رمضان المبارک اور زکوٰۃ

رمضان المبارک اور زکوٰۃ
از قلم:… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
اس ماہِ مبارک میں بہت ساری عبادات انسان کی طرف متوجہ ہوتی ہیں، یہ مہینہ شروع ہوتے ہی انسانوں میں ذہنی،ایمانی اور اعمالی اعتبار سے بہت سی خوشگوار تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں، نہ صرف یہ ، بلکہ ہمارے ارد گرد کے معاشرے میں امن و امان ، باہمی ہمدردی اور اخوت و بھائی چارگی کی ایک عجیب فضا قائم ہوتی ہے، چنانچہ اسی مہینے میں عام طور پرلوگوں میں اپنے اموال کی زکوٰۃ نکالنے کا دستور ہے، اگرچہ زکوٰۃ کی ادائیگی کا براہِ راست رمضان المبارک سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ زکوٰۃ کے وجوب اور اس کی ادائیگی کا تعلق اس کے متعین نصاب کا مالک بننے سے ہے، لیکن چونکہ رواج ہی یہ بن چکا ہے کہ رمضان المبارک میں اس کی ادائیگی کی جاتی ہے جو اس وقت عمومی طور پر سارے مسلمانوں میں اپنا زور پکڑ چکی ہے کہ زکوٰۃرمضان میں نکالنی ہے، بلکہ ہم یہ ماحول بنائیں اور اسی کے مطابق دوسروں کی ذہن سازی کریں کہ زکوٰۃ نکالنے والا اپنی زکوٰۃ کی ادائیگی میں زکوٰۃ کے واجب ہونے کے وقت کا خیال رکھتے ہوئے اس کے وقت پر زکوٰۃ نکالے ،اور اس کے لئے رمضان کا انتظار نہ کرے۔
زکوٰۃکے لغوی معنیٰ پاکی اور بڑھنے کے ہیں، اور شریعت کی اصطلاح میں ”مخصوص مال میں مخصوص افراد کے لیے مال کی ایک متعین مقدار “کو زکوۃ کہتے ہیں۔اس کو زکوٰۃکہنے کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان مال کے ساتھ مشغول ہوتا ہے، تو اس کا دل مال کی طرف مائل ہو جاتا ہےاورمال کے ساتھ اس مشغولیت کی وجہ سے انسان کئی روحانی و اخلاقی بیماریوں اور گناہوں میں مبتلاہو جاتا ہے، مثلا: مال کی بے جا محبت، حرص اور بخل و غیرہ۔ان گناہوں سے حفاظت اور نفس و مال کی پاکی کے لئے زکوٰۃ و صدقات کو مقرر کیا گیا ہے، اس کے علاوہ زکوٰۃ سے مال میں ظاہری یا معنوی بڑھوتری اور برکت بھی ہوتی ہے۔زکوۃ اسلام کا ایک اہم ترین فریضہ ہے ، اس کی فرضیت شریعت کے قطعی دلائل سے ثابت ہے، جن کا انکار کرنا کفر ہے ، ایسا شخص دائرہ اسلام سے اسی طرح خارج ہو جاتا ہے جیسے نماز کا انکار کرنے والاشخص اسلام سے نکل جاتا ہے۔زکوٰۃ اللہ رب العزت کی جانب سے جاری کردہ وجوبی حکم ہے، جس کا پورا کرنا ہرصاحب نصاب مسلم پر ضروری ہے، اس فریضہ کے سرانجام دینے پر انعامات کا ملنا سو فیصد اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، کیونکہ اس فریضے کی ادائیگی تو ہم پر لازم تھی ، اس کے پورا کرنے پر شاباش ملنا اور پھر اس پر بھی مستزاد ،انعام کا ملنا (اور پھر انعام، دنیوی بھی اوراُخروی بھی )دوسرے لفظوں میں سمجھیے کہ مسلمان ہونے کے ناطے اس حکم کا پورا کرنا ہر حال میں لازم تھا، چاہے کوئی حوصلہ افزائی کرے یا نہ کرے،کوئی انعام دے یا نہ دے، لیکن اس کے باوجود کوئی اس پر انعام بھی دے تو پھر کیا ہی کہنے! اور انعام بھی ایسے کہ جن کے ہم بہر صورت محتاج ہیں،ہماری دنیوی و اُخروی بہت بڑی ضرورت ان انعامات سے وابستہ ہے، ذیل میں چند انعامات کا صرف اشارہ نقل کیا جارہا ہے،
٭… زکوٰۃ کی وجہ سے اجر و ثواب سات سو گنا بڑھ جاتا ہے۔٭… زکوٰۃ کی وجہ سے ملنے والا اجر کبھی ختم ہونے والا نہیں، ہمیشہ باقی رہے گا۔(الفاطر: 29،30)
٭… اللہ تعالیٰ کی رحمت ایسے افراد(زکوٰۃ ادا کرنے والوں)کا مقدر بن جاتی ہے۔(الأعراف:156)٭… کامیاب ہونے والوں کی جو صفات قرآن ِ پاک میں گنوائی گئی ہیں، ان میں ایک صفت زکوۃکی ادائیگی بھی ہے۔(الموٴمنین:4)٭… زکوٰۃ ادا کرنا ایمان کی دلیل اور علامت ہے۔(سنن ابن ماجہ)٭…ایک حدیث شریف میں جنت کے داخلے کے پانچ اعمال گنوائے گئے ہیں، جن میں سے ایک زکوٰۃکی ادائیگی بھی ہے۔ (سنن أبی داوود)٭… انسان کے مال کی پاکی کا ذریعہ زکوٰۃ ہے۔ (مسند أحمد)
اوپر جو فضائل ذکر کئے گئے ہیں وہ ہر قسم کی زکوۃ سے متعلق ہیں ، چاہے وہ” زکوٰۃ “سونے چاندی کی ہو ، یا تجارتی سامان کی ،عشر ہو یا جانوروں کی۔فریضہ زکوٰۃ کی ادائیگی پر جہاں من جانب اللہ انعامات و فوائد ہیں وہاں اس فریضہ کی ادائیگی میں غفلت برتنے والے کے لئے قرآن ِ پاک اور احادیث ِ مبارکہ میں وعیدیں بھی وارد ہوئیں ہیں ، اور دنیا و آخرت میں ایسے شخص کے اوپر آنے والے وبال کا ذکر بکثرت کیا گیا ہے، ذیل میں ان میں سے کچھ ذکر کئے جاتے ہیں:٭… جو لوگ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے اُن کے مال کو جہنم کی آگ میں گرم کر کے اِس سے اُن کی پیشانیوں، پہلووٴں اور پیٹھوں کو داغاجائے گا۔(سورۃ توبہ: 34، 35)٭… ایسے شخص کے مال کو طوق بنا کے اُس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔(سورۃ آل عمران: 180)٭… ایسا مال آخرت میں اُس کے کسی کام نہ آ سکے گا۔ (سورۃ البقرۃ: 254)٭…ایسے شخص کا مال قیامت والے دن ایسے زہریلے ناگ کی شکل میں آئے گا ،جس کے سر کے بال جھڑ چکے ہوں گے ، اور اس کی آنکھوں کے اوپر دو سفید نقطے ہوں گے،پھر وہ سانپ اُس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا، پھر وہ اس کی دونوں باچھیں پکڑے گا(اور کاٹے گا) اور کہے گا کہ میں تیرا وہ مال ہوں ، میں تیرا جمع کیاہوا خزانہ ہوں۔(صحیح البخاري ، کتاب الزکوٰۃ، باب إثم مانع الزکوٰۃ)٭… مرتے وقت ایسا شخص زکوٰۃ ادا کرنے کی تمنا کرے گا لیکن اس کے لئے سوائے حسرت کے اور کچھ نہ ہو گا۔(سورۃالمنافقون: 10۔صحیح البخاری، کتاب الزکوٰۃ،)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” کہ میں تین چیزوں پر قسم اٹھاتا ہوں اور تمہیں ایک اہم خاص بات بتاتا ہوں، تم اسے یاد رکھنا۔ارشاد فرمایا :کہ کسی بندے کا مال زکوٰۃ (و صدقہ ) سے کم نہیں ہوتا، جس بندے پر بھی ظلم کیا جاتا ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے، تو اللہ تعالی اس کی عزت میں اضافہ فرماتے ہیں۔اور جو بندہ بھی سوال کا دروازہ کھولتا ہے تو اللہ تعالی اس پر فقر اور تنگ دستی کا دروازہ کھول دیتے ہیں“، یا ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کا کوئی جملہ ارشاد فرمایا“۔اور میںمحمد!( صلی الله علیہ وسلم) تمہیں ایک اور خاص بات بتاتا ہوں، سو تم اسے یاد رکھنا، ارشاد فرمایا: ”دنیا تو چار قسم کے افراد کے لیے ہے:
ایک اس بندے کے لیے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال اور دین کا علم ،دونوں نعمتیں عطا فرمائیں، تو وہ اس معاملہ میں اپنے رب سے ڈرتاہے(اس طرح کہ اس مال کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں استعمال نہیں کرتا اور علمِ دین سے فائدہ اٹھاتا ہے)اور اس علم ِدین اور مال کی روشنی میں رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا ہے اوراس (مال)میں اللہ تعالیٰ کے حق کو پہچانتا ہے۔(مثلاً: مال کو اللہ تعالیٰ کے لیے وقف کرتا ہے، اور دینی علم سے دوسروں کو تبلیغ، تدریس اور افتاء وغیرہ کے ذریعے سے فائدہ پہنچاتا ہے)تو یہ شخص درجات کے اعتبار سے چاروں سے افضل ہے۔
دوسرے اس بندے کے لیے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے علم کی نعمت تو عطا فرمائی لیکن مال عطا نہیں فرمایا، لیکن وہ نیت کا سچا ہے اور کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں فلاں آدمی کی طرح عمل کرتا (جو کہ رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کے حق کو سمجھ کر عمل کرتا ہے) تو یہ شخص اپنی نیت کے مطابق صلہ پاتاہے اور اس شخص کا اور اس سے پہلے شخص کا ثواب برابر ہے۔
تیسرے اس بندے کے لیے ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال کی نعمت عطا فرمائی، لیکن علم کی نعمت عطا نہیں فرمائی، تو وہ علم کے بغیر اپنے مال کو خرچ کرنے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا، اور نہ ہی اس مال سے صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس مال میں اللہ تعالیٰ کے حق کو سمجھتاہے، تو درجات میں یہ سب سے بدتر بندہ ہے۔
چوتھے اس بندے کے لیے ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے نہ تو مال کی نعمت عطا فرمائی اور نہ علم کی ، تو وہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی اس مال کے سلسلے میں فلاں بندے کی طرح عمل کرتا (جواپنے مال کے خرچ کرنے میں اللہ سے نہیں ڈرتا اور نہ ہی صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی مال میں اللہ تعالیٰ کے حق کو سمجھتا ہے)سو یہ بندہ اپنی نیت کے مطابق صلہ پاتا ہے پس اسکا گناہ اور وبال اس پہلے شخص کے گناہ اور وبال کے مطابق ہی ہوتا ہے“۔ متعلق مندرجہ بالا مضمون صرف مسئلہ زکوٰۃ سے مناسبت پیدا کرنے کے لیے ہے ، اس کے علاوہ زکوٰۃ کے متعلق مسائل ہوںتواپنے قریبی مستند دارالافتاء سے رابطہ کر کے پوچھ لیے جائیں۔یا درج ذیل نمبر پر رابطہ فرمالیں:03324308070