح کہ جب شعبان کی تیرھویں رات کو آپ ﷺ نے امت کے بارے میں اللہ سے شفاعت مانگی تہائی امت کے حق میں بخشش کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ کی بقیہ امت کی بخشش کا وعدہ بھی فرمایا گیا جو شخص سرکش ہو کر اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت سے ایسے بھاگے جیسے اونٹ اپنے مالک کے ساتھ زور آزمائی کر کے رسی چھڑا کر بھاگ جائے اس کی شفاعت نہ فرمائیں۔ چھٹی فضیلت علامہ زمخشری لکھتے ہیں کہ ہر شب برات میں اللہ تعالیٰ زمزم کے کنویں میں بھی برکت نازل فرماتا رہتا ہے۔
مذکورہ اس طرح کی متعدد احادیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ماہ شعبان بلاشبہ بہت سی فضیلتوں کا حامل ہے اور اس ماہ کے آخری دو تین دن کے علاوہ اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ روزہ رکھنا چاہئے۔اس ماہ کی پندرہویں رات کو شب برأت کہا جاتا ہے، جو ۱۴ تاریخ کے سورج غروب ہونے سے شروع ہوتی ہے اور ۱۵ تاریخ کی صبح صادق تک رہتی ہے۔ شب برأت فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی : نجات پانے کی رات کے ہیں۔ چونکہ اس رات میں بے شمار گناہگاروں کی مغفرت کی جاتی ہے اس لئے اس شب کو شب برأت کہا جاتا ہے۔
٭…شب برأت میں بلا کسی قیدو خصو صیت کے مطلق نماز کا ثبوت ہے، ہر شخص اپنے طور پر انفرادی عبادت کرے، جس میں نما ئش یا کسی اور کیفیت مخصو صہ کی پا بندی نہ ہو تو مستحسن ہے اور اگر اس میں رسوم اور ایسی کیفیتِ مخصوصہ کی پا بندی جو شرعا ثابت نہ ہو اور اس کو عبادت اور ثواب کی نیت سے کیا جائے توبدعت ہے،15 شعبان کو مزاروں پر جا نا منع نہیں ہے لیکن 15شعبان کی وجہ سے مسنون بھی نہیں ہے۔(فتاوی محمودیہ:3/265،ادارہ الفاروق کراچی)
٭…اس رات میں قبر ستان میں جا کر اپنے عزیزوں کے لیے ایصال ثواب کرنا ،دعائیں مانگنا اچھی بات ہے ، احادیث میں اس کا حکم ہے، کبھی کبھی زیارت قبور کے لیے جانا چاہیے ، لیکن خاص اس رات میں جانا،پھر وہاں جا کر مختلف قسم کی خرافات کا انجام دینا مثلا چراغاں کرنا، اگربتی جلانا، ٹولیوں کی شکل میں جانا اور آنا ،خصوصاََ عورتوں کا مردوں کے ساتھ اختلاط کرنا، یہ سارے کام شریعت کے خلاف ہیں ، ایسے موقع پر عورتوں کا قبرستان جانا سخت گناہ کا کام ہے ، اسی طرح مردوں کے لیے بھی اس رات میں قبرستان جانے کو ضروری سمجھنا جائز نہیں ہے۔
٭…شب برأت میں قبرستان جانے کا خاص اہتمام کوئی ضروری نہیں ہے،کیوں کہ پوری زندگی میں حضور اکرم ﷺ سے صرف ایک مرتبہ اس رات میں قبرستان جانا ثابت ہے۔٭…شب برأت میں پوری رات جاگنا ضروری نہیں ہے،جتنا آسانی سے ممکن ہو عبادت کرلیں اور ساتھ میں اس بات کا خیال رکھیں کہ کسی شخص کو آپ کے جاگنے کی وجہ سے تکلیف نہ ہو ، یہ بھی واضح رہے کہ رات مغرب سے شروع ہوجاتی ہے ، اس لئے مغرب کے بعد سے عبادت میں مشغول ہوجائے ، یہ جو عوام میں رات بارہ بجے مسجد آنے کا مشہور ہے وہ بے اصل ہے ۔٭…شب ِ برات کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے احادیث مروی ہیں جن میں نبی کریم ﷺ نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی، ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے بیشک کچھ کمزور ہیں اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماءنے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے، لیکن حضرات محدثین اور فقہاءکا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تائید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اسکی کمزوری دور ہوجاتی ہے، اور پھر جبکہ دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اسکی فضیلت میں روایات موجود ہیں لہٰذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام سے روایات مروی ہوں اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا بہت غلط ہے۔
٭…امت مسلمہ کے جو خیرالقرون ہیں یعنی صحابہ کرام کا دور ، تابعین کا دور، تبع تابعین کادور، اس میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے،لوگ اس رات میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے رہے ہیں، لہٰذا اس کو بدعت کہنا، یا بے بنیاد اور بے اصل کہنا درست نہیں ، صحیح بات یہی ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے، اس رات میں عبادت کرنا باعث ِ اجر و ثواب ہے اور اسکی خصوصی اہمیت ہے۔٭…البتہ یہ بات درست ہے کہ اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کہ فلاں طریقے سے عبادت کی جائے ، جیسے بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایک طریقہ گھڑ کر یہ کہہ دیا کہ شب ِ برات میں اس خاص طریقے سے نماز پڑھی جاتی ہے ، مثلاََ پہلی رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے، دوسری رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے وغیرہ وغیرہ، اسکا کوئی ثبوت نہیں، یہ بالکل بے بنیاد بات ہے، بلکہ نفلی عبادت جس قدر ہوسکے وہ اس رات میں انجام دی جائے، نفل نماز پڑھیں ، قرآن کریم کی تلاوت کریں ، ذکرکریں ، تسبیح پڑھیں ، دعائیں کریں ، یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جاسکتی ہیں لیکن کوئی خاص طریقہ ثابت نہیں۔
شب برات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم انعام ہے جو اپنے دامن میں ہمارے لئے بے بہار حمتیں،برکتیں اور سعادتیں لے کر جلوہ گر ہوتی ہے اس کے تقدس اور عظمت کا تقاضا ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اس کا استقبال ذکر و عبادت ،توبہ اور استغفار ،درود و سلام،نوافل،تلاوت اور دعا سے کریں۔لیکن بد قسمتی سے بعض لوگ پاکستان میں شب برات کا آغاز آتش بازی اور پٹاخوں سے کرتے ہیں اورمختلف قسم کے دھماکہ خیز مواد اور انواع و اقسام کے بارودی پٹاخوں سے اس رات کا تقدس پامال کیا جاتا ہے۔یہ کتنی بد نصیبی کی بات ہے کہ جیسے ہی ماہ شعبان کا چاند طلوع ہوتا ہے تو شہر شہر ،گلی گلی، کوچہ اور بازار وں میں دکانیں آتش بازی کے سامان سے ہی سج جاتی ہیں اور بے تحاشا خرید و فروخت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ہر طرف آتش بازی سے بدبودار ماحول پیدا ہوجاتا ہے حالانکہ یہ ایک شیطانی کھیل ہے اور نمرودی طریقہ کار ہے جس سے قلب اور ذہن ظاہری و باطنی طور پر متاثر ہوجاتاہے اور ذکر و عبادت میں وہ کامل یکسوئی پیدا نہیں ہو پاتی جو کہ پیدا ہونی چاہئے ۔ جو لوگ پر سکون ہو کر اس رات اپنے مالک سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنا چاہتے ہیں ان کیلئے چاروں طرف آگ بارود دھماکوں اور شور شرابہ کے ماحول میں ایسا کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے اس طرح اس مقدس اور رحمت والی رات میں بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کے عبادت میں مصروف لوگوں کو سخت پریشانی اور کوفت کا سامنا کرناپڑتا ہے۔یہ بھی تو عقل سے سوچنے کی بات ہے کہ اپنی حلال اور محنت کی کمائی کو اس مبارک رات میں نذرِ آتش کر دینا کتنی افسوس کی بات ہےنیز اس گناہِ بے لذت کے نتیجہ میں کتنی جانیں تلف ہوئیں ،کتنے مکانات جل گئے ؟ اور پٹاخوں کے شور شرابے سے مریضوں اور عبادات میں مشغول لوگوں کو سخت اذیت پہنچتی ہے ،اور ایذاء مسلم حرام ہے، اسی طرح بہت سی مساجد اور گھروں میں بے ضرورت لائٹس کا انتظام کیا جاتا ہے ،چراغاں کیا جاتا ہے جو کہ اسراف ہی کی ایک شکل ہے ۔ جو کہ بہت بڑا گناہ ہے ۔اللہ تعالی ہی سمجھ عطا فرمائے اور صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔
