عقیدہ ختم نبوت

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی اللہ عنہ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: أَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَمُشَفَّعٍ وَلَا فَخْرَ۔(بخاری، طبرانی،بیہقی)

’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں رسولوں کا قائد ہوں اور (مجھے اس بات پر) فخر نہیں اور میں خاتم النبیین ہوں اور (مجھے اس بات پر) کوئی فخر نہیں ہے۔ میں پہلا شفاعت کرنے والا ہوں اور میں ہی وہ پہلا (شخص) ہوں جس کی شفاعت قبول ہو گی اور (مجھے اس بات پر) کوئی فخر نہیں ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے انسان کی راہنمائی اور رشد و ہدایت کے لئے انبیاء کرام ؑ کا سلسلہ شروع کیا جس کا آغاز حضرت آدم ؑ کی ذات سے ہوتا ہے اور اس کا اختتام محبوب کریم (ﷺ) کی ذات اقدس پر ہوتا ہے- آپ شجر نبوت کے آخری اورقصرنبوت کی آخری اینٹ ہیں رب کائنات کی طرف سے انسانیت کی رشد و ہدایت کیلئے مبعوث کردہ آخری نبی و رسول ہیں لہذا حضور خاتم النبیین حضرت محمد (ﷺ) کا آفتابِ رسالت قیامت تک کیلئے پوری انسانیت کو اپنے نورِ نبوت سے منور کرتا رہے گا۔

اسلام کی بنیاد توحید اور آخرت کے علاوہ جس اساسی عقیدے پر ہے، وہ یہ ہے کہ نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر نبوت اور رسالت کے مقدس سلسلے کی تکمیل ہو گئی اور آپ کے بعد کوئی بھی شخص کسی بھی قسم کا نبی نہیں بن سکتا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد کسی پر وحی آ سکتی ہے اور نہ ایسا الہام جو دین میں حجت ہو۔ اسلام کا یہی عقیدہ ’’ختم نبوت‘‘ کے نام سے معروف ہے اور سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وقت سے لے کر آج تک پوری امت مسلمہ کسی ادنی اختلاف کے بغیر اس عقیدے کو جزوِ ایمان قرار دیتی آئی ہے۔عقیدہ ختم نبوت دین کے ایک جز یا رکن کا نام نہیں بلکہ اسلام کی اساس ہے۔ دین اسلام کی پوری عمارت اس عقیدہ پر کھڑی ہے۔ یہ ایک ایسا حساس عقیدہ ہے کہ اگراس میں شکوک وشبہات کا ذراسابھی رخنہ پیداہو جائے تو ایک مسلمان اپنی متاع ایمان کھو بیٹھتا ہے۔ قرآن کریم کی بلا مبالغہ بیسیوں آیات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سینکڑوں احادیث اس کی شاہد ہیں۔ یہ مسئلہ قطعی طور پر مسلّم اور طے شدہ ہے۔

نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’اب نبوت اور رسالت کا انقطاع عمل میں آ چکا ہے لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی۔‘‘حضور نبی اکرم ﷺ نے بار بار تاکید کے ساتھ اپنے خاتم النبیین ہونے کا اعلان فرمایا ہے اور مختلف تمثیلات کے ذریعے اس اصطلاح کے معنی کی وضاحت فرمائی ہے جس کے بعد اس لفظ کے معنی میں کسی قسم کی تاویل و تعبیر کی گنجائش نہیں رہتی۔ لہٰذا اب قیامت تک کسی قوم، ملک یا زمانہ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی اور نبی یا رسول کی کوئی ضرورت باقی نہیں اور مشیت الٰہی نے نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ہے۔

حضرت ابوامامہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’میں آخری نبی ہوں اور تم آخری اُمّت ہو۔‘‘ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا آنحضرت ﷺ کا ارشاد نقل کرتی ہیں: ’’میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد انبیاء کی مساجد میں آخری مسجد ہے۔‘‘ حضرت عقبہ بن عامر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب (رضی اﷲ عنہ) ہوتے۔‘‘ حضرت ثوبان رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’میری اُمّت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے۔ ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالاں کہ میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں۔ ‘‘ حضرت ابوذر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’ابُوذر! نبیوں میں سب سے پہلے نبی آدم (علیہ السلام) او ر سب سے آخری نبی محمّد (ﷺ) ہیں۔ ‘‘

عقیدۂ ختم نبوت اسلام اور اہل سنت و الجماعت کی بنیاد ہےجس کو مضبوطی کے ساتھ تھامنا اسلام کے اصول اور ضروریاتِ دین میں سے ہے اگر یہ عقیدہ مجروح ہو جائے تو بندے کے دامنِ ایمان میں کچھ باقی نہیں بچتا۔ اس لئے قرآنِ مجید میں جہاں اللہ تعالیٰ نے ہماری نجات کے لئے توحید و رسالت، قیامت، معاد و حشر کے عقیدہ کو ایمان کا جزو لازم ٹھہرایا ہے وہاں عقیدہ ختم نبوت کو بھی ایمان کا جزو قرار دیا ہے-جس سے ذرا بھر بھی تجاوز دنیا اور آخرت کا خسارہ ہے۔لہٰذا عہدِ نبوی (ﷺ) سے لے کر اس وقت تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا ہے کہ آپ (ﷺ) بغیر کسی تاویل و تخصیص کے خاتم النبیین ہیں۔ اگر آپ کے بعد کوئی نبوت کا دعوٰی کرتا ہے تو اس کے دعوٰی نبوت میں کوئی صداقت نہیں ہے وہ محض جھوٹا اور کذاب ہے عقیدۂ ختم نبوت چونکہ بڑا اہم اور بنیادی عقیدہ تھا تو آپ (ﷺ) نے نہ صرف اپنے بے شمار فرامین میں اپنے خاتم النبیین ہونے کی خبر دی بلکہ اپنے غلاموں کو جھوٹے مدعیانِ نبوت سے خبردار بھی کیا جس سے عقیدہ ختم نبوت کی نزاکت اور اس کی فضیلت و اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔

الغرض! حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنے بعد نبوت کے ہر احتمال اور امکان کی کلیتاً نفی فرما کر عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت کو واضح کر دیا ہے۔اسی طرح صحابہ کرام اور تابعین نے بھی اپنے قول و عمل کے ذریعے نہ صرف عقیدۂ ختم نبوت کی حفاظت کی بلکہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اس عقیدہ کی فضیلت و اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کے صحابہ کرام ؓ کا اس بات پر باقاعدہ اجماع ہوا کہ مدعیءِ نبوت واجب القتل ہے۔آپ (ﷺ) کے زمانہ حیات میں اسلام کے تحفظ و دفاع کے لئے جتنی جنگیں ہوئیں ان میں شہید ہونے والے صحابہ کرام کی تعداد 259 ہے؛ اور تاریخ میں پہلی جنگ جو سیدنا صدیق اکبرؓ کے عہدِ خلافت میں مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ میں لڑی گئی اس ایک جنگ میں شہید ہونے والے صحابہ اور تابعین کی تعداد 1200 ہے جن میں سے 700 قرآن مجید کے حافظ اور عالم تھے تو گویا کہ صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد اس عقیدہ کے تحفظ کے لئے جامِ شہادت نوش کر گئی تو اس سے عقیدہ ختم نبوت کی عظمت و اہمیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے۔

خلاصہ کلام:

منکرین ختم نبوت کا سلسلہ خود جناب کریم ﷺ کے دور اقدس سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ آپ ﷺ اور پھر صحابۂ کرام رضوان اﷲ عنہم اجمعین اور امت کے تمام طبقات نے ان کا ہر سطح پر عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ کیا۔حق تعالیٰ شانہ تمام مسلمانوں کو آنحضرت ﷺ کے دامن سے وابستہ رہنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ (آمین ثم آمین)

Dars e Hadees Hadees 34عقیدہ ختم نبوت کی اہمیتImportance of belief in the end of Prophethood Umar ga ویڈیو

Please watch full video, like and share Dars e Hadees Hadees 34عقیدہ ختم نبوت کی اہمیتImportance of belief in the end of Prophethood Umar ga. Subscribe UmarGallery channel.
Video length: 10:36

https://youtu.be/GL28Y8edkrE