رمضان المبارک میں دعاؤ ں کا اہتمام کریں


تحریر:…قاری محمد اکرام
شب و روز کے اس نظام میں بعض گھڑایاں ایسی آتی ہیں جن میں اﷲ تعالیٰ کا دریائے رحمت جوش میں ہوتا ہے اور ان گھڑیوں میں دل کی لگن کے ساتھ جو کچھ مانگ لیا جائے اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے مل ہی جاتا ہے ۔ حدیث میں ہے کہ بعض خاص اوقات میں اﷲ تعالیٰ کی رحمت کی خصوصی ہوائیں چلتی ہیں اور ہر کس و ناکس کا دامن بھر دیتی ہیں ،رمضان المبارک کا مہینہ رحمت خداوندی کی ان ہوائوں کا موسم بہار ہے ۔ اس مہینے میں رحمت کی گھٹائیں جھوم جھوم کر برستی ہیں ۔ بندوں کی مغفرت کیلئے بہانے تلاش کئے جاتے ہیں اور قدم قدم ر دعائوں کی قبولیت کا اعلان کیاجاتا ہے ۔ اس لئے یہ مہینہ دعا کی قبولیت کا مہینہ ہے اور اس سے فائدہ اٹھانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس میں انسان دعائوں کی کثرت رکھے اور اﷲ تعالیٰ سے اپنی حاجتیں اور مرادیں مانگتا رہے ۔
معجم طبرانی میں ہے نحضرت صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ اس مہینے میں تمہاری طرف بطورِ خاص متوجہ ہوتے ہیں اور اپنی خصوصی رحمتیں نازل فرماتے ہیں ۔ خطائوں کو معاف کرتے ہیں ، دعائیں قبول فرماتے ہیں ، نیکیوں میں تمہاری مسابقت کے جذبے کو دیکھتے اور فرشتوں کے سامنے تم پر فخر کرتے ہیں ۔ بد نصیب ہے وہ شخص جو اس مہینے میں بھی اﷲ کی رحمت سے محروم رہ جائے ۔ پھر رمضان المبارک میں بھی بعض خاص خاص اوقات قبولیت دعا کیلئے خاص تاثیر رکھتے ہیں ۔
سب سے پہلے تو وہ دعا جو روزے کی حالت میں مانگی جائے ، حدیث میں اس کی قبولیت کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ آنحضرت صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کا ارشاد ہے کہ تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی ، ایک روزہ دار کی دعا افطار کے وقت ، دوسرے عادل حکمران کی دعا اور تیسرے مظلوم شخص کی دعا ۔ جس کو اﷲ تعالیٰ بادلوں سے اوپر اٹھا لیتے ہیں اور اس کیلئے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور پروردگار کی طرف سے ارشاد ہوتا ہے کہ میں تیری ضرور مدد کروں گا خواہ (کسی مصلحت سے ) دیر ہوجائے ۔
پھر بعض روایات میں افطار کے وقت کی جانے والی دعا کو بھی قبول کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ چنانچہ صحابہ کرام اور بزرگانِ دین کا معمول رہا ہے کہ وہ افطار کے وقت کوئی مختصر مگر جامع دعا مانگنے کا اہتمام فرماتے تھے ۔ اسی طرح رمضان کی راتوں میں تراویح اور تہجد کے بعد بھی دعا کا خاص وقت ہے اور ان اوقات میں دعائوں کا اہتمام کرنا چاہئے ۔بعض مرتبہ لوگوں کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے رمضان میں فلاں دعا مانگی تھی لیکن وہ قبول نہیں ہوئی ۔ لیکن اس سلسلے میں چند باتیں یاد رکھنی چاہئیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ دعا اس چیز کا نام نہیں کہ بے توجہی کے ساتھ چند الفاظ زبان سے ادا کر لئے جائیں بلکہ دعا یہ ہے کہ ایک بندے کی طرح پوری عاجزی اور احتیاج ظاہر کر کے اور دل لگا کر اﷲ تعالیٰ سے اپنی مراد مانگی جائے ۔ حدیث میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ وہ دعا قبول نہیں کرتا جو قلب کی غفلت کے ساتھ مانگی گئی ہو ۔ لہٰذا دعا جب بھی کی جائے حضور قلب کے ساتھ کرنی چاہئے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ حرام غذائوں کے ساتھ دعا قبول نہیں ہوتی ۔ آنحضرت صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کا ارشاد ہے کہ بہت سے پریشان حال لوگ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں اور یا رب یارب کرتے ہیں مگر ان کا کھانا حرام ، ان کا پینا حرام ، ان کا لباس حرام ہوتا ہے ۔ ایسی حالت میں دعا کیسے قبول ہو؟ لہٰذا کم از کم رمضان کے مہینے میں اس بات کا خاص اہتمام ضروری ہے کہ انسان کی روزی حلال ہو ۔
تیسری بات یہ ہے کہ دعا کی قبولیت کا صحیح مطلب بھی سمجھ لینا چاہئے ۔ بعض اوقات انسان اپنی جہالت کی وجہ سے ایسی چیز مانگتا ہے جو اس کے لئے مفید نہیں ہوتی ۔ ایسی صورت میں اﷲ تعالیٰ وہ چیز عطا کرنے کے بجائے اسے وہ چیز دیتا ہے جو انجام کار اس کے لیے مفید ہوتی ہے ۔ نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کا ارشاد ہے کہ جب مسلمان دعا کرتا ہے تو جب تک وہ قطع رحمی یا کسی گناہ کی دعا نہ کرے ، اس وقت تک اسے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے تین چیزوں میں سے ایک چیز ضرور ملتی ہے ۔ یا تو خود وہی چیز مل جاتی ہے جس کی اس نے دعا کی ہے یا اس کے بدلے کوئی برائی یا مصیبت اس سے دور کر دی جاتی ہے یا پھر آخرت میں اتنا ہی ثواب اس کے حصے میں لگا دیا جاتا ہے ۔ لہٰذا اگر کوئی مانگی ہوئی چیز کسی وقت انسان کو نہ ملے تو یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ دعا قبول نہیں ہوئی ، یا بے فائدہ رہی ۔ بلکہ اگر دعا آداب کے ساتھ مانگی گئی ہے تو وہ کبھی بے فائدہ نہیں رہتی اور اس کے نتیجے میں وہی کچھ ہوتا ہے جو انجام کار انسان کیلئے مفید ہو ۔
اب ہم سب مل کر اہتمام کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے ہیں اور اس دا کے اندر اپنی ذاتی حاجتوں کو بھی اﷲ تعالیٰ سے مانگیں ۔ اپنے اعزہ و اقارب کے لیے بھی دعا کریں ، اپنے دوست و احباب کے لیے بھی دعا کریں ۔ اپنے ملک و ملت کے لیے بھی دعا کریں ۔ عالم اسلام اس وقت دشمنوں کے نرغے میں پھنسا ہوا ہے اس کے لیے بھی دعا کریں کہ اﷲ تعالیٰ اس نرغے سے عالم اسلام کو نکالے ۔