صدقۃ الفطر
جمع وترتیب:… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
شریعت اسلامی کا مزاج یہ ہے کہ جب بھی کوئی خوشی اور مسرت کا موقع آئے تو صرف امیروں کےگھروںہی میں خوشی کا چراغ نہ جلے ؛ بلکہ غریبوں اور ناداروں کے گھروں میں بھی اس کی روشنی پہنچے اسی لئے خوشی کے موقع پر معاشرے کے غریب افراد کو یاد رکھنے کی تلقین کی گئی ہے، اسی طرح عید الفطر کی خوشی میں غرباء کو شریک کرنے کے لئے صدقۃ الفطر کا نظام مقرر کیا گیا صدقۂ فطر کیا ہے؟ فطر کے معنی روزہ کھولنے یا روزہ نہ رکھنے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں اُس صدقہ کا نام صدقۂ فطر ہے جو ماہِ رمضان کے ختم ہونے پر روزہ کھل جانے کی خوشی اور شکریہ کے طور پر ادا کیا جاتا ہے، نیز صدقۂ فطر رمضان کی کوتاہیوں اور غلطیوں کا کفارہ بھی بنتا ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : صدقۂ فطر روزہ دار کی بے کار بات اور فحش گوئی سے روزے کو پاک کرنے کے لئے اور مساکین کو کھانا کھلانے کے لئے مقرر کیا ہے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ !ﷺ نے مرد و عورت پر صدقۃ الفطر لازم کیا ہے ، جو ایک صاع کھجور یا جَو ہونا چاہئے ، ( بخاری ، حدیث نمبر : ۱۵۱۱) صحابہ اہتمام سے صدقۃ الفطر ادا کیا کرتے تھے ، ( بخاری ، عن ابی سعید خدری ، حدیث نمبر : ۱۵۰۶) زکوٰۃ ہی کی طرح صدقۃ الفطر نکالنے کا حکم ہجرت کے دوسرے سال آیا ، اس کا ایک مقصد غرباء کی مدد کرنا ہے اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ روزوں میں جو کمی اور کوتاہی رہ گئی ہو ، اِس صدقہ کے ذریعہ اس کی تلافی ہوجائے ۔
جس مرد یا عورت کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونایا ساڑھے باون تولہ چاندی یا نقدی مال یا تجارت کا سامان یا ضرورت سے زائد سامان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچوں چیزوں کا یا بعض کامجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابرہوتوایسےمردوعورت پرصدقۃ الفطراداکرناواجب ہے۔یاد رہے کہ وہ اشیاء جو ضرورت و حاجت کی نہ ہوں بلکہ محض نمود ونمائش کی ہوں یا گھروں میں رکھی ہوئی ہوں اور سارا سال استعمال میں نہ آتی ہوں تو وہ بھی نصاب میں شامل ہوں گی۔ (بدائع الصنائع: ج2ص،158) امام ابوحنیفہؒ کی رائے کے مطابق جو مسلمان اتنا مالدار ہو کہ ضروریات سے زائد اُس کے پاس اُتنی قیمت کا مال واسباب موجود ہو جتنی قیمت پر زکاۃ واجب ہوتی ہے تو اُس پر عید الفطر کے دن صدقۂ فطر واجب ہوگا، چاہے وہ مال واسباب تجارت کے لئے ہو یا نہ ہو، چاہے اُس پر سال گزرے یا نہیں۔ غرضیکہ صدقۂ فطر کے وجوب کے لئے زکاۃ کے فرض ہونے کی تمام شرائط کا پایا جانا ضروری نہیں ہے۔ دیگر علماء کے نزدیک صدقۂ فطر کے وجوب کے لئے نصاب زکاۃ کا مالک ہونا بھی شرط نہیں ہے یعنی جس کے پاس ایک دن اور ایک رات سے زائد کی خوراک اپنے اور زیر کفالت لوگوں کے لئے ہو تو وہ اپنی طرف سے اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرے۔صدقہ فطر کی ادائیگی کا اصل وقت عید الفطر کے دن نماز عید سے پہلے ہے، البتہ رمضان کے آخر میں کسی بھی وقت ادا کیا جا سکتا ہے۔ (نور الانوار: ص56)نمازِ عید الفطر کی ادائیگی تک صدقۂ فطر ادا نہ کرنے کی صورت میں نمازِ عید کے بعد بھی قضا کے طور پر دے سکتے ہیں لیکن اتنی تاخیر کرنا بالکل مناسب نہیں ہے کیونکہ اِس سے صدقۂ فطر کا مقصود ومطلوب ہی فوت ہوجا تا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے الفاظ ہیں کہ جس نے اسے نماز عید سے پہلے ادا کردیا تو یہ قابل قبول زکاۃ (صدقۂ فطر) ہوگی اور جس نے نماز کے بعد اسے ادا کیا تو وہ صرف صدقات میں سے ایک صدقہ ہی ہے۔ (ابوداود ح ۱۶۰۶) لہذا نماز عید سے قبل ہی صدقۂ فطر ادا کریں۔
صدقۃ الفطر ہر اس شخص کی طرف سے ادا کرنا واجب ہے ، جو عید الفطر کی صبح میں موجود ہو ، اگر اسی شب کو بچہ پیدا ہوتو اس کا بھی صدقۃ الفطر واجب ہے – صدقۃ الفطر کے مصارف تقریباً وہی ہیں جو زکوٰۃ کے مصارف ہیں ، جن لوگوں کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی ، ان کو صدقۃ الفطر بھی نہیں دیا جاسکتا ہے ؛ البتہ زکوٰۃ تو غیر مسلم کو نہیں دی جاسکتی ، صدقۃ الفطر ان کو بھی دیا جاسکتا ہے ، (بدائع الصنائع : ۲؍۴۹ ، کتاب الزکوٰۃ ، فصل الذی یرجع إلیٰ المؤدی إلیہ) صدقہ فطر کھجور، کشمش یا جَو کی صورت میں دیا جائے تو ایک صاع کی مقدار دینا چاہیے اور گندم کی صورت میں دیں تو نصف صاع دیا جائے گا۔ (الاختیار لتعلیل المختار: ج1 ص123، 124 باب صدقۃ الفطر)ایک صاع کی مقدار ساڑھے تین سیر اور نصف صاع کی مقدار پونے دو سیر ہے۔ (اوزانِ شرعیہ از مفتی محمد شفیع: ص34، 38 ملخصاً)1: صدقۂ فطر کے مستحق ایسے غریب حضرات ہیں جن کو زکوٰۃ دی جاتی ہے۔ (الدر المختار: ج3 ص379 باب صدقۃ الفطر)2: صدقۂ فطر ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی اسی طرح بیٹا بیٹی، پوتا پوتی اور نواسا نواسی کو دینا درست نہیں ہے۔ ایسے ہی بیوی شوہر کو اور شوہر بیوی کو اپنا صدقۂ فطر نہیں دے سکتا۔ (تحفۃ الفقہاء: ج1 ص303 باب من یوضع فیہ الصدقۃ)3: ان رشتہ داروں کے علاوہ مثلاً بھائی بہن، بھتیجا بھتیجی، بھانجا بھانجی، چچا چچی، پھوپا پھوپی، خالہ خالو، ماموں ممانی، سسر ساس، سالہ بہنوئی، سوتیلی ماں سوتیلا باپ ان سب کو صدقۂ فطر دینا درست ہے بشرطیکہ یہ غریب اور مستحق ہوں۔ (البحر الرائق: ج2 ص425 کتاب الزکوٰۃ- باب مصرف الزکوٰۃ) رسول اللہ !ﷺنے جیسے گیہوں کو صدقۃ الفطر کا معیار مقرر کیا ہے ، اسی طرح جَو ، کھجور ، کشمش اور پنیر کو بھی صدقۃ الفطر کے لئے معیار بنایا ہے ، ( بخاری ، حدیث نمبر : ۱۵۰۶)جن لوگوں پر صدقۃ الفطر واجب ہے ، ان میں جو بڑے تاجر اور اصحابِ ثروت ہیں ، ان کو کھجور اور کشمش کی قیمت سے صدقۃ الفطر ادا کرنا چاہئے ، جو لوگ معاشی لحاظ سے ان سے کم درجے کے ہوں ، ان کو پونے دو کیلو کے بجائے ساڑھے تین کیلو گیہوں کے لحاظ سے صدقۃ الفطر ادا کرنا چاہئے ؛ تاکہ تمام حدیثوں پر عمل ہوجائے ، اور جو معاشی اعتبار سے اُن سے بھی کم درجہ کے ہوں ، وہ پونے دو کیلو گیہوں کے لحاظ سے صدقۃ الفطر ادا کریں ، اس میں غرباء کا فائدہ ہے اور اس طرح رسول اللہ ا کی تمام سنتوں پر عمل ہوجائےگا۔حضرت امام ابوحنیفہؒ ، حضرت امام بخاریؒ ، حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ، حضرت حسن بصریؒ ، اور علماء احناف نے تحریر کیا ہے کہ غلہ واناج کی قیمت بھی صدقۂ فطر میں دی جاسکتی ہے۔ زمانہ کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے اب تقریباً تمام ہی مکاتبِ فکر کا اتفاق ہے کہ عصر حاضر میں غلہ واناج کے بدلے قیمت بھی دی جاسکتی ہے۔
