شہیدِمظلوم حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یوم شہادت
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
منفرد خصوصیات کی حامل شخصیت :
اللہ سبحانہ و تعالی کا امتِ مسلمہ پر یہ احسان وکرم ہے کہ اس نے اسے ایسی عظیم الشان ہستیاں عطا فرمائیں جنہیں تاریخ میں بلند مقام حاصل ہے۔ جن کی زندگیاں ہمارے لیے روشن مثال ہیں۔ انہیں عظیم الشان ہستیوں میں سے منفرد خصوصیات کی حامل شخصیت سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ کی زندگی کا ہر پہلو نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ عالمِ انسانیت کے لئے مشعل راہ ہے۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا شمار اپنی قوم کے افضل ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔ آپ جاہ و حشمت کے مالک، شیریں کلام اور شرم وحیا کے پیکر تھے۔ مال ودولت اور ظاہری اسباب کی فراوانی تھی۔ قوم کے لوگ آپ کی عزت وتکریم کرتےتھے۔ ایسی نیک فطرت کہ نہ قبل از اسلام کسی بت کو سجدہ کیا، نہ برائی کے مرتکب ہوئے اور نہ کبھی شراب کی طرف دیکھا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ راشد حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کی شخصیت اپنے وجود میں ان گنت محاسن کی جامع ہے۔ آپ کا شمار ان خوش نصیب افراد میں ہوتا ہے جو انبیائے کرام کے بعد بر گزیدہ ترین ہیں ۔آپ کو ہر وہ اعزاز حاصل ہے جو اسلام میں کسی بھی شخص کیلئے فضیلت وتقر ب کا باعث ہوسکتا ہے۔ آپ خلفاء راشد ین اورعشرہ مبشرہ میں سے ہیں ، آپ کو اصحاب بدر میں شمار کیا گیا۔ بیعت ِ رضوان کے انعقاد کا سبب ہی آپ ہیں ۔ آپ کا اسم گرامی عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی ہے۔شہیدِ مظلوم عثمان غنی ؓ کو حضور اکرم ﷺ نے کئی بار جنت کی بشارت دی ۔ حضور اکرم ﷺ کی دو بیٹیوں کے ساتھ یکے بعد دیگرے نکاح کی وجہ سے حضرت عثمان عنیؓ کو ’’ذوالنورین‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔آپ کانام عثمان کنیت ابوعبداللہ اورابوعمراورلقب ذوالنورین تھا۔والدکانام عفان بن ابی العاص اوروالدہ کانام ارویٰ بنت کریز تھا، ارویٰ کی والدہ ام حکیم البیضا تھیں جو جناب عبد المطلب کی صاحبزادی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پھوپھی تھیں ۔عام الفیل کے چھٹے سال سیدنا عثمان غنی ذو النورین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ولادت شریفہ ہوئی، جیسا کہ تاریخ الخلفاء میں ہے۔آپ کاتعلق شہرمکہ کے قبیلہ قریش کی شاخ بنوامیہ سے تھا۔آپ ؓ نے خلیفہ اوّل سیدنا صدیق اکبر ؓ کی دعوت پر اسلام قبول کرتے ہوئے اپنے آپ کو ’’نورِایمان‘‘ سے منور کیا،طبقات ابن سعد کے مطابق آپؓ اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھے نمبر پر ہیں ، آپ ؓ حافظ قرآن، جامع القرآن اور ناشر القرآن بھی ہیں،ایک موقع پر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:جنت میں ہر نبی کا ایک ساتھی و رفیق ہوتا ہے، میرے ساتھی جنت میں عثمان غنیؓ ہوں گے۔سیدنا عثمان غنی ؓ خوب صورت ، با وجاہت اور متوازن قدو قامت کے مالک تھے ، گھنی داڑھی اور دراز زلفوں کی وجہ سے آپؓ جب لباس زیب تن کر کے ’’عمامہ‘‘ سے مزین ہوتے تو انتہائی خوب صورت معلوم ہوتے، اعلیٰ سیرت و کردار کے ساتھ ساتھ اپنی ثروت و سخاوت میں مشہور اور ’’شرم وحیا‘‘ کی صفت میں بے مثال تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا کہ میں اس سے کس طرح شرم نہ کروں ، جس سے فرشتے بھی شرم کرتے ہیں آپ نے اسلام کی راہ میں بڑے شدائد برداشت کیے ،مگردامے ،درمے اورسخنے اسلام کے لیے سرگرم رہے۔
حضرت عثمان بن عفّانؓ کی حضورﷺ سے محبت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے اگر انتہائی محبت نہ ہوتی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے غایت محبت نہ ہوتی تو آپ ان سے دوسری صاحبزادی کانکاح نہ فرماتے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر بڑا اعتماد تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی یہ ایک عظیم منقبت ہے کہ سابقہ امتوں میں کوئی ایسا شخص نہیں گزرا جس نے پیغمبر کی دوبیٹیوں سے شادی کی ہو، سوائے حضرت عثمان بن عفان کے حضرت سعید ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اقدس ﷺ کو دیکھا کہ اوّل شب سے طلوع فجر تک ہاتھ اٹھا کر سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کے لیے دُعا فرماتے رہے ،آپ ﷺ فرماتے ! اے اللہ، میں عثمانؓ سے راضی ہوں تو بھی راضی ہو جا۔ایک روایت میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا! اے عثمان، اللہ تعالیٰ نے تمہارے تمام گناہ معاف کر دیے ہیں جو تم سے ہوچکے یا قیامت تک ہوںگے۔ سیدنا حضرت عثمان غنیؓ ایک مدت تک ’’کتابتِ وحی‘‘ جیسے جلیل القدر منصب پر بھی فائز رہے۔ اس کے علاوہ حضور اقدس ﷺ کے خطوط وغیرہ بھی لکھا کرتے تھے،حضرت عثمان غنیؓ کی یہ حالت تھی کہ رات کو بہت تھوڑی دیر کے لیے سوتے اور تقریباً تمام رات عبادت میں مصروف رہتے،آپؓ ’’صائم الدہر‘‘تھے، سوائے ممنوع دنوںکے کسی دن روزے کا ناغہ نہ ہوتا ۔
شہرِ مدینہ کا کنواں:
شہرمدینہ میں بئررومہ کے نام سے میٹھے پانی کاایک کنواں تھاحضرت عثمان نے ۳۵ ہزاردرہم کے عوض یہ کنواں خریدکرمسلمانوں کے لیے وقف کردیاجس پرنبی اکرم ﷺنے آپ کوجنت کی بشارت دی۔
مسجدنبوی میں اضافہ:
مسجدنبوی کے رقبہ میں پہلااضافہ نبی پاک کی ایماپرحضرت عثمان نے فرمایاتھا۔اورمسجدسے متصل ایک قطعہ زمین بروایت تاریخ ابن کثیر۲۵ ہزاردرہم میں خریدکرمسجدمیں شامل کردیا۔بعدازاں اپنے عہدخلافت میں بھی آپ نے مسجدنبوی کی تعمیروتوسیع پرخاص توجہ فرمائی۔
سفارت کے فرائض :
واقعہ حدیبیہ کے نازک موقع پرآپ نے سفارت کے فرائض انجام دیے اورنبی اکرمﷺ کے نمائندے کی حیثیت سےآپ کاپیغام قریش تک پہنچایااور جب آپ کے قتل کی افواہ اڑ گئی تو نبی پاک نے آپ کا قصاص لینے کے لیے بیعت فرمائی اور اس میں اپنے ایک ہاتھ کو حضرت عثمان کا ہاتھ قرار دے کر بیعت لی۔
حضرت عثمان غنیؓ کی سخاوت :
حضرت عثمان کاایک لقب غنی بھی تھااوردرحقیقت آپ اس لقب کے پوری طرح مستحق تھے۔یوں توساری عمر آپ نے اپنامال بڑی فیاضی سے راہ اسلام میں خرچ کیاتاہم غزوہ تبوک میں آپ کامالی انفاق حدسے بڑھ گیا۔اس موقع پرسیدنا حضرت عثمان غنیؓ نے ایک ہزار اونٹ،ستر گھوڑے اور ایک ہزار اشرفیاں جنگ تبوک کے لیے اللہ کے راستے میں دیں۔ حضور اقدس ﷺ منبر مبارک سے نیچے تشریف لائے اور حضرت عثمان غنیؓ کی سخاوت سے اس قدر خوش تھے کہ آپ ﷺ اپنے دست مبارک سے اشرفیوں کو الٹتے پلٹتے اور فرماتے تھے آج کے بعد عثمانؓ کا کوئی عمل انہیں نقصان نہیں پہنچائے گا۔ حضرت عثمان عہدشیخین (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمررضی اللہ عنہ)میں بھی حسب سابق شیخین کے مشیرومعتمد رہے ،ساتھ ہی ہمہ تن دین اسلام کے لیے وقف رہے اورانکامال ودولت ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کی ضروریات پرخرچ ہوتا رہا۔
آپ کادورِ خلافت:
سیدناحضرت عثمان غنیؓ نے 24ھ میں نظام خلافت کو سنبھالااور خلیفہ مقرر ہوئے تو شر وع میں آپؓ نے22لاکھ مربع میل پر حکومت کی۔ حضرت عثمان غنیؓ نے فوج کو جدید عسکری انداز میں ترتیب دیا ، آپ ؓ کے دور خلافت میں حضرت امیر معاویہؓ نے اسلام کا پہلا بحری بیڑا تیار کر کے ’’بحر اوقیانوس‘‘ میں اسلام کا عظیم لشکر اتار دیا، اس طرح پاپائے روم پر سکتہ طاری کرکے آپ ؓ کی فوجوں نے فرانس ویورپ کے کئی ممالک میں اسلام کے آفاقی نظام کو پہنچا یا ۔ایک موقع پر حضور ﷺ نے فرمایا ! اے عثمان! اللہ تعالیٰ تمہیں خلافت کی قمیص پہنائے گا، جب منافق اسے اتارنے کی کوشش کریں تو اسے مت اتارنا، یہاں تک کہ مجھ سے آملو (یعنی شہید ہو جاؤ)۔چنانچہ آخری وقت میں جب باغیوں اور منافقوںنے آپؓ کے گھر کا محاصرہ کیا تو آپؓ نے فرمایا ! مجھ سے حضور اقدس ﷺ نے عہد لیا تھا(منافق خلافت کی قمیص اتارنے کی کوشش کریں گے ،تم نہ اتارنا) میں اس عہد پرقائم ہوں اور صبر کر رہا ہوں، باغیوں نے آپ ؓکے گھر کا محاصرہ کیا۔
شہادت کبریٰ
۱۸ ذی الحجہ ۳۵ ھ کو نبی اکرم کے اس محبوب خلیفہ کو ایک عظیم سازش ، جو کہ درحقیقت اسلامی تاریخ کی سب سے اول اور سب سے بڑی سازش تھی ،اسی سازش کے تحت اس عالم میں قتل کر دیا گیا کہ آپ قرآن کی تلاوت کر رہے تھے ، کئی دن کے روزے سے تھے ،اور اپنے گھر میں محصور تھے۔گو کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ سمیت کئی صحابہ کرام آپ کے گھر کے دروازے پر پہرہ بھی دے رہے تھے لیکن اس کے باوجود بلوائی آپ کے گھر میں پیچھے کی سمت سے داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے ۔اور عین تلاوت قرآن کی حالت میں خلیفہ وقت اور امیرالمومنین کو شہید کر دیا گیا۔ حافظ ابن کثیر نے ’’البدایہ والنہایہ‘‘ میں لکھا ہے کہ باغیوں کی شورش میں حضرت عثمان غنیؓ نے صبر و استقامت کا دامن نہیں چھوڑا۔محاصرے کے دوران چالیس روز تک آپؓ کا کھانا اور پانی باغیوں نے بند کر دیا اور18ذوالحجہ کو چالیس روز سے بھوکے پیاسے82 سالہ مظلوم مدینہ خلیفہ سوم سیدنا عثمان غنی ؓ کو جمعۃ المبارک کے روز ، قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے روزے کی حالت میں انتہائی بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا۔آخری دن انہوں نے اپنی شہادت کے بارے میں بھی گفتگو فرمائی اور فرمایا کہ: یہ لوگ مجھے قتل کریں گے، پھر فرمایا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے ساتھ ابوبکر و عمرکو خواب میں دیکھاہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : اے عثمان ! ہمارے ساتھ افطار کرو، چنانچہ اس دن آپ نے روزہ رکھا اور روزہ کی حالت میں شہید کردئیے گئے ۔ سیدنا حضرت عثمان غنی ؓ نے12 دن کم 12سال تک لاکھوں مربع میل کے وسیع و عریض خطے پر اسلامی سلطنت قائم کرنے اور نظام خلافت کو چلانے کے بعد جام شہادت نوش کیا ۔
آپ کی شہادت کے بعد :
یہ عظیم سازش جو عبد اللہ بن سبا سمیت متعدد منافقین کی سعی کا نتیجہ تھی درحقیقت صرف حضرت عثمان کے خلاف نہ تھی بلکہ اسلام اور تمام مسلمانوں کے خلاف تھی اور آپ کی شہادت کے بعد وہ دن ہے اور آج کا دن کہ مسلمان تفرقہ اور انتشار میں ایسے گرفتار ہوئے کہ نکل نہ سکے۔یہ وہ بات تھی جس کی خبر حضرت عثمان نے ان الفاظ میں دی تھی کہ بخدا اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو پھر تا قیامت نہ ایک ساتھ نماز پڑھو گئے نہ ایک ساتھ جہاد کرو گے۔نیز بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح اور حسن اسانید سے یہ بھی ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فتنہ کے بارے میں خبر دی ہے جس میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوں گے اور وہ حق پر ہوں گے ۔اور وہ مظلوم قتل ہوں گے۔ ان احادیث میں ایک حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کی حدیث ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فتنہ کاذکر فرمایا، اتنے میں ایک شخص کا وہاں سے گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ شخص جو منہ پر کپڑا لٹکائے جارہا ہے، یہ اس فتنہ میں مظلوم قتل ہوگا۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس شخص کو دیکھا تو وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تھے ۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حیاء اور لوگوں کی جان کی فکر کا یہ حال تھا کہ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، اپنے محافظوں اور اپنے غلاموں کو اس سے روک دیا تھا کہ وہ ان کی طرف سے باغیوں سے قتال کریں اور فرمایا کہ : میری وجہ سے کسی کا خون نہ بہایاجائے ، اور انہیں قسم دے کر فرمایا کہ وہ چلے جائیں، اور اپنے غلاموں سے فرمایا جس نے اپنے ہتھیار پھینک دئیے وہ آزاد ہے اوران کے گھر میں سات سو کے قریب ایک بڑی جماعت تھی، اگر ان کو چھوڑ دیتے تو وہ ان باغیوں کو ماربھگاتے ۔
آپ کی شہادت پر مدینہ میں ایک عام کہرام مچ گیا٭… ۔حضرت سعید بن زید نے ارشاد فرمایا لوگو واجب ہے کہ اس بد اعمالی پر کوہ احد پھٹے اور تم پر گرے ۔٭…حضرت انس نے فرمایا حضرت عثمان جب تک زندہ تھے اللہ کی تلوار نیام میں تھی ، اس شہادت کے بعد یہ تلوار نیام سے نکلے گی اور قیامت تک کھلی رہے گی۔٭… حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا اگر حضرت عثمان کے خون کا مطالبہ بھی نہ کیا جاتا تو لوگوں پر آسمان سے پتھر برستے٭… حضرت علی کو جیسے ہی شہادت عثمان کی خبر ملی آپ نے فرمایا اے اللہ میں تیرے حضور خون عثمان سے بریت کا اظہار کرتا ہوں اور ابن کثیر نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ ٭…حضرت علی حضرت عثمان کے پاس جا کر ان پر گر پڑے اور رونے لگےحتیٰ کے لوگوں نے خیال کیا کہ آپ بھی ان سے جاملیں گئے۔
آپ کی زندگی صبرواستقامت، علم و عمل، محنت و جفا کشی اور عقل و دانش کا ایک روشن باب ہے۔ جس کی مثال مشکل ہی سے مل سکے گی۔ سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی زندگی کو اپنے لیے نمونۂ عمل بنانا ہمارے لیے بے حد ضروری اور دونوں جہاں میں کامیابی کا وسیلہ ہے،اللہ ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلائے۔ ( آمین)