حضرت سیدناعمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے محبوب خاتم النبیین نبی کریم حضرت محمدمصطفیٰ ﷺکے صحابہ رضوان اللہ علیہم وہ نفوسِ قدسیہ ہیں جنہوں نے خاتم المرسلین ﷺ کےرخِ روشن سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا ، خاتم الانبیاءﷺ کی رفاقت وصحبت کا لازوال شرف حاصل کیااور دین حق کو پھیلانے ،اسلام کو سربلند کرنے کےلیے ان کے عظیم الشان قربانیاں اورکارنامے قوت ایمانی کے ایسے روشن چراغ ہیں جو قیامت تک آنے والے انسانوں کو کا میابی کا سیدھا راستہ دکھاتے رہیں گے۔خاتم المرسلین حضور نبی کریم ﷺ کی بعثت کااصل مقصد دنیا کو پسندیدہ و برگزیدہ اخلاق کی تعلیم دینا تھا۔ صحابہ اکرام علیہم الرضوان کو براہ راست اس چشمہ سے سیرابی کا موقع ملا، اس مقدس جماعت کا ہر ہر فرد اسلامی و نبوی اخلاق کا مجسم نمونہ تھا، لیکن حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو بارگاہ رسالت ﷺ میں جو قرب حاصل تھا اس اعتبار سے آپ محاسن و مجامد کی مجسم تصویر تھےخاتم النبیین ﷺ کے اِن حقیقی عاشقوں نے راہِ حق میں جو مصائب وآلام برداشت کیے انہیں پڑھ کر جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے ، انہوںنے دین متین کی سربلندی کے لیے ہر میدان میںایسی بے مثال قربانیاں دیں کہ اُن کا اجتماعی وانفرادی کردار مسلمانوں کے لیے منارۂ نور بن گیا۔ شرف صحابیت تو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم میں مشترک تھا ، مگر اُن کے مراتب میں فرق ہے ، یہ فرق اُن کے زمانۂ قبولِ اِسلام ، بارگاہِ نبوی ﷺمیں تقرب اور بعض دوسرے خصائل وفضائل کی بنا پر ہے حضرت سیِّدُنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ کو رسول اللہ !ﷺ نے سب پر فضیلت عطا فرمائی اور خود حضرت سیِّدُنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے اپنے وصال کے وقت سیِّدُنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ منتخب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’’ الٰہی میں نے تیری مخلوق پر روئے زمین کے سب سے بہتر انسان کو خلیفہ بنایا۔ ‘‘
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ’’عام الفیل‘‘ کے تقریباً 13 سال بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور نبوت کے چھٹے سال پینتیس سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوکر حرم ایمان میں داخل ہوئے۔آپ رضی اللہ عنہ کا نام عمر بن خطاب، لقب فاروق اور کنیت ابو حفص ہے، آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔آپؓ کے بارے میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا (ترمذی ) ۔عمر کی زبان پر خدا نے حق جاری کر دیا ہے (بیہقی)۔حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سےکفارکی روح کانپتی تھی، رسول پاک ﷺ نے فرمایا عمر جس راستے سے گزرتے ہیں، شیطان اپنا راستہ بدل لیتا ہے۔ (بخاری ومسلم)۔میرے بعد ابوبکر وعمر کی اقتداء کرنا( مشکٰوۃ)
حضرت سیدنا عمررضی اللہ عنہ جب کسی بزرگ کو عامل بنا کر بھیجتے تھے تو یہ شرائط سنا دیتے تھے : 1-گھوڑے پر کبھی مت سوار ہونا۔ 2-عمدہ کھانا نہ کھانا۔ 3-باریک کپڑا نہ پہننا۔ 4-حاجت مندوں کی داد رسی کرنا۔ اگر اس کے خلاف ہوتا تو سزائیں دیتے۔آپ کی خلافت کا سب سے نمایاں وصف عدل وانصاف ہے۔ شاہ و گدا، شریف و رذیل، عزیز و بیگانہ، سب کے لیے ایک ہی قانون تھااور انصاف کا یہ دائرہ صرف مسلمانوں تک محدود نہ تھا بلکہ اس کا دیوان مسلمان، عیسائی، یہودی سب کے لیے یکساں تھا۔ آپؓ کے دور خلافت میں امیر و غریب، مفلس و مالدار سب ایک ہی حال میں نظر آتے تھے۔حضرت عمرؓکا مقولہ ہے کہ:”میں اگر عیش و عشرت کی زندگی بسر کروں اور لوگ مصیبت میں و افلاس میں رہیں، مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔” خلافت کی حیثیت سے آپ کے جاہ و جلال کا سکہ تما م دنیا پر بیٹھا ہوا تھا۔مگر مساوات کا یہ عالم تھا کہ قیصر و کسریٰ کے سفراء آتے تو انہیں پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ شاہ کون ہے؟ زہد و قناعت، تواضع، خوف خدا کے پہاڑ تھے۔ پیوند لگے کپڑے پہنے کاندھے پر مشک رکھ کر بیوہ عورتوں کے لیے پانی بھرتے، مجاہدین کے گھروں کا سوداسلف بازار سے خرید لاتے، تھک جاتے تو زمین پر لیٹ جاتے اور رعب و دبدبہ کا یہ عالم تھا کہ فقط نام سے ہی قیصر کسریٰ کے ایوان میں لرزہ طاری ہوجاتا۔
آپ رضی اللہ عنہ نے امور حکومت و سلطنت میں ایسی درجنوں اصلاحات فرمائیں جو پہلے نہیں تھیں ان کو ” اولیات فاروقی ” کہا جاتا ہے جن میں بعض مندرجہ ذیل ہیں مثلاً:… ٭… بیت المال کا قیام٭… مالی تجاویز و ایجاد٭… معاشرتی نظام کی تجاویز٭… سیاسی کابینہ کا قیام٭… سنہ ہجری کا قیام ٭… امیرالمومنین کا لقب٭… فوج کے اور مختلف حکومتی شعبہ جات کے با قاعدہ دفاتر کا قیام٭… رضا کاروں کی تنخواؤں کا تقرر٭… ملک کی حدود کا قاعدہ٭… مردم شماری ٭… نہریں کھدوانا٭… راستے میں مسافروں کے لئیے کنوئیں اور سرائے کا انتظام٭… راستوں کو ڈاکوؤں سے محفوظ کروانا ٭… رات کو رعایا کی خبر گیری اور حفاظتی گشت کا قیام٭… شہر آباد کروانا مثلا کوفہ، بصرہ، جزیرہ فساط (قاہرہ)،رصا مشررک٭… خانہ کعبہ کے صحن کی توسیع ٭… صوبہ داری کا نظام اور اسکے حکام کا تقرر٭… جیل خانہ کا قیام٭… پولیس کا باقاعدہ محکمہ٭… مفلوک الحال عیسائیوں اور یہودئیوں کے روزینے کا تقرر٭… نماز تراویح با جماعت پڑھانے کا اہتمام٭… تجارت کے گھوڑوں پہ زکواۃ کا تقرر٭… نمازِ جنازہ میں چار تکبیروں کا اجماع٭… بیرونی تجارت کی اجازت (جسے امپورٹ ایکسپوٹ کہتے آجکل)پرچہ اور قانونی دستاویزات کے نویس مقرر کرنا٭… درہ کا استعمال( تاریخ خلفاء ، ص 312 )
صرف یہی نہیں بلکہ آپ دور میں فتوحات کا وہ سلسلہ شروع ہوا کہ 22 لاکھ اور کچھ کے مطابق 25 لاکھ مربع میل تک اسلام کی دعوت اور آپ کی خلافت پہنچی۔ ان میں فارس و عراق جزیرہ خراسان و بلوچستان و شام و فلسطین و مصر و آرمینیا۔ پھر آپ نے 220 ہجری میں اسلامی سلطنت کے جو صوبے بنائے تھے و کچھ یوں تھے، مکہ ،مدینہ،شام ،مصر(بالائی مصر ،زیریں مصر)،فلسطین(ایلیا و رملا)،خراسان،آذربئجان،فارس،عراق(،بصرہ،کوفہ)،دجلہ کا بالائی حصہ (جزیرہ ،فرات)۔ ان میں بعض ایسے صوبے تھے جو دو دو صوبوں کے برابر سمجھے جاتے اور دو دو صدرمقام تھے ۔ ہر صوبے میں ایک کاتب، منشی،صاحب الخراج یا کلیکٹر،ایک پولیس کا افسر،افسر خزانہ اور ایک قاضی ضرور ہوتا۔
خاتم النبیین جنابِ نبی اکرمﷺ نے حضرت عمر کو شہادت کی خوشخبری سنائی تھی۔ زندگی کے آخری دنوں میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلسل دعا کرتے تھے کہ اے اللہ! مجھے شہادت عطا فرما اور میری موت آئے تو تیرے حبیب کے شہر میں آئے۔ 26 ذوالحجہ 23 ہجری کو محراب رسول میں نماز فجر پڑھا رہے تھے ایرانی مجوسی غلام ابولولو فیروز نامی بدبخت نے آپ پر حملہ کیاجس سے آپ شدید زخمی ہوئےاور یکم محرم 24ہجری کو شہادت کے مقام پر فائز ہوگئے۔ ۔آپ کے بعد اتفاق رائے سے حضرت عثمان کو امیر المومنین منتخب کیا گیا۔
شہادت سے کچھ دیرقبل آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے صاحبزادے حضرت سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ تعا لیٰ عنہما کو بلایا ۔اور ان سے سے فرمایا:” تم اُم المؤمنین حضرت سیدتناعائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بارگاہ میں چلے جاؤ اور ان سے عرض کر و کہ عمر بن خطاب اس بات کی اجازت چاہتا ہے کہ اسے اس کے ساتھیوں کے ساتھ دفن کیا جائے اور حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے قرب میں جگہ عطا فرمائی جائے ۔ حضرت سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما حضرت سیدتناعائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور سلام عرض کیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رور ہی تھیں، آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے کہا :” حضر ت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کو سلام عرض کرر ہے ہیں اور اس بات کی اجازت چاہتے ہیں کہ انہیں ان کے ساتھیوں کے قرب میں دفن کیا جائے۔” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ سن کر ارشاد فرمایا:” یہ جگہ تومیں نے اپنے لئے رکھی تھی لیکن اب میں یہ جگہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایثار کر تی ہوں، انہیں جاکر یہ خوشخبری سنا دو۔”چنانچہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اجازت لے کر واپس تشریف لائے۔
جب حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتایا گیا کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما آگئے ہیں توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”مجھے بٹھا دو۔” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوسہارا دے کر بٹھا دیا گیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”اے میرے بیٹے! کیا خبر لائے ہو؟ ”آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:” حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہا نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اجازت عطا فرمادی ہے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خوش ہو جائیں ،جس چیز کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پسند کیا کرتے تھے وہ آپ کو عطا کردی گئی ہے ۔” یہ سن کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:” مجھے اس چیز سے زیادہ اور کسی چیز کی فکر نہیں تھی ، الحمدللہ عزوجل مجھے میری پسندیدہ چیز عطا کردی گئی ہے۔”پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:” جب میری روح پر واز کرجائے تو مجھے اٹھا کرسرکارِ ابد ِقرار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے روضہ اقدس پر لے جانا ، پھر بارگاہِ نبوت میں سلام عرض کرنا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سلام عرض کرنا:”عمر بن خطاب اپنے دوستو ں کے ساتھ آرام کی اجازت چاہتا ہے ، اگر وہ اجازت دے دیں تو مجھے وہاں دفن کردینا اور اگر اجازت نہ ملے تو مجھے عام مسلمانوں کے قبر ستان میں دفنادینا ۔اسلام کے سب سے بڑے ہیرو ہر قسم کی ضروری وصیتوں کے بعد حملہ کےتین دن بعد یکم محرم الحرام، ہفتہ کے دن،24ھ میں دنیا سے پردہ فرما گئے اور اپنے محبوب آقاکے پہلو میں میٹھی نیند سورہے۔نماز جنازہ حضرت صہیب ؓ نے پڑھائی۔ حضرت عبد الرحمٰنؓ، حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ، طلحہؓ،سعد بن ابی وقاصؓ،عبد الرحمٰن بن عوفؓ، نے قبر میں اتارااور وہ آفتاب عالم تاب خاک میں چھپ گیا۔ رضی اللہ عنہم ورضو عنہ!