سلام کے فضائل ومسائل پر دلچسپ مکالمہ

سلام کے فضائل ومسائل پر دلچسپ مکالمہ
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
س :… استاد جی !السلام علیکم
ج :… وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
س :… استاد جی میں نے تو آپ کو صرف سلام کیا ہے آپ نے اتنا لمبا چوڑا جواب دیا کہ مجھے لگا کہ آپ قرآن پڑھ رہے ہیں۔
ج :… جناب والاآپ کا اس طرح کا شبہ ہونا،ناسمجھی ،کم عقلی اور بے وقوفی پر مبنی ہے۔
س :… کیوں استاد جی!اس میں ناسمجھی اور بے وقوفی کی کیا بات ہے،کہیں اتنا لمبا چوڑا سلام کا جواب بھی دیا جاتا ہے۔
ج :… یہی تو میں کہتا ہوں کہ آپ کو قرآن وسنت کی تعلیمات کا ہی نہیں ورنہ ورنہ ایسا حماقت آمیز سوال ہی نہ کرتے۔
س :… استاد جی !بتلائیے قرآن حدیث میں کہا ں ہے کہ اتنا لمبا جواب دیا جائےکہ جواب کی بجائے تلاوت قرآن کا شبہ ہو نے لگے۔
ج :… اچھا جناب سنئے قرآن کریم میں وَإِذَا حُیِّیْتُم بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّواْ بِأَحْسَنَ مِنْہَا أَوْ رُدُّوہَا إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبا۔(النساء: ۸۶)
اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو؛ بلا شبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے والاہے۔اے ایمان والو! تم اپنے گھر وں کے علاوہ دوسرے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہوجب تک تم اجازت نہ لے لو اور گھر والوں کو سلام نہ کر لو۔ (النور:۲۷)دوسرے مقام پر فرمایا:پس جب تم گھروں میں داخل ہونے لگو تو اپنے گھر والوں پر سلام کرو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے۔ (النور:61)
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے ’’السلام علیکم ‘‘ کہا۔ آپ ﷺ نے اس کا جواب دیا بعد ازاں وہ بیٹھ گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا :دس نیکیاں ہو گئیں۔ پھر ایک دوسرا شخص آیا اس نے ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ کہا، آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جوا ب دیا۔ چنانچہ وہ بیٹھ گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بیس نیکیاں ہو گئیں، بعد میں ایک اور شخص آیا اس نے’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ کہا۔ آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب دیا۔ وہ بیٹھ گیا آپ ﷺ نے فرمایا: تیس نیکیاں ہو گئیں۔ (سنن ابی داؤد:5195، ترمذی:2689 واسنادہ حسن)دیکھئے سلام کے جتنے الفاظ بڑھتے گئے ،حضور اکرم وﷺ نے نیکیوں کے اضافہ کی خوشخبری دی۔اورسلام میں پہل کرنا قربتِ الہی کا بہترین ذریعہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:سب سے زیادہ اللہ کے قریب وہ لوگ ہوں گے جو سلا م کہنے میں پہل کرتے ہیں۔ (ابو داؤد:5197 وسندہ صحیح)
س :… استاد جی !اب ان طریقوں پر بھی روشنی ڈالیئےجو لوگوں نے ایجاد کر رکھے ہیں۔
ج :… سنیے بعض لوگ زبان سے کچھ نہیں کہتے،صرف ماتھے پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں،اور بعض لوگ بڑی شان کے ساتھ ہاتھ آگے کرکے ہلاتے ہیں اور منہ سےکچھ نہیں بولتے اور بعض زبان سے آداب آداب کہتے ہیںاور کچھ لوگ صرف زبان ہی سے نہیںبلکہ پورے جسم سے سلام کرتے ہیں ،پورا جسم مخاطب کے سامنے فرش کی طرح زمین بن جاتا ہے اس کو فرشی سلام کہتے ہیں،اور بعض پیشانی پر ہاتھ رکھ کر نماز میں رکوع کی طرح جھک جاتے ہیںیہ سب طریقے ناجائز ہیں ،اسلام میں اس طرح کرنے کی اجازت نہیں ۔
س :… استاد جی یہ تو بتلائیے کہ سلام کے الفاظ اس کے علاوہ بھی جا ئز ہیں یا نہیںمثلاً :آداب عرض،بندگی،نمستے،رام رام۔
ج :… دنیا کی تمام متمدن ومہذب قوموں میں ملاقات کے وقت پیار ومحبت، جذبہٴ اکرام وخیراندیشی کا اظہار کرنے اورمخاطب کو مانوس ومسرور کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج ہے، اس نام نہاد ترقی یافتہ زمانہ میں گڈ نائٹ ،گڈمورننگ ،اور بعض روشن خیال حضرات ”صبح بخیر“ ”شب بخیر“ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ قبل از اسلام عرب کی عادت تھی، کہ جب وہ آپس میں ملاقات کرتے تو ایک دوسرے کو ”حَیَّاکَ اللہ“ (اللہ تم کو زندہ رکھے) ”أنْعَمَ اللہ بِکَ عَیْنًا“ (اللہ تعالیٰ تمہاری آنکھ کو ٹھنڈا کرے) ”أَنْعِمْ صَبَاحًا“ (تمہاری صبح خوش گوار ہو) وغیرہ الفاظ استعمال کیا کرتے تھے، جب ہم لوگ جاہلیت کے اندھیرے سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آگئے تو ہمیں اس کی ممانعت کردی گئی، یعنی اس کے بجائے ”السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ“ کی تعلیم دی گئی، جس کے معنی ہیں ”تم ہر تکلیف اور رنج ومصیبت سے سلامت رہو“ (مستفاد ازمعارف القرآن ۲/۵۰۱) اسلام نے ملاقات کے وقت’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ او رجواباً وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہنے کا حکم دیا ہے ۔ اس سے بہتر اور جامع لفظ سلام کے لئے ملنا مشکل ہے۔
س :… کیوں استاد جی! اس میں کیا جامعیت ہے،تھوڑی سی وضاحت فرمادیں؟
ج :… میرے عزیزسلام مسلمانوں کا امتیازی وصف اور وقار ہے۔ ابتدائے آفر ینش سے ’’سلام‘‘ کی جامعیت، افضلیت اور اہمیت مسلّم ہے، عہدِ نبوی ﷺ میں بھی ا س کی ترویج پر خوب زور دیا گیا ہے، تا قیامت یہ مسلمانوں کا شعارہے۔اور نہایت جامع دعائیہ کلمہ ہے کہ یہ کلمہ پیار ومحبت اوراکرام کے اظہار کے لیے بہترین لفظ ہے اوراس کی کئی معنوی خصوصیات ہیںمثلاً:… سلام اللہ تعالیٰ کے اسماءِ حسنیٰ میں سے ہے۔ (بخاری 2/920کتاب الاستیذان)٭… اس کلمہ میں صرف اظہارِ محبت ہی نہیں، بلکہ ادائے حق محبت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ تمام آفات اور آلام سے محفوظ رکھیں۔٭… عرب کے طرز پر صرف زندہ رہنے کی دعا نہیںبلکہ حیاتِ طیبہ کی دعاء ہے۔٭… سلام کرنے والا اپنی زبانِ حال سے اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ یہ وعدہ بھی کرتا ہے کہ تم میرے ہاتھ اور زبان سے مامون ہو، تمہاری جان، مال اور آبرو کا میں محافظ ہوں۔ ٭… لفظ سلام کے ذریعہ اس بات کا اظہار بھی ہے کہ ہم اور تم سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں، ایک دوسرے کو اس کے ارادہ ومشیت کے بغیر نفع، ونقصان پہنچانہیں سکتے۔ ٭… یہ کلمہ اپنے سے چھوٹوں کے لیے شفقت، مرحمت اور پیار ومحبت کا کلمہ بھی ہے اور بڑوں کے لیے اکرام وتعظیم کا لفظ بھی۔٭… قرآن مجید میں یہ کلمہ انبیاء ورسل علیہم السلام کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور اکرام اور بشارت کے استعمال ہوا ہے اوراس میں عنایت اور محبت کا رس بھرا ہوا ہے، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے، سَلَامٌ عَلٰی نُوْحٍ فِي الْعَالَمِیْنَ، سَلاَمٌ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ، سَلاَمٌ عَلٰی مُوْسٰی وَہَارُوْنَ، سَلاَمٌ عَلٰی اِلْیَاسِیْنَ، سَلاَمٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ، سَلاَمٌ عَلٰی عِبَادہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی٭… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی اسی طرح سلام عرض کیا جاتاہے۔٭… تمام ایمان والوں کو نماز میں بھی اس لفظ سے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام پر دُرود بھیجنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ٭… آخرت میں موٴمنین کے جنت میں داخلہ کے وقت کہا جائے گا ”أُدخلُوہا بسلامٍ، سلامٌ عَلَیکُمْ بما صَبَرْتُم، فَنِعْمَ عُقبی الدارِ“ (مستفاد از معارف القرآن 2/501، معارف الحدیث6/149)
س :… استاد جی یہ تو بتلائیے،کہ نبی کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے بھی اسی لفظ سلام کا رواج تھا؟
ج :… سلام کی سنت حضرت آدم علیہ السلام سے چلی آرہی ہے؛ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ السلام کو پیدا فرمایا تو ارشاد فرمایا: اے آدم! فرشتوں کی اس جماعت کے پاس جاؤ اور ان کو سلام کرو، چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام گئے اور فرشتوں کی ایک جماعت سے السلام علیکم فرمایا، فرشتوں نے جواب میں عرض کیا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم یہ سلام تمہاری اور تمہاری اولاد کا تحیہ ہے۔ (بخاری کتاب الاستیذان 2/219)صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے؛ جب تک کہ مومن نہ بن جاؤ اور تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا؛ جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو، میں تم کو ایسی چیز بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرلو تو تمہارے آپس میں محبت قائم ہوجائے گی، وہ یہ کہ آپس میں سلام کو عام کرو، یعنی ہر مسلمان کے لیے خواہ اس سے جان پہچان ہو یا نہ ہو سلام کرو۔(مسلم کتاب الایمان1/54)
سلام، اسلام کا شعار، سلام جنتیوں کا سلام، اللہ سے قریب کرنے والا، محبتوں کو پیداکرنے والا، نفرتوں، کدورتوں اور عداوتوں کو مٹانے والا ہے، باہمی تعلق واعتماد کا وسیلہ اور فریقین کے لیے موجبِ طمانیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو باہم سلام کارواج دینے اور عام کرنے کی بڑی تاکید فرمائی کہ اسلامی دنیا کی فضاء اس کی لہروں سے معمور رہے اور اس کو افضل الاعمال قرار دیا اوراس کے فضائل وبرکات اور اجر وثواب کو بیان فرمایا ہے۔
س :… استادِ محترم سلام کے فضائل برکات کے متعلق تھوڑی سے وضاحت کردیں۔
ج :… ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا:اے بیٹے جب تم اپنے گھروالوں کے پاس جاؤ تو سلام کیاکرو، یہ سلام تمہارے لیے اور تمہارے گھر والوں کے لیے برکت کا سبب ہوگا۔(ترمذی2/99)حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے بندوں کو کھانا کھلانا اور جانا پہچانا اورانجان ہر ایک کو سلام کرنا، سب سے افضل عمل ہے (بخاری2/921)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کو مسلم معاشرہ میں عام کرنے کی انتہائی تاکید فرمائی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی آدمی اپنے بھائی سے ملاقات کرے تو اس کو سلام کرے، پھر کچھ دیر بعد دیوار، درخت یا پتھر درمیان میں حائل ہوجائے تو پھر دوبارہ سلام کرے، یعنی جتنی بار ملاقات ہواتنی بار سلام کرتا رہے۔ (ابوداؤد2/707)حضرت جابررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سب سے بڑا بخیل وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل کرتا ہے۔ (مشکوٰۃ:400)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کا حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر غیرمعمولی اثر ہوا اور ان حضرات نے سلام کو اپنی عملی زندگی کا ایک جزء لا ینفک بنالیا، اس کا اندازہ ہم مندرجہ ذیل واقعہ سے لگاسکتے ہیں، حضرت طفیل بن ابی بن کعب فرماتے ہیں: حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ مجھے لے کر اکثر بازار جایا کرتے تھے، بازار میں تاجر، خریدار، مسکین، گری پڑی چیز اٹھانے والا، غرض ہر کسی کو جس سے ملاقات ہوتی سلام کرتے، ایک دن میں نے عرض کیا، حضرت بازار میں آپ نہ خریدو فروخت کرتے ہیں، نہ بازار میں آپ کسی مجلس میں شریک ہوتے ہیں، لہٰذا بازار جانے کے بجائے، آپ یہاں تشریف رکھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کریں ہم سنیں گے، تو حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے بطین (پیٹ والے) ہم بازار صرف مسلمانوں کو سلام کرنے کے لیے جاتے ہیں (کہ بازار میں لوگ ضروریات کی وجہ سے زیادہ رہتے ہیں اور ہم زیادہ مسلمانوں سے ملاقات کریں گے، انھیں سلام کریں گے اور زیادہ ثواب حاصل کریں گے۔ (مشکوٰۃ400)
س :… استاد جی!سلام کرنا تو سنت ہواکیا سلام کا جواب دینا بھی سنت ہی ہےاور اس کےاجر وثواب کے متعلق بھی ارشاد فرمادیں۔
ج :… سلام کرنا سنت ہے اورجواب دینا واجب ہے، واجب کا ثواب سنت سے زیادہ ہوتاہے، لیکن سلام کرنے کی سنت کا ثواب جواب دینے کے واجب سے زیادہ ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح 8/421 باب السلام)جب کسی مسلمان کو سلام کیا جائے تو اس کے ذمہ جواب دینا تو واجب ہے، اگربغیر کسی عذر شرعی کے جواب نہ دے تو گنہگار ہوگا؛ البتہ جواب دینے میں دو باتوں کا اختیار ہے، ایک یہ کہ جن الفاظ میں سلام کیا گیا ہے ان سے بہتر الفاظ میں جواب دیا جائے، دوسرے یہ کہ بعینہ انھیں الفاظ سے جواب دے دیا جائے۔ (معارف القرآن2/504)حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوئے اور السلام علیکم کہا، آپ علیہ السلام نے سلام کا جواب دیا، اور وہ شخص بیٹھ گئے، آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: دس نیکیاں، کچھ دیر بعد ایک دوسرے آدمی حاضر حدمت ہوئے اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا، آپ علیہ السلام نے جواب دیا اور وہ آدمی بیٹھ گئے اور آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: بیس نیکیاں، کچھ دیر بعد ایک تیسرے شخص حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا، السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ، آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: تیس نیکیاں۔ (ترمذی 2/98، ابوداؤد2/706)اس روایت سے معلوم ہوا کہ مکمل سلام کرنے کے بعد تیس اور ہر ایک کلمہ پر دس نیکیاں حاصل ہوتی ہیں۔
س :… استاد جی !سلام کے آداب کے متعلق وضاحت فرمادیں۔
ج :… سلام کرنے میں پہل کرنا چاہئےاس لیے کہ سلام میں پہل کرنے سے عاجزی وتواضع پیداہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کو بندوں سے تواضع نہایت محبوب ہے۔اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں میں اللہ کے قرب اور اس کی رحمت کا زیادہ مستحق وہ بندہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرنے والا ہو۔ (ترمذی2/99، ابوداؤد2/706)٭…ایک دوسری روایت میں ہے کہ سلام میں پہل کرنے والاکبرونخوت سے بری ہوتا ہے۔ (مشکوۃ:400) ٭…سلام کرنے والا اور سلام کا جواب دینے والا ”السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ“ صیغہٴ جمع استعمال کریں، اگرچہ مخاطب اکیلا ہی کیوں نہ ہو۔ (الاذکار النوویۃ194)٭… سلام اتنی بلند آواز سے کرے کہ سلام کیے جانے والے کو بآسانی آواز پہنچ جائے ورنہ جواب کا مستحق نہ ہوگا، نیز جواب دینے والابھی اسی طرح بلند آواز سے جواب دے ورنہ جواب ذمہ سے ساقط نہ ہوگا۔ (الاذکار النوویۃ:195)٭…جب کوئی سلام کرے تو بہتر طریقہ پر جواب دینا، کم از کم ویسے ہی الفاظ سے جواب دینا۔٭… عزیز، دوست، چھوٹے، بڑے، جانے پہچانے اور انجانے سب کو سلام کرے۔ (بخاری2/921)٭… چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو سلام کرے۔ (بخاری2/۹۲۱)٭… سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے۔(بخاری۲/۹۲۱)
٭…پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے شخص کو سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۱)٭… چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۱)٭… اپنے محارم کو سلام کرے۔ (ترمذی۲/۹۹)٭… جب گھر یا مسجد میں داخل ہو، وہاں اس کے علاوہ کوئی نہ ہوتو ان الفاظ سے سلام کرے، السلامُ علینا وعلی عبادِ اللّٰہ الصالحین(ہندیہ۵/۳۲۶)٭… اگر کوئی غائب شخص سلام پہنچائے تو اس طرح جواب دے، وعلیک وعلیہ السلام ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ (ترمذی۲/۹۹)٭… اگر ایک شخص ایک جماعت کو سلام کرے تو جماعت میں سے ایک شخص کا جواب دینا کافی ہے، تمام حاضرین کا جواب دینا افضل ہے۔ (ابوداؤد۲/۷۰۸)٭… اگر سلام کرنے والی ایک جماعت ہوتو صرف ایک آدمی کا سلام کرنا کافی ہے؛ البتہ تمام کا سلام کرنا افضل ہے۔ (الاذکار النوویة:۱۹۶)٭… اگر مسلم اور غیرمسلم کا مخلوط مجمع ہوتو مسلمان کی نیت سے سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۴)٭… جب کسی کی ملاقات سے فارغ ہوکر رخصت ہونے لگے تو سلام وداع کرے، یہ بھی سنت ہے۔ (ترمذی۲/۱۰۰)٭… جب کسی کے پاس کوئی تحریر لکھے تو السلام علیکم سے کلام کا آغاز کرے۔ (بخاری۲/۹۲۶)٭… اگر مسلمان دو ہو یا بہرا ہوتو ہاتھ سے اشارہ بھی کرے اور زبان سے لفظ سلام بھی کہے، صرف اشارہ پر اکتفاء نہ کرے۔ (الاذکارالنوویة:۱۹۶)(19) سلام یا جوابِ سلام میں السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ پر مزید کلمات کا اضافہ کرنا خلافِ سنت ہے۔ (معارف القرآن۲/۵۰۴)٭… اگر کسی غیرمسلم کے پاس خط لکھے تو ”السلام علی من اتبع الہدی“ تحریر کرے۔ (بخاری۲/۹۲۴)
س:…استاد جی کن لوگوں کو سلام کرنا مکروہ ہے؟
ج:… بے ایمان کو سلام کرنا مکروہ تحریمی ے، اگر وہ ابتداءً سلام کرے تو ”علیک“ پر اکتفاء کرے۔ (مرقات۸/۴۲۰)٭… زندیق کو سلام کرنا (شامی۲/۳۷۷، مفسدات الصلوٰة)٭… جو شخص برسرعام گناہ اور فسق میں مبتلا ہو اس شخص کو سلام کرنا مکروہ ہے۔(بخاری۲/۹۲۵)٭… جوان اجنبی عورتوں اور اجنبی مردوں کو سلام کرنا مکروہ ہے،اگر اجنبی نہایت بوڑھا یا بوڑھی ہوتو سلام کرنا جائز ہے۔ (ہندیہ۵/۳۲۶)٭… بدعتی کو سلام کرنا۔ (مرقات ۸/۴۲۰) بے ایمان کو کسی ضرورت کی وجہ سے سلام کرنا یعنی معاشرتی الفاظ استعمال کرنا مثلاًصبح بخیر، آداب وغیرہ جائزہے، مذہبی الفاظ ”نمستے“ کہنا جائز نہیں۔ (الاذکار النوویة:۲۰۲، فتاویٰ رحیمیہ ۶/۲۵۶)مندرجہ ذیل مواقع میں سلام نہ کرے:٭… نمازپڑھنے والے ٭… تلاوت کرنے والے ٭… دینی باتوں (حدیث، فقہ وغیرہ) کے بیان کرنے والے ٭… ذکر کرنے والے٭… اذان دینے والے٭… اقامت کہنے والے٭… جمعہ اور عیدین وغیرہ خطبات دینے والوں کو دینی امور میں مصروف ہونے کی وجہ سے سلام کرنا مکروہ ہے۔اسی طرح اذان، اقامت اور خطبات کے دوران سلام کرنا مکروہ ہے،٭…اگر کوئی ان مواقع میں سلام کرے تو جواب کا مستحق نہیں۔ (شامی ۲/۳۷۵)٭… کھانے والے کو سلام کرنا۔٭… قضاء حاجت میں مشغول آدمی کو سلام کرنا۔ جس آدمی کا ستر کھلا ہوا ہو اس کو سلام کرنا بھی مکروہ ہے؛ اس لیے کہ موجودہ صورت حال میں جواب دینے کی حالت میں نہیں ہیں۔ (شامی ۲/۳۷۵)مندرجہ بالا صورتوں میں سلام کا جواب دینا واجب نہیں؛ البتہ بعض صورتوں میں عمل موقوف کرکے جواب دے سکتا ہے، بعض صورتوں میں جواب کی بالکل گنجائش نہیں ہے۔اسی طرح کوئی پاخانہ پیشاب کرتا ہو یا غسل خانہ، نہر، تالاب یا حمام میں ننگا نہارہا ہو۔ کوئی سویا ہوا ہو یا اونگھ رہا ہو۔ قرآن شریف یا نماز پڑھ رہا ہو یا اذان دے رہا ہویا کسی گناہ کے کام میں مشغول ہو (داڑھی منڈوا رہا ہو، تاش کھیل رہا ہو، بھنگ، چرس استعمال کررہا ہے) تو سلام نہ کہے۔ نا محرم عورتوں کو بھی سلام کہنا گناہ ہے۔
بہر کیف! حقیقت یہ ہے کہ سلام کے آداب واحکام کی رعایت کرتے ہو ئے اسے عام کیا جائے تویہ خیر،رحمت،برکت اور آپسی محبت کا بہترین وسیلہ اور ذریعہ ہونے کے ساتھ اسبابِ مغفرت میں سے بھی ہے ،کاش! ہم اس پاکیزہ کلمہ سلام کو عام لوگوں کی طرح رسمی طور پر ادا نہ کریں، بلکہ حقیقت کے ساتھ سنت اور خلوصِ نیت سے ادا کریں تو یہی سلام اتحادِ ملت کے لیے جہاں معین ہوسکتا ہے وہیں مغفرت کا سبب بھی ہو سکتا ہے ۔ حدیث میںہے مغفرت واجب کرنے والے اعمال میں سلام کو پھیلانا اور کلام کو نرمی و خوبی سے پیش کرنا بھی داخل ہے ۔(کنز العمال )دوسری روایت میں ہے کہ:یعنی جو شخص اپنے مسلمان بھائیوں میں سے بیس لوگوں کو خواہ وہ مجمع میں ہوںیا فردا ً فرداً ہوں، کسی دن یا رات میں سلام کر ے ،پھر اس دن یا رات میں اس کا انتقال ہوجائے تو اس کے لیے جنت واجب ہے (رواہ الطبرانی، مجمع الزوائد)
افسوس یہ ہے کہ آج مسلمانوں نے سلام کے تعلق سے ان تعلیمات کو کلیۃً فراموش کر دیا ہے، اسلامی معاشرے میں سلام کا رواج اب بہت کم ہو گیا ہے۔سلام کو ترک کرنے کی نحوست یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر بغض و حسد، انتشار، دشمنی و عداوت جیسی بیماریاں عام ہوگئی ہیں اور اسلامی سلام کی جگہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے غیر اسلامی، مشرکانہ سلاموں کو اختیار کر لیا ہے۔کاش کہ مسلمان سلام کی روح و حقیقت کو سمجھ کر اس کو اپنے درمیان عام کریں، اس کو پھیلائیں اور رواج دیں، اور اس کی ایسی کثرت ہو کہ اسلامی دنیا کی فضا اس کی لہروں سے معمور رہے، تو پوری قوم کی اصلاح ہو جائے، اس کےاوپر اللہ کی رحمتوں و نعمتوں کی بارش ہوگی، پھر اخلاف و انتشار کو ختم کرنے کے لئے کسی جلسہ و تحریک چلانے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔
س:…اچھا استاد محترم!بہت بہت شکریہ میری طرف سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں نے آپ کو بہت ساوقت لیا ہے اس پر معذرت خواہ ہوں جزاکم اللہ خیر واحسن الجزاء
ج:…وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکا تہ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کا حامی وناصر ہو۔فی امان اللہ!