غازی علم دین شہید رحمہ اللہ علیہ

از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کبھی کسی ناعاقبت اندیش نے ناموس رسالت پر طعنہ زنی کی ہے محبان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ محبت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ایسا خزینہ ہے جس کی نہ تو قیمت کا تعین ممکن ہے اور نا ہی تمام کائنات میں اس کی مثال ڈھونڈنا ممکن ہے۔ ایسے ہی ایک محبت کرنے والے عاشق رسول ﷺغازی علم الدین شہید رحمہ اللہ سے کون واقف نہیں! ، رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس پیاری امت میں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’محبت‘‘ کرنے والے ،اور’’ ناموس ِرسالت ‘‘ کے تحفظ کے لیے قربان ہونیوالے، روشن ستاروں کی طرح چمکتے دمکتے محبان ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم، ہر دور میں ہی دنیا کے ماتھے کا ’’جھومر ‘‘رہے ہیں اور امت ِمسلمہ کے یہ وہ عظیم ’’مرد ِمجاہد‘‘ ہوتے ہیں کہ جو ہمیشہ کے لیے اَمر ہوتے ہوئے ،حقیقی معنوں میں ،رب ِقدوس کی عطا کردہ ’’زندگی‘‘با مقصد بنا جاتے ہیں۔ غازی علم دین شہید رحمہ اللہ بھی انہی ستاروں میں سے ایک ’’روشن ستارہ‘‘ ہیں کہ جنہوں نے گستاخِ رسول ہندو راجپال کوجہنم واصل کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرمایا۔
90 سال کی تاریخ میں شاتمان رسالت کے لیے کھلی تنبیہ ہے کہ صحن رسالت میں پتھر مارنے سے باز آجاؤ! کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان تم پر چڑھ دوڑیں اور پھر تاریخ کے اوراق میں تمہارا ذکر بھی باقی نہ رہے گا۔ یاد رکھو! نہ غیرت مسلم سوئی ہے اور نہ ہی مسلم مائیں بانجھ ہو گئی ہیں۔ یہ مائیں محبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیدا کرتی رہی ہیں، پیدا کرتی رہیں گی۔ جب بھی کسی مشرک نے سرورِ کونین حضرت محمدﷺ کی شان میں گستاخی کی وہ اپنے درد ناک انجام کو پہنچا۔ہندو ناشر راجپال نے آپﷺ کے بارے میں گستاخانہ کتاب چھاپی۔ یہ منظر عام پر آئی تو مسلمانوں کے دل لرز گئے۔ اس کے خلاف اس صدی میں بڑے بڑے جلسے ہوئے اور اس کو واصلِ جہنم کرنے کا شرف علم الدین کو حاصل ہوا۔
غازی علم الدین 4 دسمبر 1908ء بمطابق 8 ذیقعدہ 1366ء کو لاہور پنجاب پاکستان کے کوچہ چابک سوارں میں طالع مند نامی بڑھئی (یعنی ترکھان) کے گھر میں پیدا ہوئے. علم دین نے ابتدائی تعلیم اپنے محلے کے ایک مدرسے میں حاصل کی،آپ کو پڑھائی سے کچھ خاص لگاؤ نہیں تھا۔لہٰذا آپ کے والد محترم مستری طالع مند نے آپ کو بھی بڑھئی(لکڑی) کا کام سکھا دیا۔ آپ نے اپنے بھائی سے بھی سیکھا مگر مستری نظام الدین نے آپ کو اعلیٰ پائے کا کاریگر بنا دیا، آپ نے اپنے آبائی پِیشہ کو اختیارکیا۔ آپکے دو بھائی تھے جن میں سے ایک سرکاری ملازمت کرتے تھے اور دوسرے میاں محمد امین صاحب تھے. میاں محمد امین صاحب بھی طالع مند صاحب کے ساتھ بڑھئی کا کام کرتے تھے۔ اس خاندان کی شرافت و کاریگری کی دھوم دور دور تک تھی. آپکا گھرانہ متوسط گھرانوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ کاریگری میں ملکہ حاصل کر چکنے کے بعد آپ نے بنوں بازار کوہاٹ میں اپنا فرنیچر سازی کا کام شروع کیا اور رزق حلال کی تگ و دو میں مصروف ہو گئے،یکم جنوری1928 ء کو والد محترم کے ہمراہ کوہاٹ گئے، وہاں ٹھیکہ لے رکھا تھا۔ اسی دوران مارچ1929ء میں بڑے بھائی محمد دین کے گھر بچی پیدا ہوئی ، اسے دیکھنے لاہور آئے اور 28مارچ1929ء کو آپ کی منگنی ماموں زاد سے ہوئی۔اورغالباََ 31مارچ یا یکم اپریل تھا، کہ غازی علم دین شہید نے اپنے بڑے بھائی شیخ محمد دین کے ساتھ موچی دروازہ لاہورکے جلسہ عام میںشرکت کی اس میں قاطع قادیانیت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ جو راجپال اوراُس کی کتاب کا ذکر کرتے ہوئے، مسلمانوں کے دکھ کا اظہار کر رہے تھے اور مسلمانوں کو بیدار کر رہے تھے، کہ جاگو! مسلمانو ! جاگو! بد بخت راجپال واجب القتل ہے، ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لئے اپنی جانیں قربان کر دو۔“اور امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے عشق رسول سے لبریز خطاب کرتے ہوئےیہ بھی کہا کہ اگر ایک ہفتہ کے اندر کوئی نوجوان میرے نانا کے اس ملعون گستاخ کو ہلاک نہ کرپایا تو حرمت رسول اللہ کی قسم یہ بوڑھا سید زادہ خود اپنے ہاتھوں سے یہ مقدس فریضہ سرانجام دے گا ۔شاہ جی کی اس بات کو سننے والے ہزاروں لوگ تھے، شاہ جی کی اس پر اثر تقریر نے لوگوں کے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔ چنانچہ 24 ستمبر 1928ء کو یکی دروازہ لاہور کے ایک کشمیری نوجوان خدا بخش نے گستاخ رسول پر قاتلانہ حملہ کیا لیکن راج پال بچ نکلا۔ غازی خدابخش کو گرفتاری کے بعد 7 سال کی سزاسنائی گئی ،19 اکتوبر 1928ء کو افغانستان کا ایک نوجوان عبدالعزیز لاہور آیا اور اُس نے راج پال کی دکان کا رخ کیا مگر یہ بدبخت دکان میں موجود نہیں تھا اس کی جگہ اس کا دوست سوامی ستیانند موجود تھا۔ غازی عبدالعزیز نے غلط فہمی میں اس کو راج پال سمجھ کر اس پر حملہ کر کے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کردیا۔ اور اسے بھی حکومت وقت نے چودہ سال کی سزا سنادی ۔ہندو پبلشر راج پال پھر بچ گیا۔راج پال ان حملوں کے بعد نہایت خوفزدہ رہنے لگا۔ حکومت نے اس کی پشت پناہی کرتے ہوئے دو ہندو سپاہیوں اور ایک سکھ حوالدار کو اس کی حفاظت پر متعین کردیا۔شاہ جی رحمہ اللہ کی تقریر سننے والوں میں یہ سعادت غازی علم دین کے حصے میں آئی۔غازی علم دین رحمہ اللہ کے کانوں میں شاہ جی کے پردرد الفاظ گونجتے رہتے تھے انہوں نے دل ہی دل میں ٹھا ن لی اور عزم کرلیاکہ کسی بھی قیمت پر اس گستاخ رسول کا کام تمام کرکے رہوں گا ۔ تقریر کے ان سنہری الفاظ نے علم دین شہید ؒ کے قلب و روح میں ایک ہلچل سی مچا دی اور گستاخِ رسول کو قتل کر نے کا عہد کیا، 6 اپریل 1929ء کو غازی علم دین جذبہ ایمانی سے معمور ہو کر راج پال کی دکان پر پہنچےتو کدار ناتھ پچھلے کمرے میں کتابیں رکھ رہا تھا، جبکہ بھگت رام راجپال کے پاس ہی کھڑا تھا۔ راجپال نے درمیانے قد کے گندمی رنگ کے نوجوان کو اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھ لیا، لیکن وہ سوچ بھی نہ سکا کہ موت اس کے اتنے قریب آچکی ہے۔
غازی علم دین نے راج پال پر تیز نوکیلے دھاری دار خنجر اس زور سے وار کیا کہ وہ وہیں ڈھیر ہو گیا ۔یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی، کشمیر سے راسکماری تک غازی علم دین کی بہادری وجرات ایمانی کا ڈنکا بج گیا ۔ عاشقان رسول کے جذبات کا یہ عالم قابل دید تھا کہ اس ہندو گستاخ کے قتل کا عہد کرنے والے باقی نوجوان روتے اور ہاتھ ملتے رہ گئے یک لخت غازی صاحب کے دل میں خیال آیا کہیں راجپال بچ نہ گیا ہو،لہٰذا اسی وقت اس کی دکان پر گئے۔ پولیس نے راجپال کے ملازموں کی نشاندہی پر آپ کو گرفتار کر لیا۔ اور نعروں کی گونج میں آپ نے واشگاف الفاظ میں مسکراتے ہوئے کہا:۔’’خدا کا شکر ہے میری محنت ٹھکانے لگی ‘‘۔
راجپال کے قتل کا مقدمہ سنٹرل جیل میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مسٹر ای۔ایس۔لوئیس کے سامنے پیش کیا گیا۔آپ نے قتل قبول کیا۔غازی موصوف کی طرف سے فرخ حسین بیرسٹر نے مقدمے کی پیروی کی ،مگر آپ کو سزائے موت سنائی گئی۔اپیل کی گئی۔ اہلِ لاہور نے علامہ اقبالؒ کی سر کردگی میں مقدمے کی پیروی کرنے کے لیے محمد علی جناحؒ کی خدمات حاصل کیں، آپ ممبئی سے لاہور آئے۔ مقدمے کی پیروی میں غازی علم الدین نے قتل کا اعتراف کیا جسے آپ نے نہ بدلا۔اس وقت ماہرین قانون کا یہ خیال تھا کہ اگرغازی علم دین اپنے جرم سے انکار کر دیں تو مقدمہ کافی حد تک کمزور اور قابل بریت ہو سکتا ہے لیکن علم دین شہید نے کسی ایسی تجویز پر عمل کرنے سے یکسر انکار کر دیا کہا جاتا ہے اس سلسلہ میں نمائندہ وفد نے علامہ اقبال رحمہ اللہ سے رابطہ کیا اور درخواست کی کہ علم دین شہید کو اپنے اقبالِ جرم سے انحراف کی ترغیب دیں لیکن علامہ اقبال رحمہ اللہ نے روتے ہوئے فرمایاکہ’’ میرے نزدیک اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اس نے میرے رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی میلے لباس میں دیکھا ہے تو وہ بھی قابل گردن زدنی ہے ‘‘اور پھر وہ تاریخی جملہ کہا جو آج بھی محبان رسول اللہ علیہ وسلم کے کانوں میں گونجتا نظر آتا ہے کہ ’’ اَسی گلاں ای کردے رہ گئے تے بازی ترکھاناں دا منڈالے گیا‘‘۔
ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی ۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے دفاع میں دو نکات پیش کیئے۔(1 )راجپال نے پیغمبر ﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے ، بد زبانی کی ہے ، ملزم کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی جس سے غصے میں آکر اس نے راجپال پر حملہ کیا۔ جرم اس پر ٹھونسا گیا۔(2) ملزم کی عمر انیس اور بیس سال کےقریب ہے ۔ وہ سزائے موت سے مستثنیٰ ہے۔(بحوالہ مقدمہ امیر بنام کراؤن نمبر 954 سال 1922)لیکن فرنگی اور سر شاری لال کی موجودگی میں غازلی علم الدین کو کیسے بخشا جا سکتا تھا۔چنانچہ غازی علم الدین شہید رحمۃُاللہ علیہ کو13-10-1929 کو سزائے موت سنا دی گئی۔غازی علم الدین کو پھانسی ہو گئی۔ آخر وقت تک وہ بلکل پر سکون رہے،وہ رسول اللہ ﷺ کی عزت اور ناموس کی خاطر تختہ دار پر چڑھ گئے ،سید عطااللہ شاہ بخاری رحمۃُاللہ علیہ نے ان کی پھانسی کے موقعہ پر فرمایا:”علم الدین ہم سے بہت آگے نکل گیا”۔
31اکتوبر1929ءکادن امتِ مسلمہ کیلئے بڑارنجیدہ اورمغموم تھا،جبکہ غازی علم دین کیلئے انتہائی خوشی وشادمانی کا دن تھا۔تاریخ لکھنے والوں نے لکھا ہے کہ شہید کو میانوالی جیل صبح سات بجے تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ شہسوارِ شہادت کو آٹھ بجے پھانسی گھاٹ سے اتا رنے کے فوراً بعد بہیمانہ انداز میں نو بجے بغیر نماز جنازہ ہی دفن کر دیا گیا ۔قانونی و اخلاقی بد دیانتی کی یہ دل آزار خبر شام ڈھلے تک پورے ہندوستان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی ۔پوری امت مسلمہ ہیجان کی کیفیت سے دو چار تھی، ہر مسلمان کا مطالبہ تھا کہ شہید کی میت کو اس کی وصیت کے مطابق لاہور میں دفن کیا جائے ۔ مسلمانوں نے برکت علی محمڈن ہال میں علامہ اقبال کی زیر صدارت جلسہ کا پروگرام بنایا ۔ یکم نومبر کو علامہ اقبال کے گھر جلسہ منعقد ہوا ۔
4نومبر 1929 کو جسد خاکی کی حوالگی کا مطالبہ لے کر مسلمان ذمہ داران کے ایک وفد نے گورنر پنجاب سے ملاقات کی ،جن میں علامہ ڈاکٹر محمداقبال، مولانا عبدالعزیز، مولانا ظفر علی خان، سر محمد شفیع، خلیفہ شجاع، میاں امیرالدین، سر فضل حسین، مولانا غلام محی الدین قصوری اور دیگر صاحبان شامل تھے اور یقین دلایا کہ تدفین پرامن ہونے کی ذمہ داری ہے۔13 نومبر 1929 کو مجسٹریٹ مرزا مہدی حسن اور سید مراتب علی شاہ کی سربراہی میں ایک وفد میانوالی روانہ ہوا اور 14 نومبر 1929 کو جسد خاکی وصول کیا.15 نومبر 1929 کو محکمہ ریلوے نے غازی علم دین شہید رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا جسد خاکی لاہور چھاؤنی میں علامہ اقبال اور سر محمد شفیع کے حوالے کیا۔۔آپکی نماز جنازہ خطیب مسجد وزیر خان قاری شمس الدین نے پڑھائی. سیدمحمد دیدارعلی شاہ محدث لاہوری اور علامہ اقبال نے غازی علم الدین شہید رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا.اس موقع پر ڈاکٹر علامہ اقبال رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ “یہ ترکھانون کا لڑکا ہم سب پڑھے لکھوں سے بازی لے گیا ” 1929 میں لاہور کی آبادی پانچ لاکھ کے لگ بھگ تھی اس وقت غازی علم الدین شہید کا نماز جنازہ ادا کرنے والوں کی تعداد چھ لاکھ سے زائد ریکارڈ کی گئی اور نماز جنازہ ساڑھے پانچ میل پر پھیلا ہوا تھا.غازی علم دین کے جسد خاکی کو علامہ اقبال اور سیّد دیدار علی شاہ نے اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا۔ جب غازی علم دین کو لحد میں اُتار دیا گیا تو مولانا ظفر علی خان نے چیخ کر کہا کہ کاش! یہ مقام آج مجھے نصیب ہوتا۔
آپ کی آخری آرام گاہ میانی صاحب قبرستان بہاولپور روڈ میں ایک نمایاں مقام پر موجود ہے۔اس منظر کی عکاسی کرتے ہوئے تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ برصغیر میں ہونے والے کسی جنازہ میں عوام الناس کی اتنی بڑی تعداد میں شرکت بہت کم موقع پر نظر آئی، جتنی غازی علم دین شہید کے جنازے میں تھی۔ 14نومبر 1929 کو غازی علم دین شہید کی وصیت کے مطابق انہیں بہاولپور روڈ کے قریب قبرستان میانی صاحب لاہور میں دفن کیا گیا۔