حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمہ اللہ
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
تاریخ جن شخصیات پر بجا طور پر فخر کرتی ہے، وطن ِ عزیز کا ذرہ ذرہ جن کے احسانات کو تسلیم کرتا امت مسلمہ جن کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی،فکر ونظرکا کارواں کبھی جن کی قافلہ سالاری سے اپنے آپ کوبے نیاز نہیں کرسکتا،مسند درس وتدریس کے اساتذہ، علوم ِ فقہ وحدیث کے شناور کبھی اس کی نکتہ آفرینیوں سے بے پرواہ نہیں ہوسکتے، قومی، ملی درد وکڑھن کے ساتھ میدان ِ عمل میں جدوجہد کرنے والے شہسوار،ظلم وستم کے خاتمہ کے لیے تگ ودو کرنے والے،امن وانصاف کے علمبرارجس کو کبھی نظر انداز نہیں کرسکتے،ملکی اور عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والے کبھی اس کی نگاہ ِ دورس،حکمت ِ عملی اورفراست وتدبر سے کنارہ کش نہیں ہوسکتے،اوراس عظیم شخصیت پر کیا لکھاجائے جو اپنی ذات میں ایک انجمن تھی جو گوناگوں خصائل اورمتنوع اوصاف وشمائل سے مزین، ایک درویش صفت ،جواں عزم عالم ربانی ہونے کے ساتھ ساتھ امورِ مملکت کی عقدہ کشائی کے ہنر سے باخبر تھی، وہ اگرچہ فطرتاََبوریہ نشیں،خلوت گزیں اورہنگام عالم سے یکسو تھی ؛مگر اس کی تحریک ریشمی رومال نے وقت کے قیصر وکسریٰ کے پاؤں تلے زلزلہ برپاکردیا،حکومت برطانیہ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی چولیں ہلادیں، اس محمودی قافلے نے سامراجی قوت کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے حکام ہند کو ان کے تاریک مستقبل سے آگاہ کیا ۔کبھی اپنے فتووں سے باطل کا تعاقب کیا،کبھی لسانی قوت کے ذریعہ گوروں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا، بہ وقتِ ضرورت شمشیر براں لے کر میدانِ کارزار میں کو دپڑے او راپنی حمیت دینی اورقوت ایمانی کا بھرپور مظاہرہ کیا۔
شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کا شمار برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کے ان عظیم راہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے برطانوی استعمار کی غلامی کے دورِ عروج میں سورج غروب نہ ہونے والی سلطنت کو خود ذہنی اور شعوری طور پر قبول نہ کیا بلکہ فکر و عمل، جہد و استقامت اور عزم و استقلال کی شمع کو اپنے خون سے روشن کر کے برادرانِ وطن کو آزادی اور استقلال کی اس شاہراہ پر گامزن کر دیا جس پر چلتے ہوئے اس خطہ کے عوام نے غلامی کی ہولناک دلدل کو عبور کر کے حریت کے میدان میں قدم رکھا۔حضرت شیخ الہند 1268ھ مطابق 1851ء بمقام بریلی پیدا ہوئے جہاں آپکے والد مولانا ذوالفقار علی دیوبندی بوجہ ملازمت مقیم تھے ۔ چھ سال کی عمر میںتعلیم شروع کی قرآن پاک میاں جی منگلو اور میاں جی مولوی عبدالطیف سے پڑھا ۔ فارسی اور عربی کی کتابیں اپنے چچا مولانا مہتاب علی سے پڑھیں ۔حضرت شیخ الہند کی عمر پندرہ سال تھی کہ15محرم1683ھ 30مئی 1866ء کو دیوبند کے شہر میںدارالعلوم کا قیام عمل میں لایاگیا بانی دارالعلوم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کی تجویز پر ملا محمودصاحب کو اس مدرسہ کا پہلا استاد مقرر کیا گیا ۔ دیوبند کی مشہور مسجد چھتہ میں تعلیم کا آغاز ہوا حضرت شیخ الہند نے اس جگہ پہلے شاگرد کی حیثیت سے اپنی تاریخی ، علمی زندگی کی ابتداکی ۔ صحاح ستہ اور بعض دیگر کتب حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی سے پڑھیں ۔ مولانا قاسم نانوتوی میرٹھ اور دہلی تشریف لے جاتے تو شیخ الہند بھی آپ کے ساتھ جاتے اس طرح سفر و حضر میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا ۔ 1274ھ بمطابق 1858ء میں آپ نے کنز، مختصر المعانی کا امتحان دیا آئندہ سال مشکوٰۃ شریف اور ہدایہ پڑھیں پھر 1286ھ بمطابق 1870ء میں قطب صحاح ستہ کی تکمیل کی اوربانی دارالعلوم دیوبند عالم دین مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا محمد یعقوب نانوتوی کے علاوہ مولانا رشید احمد گنگوہی ،مولانا محمود اور مولانا شاہ عبد الغنی دہلوی آپ کے مشہور اساتذہ میں سے ہیں۔(شیخ الہند:شخصیت خدمات وامتیازات:14)
فراغت ِتعلیم کے بعد1291ھ میں مدرس چہارم کی حیثیت سے دارالعلوم دیوبند میں تقرر ہوا،1308ھ میں منصب ِ صدرات پر فائز ہوئے۔آپ کے دورِ صدارت میں دارالعلوم کو عالم گیر شہرت حاصل ہوئی۔آپ کے شاگردوں میں حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ، حضرت مولانا عبید اللہ سندھی،حضرت مولانامنصورانصاریؒ،حضرت مفتی کفایت اللہ دھلویؒ، حضرت مولانا حسین احمدمدنیؒ،حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی،ؒحضرت مولانا اصغر حسین دیوبندیؒ،علامہ ابراہیم بلیاوی ؒ،حضرت مولانافخرالدین احمدؒ،حضرت مولانا اعزاز علی ؒؒ،حضرت مولانا مناظر احسن گیلانیؒ،حضرت مولانا سہول احمد صاحب بھاگلپوری رحمہم اللہ جیسے نامور علماء شامل ہیں۔ (مشاہیر دارالعلوم دیوبند:27)
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری طیب ؒ فرماتے ہیں کہ:حضرت شیخ الہند ؒنے مسلسل چالیس برس تک درسِ حدیث دیااور اس دوران آٹھ سو اعلی استعداد کے صاحب ِ طرز عالم ِدین، فاضل ِ علوم اورماہرین ِ فنون پیداکئے، آپ کا درس حدیث اس دور میں امتیازی شان رکھتا تھااور مرجع ِ علماء تھا،آپ کو علماء ِ عصر نے’’ محدثِ عصر‘‘ تسلیم کیا۔(کشف الباری:1/75)بانی ٔ تبلیغ حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒبھی آپ کے تلامذہ میں تھے۔
1294ھ میں جب آپ اپنے استاد حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کے ساتھ حج کے لیے تشریف لے گئے تو وہیں پر آپ نے حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی ؒ سے بیعت ہونے کا شرف حاصل کیا،نیز حاجی صاحب کے بیعت فرمانے کے بعد حضرت نانوتوی ؒ نے بھی آپ کو خلعت ِاجازت وخلافت سے نوازا،ہندوستا ن آنے کے بعد اورحضرت نانوتوی ؒ کے انتقال کے بعد آپ نے اصلاح وتربیت کا تعلق حضرت رشید احمد گنگوہی ؒ سے قائم فرمایا۔(شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ :28)
دین و شریعت ، قیادت و سیادت اور تبلیغ و دعوت کے مختلف شعبوں میں ہمہ گیر و ہمہ جہت خدمات انجام دینے کے علاوہ علم و تحقیق اور تصنیف و تالیف کے وسیع میدان میں بھی آپ کی گراں قدر تخلیقات اور علمی خدمات لائق ستائش اور قابل تحسین ہے ۔ آپؒ نے گیارہ کتابیں تصنیف فرمائیں جن میں۔ ا دلّہ کاملہ ،ایضاح ادلہ، احسن القریٰ ،الجہد المقل ،افادیات محمودیہ،الابواب والتراجم،کلیاتِ شیخ الہند، حاشیہ مختصرالمعانی ،تصحیح ابو داؤ د ،فتاوٰی ،ترجمہ قرآن پاک شامل ہیں۔ آپ ؒ نے قرآن حکیم کا جو ترجمہ لکھا وہ ’’ترجمہ شیخ الہند ‘‘کے نام سے عرب و عجم میں اس قدر مشہور ہوا کہ کافی عرصہ ’’مجمع الملک فہد ، مدینہ منورہ ‘‘ کی طرف سے لاکھوں کی تعداد میں چھپوا کر پورے عالم اسلام میں تقسیم کیا گیا۔
حضرت شیخ الہندرحمہ اللہ نے جس دور میں شعور کی آنکھ کھول کر اردگرد کے ماحول پر نظر ڈالی تو یہ وہ دور تھا جب برطانوی سامراج کے غلبہ کا ناقوس دنیا کے کم و بیش ہر خطہ میں بج رہا تھا اور عالم اسلام کے بیشتر ممالک برطانوی، فرانسیسی استعمار کی غلامی کے شکنجے میں جکڑے جا چکے تھے۔ کم و بیش پانچ سو سال تک عالم اسلام کی قیادت و حفاظت کا فریضہ سرانجام دینے والی ترکی کی خلافت عثمانیہ ’’یورپ کا مردِ بیمار‘‘ کا لقب پا کر عالمِ نزع میں قدم رکھ رہی تھی اور خلافت عثمانیہ کی گرفت میں کمزوری کے احساس کے ساتھ ہی عالم اسلام کے روحانی مراکز مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور بیت القدس کے خلاف استعماری قوتوں کی سازشوں کا دائرہ وسیع ہونا شروع ہوگیا تھا۔حضرت شیخ الہند نے برطانوی استعمار سے آزادی کیلئے سب سے پہلے میدان جہاد میں اس وقت قدم رکھا جب پورے اہل ہند پر سکوت طاری تھا ۔ انگریز کی محالفت گویا موت کو دعوت د یناتھی ۔1878ء کو حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ نے ثمرۃ التربیت کے نام سے ایک جماعت کی بنیاد رکھی ۔اور منظم طریقہ سے نوجوانوں میں انقلابی روح پھونکنے کا عزم لے کر اٹھے ۔ حضرت مدنی فرماتے ہیں شروع شروع میں قیاس سے بھی زیادہ مشکلات سامنے آئیں اور تند آندھیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ باد سموم کے جھلسا دینے والے تھپڑوں نے طماچے مارے احباب و اقارب مار آستین بن گئے ہر شخص ناصح و خیر خواہ بن کر سد راہ بنا اور کیوں نہ بنتا انگریز نے اس قدر پیش بندی کر رکھی تھی کہ سیاست کی طرف آنکھ اٹھانا ۱۸۵۷ء کا سماں باندھنا تھا ۔ آزادی اور انقلاب کو اگر کوئی خواب میں بھی دیکھ لیتا تو پِتہ پانی ہو جاتا تھا ۔ چاروں طرف خفیہ پولیس کا جال بچھا ہوا تھا پھر کس طرح امید کی جا سکتی تھی کہ کوئی شخص ہم خیال اور ہم زبان باہم عمل ہو سکتا ہے ۔ بہر حال حضرت شیخ الہند نے تمام خطرات سے قطع نظر ضروری سمجھا اور اللہ کا نام لے کر اس بحر ذخار میں اور ہولنا طوفان میں کود کر آگے بڑھے او ر لوگوں کو ہم خیال اور رفیق سفر بنانے لگے ۔ بڑے بڑے علماء و مشائخ سے چونکہ نا امید اور مایوس تھے اس لئے تلا مذہ اور مخلص سمجھدار مریدوں کو ہم خیال بناتے رہے ۔ ( بیس بڑے مسلمان241) اختصار اً ۔
حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ بنیادی طور پر برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے قائد تھے لیکن ان کا دلِ دردمند عالم اسلام کی اجتماعی مشکلات سے بے گانہ نہ تھا اور ان کی تگ و دو کے اہداف میں متحدہ ہندوستان کی آزادی کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کے دیگر ممالک میں استعماری قوتوں کی سازشوں اور استحصال سے مسلمانوں کو نجات دلانا بھی شامل تھا۔سر سید احمد خان اس وقت مسلمانوںکے مصلح اعظم تھے ان کی تمام تر سرگرمیوں کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو انگریز حکومت پر مکمل بھروسہ کرنا چاہیے وہی ان کے حقوق کا تحفظ کرسکتی ہے سر سید کا منشایہ تھا کہ مسلمان انگریز کی غلامی میں جکڑے رہیں انگریز ہندوستان سے نہ جائیں غلامی کے ایسے تاریک دور میں جب روشنی کی ایک ہلکی سی کرن بھی نہیں دکھائی دیتی تھی حضرت شیخ الہند وہ پہلے سیاسی رہنما ہیں جنہوں نے ہندوستان کی مکمل آزادی کیلئے غوروفکر کرکے جدوجہد اور قربانی کا ایک لائحہ عمل تیار کیا آپ نے پوری رازداری کے ساتھ خفیہ طور پر سرفروشوں مجاہدوں اور جانبازوں کی ایک جماعت تیار کی جس میں ہندومسلمان سکھ سب ہی شریک تھے حضرت نے اپنے مکان کے قریب ایک مستقل مکان کرایہ پر لے رکھا تھا جس کو کوٹھی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا حضرت نے اپنے محاذ آزادی کے لئے مرکز دیوبند، دہلی، کراچی، دین پور شریف، چکوال، امروٹ سندھ وغیرہ ہندوستان میں قائم کئے اور ہر جگہ مختلف حضرات کی سربراہی میں تحریک آازادی کے لئے مجاہدین سے بیعت جہاد لی جارہی تھی اور لوگ جوق درجوق تحریک میں شریک ہو رہے تھے آزاد قبائل کو جدجہد کا عملی مرکزمقرر کیا وہاں مولانا سیف الرحمن مولانا فضل محمود اور مولانا محمد اکبر صاحب کو ہندوستان سے روانہ کرکے برطانوی حکومت پر حملہ کے لئے مجاہدین کومنظم کرنے کا حکم دیا ۱۹۱۴ ء کی جنگ عظیم میں جب انگریزوں کی چیرہ دستیاں اہل ہند اور مسلمانان عالم کے خلاف حد سے زیادہ ہوگئیں توحضرت شیخ الہندنے اپنے خاص سپہ سالار حاجی ترنگزئی صاحب کو مطلع کیا کہ اب مزید انتظار کا وقت نہیں ہے مناسب وقت دیکھ کر فوراً طبل جنگ بجاد یا جائے چنانچہ حاجی صاحب کی قیادت میں انگریز کے کیمپوں پر حملہ کردیا گیا اور باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی جس میں برطانیہ کو جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا جنگ میں وسائل مہیا کرنے کے لئے حضرت شیخ الہند نے پہلے ہی مختلف ملکوں کی طرف اپنے سفیرمولانا عبید اللہ سندھی ، مولانا محمد میاں منصور انصاری، مولانا سیف الرحمن وغیرہ روانہ کردیئے تھے یہ حضرات بھیس بدل کر بڑی سختیاں برادشت کرتے ہوئے اپنے مراکز پر نہایت کامیابی کے ساتھ سرگرم عمل رہے (۔ مولانا حسین احمد مدنی ایک تاریخی وسوانحی مطالعہ 173۔)
افغانستان اپنے بہادر عوام کی دینداری اور غیرت و حمیت کی وجہ سے بے سروسامانی کے باوجود ہندوستان کے مجاہدین آزادی کا ایک روایتی پشت پناہ تھا اور اس کی سرحد کے ساتھ ساتھ آزاد قبائل کی پٹی ہندوستان کی آزادی کی جنگوں کا بیس کیمپ بنی ہوئی تھی جہاں حاجی صاحب ترنگزئی کی قیادت میں عملی جہاد کا سلسلہ جاری تھا۔ برطانوی استعمار نے اس پریشانی سے جان چھڑانے کے لیے افغانستان پر قبضہ کرنے کو اپنی حکمت عملی کا حصہ بنا لیا اور باقاعدہ جنگ کا آغاز کر دیا۔ مگر اس جنگ کے آغاز سے قبل شیخ الہند رحمہ اللہ کے تلمیذ خاص مولانا عبید اللہ سندھیؒ کابل پہنچ کر افغانستان میں شیخ الہندؒ کے شاگردوں، خوشہ چینوں اور آزاد قبائل کے حریت پسندوں کے درمیان رابطہ اور اعتماد کا ایک ایسا نظام قائم کر چکے تھے جس کا سامنا برطانوی استعمار کی منظم افواج نہ کر سکیں۔ مولانا سندھی رحمہ اللہ نے کابل میں بیٹھ کر افغانستان اور آزاد قبائل میں شیخ الہندؒ کے علمی و فکری اثرات کو مجتمع کر کے ایک ایسی قوت کی شکل دے دی جس نے افغانستان کی جنگِ استقلال میں بنیادی کردار ادا کیا اور بالآخر برطانوی استعمار اس بات پر مجبور ہوگیا کہ افغانستان کی آزادی اور استقلال کا احترام کرتے ہوئے اس کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد قرار دے کر اسے عبور نہ کرنے کا سمجھوتہ کرے۔
الغرض!تحریک ریشمی رومال ایک جامع منصوبہ بندی اور انقلابی پروگرام تھا کہ برٹش سامراج کے خلاف ملک بھر میں عام بغاوت کرائی جائے اور ملک کو فرنگی استبداد سے کرانے کیلئے شمالی مغربی سرحدی صوبہ سے قبائلی عوام اور ترکی افواج کے ذریعہ حملہ کیا جائے ترکی فوج کے حملہ آور ہونے کیلئے راستہ میں افغانستان کی حکومت کو بھی ہموار کرنا تھا اس عظیم مقصد کے حصول کیلئے 1905 میں دس جامع منصوبے بنائے گئے جن کی تکمیل 1914 میں ہوئی منصوبے یہ تھے کہ ہندو مسلم مکمل اتحاد،علمائے فکرِ قدیم وجدید تعلیم یافتہ طبقے میں اشتراک فکروعمل ،انقلاب کے بعد عبوری حکومت کے خاکے کی ترتیب ،بغاوت کے خفیہ مراکز کا قیام ،بیرون ملک امدادی مراکز کا تعین ،ترکی کی حمایت کیلئے دوسروں ملکوں سے رابطہ،باہر سے حملہ کیلئے راستوں کی نشاندہی ،بیک وقت بغاوت اور حملے کیلئے تاریخ کا تعین وغیرہ وغیرہ۔
آزادی ٔ وطن کے لیے حضرت شیخ الہند ؒمیں جو جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اس پر تفصیلی روشنی حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ نے ڈالی ہے، چناں چہ شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ:ہنگامہ ٔ انقلابِ آزادی 1857ء میں واقع ہوا، 57ء کے واقعات کو اگرچہ صغر سنی کی وجہ سے پوری طرح نہیں دیکھ سکے تھے،مگر اجمالی طور سے یادتھے،بڑ ے ہونے کے بعد اپنے والدین ماجدین اوراساتذہ اور گردوپیش سے وہ انسانیت سوز مظالم اور درندگی وبربریت کے معاملات جو انگریزوں نے ہندوستانیوں کے ساتھ کئے تھے سنتے اور معلوم کرتے رہے۔حضرت شیخ الہند میں ان دونوں ( حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ) بزرگوں اور بالخصوص حضرت نانوتوی ؒ کی صحبت اور شاگردی اور خدمت کی وجہ سے وہ تمام حالات جن کی وجہ سے انقلاب57ءکی کوششیں ہندوستانیوں نے کی تھیں اور وہ واقعات جو اس جنگ ِ آزادی میں پیش آئے تھے معلوم ہوکر محفوظ ہوگئے تھے،جن کی بناء پر وہ جذبہ ٔ حریت وایثاراور اس کی آگ اور امورِ حکومت پر تنقیدانہ نظر پیداہوگئی تھی کہ جس کی نظیر بجز قرون ِ اولی عالم ِ اسلام میں پائی جانی تقریبا ًممتنع ہے۔انگریزی حکومت اورہندوستان کے ان کے واقعات نے مجبور کیا کہ اپنی جان کو ہتھیلی میں رکھ کر جدوجہد عمل میں لائی جائے اور کسی قسم کے خطرہ کوبھی مرعوب یا متاثرکرنے کاموقع نہ دیا جائے۔(نقش ِ حیات:154)
حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ نے مالٹا کی جیل سے رہا ہونے کے بعد دارالعلوم دیوبند آئے اور علماء وطلباء کے ایک بڑے مجمع سے خطاب فرمایا تو کہا کہ: ہم نے مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں اور فرمایا:میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پور ی دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی لحاظ سے کیوں تباہ ہورہے ہیں تو اس کے دوسبب معلوم ہوئے، یہ الفاظ سُن کر سارا مجمع ہمہ تن گوش ہو گیا کہ اس استاذالعلماء نے اسّی (۸۰) سال علماء کو درس دینے کے بعد آخری عمر میں جو سبق سیکھے ہیں وہ کیا ہیں؟فرمایا کہ میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس بات پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دُنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے،ایک ان کا قرآن کو چھوڑدینا،دوسرے آپس میں اختلافات اور خانہ جنگی ہے۔ اس لئے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صَرف کروں، کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے۔ بچوں کے لئے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی میں قائم کئے جائیں،بڑوں کو عوامی درس قرآن کی صو رت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لئے آمادہ کیا جائے اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے۔مفتی محمد شفیع صاحب فاضل دیوبند جو اس واقعہ اور ارشاد کو اپنی کتاب ”وحدتِ امّت“میں نقل کرنے والے ہیں فرماتے ہیں کہ نبّاضِ امّت شیخ الہند مولانا محمود الحسن ؒ نے ملّت کے مرض کی جو تشخیص اور تجویز فرمائی تھی،باقی ایّام ِ زندگی میں ضعف و علالت اور ہجوم مشاغل کےباوجود اس کے لئے سعی پیہم فرمائے بذاتِ خود درس قرآن شروع کروایا،جس میں تمام علمائے شہر اور حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ اور حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی جیسے علماء بھی شریک ہوتے تھے اور عوام بھی،اس ناکارہ کو بھی یعنی مفتی محمّد شفیع صاحب کو بھی اس درس میں شرکت کا شرف حاصل رہا ہے۔ مگر اس واقعہ کے بعد حضرت کی عمر ہی گنتی کے چند ایّام تھے۔مفتی محمد شفیع صاحب نے مزید شیخ الہند ؒ کے ارشاد پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا آج بھی مسلمان جن بلاؤں میں مبتلا اور جن حوادث اور آفات سے دوچار ہیں،اگر بصیرت سے کام لیا جائے تو ان کے سب سے بڑے سبب یہی دو ثابت ہونگے،قرآن کو چھوڑنا اور آپس میں لڑنا،غور کیا جائے تو یہ آپس کی لڑائی بھی قرآن کو چھوڑنے ہی کا لازمی نتیجہ ہے۔قرآن پر کسی درجہ میں بھی عمل ہوتا تو یہ خانہ جنگی یہاں تک نہ پہنچتی۔(ماخوذ وحدت امّت صفحہ ۵۰۔۱۵)مذکورہ واقعہ و ارشاد میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور مفتی محمد شفیع صاحب کا امّت مسلمہ کے مرض اور علاج سے متعلق جو تجزیہ اور تشخیص ہے دراصل وہ اسلام کا مُتفق علیہ تجزیہ اور علاج ہے،اسی کو اسلام کے ایک اور مفکر علاّمہ اقبال ؒ نے اپنے ایک شعر میں یوں بیان فرمایا۔
وہ معزز تھے زمانہ میں مسلماں ہو کر اور تم خوار ہوئے تارِکِ قرآن ہو کر۔
البتہ مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے اپنے تبصرہ میں اخیر میں جو فرمایا کہ قرآن پر کسی درجہ میں بھی عمل ہوتا تو یہ خانہ جنگی یہاں تک نہ پہنچتی۔اس پر اس جملہ کا بھی اگر اضافہ کر دیا جائے تو بات اور مفید و موثر ہو جائے گی،وہ یہ کہ قرآن کا کسی درجہ میں بھی علم ہوتا تو یہ خانہ جنگی یہاں تک نہ پہنچتی۔اسلئے کہ قرآن کے علم کے بعد ہی قرآن پر عمل کی امیدلگائی جا سکتی ہے،اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ قرآن کا حقیقی علم لازماً عمل پیدا کرکے ہی رہتا ہے۔بشرطیکہ قرآن کا علم حاصل کرنے والامُخلص ہو۔
حریتِ فکر اور سامراج دشمنی کا آپ کے ہاں یہ عالم تھا کہ پیرانہ سالی اور بیماری کی شدت کی وجہ سے خدام بضد تھے کہ سفر آپ کے لیے انتہائی مضر ہو سکتا ہے ، مگر جامعہ ملیہ علی گڑھ کے سنگ بنیاد کے لئے یہ کہہ کر تیار ہو گئے کہ ”اگر میری صدارت سے انگریز کو تکلیف ہو گی تو ضرور شریک ہوں گا“ حالانکہ اس وقت آپ خود سے چلنے پھرنے سے بھی قاصر تھے اور واقعتاً یہ سفر دیوبند سے آپ کا آخری سفر ثابت ہوا۔
جمعیت علمائے ہند کے دوسرے اجلاس منعقدہ دہلی میں آپ کی طرف سے تحریر کردہ مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ دہلوی کا خطبہ صدارت جو آپ کی بیماری کی وجہ سے علامہ شبیر احمد عثمانی نے آپ کی طرف سے پڑھا آج کے حالات میں مسلم دنیا کیلئے اس کے مندرجات قابل غور ہیں:
1 :اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن انگریز ہے جس سے ترک موالات فرض ہے ۔2 :تحفظ ملت اور تحفظ خلافت کے خالص اسلامی مطالبہ میں اگر برادران وطن ہمدردی اور اعانت کریں تو جائز اور مستحق شکریہ ہیں۔3:استخلاص وطن کے لئے برادران وطن سے اشتراک عمل جائز ہے ، مگر اس طرح کہ مذہبی حقوق میں رخنہ واقع نہ ہو۔4 :اگر موجودہ زمانے میں توپ، بندوق، ہوائی جہاز کا استعمال مدافعت اعداء کے لئے جائز ہو سکتا ہے ؛باوجودیکہ قرون اولی میں یہ چیزیں نہ تھیں، تو مظاہروں، قومی اتحادوں اور متفقہ مطالبوں کے جواز میں بھی تامل نہ ہوگا کیونکہ ایسے لوگوں کے لئے جن کے ہاتھ میں توپ، بندوق، ہوائی جہاز نہیں ہیں انکے لئے یہی چیزیں ہتھیار ہیں۔(خطبہ صدارت16مطبوعہ مطبع قاسمی دیوبند)
18ربیع الاول 1339ھ 30 نومبر 1920 ء بروز ہفتہ سات بجے کے قریب طبیعت میں بہت تغیر ہوگیا اور حضرت دنیا سے بالکل غافل ہوگئے تنفس طویل اور غیر طبعی ہوگیا اور انقطاع عن الدنیا وتوجہ الی الرفیق الاعلی کا گمان غالب ہوگیا چار پائی کے گرد حاضرین خاموش اور آہستگی سے ذکر اللہ میں مشغول تھے اسی حالت میں حضرت نے اس غیر فانی اور واجب الو جود ہستی کو یاد کیا جس کے نام پر آپ نے اپنے آپ کو مٹایا تھا یعنی بلند آواز سے تین مرتبہ اللہ اللہ اللہ فرمایا مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب نے سورہ یاسین شروع کی مگر وہ جوش گریہ اور ادب کی وجہ سے بلند آواز سے نہیں پڑھ سکتے تھے اس پر مولانا حافظ محمد الیاس صاحب دہلوی نے پڑھنا شروع کیا سورہ قریب الختم ہوئی تو حضرت نے خود بخود حرکت کرکے اپنے بدن کو سیدھا اور درست کرلیا اور ہاتھوں کی انگلیاں کھول کر سیدھی کرلیں اور آٹھ بجے جب مولانا صاحب سورۃ کے آخر میں پہنچے تو حضرت نے ذرا آنکھ کھولی اور آپ نے آخری تمنا یہ ظاہر فرمائی:’’مولانا شبیر احمد صاحب ؒ کا بیان ہے :حضرت نے تھوڑی دیر آنکھ کھول کر چھت کی طرف دیکھا پھر فرمایا کہ مرنے کا تو کچھ افسوس نہیں ہے؛ مگر افسوس ہے کہ میں بستر پر مر رہا ہوں، تمنا تو یہ تھی کہ میں میدان جہاد میں ہوتا اور اعلاء کلمۃ الحق کے جرم میں میرے ٹکڑے کیے جاتے اور تصدیق قلبی کی تائید کے لئے زبان کو حرکت دی اس کے بعد بلند آواز سے اﷲ اﷲ سات مرتبہ کہا۔ آٹھویں مرتبہ آواز بند ہوگئی۔‘‘اور خاص الیہ ترجعون کی آواز پر قبلہ رخ ہو کر ہمیشہ کے لئے آنکھ بند کرلی آسانی و سہولت کے ساتھ سانس منطقع ہوگیا اور روح مقدس روح و ریحان و جنت نعیم کی بہار دیکھنے کے لئے تمام اہل اسلام کو یتیم وبے کس چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوئی اور رفیق اعلی سے جا کر مل گئی ،انا اللہ وانا الیہ راجعون ( حیات شیخ الہند 188)۔اورجب غسل دینے کے لئے جب آپؒ کو تختہ پر لٹایا گیا تو پیٹھ بالکل سیاہ تھی ۔لوگو ں نے آپؒ کے رفقائے مالٹا سے پوچھا کہ یہ نشانات کس چیز کے ہیں ؟ تو انہوں نے بتایاحضرت شیخ الہند محمود الحسن رحمہ اللہ نے ہمیں وصیت کی تھی کہ اِن مصائب کا ذکر کسی سے مت کرنا ۔لیکن آج حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ اس دنیا میں نہیں رہے تو آج ہم بتائے دیتے ہیں کہ یہ نشانات اس وقت کے ہیں جب مالٹا کی جیل میں انگریز اُن کو الٹا لٹا کر پیٹھ پر کوڑے برسایا کرتا تھا۔
امام الہندمولانا ابوالکلام آزاد ؒ نے نومبر1921ء میں لاہورمیں منعقدہ جمعیۃ علماء ہندکے اجلاس میں کہا تھا:آپ کی اس جمعیۃ کا گزشتہ اجلاس مجمع علماء ہند کے جس بزرگ ومحترم وجود کی رہنمائی وصدارت میں منعقد ہوا تھا۔وہ آج ہم میں نظر نہیں آتا،اور اس کی موجودگی کی برکتوں سے ہم محروم ہوگئے ہیں۔ میرا اشارہ حضرت مولانا محمود الحسن کی ذات ِ گرامی کی جانب ہے اور میں یقین کرتا ہوں کہ آپ میں سے ہر فرد کو ان کی یاد دعوت ِ غم دے رہی ہے،ان کی وفات بلاشبہ ایک قومی ماتم ہے۔ مولانا مرحوم ہندوستان کے گزشتہ دور کے علماء کی آخری یادگار تھے، ان کی زندگی اس عہد حرمان وفقدان میں علمائے حق کے اوصاف وخصائل کا بہترین نمونہ تھی۔ ان کا آخری دور جن اعمال حقہ میں بسر ہوا وہ علمائے ہند کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہیں گے۔ستر برس کی عمر میں جب ان کا قد ان کے دل کی طرح اللہ کے آگے جھک چکاتھا،عین جوارِ حرم میں گرفتار کئے گئے، اور کامل تین سال تک جزیرہ مالٹا میں نظر بند رہے۔یہ انہیں صرف اس لیے برداشت کرنی پڑی کہ اسلام وملت اسلام کی تباہی پر، بربادی پران کاخدا پرست دل صبر نہ کرسکا،اورانہوں نے اعدائے حق کی مرضیات واہوا کی تسلیم واطاعت کا مردانہ انکار کردیا۔فی الحقیقت انہوں نے علمائے حق وسلف کی سنت زندہ کردی اور علمائے ہند کے لیے اپنی سنت حسنہ یادگار چھوڑگئے۔ (خطباتِ آزاد:87)