زبان اللہ کی عظیم نعمت اور اس کا صحیح استعمال

زبان اللہ کی عظیم نعمت اور اس کا صحیح استعمال
از قلم:… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔زندگی کے ہر موڑ پر شریعت اسلام ہماری رہنمائی و رہبری کے لئے کافی ہے۔زندگی کے تمام معاملات کی طرح اسلام گفتگوکرنے کے بھی ہمیں آداب ،طور ،طریقے سکھاتا ہے۔ سنت رسول ﷺ سے ہر گھڑی ہمیں کب،کہاں ،کیا اور کیسے بات کرنا ہے ،رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔گفتگو کی وجہ سے آدمی لوگوں کے دلوں میں اترتا ہے یا پھر لوگوں کے دل سے اترجاتا ہے۔اللہ تعالی نے انسان کوزبان و بیان کی عظیم صلاحیت سے نوازا ہے ۔انسان اپنی زبان کی وجہ سے جہاں کامیاب و کامران ہوتا ہے وہیں اپنی زبان کی وجہ سے ذلت و رسوائی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ زبان اللہ تعالی کی عطاکردہ نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ جل شانہٗ ہی نے انسانوں کو بولنےاور کہنے کے سلیقےسے سرفراز فرمایا ۔نبی اکرم ﷺ نے گفتگو کے فن کو معراج عطا کی۔آپ ﷺ کو جوامع الکلم سے سرفرازکیا گیا تھا۔ایمان کی دولت سے مالامال اور نبی اکرم ﷺ کی محبت سے سرشار انسانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ گفتگو کے آداب سیکھیں کیونکہ الفاظ و جملے بھی انسا ن کے لباس کی طرح شخصیت کے عکاس ہوتے ہیں۔الفاظ کے چناو اور اس کی حرمت سے واقف آدمی کو دنیا میں وقار و تمکنت حاصل ہوتاہے۔الفاظ کا غیر مناسب استعمال انسانی کردار کو مسخ کردیتا ہے۔انسان گفتگو کے ذریعے اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کرتا ہے۔گفتگو کے لئے بہتر الفاظ کا استعمال آدمی کو جہاں بلند و بالا مقام و مرتبہ عطا کرتا ہے وہیں غیر مناسب الفاظ کے استعمال سے آدمی کی عزت گھٹ جاتی ہے اور معاشرے میں وہ اپنی حیثیت گنوا بیٹھتا ہے۔حضرت لقمان سے ان کے آقانے کہاکہ ایک بکری ذبح کرو اور اس میں سے جو سب سے اچھی چیز ہے اس کو پکا کر لاؤ۔حضرت لقمان نے بکری کو ذبح کیا اور اس کے دل اور زبان کو پکا کر اپنے آقا کوپیش کیا۔دوسرے دن بادشاہ نے پھر سے حضرت لقمان کو ایک بکری ذبح کر کے اس میں سے سب سے بدترین چیز کو پیش کرنے کو کہا۔آپ نے اپنے آقا کے حکم کے مطابق پھر ایک بکری ذبح کی اور اس میں سے پھر ایک بار دل اور زبان پکاکر پیش کی۔یہ دیکھ کر ان کا مالک انھیں تعجب سے دیکھنے لگااور پوچھا یہ کیا ہے؟میں نے جب آپ کو ذبح کردہ بکری سے بہترین چیز پکا کر لانے کو کہا توآپ نے دل اور زبان لاکر دی اور جب میں نے بدترین شئے کو لانے کو کہا تب بھی آپ نے دل اور زبان ہی پیش کیئے۔بھلا یہ کیا بات ہوئی؟اس پر حضرت لقمان نے فرمایاجناب اگر یہ دونوں چیزیں صحیح ہوں تو یہ بہترین چیزیں ثابت ہوتی ہیں اور اگریہ دونوں چیزیں خراب ہوں تب ان سے بدتر کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔
اکثر لوگ اپنی گفتگو کی وجہ سے کرب و اذیت اور ہلاکت کا شکار ہوجاتےہیں ۔زبان کی جب حفاظت کی جاتی ہے تب انسان ناگہانی مصائب سے خود کو محفوظ رکھتا ہے۔انسانی جسم میں گوشت کا ایک ایسا لوتھڑا زبان ہی ہے جو اسے پستی سے بلندی اور بلندی سے پستی تک پہنچا دیتا ہے۔زبان کے صحیح استعمال سے انسان جہاں سرخرو اور کامیاب ہوجاتا ہے اور اس کا شمار نیکو کار وں میں ہونے لگتا ہے وہیں بدزبانی کی وجہ سے وہ معاشرے کا سب سے نا پسندیدہ شخص گردانا جاتا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ’’ پہلے تو لو پھر بولو‘‘۔ بالکل یہ ایک حقیقت ہے کہ زبان میں ہڈی نہیں ہوتی ہے لیکن یہ انسان کی ہڈیاں باآسانی تڑواسکتی ہے۔ انسان کی گفتگو اس کی شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔اچھی اور پر اثر شخصیت کے لئے پر اثر انداز گفت و شنید بھی بے حد ضروری ہے۔دانشوروں کا کہنا ہے کہ پرندے جال میں دانے اورانسان اپنی زبان سے پھنس جاتے ہیں۔جو انسان اپنی زندگی خوشی و عافیت سے بسر کرنے کے متمنی ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی زبانوں پر قابو رکھیں اور گفتگو کرنے کے طور طریقوں سے خود کو متصف کریں۔
اللہ تبارک تعالی فرماتے ہیں’’لوگوں سے اچھی باتیں کہو‘‘(القرآن)۔ قرآن ایمان والوں کو اپنی آواز پست رکھنے کا حکم دیتا ہے،چیخنے چلانے سے سخت منع کرتا ہے ۔’’اپنی رفتار میں میانہ روی(اعتدال) اختیار کرو اور اپنی آواز کو پست رکھو،یقیناًآوازوں میں سب سے بدتر آواز گدھوں کی آواز ہے۔‘‘(القرآن)
نبی اکرم ﷺ نے آج سے چودہ سو سال قبل ہم کو گفتگو کے آداب و سلیقے سے آراستہ کیا ۔آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’لوگو ں میں سب سے محبوب اور آخرت میں مجھ سے زیادہ قریب اچھے ا خلاق والے لوگ ہوں گے‘‘(سنن الترمذی)۔ اچھے اخلاق والے افراد وہ ہوتے ہیں جن کی گفتگو فحش گوئی ،جھوٹ ،افترا،چغل خوری اور کذب بیانی سے پاک ہوتی ہے ۔نبی ا کرم ﷺ نے فرمایا کہ فضول گفتگو سے خاموشی بہتر ہے۔’’جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اس کو چاہیئے کہ اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے۔‘‘(بخاری)
اسلام گفتگو کو گالی گلوچ سے پاک رکھنے کا حکم دیتا ہے کیونکہ ایمان والے کبھی لغو اور فحش گوئی سے کام نہیں لیتے ہیں۔آپﷺ نے فحش اور بے ہودہ گفتگو کو سخت نا پسند فرمایا ہے ۔آ پ ﷺ نے فرمایا ’’مسلمان کو گالی دینا بڑا گناہ ہے اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔‘‘(بخاری)۔رسول اکرم ﷺ کا انداز تکلم تمام انسانوں کے لئے مشعل راہ ہے آپ ﷺ کی گفتگو صاف اور واضح ہوتی تھی جسے ہر سننے والاسمجھ لیتا تھا(سنن ابوداؤد)۔نبی اکرم ﷺ کے انداز تکلم سے ہمیں درس ملتا ہے کہ ہماری گفتگو صاف واضح ہونے کے ساتھ مختصر اور جامع ہو۔بات کرتے وقت ہم کو ٹھہر ٹھہر کر بات کرنی چاہیئے تاکہ سننے والے ہماری بات آسانی سے سمجھ پائیں۔طویل گفتگو سے پرہیز کی آپﷺ نے ہم کو تلقین فرمائی ہے۔.’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ گفتگو میں توسط اختیار کروں کیونکہ درمیانے انداز میں ہی خیر ہے۔‘‘(سنن ابو داؤد)۔آپ ﷺ نے گھوما پھرا کر بات کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔’’لہذا انہیں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیئے اور جو بات کر یں صاف اور سیدھی بات کریں۔‘‘(القرآن)۔گفتگو میں ضد ،ہٹ دھرمی سے ہر گز کام نہیں لینا چاہیئے۔بحث و مباحث کے وقت بات دلیل اور شعور سے کریں،کسی کی عزت نہ اچھا لیں۔سیرت رسول ﷺ ہم کو دوران گفتگو الجھنے سے منع کرنے کے علاوہ جہلا کو قائل کرنے کے بجائے ان سے احسن طریقے سے اعراض کر نے کی تعلیم دیتی ہے۔’’ اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے(جاہلانہ ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں(سلام کر کے گزر جاتے ہیں)‘‘۔(القرآن)۔اس ضمن میں رسول اکرمﷺ نے لوگوں کے عقلی معیار اور رتبے کے مطابق گفتگو کرنے کی ہم کو تعلیم دی ہے۔لوگو ں کو اکتا ہٹ سے محفوظ رکھنے اور اپنی گفتگو میں تاثیر پیدا کرنے کے لئے مخاطب کے معیار کا لحاظ رکھنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔لوگوں کو اتنی ہی باتیں بتانی چاہیئے جس قدر ان کو ضرورت ہوتی ہے۔گفتگو انسان کی پہچان ہوتی ہے ۔بالمشافہ گفتگو و شنید کے ذریعے پچاس فیصد سے زائد مسائل از خود ختم ہوجاتے ہیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ سچ کڑوا ہوتا ہے اور اسی مقولہ کی آڑ میں بد تمیزی اور بد اخلاقی کا مظاہر ہ کرنے لگتے ہیں۔اگر دیکھا جائے تو بیشتر موقعوں پر سچ کڑوا نہیں ہوتا ہے بلکہ سچ بولنے کا انداز کڑوا ہوتا ہے۔کڑوی سے کڑوی بات بھی اگر سلیقے ،تہذیب و شائستگی سے کی جائے تب یہ بھی کانوں میں شہد کھول دیتی ہے۔سلیقہ مند گفتگو کی ایک بہترین مثال خلیفہ ہارون رشید کے دیکھے گئے خواب کی تعبیر کے بیان میں دیکھنے میں آتی ہے۔خلیفہ ہارون رشید نے خواب میں دیکھا کہ اس کے تمام دانت ٹو ٹ گئے ہیں اس نے تعبیر کے لئے ایک درباری کو طلب کیا جس نے کہا کہ آپ کی آنکھوں کے سامنے آپ کے تمام رشتے دار ہلاک ہوجائیں گے۔اس تعبیر سے بادشاہ بہت ملول ہوا اور ناراض ہوکر تعبیر بتانے والے کو دربار سے نکال باہر کیا۔دوسرے شخص کو تعبیر کے لئے طلب کرنے پر اس نے بتا یا کہ بادشاہ کوبہت طویل عمر ملے گی اور آپ کا انتقال خاندان میں سب سے آخر میں ہوگا۔بادشاہ بہت خوش ہوا اور تعبیر بتانے والے کو انعام و اکرام سے نوازا۔اسی لئے سچ کڑوا ہوتا ہے کہنے کے بجائے ہمیں سچ کو پیش کرنے کا سلیقہ سیکھنا چاہیئے۔گفتگو کے دوران ہمیں چند باتو ں کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے جیسے زبان سے خیر کا کلمہ ہی نکالیں،کسی کی غلطی کی اصلاح میں حکمت کا پہلو ہر گز نہ چھوڑیں،مخاطب کی قابلیت کا لحاظ رکھتے ہوئے بات کریں،ہمیشہ حق ،سچائی و صداقت کو اپنا شعار بنائیں،بے جا بحث سے اجتناب کریں،حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑے سے اجتناب کریں، گفتگو کو تکلف و تصنع سے پاک رکھیں،درمیان میں کسی کی بات نہ کاٹیں، غیبت و چغل خوری سے بہر صورت بچیں۔گفتگو میں تاثیر پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ گفتگو کے ماحول کا خیال رکھ کر بات کریں۔گفتگو کرنے کے لئے مناسب و موضوع وقت کا انتخاب انتظار کریں۔بات کرنے سے پہلے سننے والی کی طبیعت و مزاج یعنی موڈ کا خیال رکھیں۔بات کرتے وقت یا بات کرنے سے پہلے سننے والے کو ذہنی طور پر تیار کریں۔ گفتگوسلیقے سے کریں ۔بے جا تنقید اورتنقید برائے تنقید سے پرہیز کریں۔ہر بار اپنے مسائل اور پریشانیوں کو موضوع گفتگو نہ بنائیں، اور ایک ہی موضوع پر باربار بات نہ کریں۔گفتگو کو موثر بنانے کے لئے بولنے سے زیادہ سننے کی عادت ڈالیں۔الفاظ کے انتخاب میں احتیاط برتیں کیونکہ الفاظ بے جان نہیں ہوتے ہیں ان میں روح اور زندگی ہوتی ہے۔تقریر ہو یا تحریر دونوں بھی الفاظ کے محتاج ہوتے ہیں۔الفاظ شخصیت کے ہی نہیں بلکہ حالات اور روایات کے بھی آئینہ دار ہوتے ہیں۔الفاظ زندگی بناتے بھی ہیں اور زندگی برباد بھی کرتے ہیں ۔ جہاں الفاظ کسی کے اشتعال کو بڑھا تے ہیں وہیں غصہ کم کرنے میں کلیدی کردار انجام دیتے ہیں۔ہمارے زبان سے نکلے ہوئے لفظ کسی کے دل کو مجروح کرسکتے ہیں تو وہیں کسی کے غم کے مداوے میں نمایا ں کردار ادا کرتے ہیں۔گفتگو اور الفاظ کا انتخاب انسان کے باطنی حسن کو اجاگر کرتا ہے اسی لئے گفتگو اور الفاظ کے انتخاب میں احتیاط سے کام لینے کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔گفتگو کو نشتر نہ بنائیں کیونکہ اللہ نے ہم کو دلوں کو جوڑنے کے لئے پیدا کیا ہے نہ کہ دلوں کوتوڑنے کے لئے۔