عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” اسْتَقِيمُوا وَلَنْ تُحْصُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ خَيْرَ أَعْمَالِكُمُ الصَّلَاةُ، وَلَنْ يُحَافِظَ عَلَى الْوُضُوءِ إِلَّا مُؤْمِنٌ “
حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ٹھیک ٹھیک چلو، صراط مستقیم پر قائم رہو۔ لیکن چونکہ یہ استقامت بہت مشکل ہے اس لئے، تم اس پر پورا قابو ہرگز نہ پا سکو گے (لہذا ہمیشہ اپنے کو قصور وار اور خطا کار بھی سمجھتے رہو) اور اچھی طرح جان لو کہ تمہارے سارے اعمال میں سب سے بہتر عمل نماز ہے۔ (اس لئے اس کا سب سے زیادہ اہتمام کرو) اور وضو کی پوری نگہداشت بس بندہ مومن ہی کر سکتا ہے۔
(موطا امام مالک، مسند احمد، سنن ابن ماجہ، سنن دارمی)
وضو کی محافظت و نگہداشت کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمیشہ سنت کے مطابق اور آداب کی رعایت کے ساتھ کامل وضو کیا جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بندہ برابر باوضو رہے۔ بہر حال رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں ” محافظت علی الوضو ” کو کمال ایمان کی نشانی اور اہل ایمان و یقین کا عمل بتایا ہے۔
سنت:
وہ فعل ہے جسکو نبی ﷺ یا صحابہ رضی اﷲعنھم نے کیاہو۔ اسکی دو قسمیں ہیں ۔ سنت مؤکدہ، اورسنت غیر مؤکدہ: سنت مؤکدہ۔ وہ فعل ہے جسکو نبی ﷺ یا صحابہ نے ہمیشہ کیا ہو اور بغیر کسی عذر کے کبھی ترک نہ کیا ہو۔ لیکن ترک کرنے والے پر کسی قسم کا زجر وتنبیہ نہ کی ہو اسکا حکم بھی عمل کے اعتبار سے واجب کا ہے یعنی بلا عذر چھوڑنے والا اور اسکی عادت کرنے والا فاسق اور گناہ گار ہے اور نبی ﷺ کی شفاعت سے محروم رہیگا (شفاعت سے مراد مطلق شفاعت نہیں جو اھل کبائر تک کیلئے عام ہوگی بلکہ مراد وہ شفاعت ہے جو اتباع سنت کا ثمرہ ہے) ہاں اگر کبھی چھوٹ جائے تو مضائقہ نہیں مگر واجب کے چھوڑنے میں بہ نسبت اسکے چھوڑنے کے گناہ زیادہ ہے۔
سنت غیر مؤکدہ: ۔
وہ فعل ہے جس کو نبی ﷺ یا صحابہ رضی اﷲعنھم نے کیا ہو اور بغیر عذر کے کبھی ترک بھی کیا ہو، اسکا کرنے والا ثواب کا مستحق ہے اور چھوڑنے والا عذاب کا مستحق نہیں ، اسکو سنت زائدہ اور سنت عادیہ بھی کہتے ہیں ۔
سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے والد گرامی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے وضو کا پانی طلب فرمایا۔ میں نے وضو کا پانی لا کر حاضر خدمت کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے وضو فرمانا شروع کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پانی میں ہاتھ ڈالنے سے قبل دونوں ہاتھوں کو تین دفعہ دھویا۔ اس کے بعد تین مرتبہ کلی فرمائی اور تین دفعہ ناک صاف فرمائی بعد ازاں آپ نے منہ کو تین دفعہ دھویا پھر آپ نے دائیں ہاتھ کو کہنی تک تین مرتبہ دھویا پھر بائیں ہاتھ کو اسی طرح دھویا پھر آپ نے اپنے سر مبارک پر ایک دفعہ مسح فرمایا۔ اس کے بعد دائیں پاؤں کو ٹخنوں تک تین دفعہ دھویا پھر ایسے ہی بائیں کو اس کے بعد آپ نے کھڑے ہو کر پانی لانے کا حکم صادر فرمایا۔ میں نے برتن جس میں وضو کا بچا ہوا پانی تھا، حاضر خدمت کیا تو آپ نے کھڑے کھڑے اس سے پانی پی لیا۔ میں حیران ہوا تو پھر آپ نے مجھے دیکھ کر ارشاد فرمایا: ’’حیران نہ ہوں کیونکہ میں نے آپ کے نانا جان کو ایسے ہی کرتے ہوئے دیکھا جیسے تم مجھے کرتا دیکھ رہے ہو۔ حضور نبی اکرم ﷺ اسی طرح وضو فرماتے اور آپ وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پیتے تھے۔ ‘‘
نسائی، السنن، کتاب الطہارۃ، باب صفۃ الوضوئ، 1: 51، 52، رقم: 95
وُضو کا طریقہ:
قبلہ کی طرف رُخ کر کے اُونچی جگہ بیٹھنا مستحَب ہے۔ مستحب: وہ فعل ہے جس کو نبی ﷺ یا صحابہ رضی اﷲعنھم نے کیا ہو لیکن ہمیشہ او راکثر نہیں بلکہ کبھی کبھی کیا۔ اسکا کرنے والا ثواب کا مستحق ہے اور نہ کرنے والے پر کسی قسم کا گناہ نہیں اور اسکو فقہاء کی اصطلاح میں نفل، مندوب او رتطوع بھی کہتے ہیں ۔ وُضو کیلئے نیّت کرنا سنّت ہے، نیّت نہ ہو تب بھی وضو ہو جا ئے گا مگر ثواب نہیں ملے گا۔ نیّت دل کے ارادے کو کہتے ہیں ، دل میں نیّت ہوتے ہوئے زَبان سے بھی کہہ لینا افضل ہے لہٰذا زبان سے اِس طرح نیّت کیجئے کہ میں حُکمِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ بجا لانے اور پاکی حاصل کرنے کیلئے وُضو کر رہا ہوں ۔ بسمِ اللہ کہہ لیجئے کہ یہ بھی سنّت ہے۔ بلکہ بسمِ اللہِ وَالحمدُ لِلّہ کہہ لیجئے کہ جب تک باوُضو رہیں گے فِرشتے نیکیاں لکھتے رہیں گے۔
(اَلْمُعْجَمُ الصَّغیر لِلطَّبَرَانِی ج۱ص۷۳حدیث ۱۸۶)
اب دونوں ہاتھ تین تین بارپَہنچوں تک دھوئیے، (نل بند کرکے) دونوں ہاتھوں کی اُنگلیوں کا خِلال بھی کیجئے۔ کم از کم تین تین بار دائیں بائیں اُوپر نیچے کے دانتوں میں مِسواک کیجئے اور ہر بارمِسواک کو دھولیجئے۔ امام محمدبن محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مسواک کرتے وقت نَماز میں قراٰنِ مجید کی قِراءت اور ذِکرُ اللہ کے لئے مُنہ پاک کرنے کی نیّت کرنی چاہئے۔
(اِحیاءُ الْعُلوم ج۱ص۱۸۲)
اب سیدھے ہاتھ کے تین چُلّو پانی سے (ہر بار نل بند کرکے) اس طرح تین کُلّیاں کیجئے کہ ہر بارمُنہ کے ہر پرزے پر (حلق کے کَنارے تک) پانی بہ جائے، اگر روزہ نہ ہو تو غَرغَرہ بھی کرلیجئے۔ پھر سیدھے ہی ہاتھ کے تین چُلّو (اب ہر بار آدھا چُلّو پانی کافی ہے) سے (ہر بار نل بند کرکے) تین بار ناک میں نرم گوشت تک پانی چڑھائیے اور اگر روزہ نہ ہو تو ناک کی جڑ تک پانی پہنچائیے، اب (نل بند کرکے) اُلٹے ہاتھ سے ناک صاف کرلیجئے اور چھوٹی اُنگلی ناک کے سُوراخوں میں ڈالئے۔ تین بار سارا چِہرہ اِس طرح دھوئیے کہ جہاں سے عادَتاً سر کے بال اُگنا شروع ہوتے ہیں وہاں سے لیکرٹھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان کی لَو سے دوسرے کان کی لَو تک ہر جگہ پانی بہ جائے۔ اگر داڑھی ہے اور اِحرام باندھے ہوئے نہیں ہیں تو (نل بند کرنے کے بعد) اِسطرح خِلال کیجئے کہ اُنگلیوں کو گلے کی طرف سے داخِل کر کے سامنے کی طرف نکالئے۔ پھر پہلے سیدھا ہاتھ اُنگلیوں کے سرے سے دھونا شروع کر کے کہنیوں سمیت تین بار دھوئیے۔ اِسی طرح پھر اُلٹا ہاتھ دھولیجئے۔ دونوں ہاتھ آدھے بازو تک دھونا مستحب ہے۔ اکثر لوگ چُلّو میں پانی لیکر پہنچے سے تین بار چھوڑ دیتے ہیں کہ کہنی تک بہتا چلا جاتا ہے اس طرح کرنے سے کہنی اور کلائی کی کروٹوں پر پانی نہ پہنچنے کا اندیشہ ہے لہٰذا بیان کردہ طریقے پر ہاتھ دھوئیے۔ اب چُلّو بھر کر کہنی تک پانی بہانے کی حاجت نہیں بلکہ (بِغیر اجازتِ صحیحہ ایسا کرنا) یہ پانی کا اِسرا ف ہے۔ اب (نل بند کرکے) سر کا مسح اِس طرح کیجئے کہ دونوں اَنگوٹھوں اور کلمے کی اُنگلیوں کو چھوڑ کر دونوں ہاتھ کی تین تین اُنگلیوں کے سِرے ایک دوسرے سے مِلا لیجئے اور پیشانی کے بال یا کھال پر رکھ کر کھینچتے ہوئے گُدّی تک اِس طرح لے جائیے کہ ہتھیلیاں سَر سے جُدا ر ہیں ، پھر گدّی سے ہتھیلیاں کھینچتے ہوئے پیشانی تک لے آئیے (سرپر مسح کا ایک طریقہ یہ بھی تحریر ہے اِس میں بالخصوص خواتین کیلئے زیادہ آسانی ہے۔
چُنانچِہ لکھا ہے:
مسحِ سرمیں ادائے سنَّت کو یہ بھی کافی ہے کہ انگلیاں سر کے اگلے حصّے پر رکھے اور ہتھیلیاں سر کی کروٹوں پر اور ہاتھ جما کر گُدّی تک کھینچتا لے جائے۔ کلمے کی اُنگلیاں اور اَنگوٹھے اِس دَوران سَر پر باِلکل مَس نہیں ہونے چاہئیں ، پھر کلمے کی اُنگلیوں سے کانوں کی اندرونی سَطح کا اور اَنگوٹھوں سے کانوں کی باہَری سَطح کا مَسح کیجئے اورچُھنگلیاں (یعنی چھوٹی انگلیاں ) کانوں کے سُوراخوں میں داخِل کیجئے اور اُنگلیوں کی پُشت سے گردن کے پچھلے حصّے کامَسح کیجئے۔ بعض لوگ گلے کا اور دھلے ہوئے ہاتھوں کی کہنیوں اور کلائیوں کا مَسْح کرتے ہیں یہ سنّت نہیں ہے۔ سر کا مسح کرنے سے قبل ٹونٹی اچھی طرح بند کر نے کی عادت بنالیجئے بِلا وجہ نل کُھلا چھوڑ دینا یا اَدھورا بند کرنا کہ پانی ٹپک کر ضائع ہوتارہے اِسراف وگُنا ہ ہے۔ پہلے سیدھا پھر اُلٹا پاؤں ہر بار اُنگلیوں سے شُروع کرکے ٹخنوں کے او پر تک بلکہ مستحَب ہے کہ آدھی پِنڈلی تک تین تین باردھولیجئے۔ دونوں پاؤں کی اُنگلیوں کا خِلال کرنا سنّت ہے۔ (خِلال کے دَوران نل بند رکھئے) اس کا مُستحَب طریقہ یہ ہے کہ اُلٹے ہاتھ کی چھنگلیا سے سیدھے پاؤں کی چھنگلیا کا خِلا ل شروع کر کے اَنگوٹھے پر ختم کیجئے اور اُلٹے ہی ہاتھ کی چھنگلیا سے اُلٹے پاؤں کے انگوٹھے سے شروع کر کے چھنگلیاپر ختم کرلیجئے۔ حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ہر عُضْو دھوتے وقت یہ امّید کرتا رہے کہ میرے اِس عُضْو کے گناہ نکل رہے ہیں ۔
(اِحیاءُ الْعُلوم ج۱ص۱۸۳)
حضرت عمر بن الخطاب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (ایک سلسلہ کلام میں ) فرمایا جو کوئی تم میں سے وضو کرے (اور پورے آداب کے ساتھ خوب اچھی طرح) اور مکمل وضو کرے، پھر وضو کے بعد کہے:
أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
تو لازمی طور پر اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جائیں گے وہ جس دروازے سے بھی چاہے گا جنت میں جا سکے گا۔ (صحیح مسلم)
وضو کرنے سے بظاہر صرف اعضاء وضو کی صفائی ہوتی ہے اس لئے مومن بندہ وضو کرنے کے بعد محسوس کرتا ہے کہ میں نے حکم کی تعمیل میں اعضاء وضو تو دھو لئے اور ظاہری طہارت اور صفائی کر لکی لیکن اصل گندگی تو ایمان کی کمزوری، اخلاص کی کمی اور اعمال کی خرابی کی گندگی ہے، اس احساس کے تحت وہ کلمہ شہادت پڑھ کے ایمان کی تجدید اور اللہ تعالیٰ کی خالص بندگی اور رسول اللہ ﷺ کی پوری پیروی کا گویا نئے سرے سے عہد کرتا ہے، اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی کامل مغفرت کا فیصلہ ہو جاتا ہے اور جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے اس کے لئے جنت کے سارے دروازے کھل جاتے ہیں ۔ امام مسلم ہی نے ایک دوسری روایت میں اسی موقع پر کلمہ شہادت کے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں:
أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
نیز اسی حدیث کی ترمذی کی روایت میں اس کلمہ شہادت کے بعد
اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ، وَاجْعَلْنِي مِنَ الْمُتَطَهِّرِينَ
کا بھی اضافہ ہے۔
لہٰذا وُضو کے بعداس طرح دعا پڑھ لیجئے دونوں حدیثوں پر عمل ہوجائے گا
أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ اللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ۔
آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں ہر وقت باوضو رہنے اور اس کے فضائل وفوائد حاصل کرنے کی اللہ تبارک وتعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
Lesson 09 وضو کا اہتمام کمال ایمان کی نشانی Performing Ablution is a Sign of Perfect Faith UmarGalle ویڈیو
Please watch full video, like and share Lesson 09 وضو کا اہتمام کمال ایمان کی نشانی Performing Ablution is a Sign of Perfect Faith UmarGalle. Subscribe UmarGallery channel.
Video length: 12:05