رزق کسے کہتے ہیں؟

رزق کسے کہتے ہیں؟
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
صرف پیسہ اور مال ہی رزق نہیں لغت میں رزق ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے نفع اٹھایا جائے ۔ اصطلاح شریعت میں رزق ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو الله تعالیٰ کی طرف سے ہر ذی حیات کو نفع اٹھانے کے لیے مہیا ہو جائے، یہ چیز حلال بھی ہو سکتی ہے، حرام بھی، بہر صورت رزق ہی کہلائے گی۔رزق کسے کہتے ہیں؟او مال ودولت ہی رزق نہیں بلکہ قرآن وحدیث کی رو سے درج ذٰیل چیزیں بھی رزق میں داخل ہیں:… ایمان کی دولت٭… نیک اولاد٭… عقل وذہانت اورسمجھداری ۔٭…نیک پڑوسی ٭… صحت عافیت اوراعضاء کی سلامتی٭… نیک بیوی٭… مخلص دوست٭… لوگوں سے اللہ کیلئے محبت
رب کریم کا یہ ہم پر بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان بنایا اور ایک مسلمان گھرانے میں پیدا کیا ،اس دنیا کی سب سے بڑی دولت یہ ہے کہ انسان خود کو ایمان والا بنا لے اور اللہ رب العالمین کو اپنا سب کچھ تسلیم کر لے۔ایمان زبان،دل اور اعضاء و جوارح کو مکمل اللہ کے حوالے کر دینے کا نام ہے، اگر کوئی شخص صرف زبان سے لا الہ الا اللہ کا کلمہ پڑھتا ہے مگر اس کا دل اس کی زبان کی تصدیق نہیں کرتا تو اسے مومن نہیں کہا جائے گا ،کوئی ایسا ہے جو دل سے تو مانتا ہے کہ اسلام سب سے اچھا اور پیارا مذہب ہے اور اس بات کا بھی عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ ہی پوری دنیا کو بنانے والا ہے اور وہی اکیلا عبادت کے لائق ہے لیکن زبان سے اس بات کا اقرار نہیں کرتا ہے تو ایسے شخص کا صرف دل سے تصدیق کرنا بھی اس کے مومن ہونے کے لئے کافی نہیں ہوگا، اسی طرح کوئی ایسا ہے جو زبان اور دل دونوں سےتو مانتا ہے کہ اللہ ایک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہےلیکن عمل کی دنیا میں وہ زبان اور دل کے خلاف جاتا ہے اور عمل کرتا ہی نہیں ہے تو ایسے شخص کا ایمان بھی خطرے میں ہےیہاں تک کہ وہ عمل کرنے لگے۔اور ایمان ایسی چیز ہے جس میں کمی و زیادتی ہوتی رہتی ہے، صاحب ایمان شخص جب اللہ کی اطاعت کرے گااور اس کی مرضی کے مطابق چلے گا تواس کے ایمان میں اضافہ ہوگا بصورت دیگر اس کے ایمان میں کمی واقع ہو جائے گی۔ایمان اس دنیا کی سب سے بڑی دولت ہے ،یہ دولت جس کے پاس ہوگی وہ آخرت میں کامیاب ہوگا اور جنت اسے ملے گی،بصورت دیگر بندہ ناکام و نامراد ہوگا اور بدلے میں اسے جہنم کے حوالے کر دیا جائے گا،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ صحابہ ء کرام کو شیطان سے بچانے کی فکر کیا کرتے تھےاور انہیں ہمہ وقت اس بات کی نصیحت کرتے تھے کہ اپنا ایمان باقی رکھو،اللہ کے ساتھ شرک نہ کرو،شیطان کی پیروی اور اطاعت سے خود کو بچاؤ اور ایک مرتبہ تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو بہت ساری باتوں کی نصیحت کی اور نصیحت کرتے ہوئےسب سے پہلی بات یہ ذکر کی ،فرمایا : لا تشرک باللہ شیئا وان قتلت و حرقت (مسند احمد : ج 36، ص 392 ، ح 22075 )
اللہ کے فضل و کرم سے اگر آپ کے پاس ایمان کی دولت ہے تو آپ اس پر رب کا شکر ادا کریں اور اپنے ایمان کو ہر طرح کی غلاظت و گندگی سے بچانے کی فکر کرتے رہیں، اس زعم باطل میں ہر گز نہ رہیں کہ میرا ایمان بہت مضبوط ہے اور میں فلاں مسلک و جماعت کا ماننے والاہوں لہذا شیطان کا زور مجھ پر نہیں چل سکتا اور میرے ایمان پر آنچ نہیں آ سکتی بلکہ اپنے ایمان کی سلامتی کے لئے مسلسل اللہ سے دعائیں مانگتے رہیں،دیکھیں نبی اکرم ﷺسے زیادہ ہدایت یافتہ اور مضبوط ایمان والاکوئی نہیں ہو سکتا ہے اس کے باوجود آپ ﷺ ہمیشہ اللہ سے ہدایت اور تقوی کا سوال کرتے تھے ،نبی اکرم کے تعلق سے حدیثیں بتلاتی ہیں کہ آپ کثرت سے اللہ سے ایک دعا مانگتے تھے ،وہ دعا یہ ہے :
اللھم انی اسالک الھدی والتقی والعفاف والغنی (صحیح مسلم:2721)اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت،تقوی،پاکدامنی اور بے نیازی کا سوال کرتا ہوں ۔
اس لئے ایک صاحب ایمان کو ہمیشہ اپنے ایمان کے تعلق سے فکر مند ہونا چاہیے کہ شیطان کب ایمان پر ڈاکہ ڈال دے کسی کو نہیں معلوم ہے، اگر ایمان لانے کے بعد ایمان سالم ہی رہ جاتا تو کبھی انبیاء ایمان کی سلامتی کی دعا مانگتے اور نہ ہی اللہ ہمیں اس تعلق سے متنبہ کرتے۔آپ مومن ہیں تو اس عظیم نعمت پر اللہ کا شکر ادا کریں اور اپنے ایمان کو بچانے کی ہر ممکن تدبیر اختیار کریں تاکہ کل قیامت کے دن اس ایمان کا بدلہ جنت کی صورت میں آپ کے ہاتھ لگ جائے۔اورایمان کی دولت نصیب ہوجانے پرانسان پر دو ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں، ایک یہ ہے کہ انسان کا تعلق اپنے خالق حقیقی کے ساتھ اتنا مخلصانہ ہو کہ اس کا ہر عمل اسی کیلیے ہو،خواہ نماز ہویا روزہ،زکوٰۃہو یا حج وغیرہ۔ اگر ان اعمال میں اخلاص ہوگا تو پھر یہ اعمال صالحہ بن جائیں گے جو آدمی صالح اعمال اللہ رب العزت کی رضاء کیلیے کرتا ہے تو وہ صالح مسلمان ہے اور پھر وہ اللہ رب العزت کا محبوب بھی بن جاتا ہےیوں تو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بے شمار نعمتیں ہیں، لیکن جو سب سے بڑی نعمت ہمیں عطا ہوئی ہے وہ ’’ایمان‘‘ ہے۔ اس نعمت پر ہماری نظر اس لئے نہیں جاتی کہ ہم مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں، اس لئے ازخود یہ نعمت ہمیں حاصل ہو گئی، جس کے سامنے دنیا کی ساری نعمتیں ہیچ ہیں، اس نعمت پر ہم اللہ تعالی کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ ہر وقت اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہئے کہ جب تک دنیا کے اندر زندہ رکھے اسلام اور ایمان پر زندہ رکھے،موت آئے تو اسلام اور ایمان پر آئے۔آمین

نیک اولاد:
خوش قسمت ہوتے ہیں ایسے والدین جن کی نیک اولاد زندگی میں ان کی خدمت اور دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کے لیے بخشش کی دعائیں کرتی اور کرواتی ہیں کیوں کہ نیک اولاد بھی اﷲ تعالیٰ کی خاص نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔اولاد نیک ہو تو آنکھوں کی ٹھنڈک کا سبب بنتی ہے ، ان کی نیکیوں کا صلہ والدین کو دنیا میں نیک شہرت اور وفات کے بعد صدقۂ جاریہ کی شکل میں ملتا ہےاولاد انسان کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہوتی ہے۔ ہر مومن و مسلمان نیک اولاد کے لئے دعائیں کرتا رہتا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام نے یہ دعاء فرما :’’اے میرے رب ! مجھے نیک اولاد عطا کر۔‘‘( الصافات 100 ) ۔
بچے والدین کے لئے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت اورامانت ہوتے ہیں۔ یہ فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتے ہیں، انہیں مومن یا کافر اور نیکو کار یا بدکار بنانے میں سب سے بڑا کردار والدین کا ہوتا ہے اسی لئے نبی اکرم نے ارشاد فرمایا :’’ہر بچہ فطرتِ (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے ، اسکے والدین اسے یہودی ، نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ ‘‘(ابو داؤد)۔
اس حدیث میں بچوں کو ایسا کورا کاغذ بتایا گیا ہے کہ جس پر جو نقش ڈالا جائے وہ ثبت ہوجاتا ہے۔ اب یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کیلئے کونسا رُخ اختیار کرتے ہیں؟ ان کی صحیح اسلامی تربیت کی جائے تو پھر ان سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے رب کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کے بھی فرمانبردار ہوں گے۔
تربیت کا مفہوم عام لوگوں نے صرف یہی سمجھ رکھا ہے کہ بچوں کی جسمانی تندرستی کی طرف توجہ دی جائے، انہیں اچھی غذا اور اعلیٰ رہائش مہیا کی جائے اور انہیں اعلیٰ عصری تعلیم کے زیور سے مزین کیا جائے جبکہ اس کا نتیجہ اکثر وہ نہیں نکلتا جو نکلنا چاہئے بلکہ بکثرت اولاد اپنے والدین کی جانب لاپرواہی، نافرمانی، انحراف اور بد سلوکی کا شکار ہوجاتے ہیں، یہ ایک تکلیف دہ صورتِ حال ہوجاتی ہے ۔ بعض والدین اپنی تمام تر قربانیوں کے باوجود اپنی اولاد کی صحیح اسلامی و اخلاقی تربیت کے معاملے میں ڈھیل سے کام لیتے ہیں جسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنے والدین کو نظر انداز ہی کردیتے ہیں۔یہ مکروہ و ناپسندیدہ نتائج ہمیں اپنی اولاد کی صحیح اسلامی اور اخلاقی تربیت کے معاملے میں غفلت و کوتاہی کی وجہ سے دیکھنے پڑتے ہیں۔اگر والدین اپنی اولاد کی اچھی طرح تربیت کریں گے اور اولاد کو نیکوکار بنائیں گے تو اس پر والدین کو دنیا و آخرت کے بہت سارے فائدے حاصل ہوں گے ۔اپنی اولاد کی نیک تربیت کریں تاکہ نیک اولاد کے نیک اعمال کے فائدے آپ کو پہنچتے رہیں اور آپ نجات پاسکیں ۔
عقل وذہانت اورسمجھداری :
لفظ عقل جسے ہم عقل عام Common Sense یا انسانی ذہانت بھی کہہ سکتے ہیں، خود قرآن شریف کا لفظ ہے۔ یہ لفظ جو کتاب اللہ میں تقریباً اُنتالیس مرتبہ استعمال ہوا ہے اور رب العالمین نے تواتر کے ساتھ تمام انسانیت کو اپنی کتاب میں عقل کے استعمال کی دعوت بھی دی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ رب تعالیٰ کو اپنے وہ بندے مطلق پسند نہیں جو عقل کے استعمال سے گریز کرتے ہیں۔ عقل و شعور اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے جو انسان و حیوان کے درمیان فرق کرتی ہے۔یعنی انسان چرند و پرند، حیوان و جمادات و نباتات سے افضل اور ممتاز حیثیت رکھتا ہے تو اس کی وجہ یہی عقل ہے۔ اسی کے ذریعے سے انسان بڑے چھوٹے ،صحیح و غلط اور اچھے برے کی تمیز کرتا ہے ۔اسی عقل کی بنیاد پر انسان کوشرعی احکام کا مکلف بنایاگیا ہے کہ شرعی احکام میں جس طرح انسان مکلف ہیں ، اگر انسان کی بھی عقل زائل ہوجائے تو وہ بھی شرعی احکامات کا مکلف نہیں رہتا ،جیسا کہ جنون ،غشی ،بے ہوشی وغیرہ کی وجہ سےکسی کی عقل زائل ہوجائے تو وہ شرعی مکلف نہیں رہتا یعنی اس سے نماز وغیرہ کی فرضیت زائل ہوجاتی ہے ۔بہرحال عقل و شعور انسانی تخلیق ایک اہم عنصر ہے۔انسان کے دماغ کو اس کے خالق نے ایک انتہائی بیش قیمت نعمت سے سرفراز کیا ہے جسے عرفِ عام میں ذہانت کہتے ہیں،عقل ایک ایسا ملکہ ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کائنات کی دیگر مخلوقات کے مقابلہ میں امتیاز عطا کیا ہے ، اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ خاص تحفہ عطا کیا ہے، اسلام نے اس کی حفاظت کا اہتمام کیا ہے اور زندگی کے ہر شعبے اور ہر موقعے پراس کی قدرکرنے،اس کے صحیح استعمال کرنے اور اس کو نفع بخش امور میں صرف کرنے پرزوردیاہے ، اگرانسان اپنی عقل و شعور کومحفوظ رکھتاہے ،تواس طرح خود انسان مختلف نقصانات اور مضرتوں سے محفوظ رہ سکتاہے ، قابلِ احترام چیزوں کو محفوظ رکھا جا سکتاہے ، عبادات اور تمام دینی ،معاشرتی و خاندانی ذمہ داریوں کو ادا کیا جا سکتاہے اور معاشرہ ترقی اور بلندی کی منزلیں طے کر سکتاہے ۔ ۔ ہرانسان کو اچھائی اور برائی،نیکی اور بدی، سیاہ اورسفید، سچ اور جھوٹ،حق اور باطل،اندھیرے اوراُجالے میں تمیز کرنے کی فطری صلاحیت بخشی گئی جس کی کرنیں اِسی دماغ سے پھوٹتی ہیں۔وہ انسان جو اپنی نظروں کے سامنے آراستہ منظر کی ہر روشن شئے پرغورو فکر کرتے رہتے ہیں،جنہیں حا لات کا تجزیہ کرکے اپنے لیے ایک لائحہ عمل یا line of Actionمتعین و مرتّب کرنے ، اِسے ایک رخ دینے اور اپنی تیز گامی یا سست گامی کے مابین ایک اعتدال بر قرار رکھنے کا سلیقہ ہوتا ہے۔نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ایسی بہترین عقل جو انسان کی راہِ صواب کی جانب رہنمائی کرے اور ہلاکت وبرائی سے اس کو روک دے، اس سے بہتر کوئی اور چیز اس کو نہیں ملی ، اور کسی بندے کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا ہے ، نہ ہی اس کا دین درست ہو سکتا ہے جب تک کہ اس کی عقل مکمل نہ ہو‘‘۔
اسی طرح بصیرت اور عقل جیسی قدرتی نعمتوں کے استعمال کی ترغیب و تاکید کتاب اللہ میں ہمیں بار بار ملتی ہے اور ان کے صحیح استعمال کے سلسلے میں کی جانے والی لاپرواہی پر رب تعالیٰ کی ناراضی بھی ہمارے سامنے ہے۔ اپنی شخصیت کے نکھار کے لئے، اپنی ذات کی تعمیر کے لئے ایک نسخہ، ذہانت کی شکل میں سارے انسانوں کو دیاگیا ہے۔ ہر شخص اپنی عقل کی صلاحیت کا، عقل عام کا اور ذہانت کا بھرپور استعمال کرے۔ عقل کے استعمال کے ساتھ اللہ کی کتاب اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا اسوہٴ حسنہ اور کردار سامنے ہوتو نہ صرف ہماری یہ دنیا کردار کے حسن وجمال سے آراستہ ہوجائے گی بلکہ دنیا کے ساتھ ساتھ، ہماری آخرت بھی سنورجائے گی۔عقل اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک نہایت ہی عظیم اور بے مثال نعمت ہے،اس کی قدرہمیں زندگی کے ہر شعبے میں اور ہر موڑ پر کرنی چاہیے اور اس سلسلے میں ہمیں قرآنِ مقدس احادیثِ نبویہ سے ہدایت حاصل کرکے اپنی عملی زندگی کواِس دنیامیں بھی کامیاب بنانے کی فکر کرنی چاہیے اور آخرت کے لیے بھی کامیاب بنانا چاہیے۔
نیک پڑوسی:
سیدنا نافع بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(کسی) مسلمان کی نیک بختی میں سے (یہ بھی ہے کہ اسے) کھلا گھر، نیک پڑوسی اور آرام دہ سواری میسر آ جائے۔“(البیہقی 1022)حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ علیہ کے پڑوس میں ایک یہودی رہتا تھا یہودی نے اپنا مکان فروخت کرنا چاہا ایک آدمی نے پوچھا کتنے میں فروخت کروگے کہنے لگا کہ میں دو ہزار دینار میں فروخت کروں گا اس خریدار نے کہا کہ اس علاقے میں اس قسم کے مکان کی قیمت زیادہ سے زیادہ ایک ہزار دینار ہوتی ہے، یہودی کہنے لگا کہ ہاں ٹھیک ہے ایک ہزار دینار تو میرے مکان کی قیمت ہے اور ایک ہزار دینار عبداللہ بن مبارک کے پڑوس کی قیمت ہے ایک وقت تھا کہ مسلمانوں کے پڑوس میں جو مکان ہوتے تھے ان مکان کی قیمتیں ان کے اخلاق وکرار کی خوبیوں کی وجہ سے بڑھ جایا کرتی تھیں اور آج یہ وقت آچکاہے کہ یورپ کے بعض علاقوں میں مسلمان مکان لینے جاتے ہیں تو انھیں کوئی مکان کرایہ پر بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
ابوحمزہ ” کی باتیں بڑی شیریں اور ان کا لہجہ اور ان کا انداز گفتگو بڑا ہی دلکش دلنشیں تھا جب وہ بات کرتے تو سننے والا ان کی باتوں میں محو ہوجاتا وہ شہر بغداد کے ایک محلے میں رہتے تھے کچھ عرصہ بعد انھوں نے اپنا مکان فروخت کرکے کسی دوسرے محلے میں سکونت اختیار کرنے کا ارادہ کیا اور مکان خریدنے والے سے معاملہ بھی تقریباً طے ہوگیا تھا جب ان کے پڑوسیوں کو معلوم ہوا کہ وہ اس محلے سے منتقل ہوکر کہیں اور قیام کا ارادہ کرچکے ہیں تو محلے والے ایک وفد لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے منت وسماجت کی کہ وہ یہ محلہ نہ چھوڑیں حضرت ابوحمزہ سکری نے اپنا عذر بیان کیا تو محلہ والوں نے متفقہ طور پر انھیں یہ پیش کش کی کہ ان کے مکان کی جو قیمت لگی ہے ہم وہ قیمت آپ کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کرتے ہیں لیکن آپ ہمیں اپنے پڑوس سے محروم نہ کیجیے جب انھوں نے محلہ والوں کے اس قدر خلوص کا مظاہر کیا تو اس محلے کے چھوڑنے کا ارادہ ملتوی کردیا۔
یہ ہے پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت اوران کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا نتیجہ وثمرہ کہ ایسے پڑوسی کی وجہ سے مکان کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے یا پھر مکان کی قیمت کے بقدر ہدیہ پیش کرکے ایسے پڑوسی کو کوچ کرنے سے روکا جاتا ہے اور ایسے پڑوسی کے چلے جانے سے اپنے آپ کو محروم تصور کیا جاتا ہے۔
اسلام حسین و خوشگوار ماحول اور الفت بھرے معاشرے کو نہ صرف یہ کہ پسند کرتا ہے بلکہ جابجا اس کی تعلیم و تاکید کرتا ہے ظاہر ہے کہ ہر شخص کے لیے معاشرے کا پہلا فرد اس کا پڑوسی ہے جب ہر پڑوسی دوسرے پڑوسی کا ہر طرح خیال رکھے گا اس کے رنج وغم کے موقع پر اس کا مداویٰ اور مشقت، تکلیف و پریشانی کے وقت نصرت وحمایت، اورامداد کے لیے کھڑا رہے گا تو خود بخود اطمینان وسکون کی فضاء قائم ہوگی اور دین کا مقصد اجتماعیت کی صورت میں نمودار ہوگا اور امت کا ہر فرد اسلام کے سایہ تلے سکون کی زندگی گزارسکے گا۔
صحت عافیت اوراعضاء کی سلامتی:
ایمان کے بعد صحت خدا کی عظیم نعمت ہے۔ اس نعمت سے لاپروائی برتنا مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی امانت ہے۔ لہٰذا اس امانت کی حفاظت کرنا ہر مسلمان کیلئے اس کے ذاتی فائدے کے علاوہ اس کا دینی فریضہ بھی بنتا ہے۔ صحت کے بارے میںلاپرواہی ایک لحاظ سے امانت میں خیانت کے مترادف ہوگی۔کیونکہ صحت وتندرستی اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ بیش بہا نعمتوں میں سے ایک ہے، اس عظیم نعمت کا صحیح احساس انہی لوگوں کو ہو سکتا ہے جو اس سے محروم کر دیئے گئے ہیں، اسی لئے کہا گیا ہے کہ صحت صحتمند لوگوں کے سروں پر سجاوہ تاج ہے جسے صرف بیمارہی دیکھ سکتا ہے، نبی کریمﷺ نے صحیح بخاری کی ایک روایت میں صحت کے لئے نعمت کا لفظ استعمال کرتے ہوئے فرمایا: ’’دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے سلسلے میں بہت سے لوگ دھوکا اٹھا تے ہیں، ایک صحت اور دوسری فراغت‘‘(صحیح بخاری: 6412)
اس لئے صحت کی قدر اور اس کی حفاظت ایک مسلمان کا فرض ہے۔ کسی نے بہت پیاری مثال دی کہ ”جس طرح حقیر دیمک بڑے بڑے کتب خانوں کو چاٹ کر تباہ کرڈالتی ہے، اسی طرح صحت کے معاملے میں معمولی سی غفلت بھی حقیر سی بیماری کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔“ یہی حقیر سی بیماری لاپروائی کے نتیجے میں سنگین اور مہلک صورت حال اختیار کرلیتی ہے۔انسانی صحت کے تقاضوں سے غفلت برتنا اور اس کی حفاظت میں کوتاہی کرنا بے حسی بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناشکری بھی۔
صحت کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے سب سے بنیادی چیز اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرناہے کہ اس نے ہمیں مکمل صحت یابی سے نوازا ہے۔ اس پراللہ کریم کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو اپنے گھروں اور اسپتالوں میں کیسی کیسی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ بس جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔ اسی میں عافیت ہے اور عافیت میں صحت ہے۔ دوسری چیز ہے سحر خیزی، اس کی عادت ڈالیں۔ خود بھی صبح جلد اٹھیں، رات جلد سوئیں اور بچوں کو بھی جلد سونے اور جلد اٹھنے کی عادت ڈالیں۔ آج کل اس کے بالکل برعکس ہورہا ہے۔ والدین اوربچے ساری ساری رات انٹرنیٹ، موبائل فون اور کیبل میں گزار دیتے ہیں اور دن ڈھلے تک سوتے رہتے ہیں۔ یہ صحت کے لیے بہت مضر ہے۔رات کی نیند کا کوئی نعم البدل نہیں۔ آپ سارا دن بھی سو لیں گے تو وہ رات کی نیند پوری نہیں کرے گا۔دین اور دنیاکی بہت سی نعمتوں کا حصول اوران سے استفادہ صحت وعافیت ہی کی نعمت پر موقوف ہے، صحت مند جسم ہی صحت مند اور تندرست عقل و دماغ کا حامل ہو سکتا ہے بنابریں حسن تدبیر، بلند فکراور مضبوط قوت ارادی وغیرہ جیسی عمدہ اور اعلی صفات سے بہرہ ور ہونا صحت وعافیت کی نعمت کے ساتھ ہی ممکن ہے۔عافیت کا مطلب مکمل صحت ہے۔ اور اس کی مختلف قسمیں ہیں۔ دین کے معاملے میں عافیت سے مراد گناہوں اور بدعات جیسے اُمور سے بچنا اور اطاعت میں کاہلی سے چھٹکارا ہے۔ دنیا کے معاملے میں عافیت سے مراد اس کے شر اور مصائب سے اللہ کی پناہ میں آنا ہے۔ خاندان کے معاملے میں عافیت سے مراد مرض و بیماری اور گناہوں کی زیادتی سے سلامتی ہے- جب کہ مالی عافیت سے مراد نت نئی مالی آفتوں سے بچنا ہے۔اورعافیت کا راستہ صرف اللہ عزوجل سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے جو صرف اطاعت کے راستے پر چل کر ہی مل سکتا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دن رات اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے کوئی دن اور رات ایسی نہیں دیکھی جب رسولؐ اللہ یہ کلمات نہ ادا کرتے ہوں:
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِیْ دِیْنِیْ وَ دُنْیَایَ وَ أَہْلِیْ وَ مَالِیْ، اَللّٰہُمَّ اسْتُرْ عَوْرَتِیْ، وَٰامِنْ رَوْعَتِیْ، اَللّٰہُمَّ احْفَظْنِیْ مِنْ بَیْنِ یَدَیَّ وَمِنْ خَلْفِیْ، وَعَنْ یَّمِیْنِیْ وَعَنْ شِمَالِیْ، وَمِنْ فَوْقِیْ، وَأَعُوْذُ بِعَظَمَتِکَ اَنْ اُغْتَالَ مِنْ تَحْتِیْ۔(عن عمرؓ، ابوداؤد، ابن ماجہ، نسائی)
”اے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں، معافی اور عافیت اپنے دین میں اور اپنی دُنیا میں، اور اپنے اہل اور مال میں۔ اے اللہ! میرا عیب ڈھانپ دے اور خوف کو امن سے بدل دے۔ اے اللہ! میری حفاظت کر، میرے آگے سے اور پیچھے سے اور میرے داہنے سے اور میرے بائیں سے اور میرے اُوپر سے، اور مَیں تیری عظمت کے واسطے سے پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ ناگہاں اپنے نیچے سے پکڑ لیا جاؤں۔“
نیک بیوی:
نیک بیوی اللہ تعالی کی بہت ہی بڑی نعمت ہے، مرد کے لیے بیوی قدرت کا سب سے زیادہ قیمتی عطیہ ہے،جو انس و محبت اور غم خواری کے لیے بھیجا گیا ہے،ا س بات میں کوشک نہیں، کہ دنیا کی تمام چیزیں انسان کے لئے سرمایۂ حیات ہیں، وہ نفع مند اور فائدے سے خالی نہیں اور انعامات الہٰیہ کا شمار بھی ممکن نہیں، لیکن ان تمام چیزوں میں اللہ نے انسان کے لئے جو بہترین سرمایہ پیدا کیا ہے، وہ ایک نیک سیرت ، پاکدامن ، اعلیٰ اخلاق وکردار کی حامل فرمانبردار بیوی ہے، جسے اسلام نے بہترین بیوی قرار دیا ہےدن بھر خون پسینہ ایک کرنے کے بعد ایک تھکا ہوا شخص جب شام کو گھر لوٹتا ہے تو ایک وفا شعار، سمجھدار، خوش مزاج اور شیریں زبان بیوی اپنی مسکراہٹ سے اس کا استقبال کرکے اس کی ساری تھکاوٹ اور غموں کو دور کردیتی ہے۔
خاتم النبیینﷺ کے دور میں ایک صحابیؓ جوروزانہ محنت کر کے روزی حاصل کرتے اور اپنے گھر کی کفالت کرتے تھے،ایک دن وہ مزدوری کی تلاش میں گئےلیکن مزدوری نہیں ملی، پریشان ہو کر گھر لوٹے، گھرمیں کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا،چنانچہ میاں بیوی دونوں بھوکے پیٹ سو گئے، دوسرے دن پھروہ معاش کی تلاش میں گئے، اس دن بھی مزدوری نہیں ملی، پریشان ہو کرآئے، اور پھردودن کے بھوکے میاں بیوی اسی طرح سو گئے۔ان کی بیوی بڑی صبر کرنے والی تھی اس نے کوئی شکایت نہیں کی ،نہ کوئی طعنہ دیا، بلکہ شوہر کی ہمت بندھائی کہ روزی ﷲ کے ہاتھ میں ہے،ﷲ چاہےگا تو ضرور ملے گی،ہوسکتا ہےﷲ تعالیٰ ہمیں آزمارہاہو،تیسرے دن شوہر جب مزدوری کی تلاش میں گھر سے نکلنے لگے تو بیوی نے گھر کے دروازے تک آکررخصت کیا ،جیسا کہ سنت ہے کہ بیوی شوہر کوگھر کے دروازے تک آ کررخصت کرے۔یہ صحابی روانہ ہونے والے تھے کہ بیوی نے آواز دی ،یہ واپس آئے تو اسﷲ کی بندی نےعجیب بات کہی، اس نے کہا کہ ہم دو دن سے فاقے سے ہیں، آپ دو نوں دن گئے، مزدوری تلاش کی لیکنﷲ کی مرضی ،مزدوری نہیں ملی، آج آپ پھر جا رہے ہیں، ہو سکتا ہے کہ آج پھر آپ کومزدوری نہ ملے تو مجھے یہ اطمینان تو ہے کہ آپ اپنی ذات کے لیے کبھی کوئی غلط قدم نہیں اٹھائیں گے،لیکن ہوسکتاہے کہ میری محبت میں مجبور ہو کر کوئی حرام لقمہ گھر لے کرآجائیں، توآپ کوﷲ کی قسم ہے کہ آپ میری محبت میں ہرگز ایسا نہ کریں کہ کوئی حرام لقمہ گھر لے کر آ جائیں۔ہم تیسرے دن بھی بھوکے پیٹ سوجائیں گے،لیکن حرام کا لقمہ نہیں کھائیں گے۔ذراتصور کیجئے اس صحابیہ کاکیسا ایمان تھااوران کے کیسے جذبات واحساس تھے !آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دنیا ایک بازار کی طرح ہے، اوراس بازا ر کابہترین سامان نیک عورت ہے۔یقینا خوش نصیب ہیں وہ افراد جن کی بیویاں نیک صالح ہوں ،جو نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں اپنے شوہروں کی مد د کرنے والی ہوں اور گناہ کے کاموں سے ان کوروکنے والی ہوں۔اس واقعہ سے سبق یہ ملتا ہے کہ خواتین اگر چاہیں تووہ اپنے شوہروں کی اصلاح اوران کے کاموں کی درستگی میں کلیدی کرداراداکر سکتی ہیں۔آج ہمارے بہت سارےمسلمان بھائی جو بے روزگار ہوتے ہیں بعض مرتبہ وہ اپنی بیویوں کے طعن وتشنیع سے بچنے کے لیے حرام اور ناجائز کاروبار اختیار کر لیتے ہیں ،اگرہماری مائیں اور بہنیں مشکل حالات میں صبر وقناعت اختیار کریں اورشکوہ وشکایت کرنے کے بجائے اپنے شوہروں کی ہمت بندھائیں اور ان سے صاف صاف یہ کہہ دیں کہ ’’ہم فقروفاقہ تو کر سکتے ہیں لیکن حرام لقمہ اپنے اور اپنےبچوں کے پیٹ میں نہیں اتار سکتے‘‘تو عجب نہیں کہ ان کے شوہر غلط راہ پرچلنے سے رک جائیں۔الغرض! اسلام نے وہ بیوی جو شوہر کی فرمانبردار ، پاکدامن ، اعلی اخلاق کی حامل اور دین کے امور میں اپنے شوہر کی معاون و مدد گار ثابت ہواسے بہترین بیوی ہونے کا مقام دیا ہے۔آدمی کا سکون اورراحت عورت کے وجود سے ہے خصوصا اگر عورت مہربان اور با وفا ہوکیونکہ نیک،مہربان اور پاکدامن بیوی دنیا کی تمام نعمتوں میں سے بہترین نعمت ہے اور ایسی خاتون اسلام کے نقطۂ نظر میں بہترین بیوی کا درجہ رکھتی ہے۔دعا ہے اللہ تعالی ہر عورت کو اپنے شوہر کے لیے سچی راحت، حقیقی محبت اور دلی سکون کا ذریعہ بنائے۔(آمین)
مخلص دوست:
خاتم النبیین رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نےا رشاد فرمایا: ’’ انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، دوستی قائم کرنے سے پہلے تمہیں دیکھ لینا چاہیے کہ تم کس سے دوستی کر رہے ہو۔‘‘ ( مسندِ احمد)اور کسی شاعر نے کہا ہے کہ:زندہ رہنے کے بہانے ڈھونڈیں۔آؤ کچھ دوست پرانے ڈھونڈیں
دوست بہت عظیم ہوتے ہیں اگر دوست مخلص ہوں تو دنیا میں کوئی بھی انسان تکلیف میں نہ ہو کیونکہ دوست ہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو دنیا میں ہمارا غم بانٹتے ہیں اور ہمارا مشکل میں ساتھ دیتے ہیں ہمیں حوصلہ دیتے ہیں اور ہر طرح سے مدد کی کوشش کرتے ہیں سچے دوست تو وہ ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کی خاطر جان دے سکتے ہیں۔اگر اس دنیا بھر میں قابل بھروسہ ہے تووہ سچا دوست- سچا دوست وہ واحد ہستی ہے جو کبھی اپنے دوست کو ہار نہیں ماننے دیتا مگر زندگی میں اچھے ُپر خلوص دوست خوش قسمت لوگوں کو ہی ملتے ہیں۔
نیک اور مخلص دوست کسی نعمت سے کم نہیں ، کیونکہ نیک سیرت اور مخلص دوست کے مفید مشوروں، مدد اور معاونت سے زندگی میں آسانیاں اور سہولتیںآجاتی ہیں۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے اطمینانی،ناگواری کی کیفیت، مایوسی، گھریلو رنجشیں، مالی تنگد ستی، فکرمعاش ، افلاس، احساس محرومی اور معاشرتی ناہمواریاں تیزی سے لو گوں میں ذہنی دبائو اور افسردگی کا باعث بن رہی ہیں، ان گھمبیر حالات میں اگر کسی مخلص دوست کی رفاقت میسر ہوتو کٹھن سے کٹھن راستہ بھی آسان معلوم ہوتا ہے ، دوستی زندگی کے مایوس کن لمحوں میں جینے کی امید دیتی ہے۔ بلاشبہ دوستی بھی انسان کے عزیز ترین رشتوں میں سے ایک رشتہ ہے کیو نکہ ہر دورمیں ہر انسان ایک مخلص اور سچا دوست چاہتا ہے، جو باتیں ہم والدین، بھائی بہن سے شیئر نہیں کر سکتے ان کا حل اپنے مخلص دوست سے پوچھ سکتے ہیں۔ وہ تمام خوبیاں جو ہم مختلف رشتوں میں علیحدہ علیحدہ ڈھونڈتے ہیں وہ تمام مخلص دوست میں مل سکتی ہیں اور وہ شخص دنیا میں غریب تصور کیا جاتا ہے جس کے پاس مخلص دوست نہ ہو۔لیکن آج کے اس پُرفتن اور مادہ پرستانہ دور میں دوستیاں بھی خودغرضی، مفاد پرستی، دھوکا دہی، دجل فریب اور احسان فراموشی کا روپ ڈھال چکی ہیں۔ مخلص اور بے لوث دوستوں کا کال پڑا ہوا ہے۔ آج کل دوستیاں سیاسی رنگ میں رنگی ہوئی ہیں۔ اب دوستیاں بعض اوقات مجرموں کے ہاتھ مضبوط کر نے کے لیے بھی کی جاتی ہے جس سے غیر اخلاقی اور غیر قانونی کاموں کے لیے دروازے کھل جا تے ہیں۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق اچھا دوست وہ ہوتا ہے جو اپنے دوست کا سچا خیر خواہ ہو۔ وہ ہمیشہ دوست کی بھلائی اور اس کے سکون و راحت کا ہر مرحلے پر خیال رکھے۔ کوئی ایسا عمل جو دوست کی اخلاقی کج روی یا قانون شکنی کا باعث بنتی ہو ، تو پیار و محبت اور حکمت کے ساتھ اس کے عمل کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے بر وقت دوست کو آگاہ کردے، یہی سچی دوستی اور خد ا ترسی کی پہچان ہے۔دوستی بڑی اہمیت اور دوررس اثرات کی حامل ہوتی ہے۔ کیوں کہ یہ مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں سے اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ چناں چہ اگر نیکی اور بھلائی کے کاموں میں یہ دوستی اور رفاقت کارفرما ہے تو اجر و ثواب کا باعث بن سکتی ہے اور اگر گناہ، سرکشی، اﷲ کی نافرمانی اور قرآن و سنت کے احکام سے روگردانی میں یہ دوستی ایک دوسرے کی معاون ہے تو اﷲ کے حضور یہ دوستیاں کسی کام نہ آسکیں گی اور آخرت میں ذلت و رسوائی کا سبب بن جائیں گی۔ اس دن نہ کوئی دوست کسی کے کام آسکے گا اور نہ کوئی رشتہ یا نسبی تعلق انسان کی جاں بخشی کر وا سکے گا، ہر شخص کو چاہیے کہ وہ دوستی کے رشتے کی حفاظت کرے، برے دوستوں کی صحبت سے اجتناب برتتے ہوئے اپنے مخلص دوستوں کے ہر دکھ سکھ میں شریک ہو تاکہ وہ زندگی کے کسی موڑ پر بھی خود کو تنہا محسوس نہ کریں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہر انسان دوستوں کا انتخاب کر تے وقت اِن حقائق کو پیش نظر رکھے۔ اسی میں اس دنیائے فانی میں خیر و بھلائی، سکون و راحت ہے اور اسی پر نجات ِ اخروی کا دار و مدار ہے۔
لوگوں سے اللہ کیلئے محبت
جس نے الله کے لئے محبت کی اور الله کے لئے دشمنی کی، الله کے لئے دیا اور الله کے لئے نہ دیا تحقیق اسکا ایمان کامل ہو گیا”(رواہ الحاکم)حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:تمام اعمال سے افضل اﷲ تعالیٰ کے لئے محبت کرنا اور اﷲ کے لئے دشمنی رکھنا ہے۔(أبو داود،) ’البغض فی اللہ‘ سے مراد گنہگاروں سے یکسر قطع تعلقی نہیں بلکہ اس کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ بندہ مومن اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہے تو اس کے صدقِ ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ اُن لوگوں سے محبت کرے جنہیں اللہ پسند فر ماتا ہے اور دشمنی و بغض بھی اسی سے رکھے جو اللہ تعالیٰ کا مبغوض ہے۔ گویا ایمان لانے کے بعد ہمارے قلبی جذبات اور معاشرتی تعلقات کی بنیاد حسد، ذاتی عدات و ناپسندیدگی یا نفع و نقصان پر نہیں بلکہ خالصتاً رضائے الٰہی پر مبنی ہونی چاہیے۔
جو شخص اللہ تعاکی رضا کے لیے کسی نیک بندے سے محبت کرے تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان دونوں کو جنت میں جمع فرمادے گا اگرچہ اس کے عمل میں تقصیر ( کمی ) ہو کیونکہ جب بندہ صالحین سے اس لیے محبت رکھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں تواللہ سبحانہ وتعالیٰ ایسے شخص کو اُس کی اچھی نیت کی بنا پر انہی جیسا ثواب عطا فرماتا ہے کیونکہ محبت دل کا عمل ہے اور اس کا تعلق نیت سے ہے اور نیت ہی تمام اَعمال کی اصل ہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے فضل سے جس کو چاہے عطا فرماتا ہے ۔ ‘‘
مذکورہ روایت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر برے اعمال سے اجتناب کیا جائے‘ مسلمانوں‌ اور دینِ حق کے خلاف برسرِ پیکار کفار سے دوستی و محبت نہ رکھی جائے، گنہگاروں اور غیرمسلموں سے قطع تعلقی کی بجائے ان کی اصلاح کی کوشش کی جائے اور انہیں اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کروایا جائے۔ لہٰذا گناہ سے نفرت کی جائے‘ گنہگاروں سے نہیں، کفر سے قطع تعلقی کی جائے پرامن کفار سے نہیں۔