حیاتِ اخروی پر ایمان
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
آخرت توحید و رسالت کے بعد اسلام کا تیسرا بنیادی اور اہم عقیدہ ہے۔ جاوداں زندگی اور اخروی حیات پر ایمان کا مآخذ دوسری ہر چیز سے پہلے اللہ کی طرف سے وحی ہے جو انبیاء کے توسط سے انسان تک پہنچی ہے۔ جب انسان نے معرفت خدا کے بعد پیغمبران خدا کی سچائی کا یقین کر لیا اور یہ جان لیا کہ پیغمبر جو کچھ قطعی کے طور پر کہتے ہیں، وہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے، اس کا خلاف واقع ہونا ممکن نہیں، تو وہ قیامت اور اخروی جاوداں حیات پر ایمان لے آتا ہے، کیونکہ تمام انبیاء و رسل کے نزدیک اس پر ایمان لانا توحید کے بعد اسلام کا اہم ترین اصول ہے، لہٰذا حیات اخروی پر ہر فرد کے ایمان کے درجہ کا تعلق ایک طرف تو اس بات سے ہے کہ اس کا ایمان نبوت کے اصول پر کس قدر ہے اور وہ کس قدر نبی کی سچائی اور صدق گفتار کا قائل ہے۔ دوسری طرف اس کا تعلق اس امر سے ہے کہ اس کی معرفت کی سطح کس قدر بلند ہے۔آخرت کے متعلق اس کا تصور کس قدر صحیح، معقول اور عقل کے نزدیک پسندیدہ ہے اور کہیں جاہلانہ تصورات اور عامیانہ خیالات نے اسے متاثر تو نہیں کیا؟اور وحی الٰہی کے علاوہ بھی جس کی خبر انسان کو انبیاء کے ذریعے سے ہوئی ہے۔
آخرت کے بارے میں تمام رسولوں اور انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات ہمیشہ سے ایک ہی رہی ہیں۔جن کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے اور یہاں اللہ نے ہمیں آزمائش کے لےا بھیجا ہے کہ کون ایمان لاکر اچھے اعمال کرتا ہے اور جس طرح اللہ نے ہمیں یہاں پیدا فرمایا اسی طرح وہ ہمیں ہماری موت کے بعد قیامت کے دن دوبارہ زندگی عطا فرمائے گا اور ہمیں اللہ کے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی کرنا ہو گی۔ جو انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات پر ایمان لایا اور ان کی اطاعت کی اور اعمال صالحہ کےن وہ وہاں کامیاب ہو گا اور جس نے نافرمانی کی وہ ناکام۔ جو کامیاب ہوا اسے نعمتوں بھری ابدی جنت ملے گی اور جو ناکام ٹھہرا وہ جہنم میں جائے گا اور دردناک سزا بھگتے گا۔ اصل زندگی کا گھر آخرت ہی کا گھر ہے اور دنیا اس سفر میں ایک امتحانی گزرگاہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔اور موت خاتمے کا نہیں بلکہ ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں منتقل ہونے کا نام ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کافرمان ہے:انسان کہتا ہے کہ واقعی جب میں مر چکوں گا تو پھر زندہ کر کے نکال لایا جاؤں گا؟ کیا انسان کو یاد نہیں آتا کہ ہم پہلے اس کو پیدا کر چکے ہیں جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا؟(سورہ مریم)بات بالکل واضح ہے جب ہمارا کوئی وجود نہ تھا، ہم کچھ بھی نہ تھے اور اللہ نے ہمیں پیدا فرما دیا، وجود بخشا اور ہماری اس دنیا میں موجودگی اس بات کا ثبوت ہے تو جس طرح ہمیں اللہ نے اب پیدا فرمایا ہے اسی طرح دوبارہ بھی پیدا فرمائے گا۔ اللہ تو خلاق العلیم ہے اس کی تو کسی سے نسبت ہی کیا، کیا ہم کسی انسان کے بارے میں بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے جب ایک کام ایک مرتبہ کر لیا ہے تو دوبارہ نہ کر سکے گا؟ یہ کمپیوٹر جو ہم اس وقت استعمال کر رہے ہیں کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کے بنانے والے اسے دوبارہ نہیں بنا سکتے ؟ اور اگر کوئی یہ کہے تو کیسی بے ہودہ بات ہے ؟ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہماری مرضی چلتی کہاں ہے۔ اللہ نے جس حال میں جہاں اور جب چاہا پیدا کر دیا، کیا ہم اسے روک سکے ؟ جب چاہتا ہے موت دیتا ہے۔ کیا ہم اسے روکنے کے لئے کچھ کر سکتے ہیں؟ کیا موت سے فرار ممکن ہے ؟اور جب رب چاہے گا دوبارہ زندہ کر کے اٹھا کھڑا کر دے گا۔ کیا ہم اسے ایسا کرنے سے روک سکیں گے ؟
اور سورہ عبس میں ارشاد فرمایا:لعنت ہو انسان پر، کیسا سخت منکر حق ہے یہ۔ کس چیز سے اللہ نے اسے پیدا کیا ہے ؟ نطفہ کی ایک بوند سے۔ اللہ نے اسے پیدا کیا، پھر اس کی تقدیر مقرر کی، پھر اس کے لئے زندگی کی راہ آسان کی،پھر اسے موت دی اور قبر میں پہنچایا۔ پھر جب چاہے وہ اسے دوبارہ اٹھا کھڑا کر دے۔
اس آیت کریمہ میں انسان کو اس کی پیدائش یاد دلاکر بتلایا جا رہا ہے کہ جس خدا نے ایک خورد بینی کیڑے سے بڑھا کر تمہیں اتنا بڑا انسان بنا دیا اس پر مثالیں کےسر چسپاں کرتے ہو؟ وہی ہے جو تمہاری بوسیدہ ہڈیوں کو جب چاہے گا دوبارہ زندگی بخش کر اٹھا کھڑا کر دے گا۔آپ ذرا اس مثال پر غور فرمائیے کہ اللہ کی شان خلاقی کیا ہے ؟کوئی شخص اگر کہیں سے لکڑی لے کر دروازہ، میز یا کرسی بنا دے تو سادہ سی بات ہے لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ جہاں کچھ بھی نہیں وہاں وہ ایک لکڑی کا دروازہ کھڑا کر دے گا تو کیسا عجیب معجزہ ہے ؟ یقین جانےاگر ہم غور کریں تو انسان کی پیدائش ایک بہت بڑے معجزے سے کم نہںواہ۔ سبحان اللہ۔نطفے کی ایک بوند سے کیا مخلوق بنا دی اور اس کے اندر اپنی نسل کے بقا کا نظام رکھ دیا۔ کیا انسان نے بھی کبھی ایسی کوئی چیز بنائی ہے جو اپنی نسل برقرار رکھے ؟ اور اس ماہر خلاق کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ ہمیں موت کے بعد دوبارہ زندگی نہ بخش سکے گا کی ر حماقت ہے۔
آپ ذرا اس بات پر غور کیجئےکہ آنے والی نسلوں کے جسموں کے ذرات کہاں پڑے ہیں؟ زمین میں ہی ناں؟ تو وہ کون ہے جو ان ذرات کو جمع کر کے ہر لمحے تخلیق کا کام کر رہا ہے ؟ انسانوں، جانوروں، پرندوں، حشرات، نباتات اور نجانے کن کن مخلوقات کے کتنے ہی ارب بچے ایک لمحے میں پیدا فرمانے والاکون ہے ؟ تو جو چند ارب یا کھرب گزر گئے کیا اللہ ان کے جسموں کے ذرات کو ایک ہی وقت میں جمع نہ کر سکے گا؟ وہ تو آج کے ترقی یافتہ انسان سے یہ فرما رہا ہے کہ جن فنگر پرنٹس کو تم آج کمپیوٹر کے دور میں شناخت کے لئےاستعمال کرتے ہو میں ان کو بھی ویسا ہی بنا دوں گا اور ہر ایک کو اس کی مکمل شناخت کے ساتھ اٹھاؤں گا۔ اتنا تو سوچ لیجئے کہ جس کی دی ہوئی شناخت (فنگر پرنٹس یا رجسٹریشن) کو ہم آج استعمال کرنے کے قابل ہوئے وہ خود ہم سے بے خبر کیونکر رہ سکتا ہے۔ کیا اس کے کاغذات میں ہماری کوئی رجسٹریشن اور ہمارا کوئی ریکارڈ نہیں ہو گا؟
