سچے نبی کی نشانیاں

سچے نبی کی نشانیاں
انتخاب… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
بدنام زمانہ قادیانی مبلغ اللہ دتہ جالندھری کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ایک قصبہ میں بھیجا گیا۔ قصبہ میں پہنچتے ہی اس نے حجاموں کی دکانوں ، ہوٹلوں، آڑھت گاہوں اور دیگر پبلک مقامات پر بیٹھنا شروع کر دیا۔ جہاں چار آدمی اکٹھے دیکھتا قادیانیت کی بحث شروع کر دیتا ، کسی قادیانی لڑکے کو بھیج کر اسکول و کالج کے طلبہ میں قادیانی لٹریچر تقسیم کرادیتا، لوگ اس کی تخریبی کاروائیوں سے بہت تنگ تھے۔ اکا دکا مسلمان اس کی بحث میں دلچسپی بھی لینے لگے۔ وہ جگہ جگہ مسلمانوں میں مناظرے بھی کرتا پھرتا تھا، جس سے تشویش پیدا ہوئی کہ کہیں اس علاقے میں ارتداد نہ پھیل جائے۔ قصبہ کے چند حساس لوگوں نے ایک میٹنگ میں فیصلہ کیا کہ اس قادیانی مبلغ سے ایک فیصلہ کن مناظرہ کے لئے مبلغ اسلام اور مناظر حضرت مولانا محمد علی جالندھری صاحب کو بلایا جائے جس میں قادیانیت اور قادیانی مبلغ کو عبرت ناک شکست دی جائے، تاکہ اس علاقے کے مسلمان قادیانیت اور قادیانی مبلغ جیسی لعنتوں سے چھٹکارا حاصل کر سکیں۔
چنانچہ دو آدمیوں کو فوری طور پر مولانا صاحب کو لینے ملتان بھیج دیا گیا۔ دو دن بعد مناظر اسلام مولانا محمد علی جالندھری صاحب قصبے میں تشریف لا چکے تھے۔ اگلے دن عصر کے بعد مناظرے کا اعلان کر دیا گیا قصبے کے کھیل کے میدان میں اسٹیج لگایا گیا۔ مناظر اسلام کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے قصبے اور ارد گرد کے دیہاتوں میں پھیل چکی تھی لوگ جوق در جوق مناظرہ سننے کے لئے آ رہے تھے، عصر کی نماز تک پورے میدان میں دور دور تک سر ہی سر نظر آ رہے تھے، عصر کی نماز مولانا کی امامت میں میدان میں ہی ادا کی گئی۔ نماز کے فوراً بعد اللہ دتہ جالندھری جو قادیانی مربی بھی تھا قادیانیوں کی معیت میں مناظرے کے لئے آپہنچا مولانا محمد علی جالندھری نے قادیانیوں کی کتابوں کا صندوق جو ملتان سے لائے تھے منگوا کر اسٹیج پرکھ لیا۔ پاسبان ختم نبوت مولانا محمد علی نے مجمعے سے مخاطب ہو کر فرمایا، لچھے دار اور پیچ دار گفتگو نہ خود کروں گا اور نہ ہی اپنے حریف کو کرنے دوں گا سیدھی سادھی اور دو ٹوک گفتگو ہو گی۔
اور اللہ دتہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اگر تم میرے چند سوالوں کے جواب دے دو تو میں تمہارے موقف کا قائل ہوں جائوں گا، انہوں نے پہلا سوا ل کرتے ہوئے فرمایا نبی کا نام ہمیشہ مفرد ہوتا ہے جیسے آدم ، نوح، شیث، یوسف، دانیال، ابراہیم، اسماعیل ، اسحاق، موسیٰ، ہارون ، عیسی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم علیہم السلام لیکن مرزا قادیانی کا نام غلام احمد مرزا قادیانی یعنی مرکب کیوں ہے؟ اللہ دتہ جالندھری آئیں بائیں شائیں کرنے لگا، لیکن حاضرین نے اس کی دلیل کو صحیح نہ مانا تو وہ زچ ہو کر نیچے بیٹھ گیا۔
مولانا محمد علی جالندھری نے اپنا دوسرا سوال کرتے ہوئے کہا کہ کسی نبی کا دنیا میں کوئی استاد نہیں ہوتا جو اس کی تعلیم اور تربیت کا اہتمام کرے جبکہ مرزا قادیانی کے تو بہت سے استاد تھے جن سے وہ تعلیم لیتا رہا اور بعض اوقات سبق یاد نہ ہونے پر مرغا بھی بنتا رہا اور استادوں کے ہاتھوں پٹائی بھی ہوتی رہی، نبی دینا والوں کو علم سکھانے آتا ہے سیکھنے نہیں آتا ہر نبی اپنے وقت میں علم کے اونچے درجے پر فائز ہوتا ہے انہوں نے اللہ دتہ جالندھری کو چیلنج کرتے ہوئے کہ اگر دنیا میں کسی نبی کا کوئی استاد ہوتو بتائو اگر نہیں تو یہ بتائو کہ مرزا قادیانی کے استاد کیوں تھے؟ اس پر اللہ دتہ جالندھری صرف بغلیں جھانکتا رہ گیا اور لوگوں نے کذاب کذاب کے آوازے کسے۔
مولانا محمد علی جالندھری نے تیسرا سوال کیا ہر نبی اپنے وقت میں سب سے حسین ہوتا ہے دنیا میں کوئی انسان نبی کے حسن و جمال کا ہمسر نہیں ہو سکتااللہ دتہ نے فوراً اس بات کی تائید کی جس پر مولانا محمد علی جالندھری نے صندوق سے مرزا قادیانی کی درجنوں تصاویر نکال کر مجمع میں تقسیم کر وا دیں اور حاضرین سے فرمایا یہ رہی مرزا قادیانی کی تصویر اور اپنی گرج دار آواز میں کہا کہ دعوے سے کہتا ہوں کہ اس مجمع کا ہر انسان مرزا قادیانی سے زیادہ خوب صورت ہے ، اس پر لوگوں نے بھر پور تائید کی بے شک بے شک۔ پھر مولانا محمد جالندھر ی نے اپنا روئے سخن اللہ دتہ کی طرف پھیرتے ہوئے فرمایا اللہ دتہ اللہ! پاک کو حاضر ناظر جان کر بتا کیا تو اس سے زیادہ خوب صورت نہیں؟ اور یقینا تو اس سے زیادہ خوب صورت تو ہے۔ پھر تیرا نبی کیسے؟ اللہ دتہ جالندھری پراوس پڑ گئی۔
مولانا نے چوتھا سوال کرتے ہوئے کہا بتائو مرزا قادیانی کی ذات کیا تھی؟ اللہ دتہ نے جھٹ جواب دیا، مغل۔ مولانا اپنے شکار کو اپنے پھندے میں پھانس چکے تھے انہوں نے فوراً قادیانی کتابوں سے حوالہ جات عوام کو دکھا نے شروع کیے، انہوں نے کہا :
٭…دیکھئے مرزا قادیانی نے اپنی کتاب (کتاب البریہ کے صفحہ 134)پر اپنی ذات برلاس(مغل)لکھی ہے ۔اس کتاب کی صفحہ 135پر حاشیے میں لکھتا ہے کہ میرے الہامات کی رو سے ہمارے آبا اولین فارسی تھے۔
اپنی کتاب ایک غلطی کا ازالہ کے صفحہ پر 14پر لکھتا ہے میں اسرائیلی بھی ہوں اور فاطمی بھی اپنی تصنیف تحفہ گولڑ ویہ کے صفحہ 40پر لکھتا ہے میرے بزرگ چینی حدود سے پنجاب آئے تھے،۔
٭…اپنی کتاب نزول مسیح کے صفحہ 50پر لکھتا ہے میں بنی فاطمہ سے ہوں میری بعض دادیاں مشہور اور صحیح النسب سادات میں سے تھیں، پھر ہندو ہونے کا اعلان کرتا ہے، کرشن میں ہی ہوں۔
٭…تذکرہ صفحہ 381، پھر سکھ ہونے کا اعلان کرتا ہے، امین الملک جے سنگھ بہادرتذکرہ صفحہ 472، پھر انہوں نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ نے زندگی میں کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا ہے جس کی اتنی ذاتیں ہوں جو شخص اپنی ذات کے بارے میں اتنے جھوٹ بول سکتا ہے وہ اپنی شخصیت کے بارے میں کتنے جھوٹ بولتا ہو گا۔ اور اتنے جھوٹے شخص کو نبوت کا دعویٰ کرتے ہوئے شرم بھی نہ آئی؟
٭…مولانا کے تابڑ توڑ حملوں سے اللہ دتہ اسٹیج پر ساکت اور جامد بیٹھا تھا جیسے اس کے منہ میں زبان ہی نہ ہو۔
مولانا نے اپنا پانچواں سوال کرتے ہوئے کہا، نبی شریف ہوتا ہے وہ حیا اور شرافت کا پیکر ہوتا ہے اس کی گفتگو اعلیٰ اخلاق کا نمونہ ہوا کرتی ہے اس کے منہ سے نکلے الفاظ چراغ بن کر معاشرے میں ایما ن کی روشنی پھیلاتے ہیں ان کے منہ کے جملے بادِ خوشبو بن کر دنیا کو معطر کرتے ہیں، کسی نبی کے منہ سے بے ہودہ اور لچر گفتگو کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کائنات کا نظام زیروزبر ہو سکتا ہے لیکن کسی نبی کے منہ سے گالی نہیں نکل سکتی، مولانا نے اللہ دتہ سے پوچھا کیوں بھئی ٹھیک کہا ہے ناں؟
٭…پھر مولانا نے حاضرینِ مناظرہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاکہ مرزا قادیانی کے منہ سے ساری زندگی گالیوں کی برسات لگی رہی اس نے وہ وہ گالیاں دی ہیں کہ ابھی تک انسانیت دم بخود ہے، حیا سر پیٹ رہی ہے، شرافت منہ چھپائے بیٹھی ہے، اخلاق کا دامن تار تار ہے۔ پھر مولانا نے عقاب کی سی پھرتی سے صندوق میں ہاتھ ڈالا اور مرزا قادیانی کی بہت سی کتابیں اسٹیج پر رکھیں اور عوام کو مرزا قادیانی کی گالیوں کے حوالے سنانے شروع کیے مجمع سے بار بار لعنت لعنت کی صدا بلند ہوتی رہی وہ حوالے ناقابل بیان ہیں صرف ایک حوالہ پیش خدمت ہے۔
٭…ہر مسلمان مجھے قبول کرتا ہے اور میرے دعوے پر ایمان لاتا ہے مگر زنا کار کنجریوں کی اولاد جن کے دلوں پر خدا نے مہر لگا دی وہ مجھے قبول نہیں کرتے، آئینہ کمالات اسلام صفحہ 547۔
٭…پھر مولانا نے اللہ دتہ کی طرف پلٹتے ہوئے اس سے جواب مانگا تو وہ لبوں پر مہر سکوت لگائے بیٹھا تھا ۔ مولانا کے پیہم حملوں نے اس سے قوتِ گویائی چھین لی تھی، اس کے سر سے دماغ نوچ لیا تھا یوں محسوس ہوتا تھا وہاں اللہ دتہ نہیںہے۔ اللہ دتہ کا بت پڑا ہے اس کی مکمل خاموشی اس کے شکست کا اعلان کر رہی تھی۔ چند سیکنڈ کے توقف کے بعد فضا نعرۂ تکبیر اللہ اکبر سے گونج اٹھی عوام فلک شگاف نعرے لگا رہے تھے، حق جیت گیا باطل ہار گیا ، مجاہدین ختم نبوت سرفراز ہوئے، کفر سرنگوں ہوا ، اسلام کا بول بالا ہوا، قادیانیت کا منہ کالا ہوا،مسلمانوں کے چہرے خوشی سے دمک اٹھے اور وجد و کیف میں مسلمانوں نے وہ نعرہ بازی کی کہ سارا قصبہ گونج اٹھا ، ادھر اللہ دتہ جالندھری کو قادیانی لیے ہوئے یوں چلے جا رہے تھے جیسے اللہ دتہ کا جنازہ لے جا رہے ہوں۔
فاتح قادیانیت مولانا محمد علی جالندھری جب اگلے دن ملتان کے لئے قصبے سے روانہ ہونے لگے تو لوگ انتہائی عقیدت و محبت سے انہیں اسٹیشن چھوڑنے آئے اور مولانا کو رخصت کیا رخصت کرتے وقت ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ گارڈ نے سیٹی بجائی اور مولانا گاڑی میں سوار ہو گئے اچانک ان کی نظر اللہ دتہ پر پڑی جو اسی گاڑی کے اگلے ڈبے میں سوار ہو رہا تھا گاڑی اپنی منزل پر روانہ ہو گئی، اسٹیشن پر کھڑے لوگوں نے پرنم آنکھوں کے ساتھ اپنے محس کو الوداع کہا تقریباً بیس منٹ کی مسافت کے بعد جب گاڑی اگلے اسٹیشن پر رکی تو مولانا اپنے ڈبے سے اتر کر اگلے ڈبے میں اللہ دتہ کے پاس چلے گئے اور اس کے ساتھ نشست پر بیٹھ گئے، اللہ دتہ چونک گیا، مولانا نے فرمایا گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں میں تم سے ایک ضروری بات کہنے آیا ہوں اس وقت ہماری گفتگو میں میری اور تیرے سوا کوئی تیسرا نہیں ، اللہ دتہ !تم ایک پڑھے لکھے اور سمجھ دار آدمی ہو خدا کو حاضر ناظر جان کر اور جہنم کو آنکھوں کے سامنے رکھ کر بتانا کیا مرزا قادیانی اللہ کا نبی تھا؟
اللہ دتہ: نہیں
مولانا: کیا وہ مسیح مدعو تھا؟
اللہ دتہ: نہیں
مولانا: کیا وہ امام مہدی تھا؟
اللہ دتہ: نہیں
مولانا : کیا اس پر وحی اتری تھی؟
اللہ دتہ: نہیں
مولانا: کیا اس کی بیوی ام المؤمنین اور اس کے ساتھی صحابہ تھے؟
اللہ دتہ: نہیں
مولانا: تو پھر کیوں قادیانیت کے پیروکار اور کیوں اللہ کی مخلوق گمراہ کر رہے؟
اللہ دتہ: مولانا مجھے اس کام کے پانچ ہزار روپے ماہوار ملتے یں۔ آپ مجھے دس ہزار روپے دے دیں میں آپ کی طرف آتا ہوں اللہ دتہ نے ایک زور دار شیطانی قہقہہ لگاتے ہوئے کہا اور مولانا محمد علی جالندھری انگشت بدنداں رہ گئے۔
…٭ازعلمائے دیوبند کے مناظرانہ لطائف تالیف مولانا محمد ثناء اللہ سعد شجاع آبادی ٭…