سوشل میڈیا اور ہماری نوجوان نسل
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
نوجوان كکسی بھی قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں، معاشرے میں نوجوانوں کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے، اپنے معاشرے کا مغز ہوتے ہیں۔اپنے سماج کا آئینہ ہوتے ہیں اور سوسائٹی کا عظیم اثاثہ ہوتے ہیں۔ معاشرے کی نشونما، معاشرے کی بقا اس کی صلاح و فلاح، اس کا مستقبل انہیں کے دامن سے وابستہ ہوتا ہے۔ نوجوان ايک اچھے اور طاقتور معاشرے کے معمار بھی بن سکتے ہیں اور اس کو مسمار بھی کرسکتے ہیں۔ اگر نوجوان کا ذہن گمراہ ہوگیا تو سارا معاشرہ گمراہ ہوجائے گا۔اگر نوجوان کا ذہن روشن نہ ہوا تو معاشرے کا دماغ کبھی روشن نہ ہوسکے گا۔ اگر نوجوان کا کردار غلط ہوا تو قوم کا کردار بھی صحیح نہیں ہوسکتا، معاشرے کی ذہنی نشونما اور فکری ارتقا کا دارومدار نوجوانوں پر ہے۔ نوجوانوں کی تربیت اگر صحیح طور سے نہ کی جائے تو وہ بے راہ روی، ذہنی انتشار اور عدم توجہی کا شکار ہوجاتے ہیںاوائل عمری میں تجسس کا جذبہ موجود ہوتا ہے جس کی وجہ سے بچے اور نوجوان ہر چیز میں دلچسپی لیتے ہیں اور اپنے تجسس کا اظہار کرتے ہیں۔اور یہی نوجوان کسی بھی ملک کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں، ملک کے مستقبل کی باگ ڈور آگے چل کر نوجوان نسل کو ہی سنبھالنا ہوتی ہے۔ ہمارے نوجوان طلبہ و طالبات ذہنی اعتبار سے بے شمار صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ یہ نہ صرف وسیع ذہن رکھتے ہیں بلکہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت معاشرے میں مثبت تبدیلی لاسکتے ہیں۔سو شل میڈیا ہمارے نوجوان طلبہ وطالبات پر کیا اثرات مرتب کررہا ہے، ان کی زندگیوں میں کیا تبدیلیاں پیدا کررہا ہے ۔
ایک طرف اگر سوشل میڈیا کے بے شمار فائدے ہیں تو دوسری طرف سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے بے شمار نقصانات بھی ہیںجھوٹی خبروں اور کسی کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ غلط اور نامناسب معلومات کے فروغ میں ایک بڑے معاون کا کردار بھی ادا کرسکتا ہے، فیس بک پر محض لائک اکھٹے کر نے کی خواہش عجیب مناظر دکھاتی ہے، لوگوں کو جذباتی طور بلیک میل کیا جاتا ہے کہ وہ یہ مواد شیئر یا لائک کریں، کبھی شیطان کا طعنہ دے کر چیزیں شیئر کروائی جاتی ہیں اور کبھی ایمانی غیرت کو للکارا جاتا ہے. اسی طرح تشدد سے بھرپور مناظر اور دل دھلا دینے والی انسانی اعضاء کی قطع و برید والی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر عام ہوتی جا رہی ہیں. یہ مناظر عام قاری پر کیسے خوفناک نفسیاتی اثرات مرتب کر تے ہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں. سوشل میڈیا پر بحث ومباحثہ کے دوران گھٹیا اور اخلاق سے گرے ہوئے ردعمل اور مغلظات کے وافر استعمال کے مناظر بھی بکثرت نظر آتے ہیں، یہ طرزعمل بیمار ذہنیت اور اخلاقی گراوٹ کا آئینہ دار ہوتا ہے. قرآن پاک ہمیں بحث و مباحثہ کے دوران حکمت، عمدہ نصیحت اور شائستہ طرز عمل کی تلقین کرتا ہے. ضروری ہے کہ ہم ذمہ دار مسلمان اور شہری کا طرز فکر اپناتے ہوئے سوشل میڈیا کےمندرجہ بالا یا اسی قبیل کے دوسرے منفی پہلوؤں کی حوصلہ شکنی کریں اور مثبت رویوں کو آگے بڑھائیں.
یہ نہ کریں کہ ایک بے تحقیق بات سنی، اور اس کی تحقیق کیے بغیر کہ وہ بات درست ہے یا نہیں، اس کو آگے چلتا کر دیا، اور اس کو کسی اور کے سامنے بیان کر دیا، یا افواہ پھیلا دی۔ اس عمل کو کوئی شخص بھی گناہ نہیں سمجھتا، حالانکہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا:کَفٰی بِالْمَرْئِ کَذِبًا اَنْ یُّحَدِّثُ بِکُلِّ مَا سَمِعَ یعنی یہ بات بھی جھوٹ میں داخل ہے کہ انسان نے جو کچھ الٹا ، سیدھا ، صحیح غلط، سنا اور بلا تحقیق اس کو آگے بیان کرنا شروع کر دیا ۔ یہ گناہ ہے مگر اس کو شیئر کرنے والے اس کوگناہ سمجھتے ہی نہیں۔ کائنات کا بد بخت انسان وہ ہے جو خود تو مرجائے لیکن اس کا گنا ہ زندہ رہے ،خاص طور پر فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا سائٹس پر اس لئے شیئرنگ کے وقت دھیان رکھیں کہ آپ کیا شیئر کررہے ہیں،آپ دنیا میں نہ رہیں لیکن آپ کی شیئرنگ محفوظ رہے گی۔
سوشل میڈیا چونکہ خبر کی ترسیل کا تیز ترین ذریعہ ہے اور ایسی خبریں جو چینلز نہیں دکھا سکتے وہ بھی سوشل میڈیا پر دستیاب ہوتی ہیں اس لئے کوئی بھی خبر سوشل میڈیا پر شئیر کرنے سے پہلے اس کی تحقیق بہت ضروری ہے۔ ایسا کرنا نہ صرف اخلاقی طور پر بہت ضروری ہے بلکہ غلط خبر آپ کی ساکھ کو بھی متاثر کرتی ہے۔ مسلسل غلط اور غیر مصدقہ خبریں شئیر کرنا لوگوں کے ذہن میں آپ کا ایک مستقل غلط تاثر قائم کر دیتا ہے اور آپ کی خبر کو اہمیت ملنا ختم ہو جاتی ہے۔ کسی بھی جھوٹ کو سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلانا شرپسند قوتوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل بن چکا ہے، کوئی بھی سنسنی خیز خبر، فوٹو شاپ کی ہوئی تصویر، مشہور شخصیات کی تصاویر لگا کر ان سے منسوب من گھڑت اقوال و بیانات بلکہ یہاں تک کہ ضعیف اور موضوع احادیث بھی سوشل میڈیا کے ذریعے چند ہی دنوں میں عوام کی ایک بڑی تعداد کے نزدیک مستند اور سچ قرار پاتی ہیں۔
سوشل میڈیا پر کسی بھی خبر یا افواہ کی تحقیق سے بھی پہلے وہ پوری دنیا میں نشر کر دی جاتی ہے۔ معلومات درست ہوں یا غلط،کوئی اس جھنجھٹ میں پڑتا ہی نہیں ہے۔ نوجوان نسل کے ذہن ودماغ پرسوشل میڈیا جنون کی حد تک حاوی ہوچکا ہے، وہ اپنے کام اور پڑھائی کے اوقات بھی سوشل میڈیا پر صرف کر رہا ہے، جس سے انکی تعلیم پر برا اثر پڑ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پرکسی قسم کی کوئی روک تھام کا نظام موجود نہیں، ہر شخص اچھی بری بات کہنے اور لکھنے میں آزاد ہے۔ کوئی شخص بلاروک ٹوک کسی بھی مذہبی شخصیت اور مذہبی نظریات کو مطعون کرسکتا ہے اور مخالف مذہبی سوچ کی محترم شخصیات پرکیچڑ اچھال سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر مخالفین کیخلاف پروپیگنڈے کی مکمل آزادی کی وجہ سے معاشرے میں انتہا پسندی میں اضافہ ہورہا ہے۔ حالانکہ سوشل میڈیا کے استعمال کرنے والوں پر سوشل ذمے داری عائد ہوجاتی ہے کہ وہ معاشرے میں اپنے عمل اور الفاظ سے بہتری لے کر آئیں۔ مگر ہم تو اس حوالے سے کسی اور ہی راہ پر چل نکلے ہیں۔میڈیا ہماری نوجوان نسل کو کس طرح تباہی کی طرف لے جارہا ہے، اس کے ذریعے کیسے ہماری اخلاقی اقدار تباہ ہورہی ہیں اور ہمارے نوجوان طلبہ کس طرح روز بروز اپنی تہذیب و روایات سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ اس موضوع پر بات کرنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ معاشرے میں میڈیا کے بڑھتے ہوئے منفی رجحان سے متعلق لوگوں میں آگاہی پیدا کی جائے، اس کے منفی اثرات کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں، اور نوجوان طلبہ کو اس کے منفی اثر سے بچایا جائے۔
دورِ جدید میں میڈیا کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ موجودہ معاشرہ مکمل طور پر میڈیا پر انحصار کرتا ہے۔ نوکری تلاش کرنی ہو یا کسی بھی قسم کی معلومات حاصل کرنی ہوں… سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، ڈیجیٹل میڈیا اور پیپر میڈیا سے ہی مدد حاصل کی جاتی ہے۔ میڈیا کی بدولت دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہے۔جدید ٹیکنالوجی نے نئی نسل کی زندگیوں میں نمایاں تبدیلیاں پیدا کرنے کے ساتھ انھیں جدید زندگی گزارنے کے بہت سے مواقع بھی فراہم کیے ہیں۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ میڈیا کا نوجوانوں کو آگاہی دینے میں مؤثر کردار ہے۔ میڈیا سے حاصل ہونے والی نت نئی معلومات نوجوان نسل کی ذہنی صلاحیتوں کو جِلا بخشنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ ان معلومات کی بدولت ان کے اندر تجزیہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ میڈیا کا تعلیم کے فروغ میں بھی اہم کردار ہے۔لیکن غور کیا جائے تو میڈیا نوجوان نسل پر مثبت سے زیادہ منفی اثرات ڈال رہا ہے۔ اس لئے کہ ہمارے ملک میں سینکڑوں کے حساب سے بننے والی فلمیں، ڈرامے ،کارٹون اور موسیقی کے پروگرام مکمل طور پر مغربی یا ہندو ثقافت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان میں اللہ، رسول،آخرت، اخلاقیات اور قومی ذمہ داری کا تذکرہ تک نہیں ہوتا۔ سیٹلائٹ نشریات کے سبب ہمارے معاشرے پر اتنے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں کہ ہمیں اپنا مذہب دقیانوسی، زبان فرسودہ، اپنی روایات ناقابلِ فہم اور رسومات مضحکہ خیز معلوم ہونے لگی ہیں۔ مغرب نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو جنگ چھیڑ رکھی ہے وہ توپوں اور بندوقوں کی جنگ نہیں، بلکہ اصل جنگ میڈیا کے ذریعے لڑی جانے والی جنگ ہے۔ یہ جنگ ایٹم بم اور ہتھیاروں سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ اسلام دشمن عناصر نوجوان نسل کو فوج اور اسلحہ کے ذریعے قتل کرنے کے بجائے میڈیا کے ذریعے قتل کررہے ہیں، کیونکہ میڈیا کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ حقائق کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج میڈیا پر دکھائے جانے والے پروگراموں کے ذریعے ہمارے نوجوان پاپ سنگر تو بن سکتے ہیں لیکن پاکستان کے مستقبل کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ہمارے بچوں اور نوجوانوں کو اپنے مذہب، ثقافت، اقدار و روایات، رسم و رواج اور تہذیب و تمدن سے بیگانہ کردیا ہے۔ کیبل ٹی وی کے ذریعے دنیا بھر کے ٹی وی چینلز دیکھے جارہے ہیں، اور ان چینلز پر ایسے بہت سے پروگرام دکھائے جاتے ہیں جو ہماری تہذیب و ثقافت سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتے۔
پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے، ایک ایسا ملک جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا، اور جس کے حصول کے لیے کتنے ہی لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دیے۔ اسی حوالے سے اسے’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کہا جاتا ہے، لیکن جو کچھ ہمارے ملک میں میڈیا کے ذریعے پیش کیا جارہا ہے وہ ہماری اسلامی تعلیمات، دینی معاشرت اور معاشرتی اقدار سے قطعی مختلف ہے، اور اس کے سب سے زیادہ منفی اثرات نوجوانوں پر پڑ رہے ہیں۔ ٹی وی، کمپیوٹر اور موبائل کا ہر وقت کا استعمال طلبہ کی تعلیمی کارکردگی پر اثرانداز ہورہا ہے۔
تعلیم کی طرف طلبہ کا رجحان دن بہ دن کم ہوتا جارہا ہے۔ مطالعہ کرنے کی عادت میں بھی خطرناک حد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے اس لئے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو یہ بات ذہن نشین رکھ لینی چاہیے کہ جب نوجوان نظریاتی انتشار و خلل کا شکار ہوتے ہیں تو یہ تباہی و بدنامی صرف اداروں کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ نہیں بنتی بلکہ جب نوجوان اس چھوٹے معاشرے سے نکل کر بڑے معاشرے میں قدم رکھتے ہیں تو غلام ذہن ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ جب ذہن ایک بار غلامی قبول کر لے تو ملک و قوم کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا اور ایسی ہی قومیں زوال کا جلد شکار ہوتی ہیں جن میں تعمیری ذہن تخریب کی اساس بننے لگیں۔ علمی احیا اور آزادانہ فکری ماحول ہی تعلیمی اداروں کی بقا کا ضامن ہے۔ اس حوالے سے سب سے بنیادی چیز بہترین تعلیم کا حصول ہے، بہترین تعلیم کا مطلب مہنگے اور مشہور تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ اپنے وسائل اور استعداد کے مطابق آپ جہاں بھی تعلیم حاصل کررہے ہوں آپ کا ایک ایک لمحہ سیکھنے کے عمل میں استعمال ہو۔ اس لئے اس وقت کو ضائع نہ ہونے دیں۔ زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی کوشش کریں۔اس وقت امت کے نوجوانوں میں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ تعلیماتِ الہی سے نابلد اور دوری اختیار کیے ہوئے ہیں۔اورمسلم نوجوان کے لیے یہ امر نہایت ضروری ہے کہ وہ “چلو ادھر کو ہوا ہو جدھر کو” یعنی زمانہ کے حالات کے مطابق عملی تصویر بننے اور جوش وعاقبت نااندیشی کے گرداب میں محصور ہونے کے بجائے ہوش وتدبر، غور وفکر سے کام لے کر بزرگوں کے تجربات اور مسلم اصولوں کی روشنی میں اپنے اسلامی جذبے کے لیے درست اور صحیح میدانِ عمل متعین کرے۔ ایسا علم جو آپ کو بہترین مسلمان اور اچھا انسان بنائے اور آپ کی صلاحیتوں کو ابھارنے میں معاون ثابت ہو۔ اگر آپ میں لکھنے، پڑھنے، بولنے اور سمجھنے کی بہترین استعداد ہوگی تب ہی آپ مختلف اداروں یا معاملات میں اپنا کردار بہتر طور پہ ادا کر سکیں گے۔ تعلیم ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذريعے بے روز گاری، جہالت،ناانصافی اور ظلم کا خاتمہ کر کے دنیا کو امن کا گہوارہ بنايا جاسکتا ہے. دنیا کی ترقی یافتہ قومیں اپنے ملک و معاشرے کی ترقی، استحکام اور امن کے قیام کےلئے اپنے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دیتی ہیں، اور ان کے مسائل کے حل کے لئے خصوصی اقدامات کرتی ہیں، کیونکہ اگر نوجوان صحيح راستہ سے ہٹ جائیں تو معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس ليے موجودہ حالات میں ہمیں نوجوانوں کی خاص تربيت کرنی ہوگی، اس کے لئے ضروری ہے کہ دنیوی علوم کے ساتھ ساتھ دين کی بنيادی ضروريات کا علم ہو، نماز روزہ وغیرہ کےايسے مسائل سے واقفيت ہو جو ہر مسلمان کےليے جاننا ضروری ہے، نوجوانوں کے اندر خدمت خلق کا جذبہ پيداکرنا ضروری ہے، اس ليے ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ نبی پاک ﷺ کی پاکیزہ زندگی کا مطالعہ کیا جائے اور آپ کے جانثار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی زندگی کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔
کیونکہ میڈیا کے آزادانہ استعمال نے اخلاقی قدروں کو بھی پامال کردیا ہے۔ نوجوانوں کے اندر والدین، بزرگوں اور اساتذہ کا لحاظ باقی نہیں رہا ہے، وہ کسی پابندی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ میڈیا کا بنیادی مقصد اور اہم فریضہ تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ صحیح تعلیم و تربیت اور رہنمائی کا کام تعمیری بنیادوں پر کرے۔ راہِ ہدایت اور حق کی روشنی عام کرے، خیر و شر کی صحیح تصویرکشی کرے۔ لیکن بدقسمتی سے میڈیا پر جو لوگ قابض ہیں وہ اس بنیادی اصول کے قائل نہیں۔ان کا مقاصد ہماری نوجوان نسل کے عقائد خراب کرنا۔اجتماعی رائے کو تبدیل کرنا۔نا امیدی پھیلانا، نوجوانوں میں بے حیائی کو فروغ دینا۔عوام کو فوج سے بَد ظَن کرنا، ایمان میں شَک پیدا کرنا، مرنے کا خوف دلا کر بزدل بنانا، فرقہ ورانہ فساد کروانا، جذبہ جہاد کو دہشت گردی کہنا، لسانی بنیادوں پر دوسروں کو کمتر کہنا، با مقصد زندگی کے بجائے خود غرضی کو فروغ دینا، اللہ پر توکل کے بجائے ہتھیاروں کی تعداد پر یقین دلانا،دشمن کو بہت طاقتور اور ناقابل شکست کہنا،حق کی خاطر لڑنے کو امن مخالفت کہنا،اسلام کی سربلندی کو ایک ناممکن خواب قرار دینا، وغیرہ وغیرہ سب HYBRID WAR کے ہتھیار ہیں اور جنگ کا میدانِ SOCIAL MEDIA ہے۔پاکستانی مسلمانوں بہت ہوشیاری سے کام لینا ہے اس مضمون کو ہمیشہ یاد رکھیں، اللہ پر ایمان رکھیں دشمن کی چالوں کو سمجھ کر عقل و حکمت سے کام لینا ہے۔ ایسی صورت حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت مناسب قواعد و قوانین مرتب کرے اور ان پر عمل درآمد کے لیے مناسب اقدامات کرے۔ ایسی حکمتِ عملی اپنائی جائے کہ جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے ہمارے نوجوان طلبہ اپنی اقدار کے ساتھ زمانے کے قدم سے قدم ملا کر چل سکیں۔