عشر ایک اہم فریضہ

عشر ایک اہم فریضہ
از قلم:… قاری محمد اکرام اڈھروال ضلع چکوال
انسان پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ایک بڑا احسان ہے اور اس کی ایک بڑی نعمت خود اس زمین کی تخلیق ہے جس سے اللہ تعالیٰ جل شانہ کے حکم سے ہر طرح کی نباتات اور ہر قسم کے پھل اور پھول پیدا ہوتے ہیںاور اگر ذرا ہم اس پر غور کریں کہ ایک دانہ کو پھل دا ر درخت بننے میں کن کن مراحل میں نشوونما سے گزرنا ہوتا ہے اور کیا قوانین قدرت اس کی افزائش میں کارفرما ہوتے ہیں تو ہم اس کی مہربانی پر سجدۂ شکر بجا لائیں۔نباتات کے اُگنے اور نشوونما پانے کے لیے پانی بھی لازم ہے اور اللہ تعالیٰ جل شانہ نے بادلوں سے پانی برسائے اور پہاڑوں سے چشمے بہا دینے کا بندوبست فرمادیا اور اس کو ایسی مناسب مقدار میں زمین میں جاری کیا کہ مخلوقات انسانی اور وحشی کو نقصان نہ پہنچے اور جان دار غرق نہ ہو جائیں‘ پودوں کو مخصوص گیسوں کی بھی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ جل شانہ نے یہ گیس ہوا کے اندر تخلیق فرما دی اور نباتات کو حکم فرمادیا کہ وہ انسان اور حیوان کے منہ سے نکلنے والی کاربن گیس اپنے اندر جذب کرتے ہیں اور اس طرح حیوانات اور نباتات میں یہ بینظیر اور عجیب تبادلۂ گیس وقوع پذیر ہوتا ہے۔نباتاتی افزائش کے لیے روشنی اور گرمی ایک مناسب اور موزوں مقدار میں درکار ہے کہ گرمی اگر زیادہ بڑھ جائے گی تو پودے جل جائیں گے اور اگر کم ہو جائے گی تو پودے کملا جائیں گے اور حرارت نہ ہوگی تو کائنات میں کسی ذی حیات کا وجود باقی نہیں رہے گا۔یہ اللہ تعالیٰ جل مجدہ ہی ہے جس نے سورج کو پیدا کیا اور اس کو زمین سے اتنے موزوں فاصلہ پر رکھا کہ زمین تک پہنچنے والی اس کی حرارت (گرمائی) زندگی کے لیے موزوں ہو جائے کہ سورج اگرزمین سے قریب آجائے تو ہر زندہ وجود جل کر خاکستر ہو جائے اور اگر سورج زمین سے کہیں دور نکل جائے تو ہر وجود یخ بستہ ہوکر رہ جائے۔بلاشبہ زمین کی ہر پیداوار اللہ سبحانہ کا احسان اور اس کا فضل ہے اور حقیقی پیدا کرنے وا اللہ تعالیٰ ہی ہے اور ہم تو ایک تنکا بھی زمین سے اُگا نہیں سکتے۔ اس عظیم نعمت پر ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس قدر خوشگوار لذتوں کی حامل غذائیں اس زمین سے ہمارے لیے پیدا فرمائیں۔ اس اظہارِ شکر کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اس زمین کی پیداوار پر زکوٰۃ (عشر و نصف عشر) ادا کریں تاکہ محتاجوں کی ضرورتوں کی تکمیل ہو جائے اور اللہ جل مجدہ کے دین کی حمایت نصرت کی جاسکے۔
عشر زمین کی پیداوار کی زکوٰۃ ہے۔ اگر زمین بارانی ہو کہ بارش کے پانی سے سیراب ہوتی ہے تو پیداوار اُٹھنے کے وقت اس پر دسواں حصہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کے راستہ میں دینا واجب ہے اور اگر زمین کو خود سیراب کیا جاتا ہے تو اس کی پیداوار کا بیسواں حصہ صدقہ کرنا واجب ہے۔ عشر پیداوار کی زکوٰۃ ہے اس لیے دوسرے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرنے کے باوجود پیداوار پر عشر واجب ہوگا۔٭… سال میں جتنی بھی فصلیں آئیں ہر نئی فصل پر عشر واجب ہے۔٭… مویشیوں کے چارے کے لیے کاشت کی گئی فصل پر حضرت امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک عشر واجب ہے۔ (مسائل زکوٰۃ ص۱۸۷)٭… عشر ٹیکس نہیں بلکہ اس میں ایک حیثیت عبادت کی بھی ہے اور اسی لیے اس کو ’’زکوٰۃ الارض‘‘ زمین کی زکوٰۃ کہا جاتا ہے اور خراج خالص ٹیکس ہے جس میں عبادت کی کوئی حیثیت نہیں اسی لیے عشر مسلمانوں کی زمین کے ساتھ مخصوص ہے۔ (مسائل زکوٰۃ ص۱۸۴)٭… عشر تو زمین کی پیداوار ہے اگر پیداوار نہ ہو خواہ س کا سبب مالک زمین کی غفلت ہی ہو کہ اس نے قابل کاشت زمین کو خالی چھوڑ دیا‘ کاشت نہیں کی۔ اس صورت میں بھی عشر لازم نہیں ہوگا کیونکہ عشر پیداوار ہی کے ایک حصہ کا نام ہے۔ (مسائل زکوٰۃ ص۱۸۴)عملی طور پر عشر اور زکوٰۃ میں یہ فرق بھی ہے کہ اموال تجارت اور سونا چاندی وغیرہ اگر سال بھر رکھے رہیں ان میں کسی درجہ سے کوئی نفع نہ ہو بلکہ نقصان بھی ہو جائے مگر نقصان ہوکر مقدار نصاب سے کم نہ ہوں تو بھی زکوٰۃ ان اموال کی ادا کرنا فرض ہے بخلاف عشر کے زمین میں پیداوار ہوگی تو عشر لازم ہوگا اور اگر پیداوار نہ ہوئی تو کچھ بھی واجب نہیں۔ (مسائل زکوٰۃ ص۱۸۵)حکومت جو خراج لیتی ہے وہ زکوٰۃ (عشر) نہیں ہے۔(۱)… بخاری شریف میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جو کھیتی بارش یا چشموں کے پانی سے سیراب ہوتی ہو اس پر عشر ہے اور جسے کنوؤں سے ڈول نکال کر سیراب کیا گیا ہو اس پر نصف عشر ہے۔‘‘(۲)… حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے:’’جو کھیتی نہروں اور آسمانی بارش سے سیراب ہوتی ہو اس پر عشر ہے اور جس زمین کو رہٹ کے ذریعہ سیراب کیا گیا ہو اس پر نصف عشر ہے۔‘‘(۳) …حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یمن بھیجتے وقت حکم دیا تھا’’کہ میں ان کھیتیوں سے جسے بارش نے سیراب کیا ہو یا جن کو زمین میں پانی ہونے کی وجہ سے سیراب ہی نہ کرنا پڑے‘ عشر اور ڈولوں کے ذریعے سیراب کی جانے والی کھیتیوں سے نصف عشر وصول کیا کروں۔‘‘ عہدِ رسالت سے لے کر ہمارے زمانے تک پوری اُمت کا عشر کے وجوب پر اجماع اور اتفاق رہا ہے۔ علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:…’’اُمت کا عشر کی فرضیت پر اتفاق ہے۔‘‘عشر کے مصارف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں اور جس طرح زکوٰۃ کے لیے یہ ضروری ہے کہ کسی مستحق زکوٰۃ کو بغیر کسی معاوضہ کے مالکانہ طور پر قبضہ کرادیا جائے اسی طرح عشر کی ادائیگی کا بھی یہی طریقہ ہے۔
از قلم:… قاری محمد اکرام مدرسہ فیض القرآن اڈھروال ضلع چکوال