حضرت سیدناامیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا صحابی ہونا ایسا وصف ہے اور ایسی خوبی ہے کہ وصفِ نبوت کے بعد اس سے بڑا کوئی وصف اور منصب نہیں۔تمام انسانوں میں ابنیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بعد فضیلت میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کا درجہ ہے ۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اگر چہ معصوم نہیں ہیں ، مگر ان سے جو بھی گناہ ( اللہ تعالیٰ نے کسی حکمت کے تحت صادر کرائے اور ) ہوئے تھے ، اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما کر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بلا تفریق اپنی رضا کا پروانہ عطا فرما یا ہے ،لہٰذا حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ذکر ہمیشہ اچھے لفظوں میں کرنا چاہیے۔اسلام دشمنوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حیثیت کو کم کیا جائے، تاکہ ان کے ذریعے سے ہم تک پہنچنے والے دین میں نقب زنی آسان ہوجائے ۔جن لوگوں نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ علمی سنجیدگی اور غیر جانبداری کے ساتھ کیا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ یزید کی آڑ لے کر حضرت امیر المومنین سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو بد نام کرنے کے معاملہ میں دشمنانِ صحابہ کا ذہن شروع ہی سے مصروفِ تگ و دومیں ہے۔ طرح طرح کے افسانے گھڑے گئے ہیں، نوع بہ نوع شوشے چھوڑے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ مسلسل اور پیہم پروپیگنڈے کے طوفانوں میں اچھے خاصے فہیم و دانا علماء اور جدید تعلیم یافتہ طبقے کادامن بھی تر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
بغض اعداء کایہ عالم ہے کہ اس عظیم ہستی کے یوم وفات پرباقاعدہ دعوتوں کااہتمام کیاجاتاہے۔ تمام اعتراضات و الزامات کی وجہ قرآن و سنت کے مقابلہ میں تاریخی روایات کو اہمیت دینا ہے۔ جب کہ قرآن وسنت کی تعلیمات کے خلاف ہر روایت قابل تردید ہے۔ چہ جائے کہ اس پر تکیہ کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام پر براہ راست اور بالواسطہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر انگلی اٹھائی جائے، حالاں کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ صحابہ کرام  کا مقام تاریخ کی کتابوں سے متعین نہیں کیا جاسکتا ، کیوں کہ تاریخیں کئی صدی بعد لکھی گئی ہیں ۔
٭… امام حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : مقام صحابہ رضوان اللہ علیہم کا تقاضاہے کہ ایسی تمام روایتیں لکھنے والوں کے منہ پر مار دی جائیں۔ ( البدایہ والنہایہ ابن کثیر )٭… امام نافع رحمہ اللہ تعالیٰ کی یہ بات آب زرسے لکھے جانے کے قابل ہے،اپنے شاگردوں سے فرمایا:”سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم کے درمیان پردہ ہیں، جو یہ پردہ چاک کرے گا، وہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہ پر لعن طعن کی جرات کر سکے گا۔“(دفاع معاویہ )
٭… ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ (ان کی قوتِ ایمان کی وجہ سے ان کا حال یہ ہے کہ) اگر تم میں سے کوئی شخص اللہ کی راہ میں احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تو وہ ان کے خرچ کیے ہوئے کے ایک مد کے برابر بھی نہیں ہوسکتا اور نہ نصف مد کے برابر۔ مد عرب کا ایک پیمانہ ہے جو تقریباً ہمارے آدھے سیر کے برابر ہوتا ہے اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے صحابہ کو سارے جہان میں سے پسند فرمایا ہے۔
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم عام اُمت کی طرح نہیں‘ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُمت کے درمیان اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا ایک واسطہ ہیں ان کے بغیر نہ اُمت کو قرآن پہنچنے کا کوئی راستہ ہے اور نہ معانی قرآن اور تعلیمات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا۔ اس لیے اسلام میں ان کا ایک خاص مقام ہے‘ ان کے مقامات کتب تاریخ کی رطب و یابس روایات سے نہیں پہچانے جاتے بلکہ قرآن و سنت کے ذریعے پہچانے جاتے ہیں۔
بنو امیہ کا وہ خوش نصیب شخص جسے دنیا جرنیل اسلام ، کاتب وحی ، فاتح عرب وعجم ، امام تدبیر و سیاست اورسب سے بڑی اسلامی ریاست کے حکمران کے تعارف سے جانتی ہے، وہجلیل القدر صحابی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عالم اسلام کی ان چند گنی چنی ہستیوں میں سے ایک ہیں جن کے احسان سے اُمت مسلمہ سبکدوش نہیں ہوسکتی۔ آپ ان چند کبار صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں ہیں جن کو سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں مسلسل حاضری اور حق تعالیٰ کی جانب سے نازل شدہ وحی کو لکھنے کا شرف حاصل ہے۔۔ جب سے تاریخ کا قلمدان متعصب مزاج لوگوں کے ہتھے چڑھا ہے،حقائق کو مسخ کر کے جتنی بے انصافی اس عظیم المرتبت شخصیت سے برتی گئی،شاید کسی اور سے اتنی کی گئی ہو۔اس لیے ان کے شان و مقام عظمت اور سنہری کارناموں کو بیان کرنا جہاں ہماری عقیدت کا مسئلہ ہے وہاں پر تاریخ سے انصاف کا تقاضا بھی ہے۔
حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ جلیل القدر صحابی رسول ، کاتبِ وحی اور آنحضرت ﷺ کے برادر نسبتی تھے ۔ سیدنا عمر فاروقؓ ، سیدنا عثمان غنیؓ اور دیگر جلیل القدر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے معتمدِ خاص تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپؓ خلافتِ صدیقیؓ ، خلافتِ فاروقیؓ اور خلافت عثمانیؓ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ۔ آپ فقیہہ صحابی تھے ، آپ کا حلم تمام اُمت میں مشہور تھا ۔ سیدنا امیر معاویہؓ کی فتوحات ، عسکری نظام مملکت نظم و نسق ، معاشی و اقتصادی اصطلاحات ، تدبیر و سیاست ، فہم و فراست ظرافت و خطابت اور عدل و انصاف بے مثال تھا۔نبی کریم ﷺ نے آپ کے لئے دعا فرمائی : ’’اے اﷲ ! معاویہ کو ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنادیجئے اور اس کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دیجئے ‘‘ ۔ ( جامع ترمذی )

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی سیرت کے چند گوشے:
یہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مکمل سیرت نہیں بلکہ آپ کی سیرت کے وہ گوشے ہیں جو تاریخ کے ملبہ میں دب کر آج نگاہوں سے بالکل اوجھل ہورہے ہیں اور ان کے مطالعہ سے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کردار کی ایک ایسی تصویر سامنے آتی ہے جو ہر لحاظ سے دلکش ہی دلکش ہے۔ آپ اسلامی دنیا کی وہ مظلوم ہستی ہیں جن کی خوبیوں اور ذاتی محاسن و کمالات کو نہ صرف نظرانداز کیا گیا بلکہ ان کو چھپانے کی پیہم کوششیں کی گئیں‘ آپ پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے‘ اس کی وجہ سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہ حسین ذاتی کردار نظروں سے بالکل اوجھل ہوگیا ہے جو آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے فیضِ صحبت نے پیدا کیا تھا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج دنیا حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بس جنگ صفین کے قائد کی حیثیت سے جانتی ہے جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابلے کے لیے آئے تھے لیکن وہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے منظور نظر تھے جنہوں نے کئی سال تک آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے لیے کتابتِ وحی کے نازک فرائض انجام دیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے علم و عمل کے لیے بہترین دعائیں لیں جنہوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے خلیفہ کے زمانے میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا جنہوں نے تاریخ اسلام میں سب سے پہلا بحری بیڑہ تیار کیا‘ اپنی عمر کا بہترین حصہ رومی عیسائیوں کے خلاف جہاد میں گزارا۔ آج دنیا ان کو فراموش کرچکی ہے۔
لوگ یہ تو جانتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ ہیں جن کی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جنگ ہوئی تھی لیکن قبرص‘ روڈس‘ صقلیہ اور سوڈان جیسے اہم ممالک کس نے فتح کیے؟ سالہا سال کے باہمی خلفشار کے بعد عالم اسلام کو پھر سے ایک جھنڈے تلے کس نے جمع کیا؟ جہاد کا جو فریضہ تقریباً متروک ہوچکا تھا اسے ازسرنو کس نے زندہ کیا؟ یہ ساری باتیں وہ ہیں جو پروپیگنڈے کی غلیظ تہوں میں چھپ کر رہ گئی ہیں۔
٭…بعثت نبوی سے پانچ سال قبل آپ کی ولادت ہوئی‘ بچپن ہی سے آپ میں اولوالعزمی اور بڑائی کے آثار نمایاں تھے۔
٭…آپ نے اپنے والد کے ہمراہ فتح مکہ کے موقع پر اپنے اسلام لانے کا اعلان کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بدر‘ احد‘ خندق اور غزوہ حدیبیہ میں آپ کفار کی جانب سے شریک نہ ہوئے حالانکہ اس وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جوان تھے۔
٭…جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان ہونے کے لیے حاضر ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوشی کا اظہار فرمایا اور ان کے مسلمان ہونے پر ان کو مبارکباد دی۔
اگرچہ عام طور سے یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ بیٹا اپنی عادات و اطوار میں باپ جیسا ہوتا ہے یا کم از کم باپ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتا ہے جیسے ولید کا بیٹا خاد اور ابوجہل کا بیٹا عکرمہ‘ دونوں حالت کفر میں اسلام کے ایسے ہی دشمن تھے جیسے ان کے باپ اشد ترین مخالف تھے مگر اس کے برخلاف ہم معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں یہ بات نہیں دیکھتے۔ اگرچہ ان کے باپ اور ان کی ماں اسلام کے سخت ترین دشمن تھے لیکن تاریخ میں ہمیں کوئی شہادت نہیں ملتی جس سے ثابت ہو کہ جوان ہوکر حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے باپ کے ساتھ مل کر اسلامی فوج کا مقابلہ کیا۔ چنانچہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہم نہ جنگ بدر میں دیکھتے ہیں نہ جنگ احد میں ان کا پتا ملتا ہے‘ نہ غزوہ احزاب میں وہ نظر آتے ہیں اور نہ صلح حدیبیہ میں وہ دکھائی دیتے ہیں۔
اس طرزِ عمل سے یہ خیال ہوتا ہے کہ زمانہ کفر میں معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اسلام سے وہ تعصب نہیں تھا جو ان کے باپ اور ان کی ماں کو تھا‘ نہ صرف یہ بلکہ اس تمام عرصہ میں اپنے ماں باپ سے اس سلسلہ میں الگ رہنا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ شروع جوانی سے ان کو اسلام کی طرف رغبت تھی۔ اگرچہ وہ اس کا اظہار اپنے والدین کی اسلام دشمنی کے باعث علی الاعلان نہ کرسکتے تھے۔
٭…نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے کاتبین میں سب سے زیادہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہے اور اس کے بعد دوسرا درجہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تھا۔ یہ دونوں حضرات دن رات آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ لگے رہتے اور اس کے سوا کوئی کام نہ کرتے تھے۔
٭…جب ۱۱ھجری میں آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوگئی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ ہوئے اس وقت حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے جوہر اور اپنی لیاقت دکھانے کا عمدہ موقع ملا۔ چنانچہ شام کے معرکوں میں وہ ہمیشہ آگے آگے رہے۔
٭…حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں ۴ برس تک حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دمشق کے گورنر رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی مغز بیداری‘ دور اندیشی‘ معاملہ فہمی اور ملکی نظام میں ماہر ہونے کے باعث ان کی بڑی قدر کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کو’’کسری عرب‘‘ کے لقب سے یاد فرمایا کرتے تھے۔ ان کا دماغ سیاسی مسائل اور ملکی معاملات میں بڑی جولانی طبع دکھاتا تھا اور بہت سے مشکل سیاسی امور ان کے ناخن تدبیر سے باآسانی طے ہو جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا مدبر اور ہوش مند انسان حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اتنی محبت کرتا تھا اور اسی وجہ سے شام کا سب سے اہم مقام دمشق آپ کے سپرد کیا گیا تھا۔
٭…حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جنگی لیاقت اور حربی قابلیت کو دیکھ کر تمام ملک شام کی ولایت ان کے سپرد کردی۔
قرابت نبوی
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خاندانی تعلق جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر خاندان بنی ہاشم کے ساتھ بہت قریب پایا جاتا ہے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک خاندان کے ساتھ نسبی روابط ہیں۔ مثلاً:
٭… جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ اُم المؤمنین اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہ جن کا اسم گرامی رملۃ ہے‘ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خواہر ہمشیرہ ہیں۔ اس اعتبار سے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے برادرِ نسبتی ہونے کا شرف حاصل ہے۔
٭… علماء انساب نے لکھا ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سردارِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم زلف (سانڈھو) بھی ہیں کیونکہ جناب اُم المؤمنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ہمشیرہ جن کا نام ’’قریبۃ الصغریٰ‘‘ ہے وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں تھیں۔
٭…حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ علی بن الحسین کی والدہ لیلیٰ بنت ابی مرہ کے سگے ماموں ہیں کیونکہ سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سگی بھانجی یعنی خواہر زادی تھی۔
اسلام میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی عظمت کے سلسلہ میں یہ چیز بڑی قابل قدر ہے کہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کے شرف کو ایک نعمت غیر مترقبہ اور نعمت کبریٰ سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کے برابر کوئی چیز نہیں ہے۔
٭…عشرہ مبشرہ کے صحابی سیدنا سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
اللہ کی قسم! صحابہ کرام میں سے کسی شخص کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں کسی جنگ میں شریک ہونا جس میں ان کا چہرہ غبار آلود ہو جائے‘ غیر صحابہ سے ہر شخص کی ساری عمر کی عبادت اور عمل سے بہتر ہے۔ اگرچہ اس کو عمر نوح عطا ہو جائے۔
٭…سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نہ صرف صحابی بلکہ ایک فقیہ اور مجتہد صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونا بذاتِ خود ایک عظیم فضیلت ہے اور فضائل صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین میں قرآن کی جتنی آیات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جتنی احادیث موجود ہیں وہ سب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے ایک مستقل باب فضیلت رکھتی ہیں۔ ان فضائل کے ہوتے ہوئے اگر دوسرے فضائل نہ بھی ہوں تو اس سے آپ کی شان میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوتی۔
٭…حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’وہ تمام صحیح و مسلم مناقب جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور قریش کے لیے کتاب و سنت میں علی العموم موجود ہیں‘ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان میں داخل ہیں۔‘‘
٭…حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’جاننا چاہیے کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک شخص تھے‘ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے اور زمرۂ صحابہ میں بڑے صاحب فضیلت تھے‘ تم کبھی ان کے حق میں بدگمانی نہ کرنا اور ان کی بدگوئی میں مبتلا نہ ہونا ورنہ تم حرام کے مرتکب ہوگے۔‘‘
٭…کاتب الوحی ہونا بڑی فضیلت اور بڑا کمال ہے کیونکہ کاتب الوحی تو خدا اور رسول کے درمیان سفارت کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ لہٰذا ایمان اور امانت میں اس کا قابل اعتماد اور صاحب کمال ہونا ضروری ہے۔
یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک کامل ایمان اور کامل الدیانت تھے۔ اسی لیے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخر وقت تک انہیں کاتب الوحی کے منصب پر قائم رکھا۔
آپ کا کاتب وحی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ عالیہ سے جاری شدہ خطوط و فرامین کا کاتب ہونا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بڑی عظیم فضیلت ہے۔ سیرت کی کتابوں میں جہاں کاتبان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ ہے وہاں آپ رضی اللہ عنہ کا نام نامی اسم گرامی بھی ہے۔
روایات میں یہاں تک آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ منصب حکم خدا وندی سے عطا فرمایا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور فرمایا:
’’اے محمد! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سلام کہئے اور ان کو نیکی کی تلقین فرمایئے کیونکہ وہ اللہ کی کتاب اور اس کی وحی کے امین ہیں اور بہترین امین ہیں۔‘‘ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ’’کاتب وحی‘‘ بنانے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے مشورہ فرمایا تو انہوں نے کہا:
’’آپ ان کو کاتب (وحی) بنالیں کیونکہ وہ امین ہیں۔‘‘
علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ’’سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک عرصہ تک دربارِ رسالت میں کتابت وحی کے فرائض انجام دیئے اور بحیثیت کاتب ایک سو تریسٹھ (۱۶۳) احادیث کے راوی ہیں۔‘‘
ان کاتبین کی فہرست میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کیا مقام تھا‘ مولانا شاہ معین الدین ندوی مرحوم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
دینی علوم کے علاوہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عرب کے مروجہ علوم میں بھی ممتاز درجہ رکھتے تھے۔ چنانچہ کتابت میں جس سے عرب تقریباً ناآشنا تھے‘ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پوری مہارت تھی اور اسی وصف کی بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اپنا خاص کاتب مقرر فرمایا تھا۔
بعض علماء نے لکھا ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کام ہی صرف یہ تھا کہ یہ دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے بیٹھ کر ’’وحی‘‘ اور غیر وحی (یعنی بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جاری ہونے والے خطوط اور فرامین) لکھا کرتے تھے۔ اس کے سوا ان کا کوئی دوسرا کام نہیں تھا۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ احادیث وآثار کے آئینے میں :
٭… میری اُمت کا پہلا لشکر جو سمندر میں جہاد کرے گا، ان (مجاہدین) کے لئے(جنگ) واجب ہے (صحیح بخاری )یہ جہاد سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ (کی خلافت) کے زمانے میں ہوا تھا (دیکھئے صحیح البخاری ٦٢٨٢۔٦٢٨٣) اور اس جہاد میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ شامل تھے۔٭… رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:اے اللہ معاویہ کو ہدایت دینے والا اورہدایت یافتہ بنا دیجیے اوراس کے ذریعہ سے لوگوں کو ہدایت دیجیے۔ (ترمذی)٭…سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں بچوں کے ساتھ کھیل رہاتھا کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے میں یہ سمجھا کہ آپ میرے لئے تشریف لائے لہذا میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا تو آپ نے میری کمر پر تھپکی دے کر فرمایاجاؤ اور معاویہ کو بُلا لاؤ وہ (معاویہ رضی اللہ عنہ) وحی لکھتے تھے۔۔۔ الخ(دلائل النبوۃ للبہیقی)٭… رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:اے اللہ! معاویہ کو حساب کتاب سکھا اور اس کو عذاب جہنم سے بچا۔(کنزالعمال)٭… رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:معاویہ میرا رازداں ہے، جو اس سے محبت کرے گا وہ نجات پائے گا، جو بغض رکھے گا وہ ہلاک ہو گا۔(تطہیرالجنان)٭… صحابی عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے لئے فرمایا کہ! اے اللہ!۔ اسے ہادی مہدی بنادے اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے (سنن الترمذی)٭… رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالی قیامت کے دن معاویہ کو اٹھائیں گے ، تو ان پر نور ایمان کی چادر ہوگی۔(تاریخ الاسلام حافظ ذہبی)٭… رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:میری امت میں معاویہ سب سے زیادہ بردبار ہیں۔(بحوالہ :سیرت امیرمعاویہ )
5) سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ!۔مارایت رجلا کان اخلق یعنی للملک من معاویہ۔ میں نے معاویہ سے زیادہ حکومت کے لئے مناسب (خلفائے راشدین کے بعد) کوئی نہیں دیکھا… (تاریخ دمشق)٭… عرباض بن ساریہ السلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ!۔اللھم علم معاویۃ الکتاب والحساب، وقد العذاب۔اے میرے اللہ!۔ معاویہ کو کتاب و حساب سکھا اور اُسے عذاب سے بچا۔(مسند احمد)٭… ابراہیم بن میسر الطائفی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے کسی انسان کو نہیں مارا سوائے ایک انسان کے جس نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو گالیاں دی تھیں انہوں نے اسے کئی کوڑے مارے۔ { تاریخ دمشق )٭… حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ہدایت دینے والا، ہدایت پر قا ئم رہنے والا اور لوگوں کیلئے ذریعہ ہدایت بنا۔( جا مع ترمذی)٭… حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا کہ معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہ میری امت میں سب سے زیادہ بردبار اور سخی ہیں۔(تطہیرالجنان)۔٭… حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جب اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مبارکبا د دی اور”مرحبا،فرمایا”(البدایہ والنہایہ)٭…معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر بھلائی کےساتھ کرو۔ ( اسے حدیث سمجھنا غلط فہمی ہے ) ( *حضرت عمر فاروق )٭… لوگو ! فرقہ بندی سے بچو ۔ اگر تم نے فرقہ بندی اختیار کی تو یاد رکھو معاویہ رضی اللہ عنہ شام میں موجود ہیں ۔ ( *حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ* )٭… معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت کو برا نہ سمجھو کیونکہ جب وہ نہیں ہوں گے تم سروں کو گردنوں سے اڑتا دیکھو گے ( *حضر ت علی رضی اللہ عنہ* )٭… میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر امو ر سلطنت وبادشاہت کے لائق کسی کو نہیں پایا۔ ( *حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ* )٭… میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد ان سے بڑھ کر حق کا فیصلہ کرنے والانہیں پایا ۔ ( *حضرت سعدؓبن ابی وقاص*)٭… میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر برد بار ،سیادت کے لائق ، باوقاراور نرم دل کسی کو نہیں پایا ۔( *حضرت قبیصہؓ بن جابر* )٭… اگر تم معاویہ رضی اللہ عنہ کا زمانہ پاتے تو تمہیں پتہ چلتا کہ عدل وانصاف کیا ہے؟( *امام اعمش* ؒ)
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ خانوادہ علی رضی اللہ عنہ کی نظر میں
اہلِ بیت سیدنا امیر معاویہؓ کے بارے میں اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ خانوادہ علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا کہتے اور سوچتے ہیں اور ان کے آپس میں کتنے گہرے مراسم اور تعلقات ہیں اور وہ ایک دوسرے کی کس قدر عزت و تکریم کرتے ہیں۔
جنگ صفین کے بعد کچھ لوگوں نے اہلِ شام اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنا شروع کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک گشتی مراسلہ اپنے زیر حکومت علاقہ کے لوگوں کو بھیجا۔ اس مراسلہ کو نہج البلاغہ کے شیعہ مصنف نے صفحہ 151پر درج کیا ہے:
ہمارے معاملے کی ابتداء یوں ہوئی کہ ہمارا اور اور اہل شام (معاویہ )کا مقابلہ ہوا اور یہ بات تو ظاہر ہے کہ ہمارا اور ان کا خدا ایک، ہمارا اوران کانبی ایک، ہماری اور ان کی دعوت اسلام میں ایک، اللہ پر ایمان رکھنے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے میں نہ ہم ان سے زیادہ نہ وہ ہم سے زیادہ، پس معاملہ دونوں کا برابر ہے ۔صرف خونِ عثمان کے بارے میں ہم اور ان میں اختلاف ہوااور ہم اس سے بری ہیں ۔معاویہ میرے بھائی ہیں۔
حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جنگ صفین کے موقع پر پوچھا گیا :
جو لوگ آپ کے مقابلے میں آئے کیا وہ مشرک ہیں؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ مشر ک نہیں ہیں۔
پوچھنے والے نے کہا: کیا وہ منافق ہیں؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:وہ منا فق بھی نہیں ہیں۔
پوچھنے والے نے کہا: پھر آپ کی نگاہوں میں ان کی حیثیت کیا ہے؟
جواب میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ہم اخواننا بغواعلینا‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ، جلد: 4ص: 1013)
وہ ہمارے بھائی ہیں جنہوں نےہمارے خلاف زیادتی کی ہے۔
آپ تاریخ و سیرت اور احادیث کی کتب اٹھائیں اور پڑھیں آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی کہ جو لوگ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں سے قیدی بن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور ان میں سے کسی کا انتقال ہو گیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ انہیں غسل دیا جائے اور کفن دیا جائے، پھر انہوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ دونوں لشکروں کے مقتولین کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’قتلانا و قتلاہم فی الجنۃ‘‘ہمارے لشکر کے مقتول اور معاویہ کے لشکر کے مقتول سب جنت میں جائیں گے۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ، جلد:4ص: 1036)
کتنے افسوس کامقام ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام کو اپنے جیسا ایماندار اورمسلمان اور ان کے مقتولین کو جنتی بتلائیں اور دشمنانِ صحابہ سبائی انہیں کافر اور منافق قرار دیں۔ اب قارئین خود فیصلہ فرمائیں کہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بات معتبر سمجھی جائے یا سبائی گروہ کی۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
اختلاف کے باوجود باہمی محبت واحترام
سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کچھ اختلاف کے باوجود ان کا کتنا احترام کرتے تھے اور ان کے بارے میں کس قدر حسنِ ظن رکھتے تھے۔
تاریخِ اسلام کے اوراق میں آپ کو نظر آئے گا کہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ او رسیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین جنگ جاری ہے۔ منافقین کی شرارتوں، خباثتوں اور کارستانیوں کے نتیجے میں گھمسان کا رن پڑ رہا ہے کہ اس دوران قیصر روم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاقے پر قبضہ کرنے کا خطرناک منصوبہ بنایا۔ اس کا خیال تھا کہ مسلمان آپس میں دست و گریباں ہیں اور مجھے اس سے زیادہ مناسب موقع پھر کبھی میسر نہیں آئے گا۔ اس نے سوچا کہ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ اندرونی طور پر سخت مشکل میں ہیں ان کی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے ٹھنی ہوئی ہے، میرے اس اقدام سے حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی خوش ہوں گے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو قیصر روم کے خطرناک اور زہریلے عزائم کی اطلاع ملی تو بے حد پریشان ہوئے۔ کیونکہ بیک وقت دو محاذوں پر جنگ لڑنا اور دو محاذوں پر جنگ جاری رکھنا ان کے لیے بہت دشوار اور مشکل تھا، مگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اس پریشانی اور اضطراب کو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی للکار نے دور کردیا۔
قیصرِ روم کے اس ارادے کی اطلاع جب حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ہوئی تو وہ بے چین ہوگئے اور اسی وقت ایک خط قیصر روم کے نام تحریر فرمایاجس کے ذریعے انہوں نے قیصر روم کی غلط فہمیوں کو اس خوبصورتی کے ساتھ دور کیا کہ خط لکھنے کا حق ادا کر دیا۔ خط کیا تھا؟ ایک مؤثر ہتھیار تھا، پر مغز ، مؤثر اور جلال سے بھر پور، رعب و دہشت کا مجسمہ جسے پڑھ کر قیصر روم کے حواس اڑ گئے اور اوسان خطا ہوگئے۔ قیصر روم پر ایسی دہشت اور ایسا رعب طاری ہوا کہ ا س کے قدم جہا ں تھے وہیں رک گئے۔ سیدناامیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خط کامضمون اور طرز تحریر کس قدر ایمان افروز اور کفر سوز ہے یہ ایک الگ حقیقت ہے ، مگر خط کی ا بتداء میں آپ نے جس تیز و تلخ ، رعب دار اور جلال سے بھر پور لہجے میں قیصر روم کو مخاطب کیا ہے وہ انداز اپنی جگہ ’’اشداء علی الکفار ‘‘ کی عملی تصویر ہے۔
خط کے آغاز میں سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر فرمایا: الے لعنتی انسان ! مجھے اپنے اللہ کی قسم ہے اگر تو اپنے ارادے سے باز نہ آیا اور اپنے شہروں کی طرف واپس پلٹ نہ گیا تو کان کھول کر سن!پھر میں اور میرے چچا زاد بھائی تیرے خلاف صلح کرلیں گے،پھر میں علی کا سپاہی بن کر۔ تجھے تیرے ملک سے نکال دوں گا اور زمین باوجود وسعت کے تم پر تنگ کردوں گا۔ (البدایہ و النہایہ،جلد: 8ص:119)
دورخلافت اوراصلاحات
٭… آپ رضی اللہ عنہ کے دو رخلافت میں فتوحات کا سلسلہ انتہائی برق رفتاری سے جاری رہا اور قلات ، قندھار، قیقان ، مکران ، سیسان ، سمر قند ، ترمذ،شمالی افریقہ ،جزیرہ روڈس ،جزیرہ اروڈ ،کابل ،صقلیہ (سسلی ) سمیت مشرق ومغرب ،شمال وجنوب کا 22 لاکھ مربع میل سے زائد علاقہ اسلام کے زیر نگیں آگیا ۔ ان فتوحات میں غزوہ قسطنطنیہ ایک اہم مقام رکھتاہے ۔ یہ مسلمانوں کی قسطنطنیہ پر پہلی فوج کشی تھی ، مسلمانوں کا بحری بیڑہ سفیان ازدی رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں روم سے گزر کر قسطنطنیہ پہنچا اور قلعے کا محاصرہ کرلیا ۔
٭… آپ رضی اللہ عنہ نے فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا ایک حصہ موسم سرما میں اور دوسرا حصہ موسم گرما میں جہاد کرتا تھا ۔آپ رضی اللہ عنہ نے فوجیوں کا وظیفہ دگنا کردیا ۔ ان کے بچوں کے بھی وظائف مقرر کردئیے نیز ان کے اہل خانہ کا مکمل خیال رکھا ۔
٭… مردم شماری کےلئے باقاعدہ محکمہ قائم کیا ۔
٭… بیت اللہ شریف کی خدمت کےلئے مستقل ملازم رکھے ۔ بیت اللہ پر دیبا وحریر کا خوبصورت غلاف چڑھایا ۔
٭… تمام قدیم مساجد کی ازسرنو تعمیر ومرمت ،توسیع وتجدید او رتزئین وآرائش کی ۔
٭… حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلاا قامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا۔
٭… نہروں کے نظام کے ذریعے سینکڑوں مربع میل اراضی کو آباد کیا اور زراعت کو خوب ترقی دی ۔
٭… نئے شہر آباد کئے اور نو آبادیاتی نظام متعارف کرایا ۔
٭… خط دیوانی ایجاد کیا اور قوم کو الفاظ کی صورتمیں لکھنے کا طریقہ پیدا کیا۔
٭… ڈاک کے نظام کو بہتر بنایا ، اس میں اصلاحات کیں اور باقاعدہ محکمہ بناکر ملازم مقرر کئے ۔
٭… احکام پر مہر لگانے اور حکم کی نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ ایجاد کیا۔
٭… عدلیہ کے نظام میں اصلاحات کیں اور اس کو مزیدترقی دی ۔
٭… آپ نے دین اخلاق اور قانون کی طرح طب اور علم الجراحت کی تعلیم کا انتظام بھی کیا۔
٭… آپ نے بیت المال سےتجارتی قرضے بغیر اشتراک نفع یا سود کے جاری کرکے تجارت وصنعت کو فروغ دیا اور بین الاقوامی معاہدے کئے۔
٭…سرحدوں کی حفاظت کیلئے قدیم قلعوں کی مرمت کر کے اور چند نئے قلعے تعمیر کرا کر اس میں مستقل فوجیں متعین کیں۔
٭…حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ہی سب سے پہلے منجنیق کا استعمال کیا گیا۔
٭…مستقل فوج کے علاوہ رضا کاروں کی فوج بنائی ۔
٭…بحری بیڑے قائم کئے اور بحری فوج ( نیوی ) کا شعبہ قائم کیا ۔ یہ آپ رضی اللہ عنہ کا تجدیدی کارنامہ ہے ۔
٭…جہاز سازی کی صنعت میں اصلاحات کیں اور باقاعدہ کارخانے قائم کئے۔پہلا کارخانہ 54 ھ میں قائم ہوا ۔
٭…قلعے بنائے ، فوجی چھاؤنیاں قائم کیں اور ” دارالضرب “ کے نام سے شعبہ قائم کیا ۔
٭…امن عامہ برقرار رکھنے کےلئے پولیس کے شعبے کو ترقی دی جسے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے قائم کیا تھا ۔
٭…دارالخلافہ دمشق اور تمام صوبوں میں قومی وصوبائی اسمبلی کی طرز پر مجالس شوری قائم کیں ۔
22رجب المرجب 60ھ میں کاتب وحی، جلیل القدر صحابی رسولصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فاتح شام و قبرص اور 19سال تک 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ 78 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور دمشق کے باب الصغیر میں دفن کئے گئے۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات 78 سال کی عمر میں بمطابق 60 ہجری رجب کے مہینے میں دمشق شہر میں بیماری کے سبب ہوئی۔ ضحاک بن قیس فہری رضی اللہ عنہ نے آپ کی وفات کا اعلان کیا۔ آپ کو غسل دینے کے بعد حسبِ وصیت وہ تبرکات جو آں موصوف نے محفوظ کیے تھے کفن میں شامل کیے گئے۔ نمازِ ظہر کے بعد آپ کی نمازِ جنازہ ضحاک بن قیس فہری نے پڑھائی اور آپ کو باب الصغیر میں موجود مقابر میں دفن کیا گیا۔
دشمنان صحابہ سبائی ٹولہ نے سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق ایسا ہمہ گیر پروپییگنڈہ کیا ہے کہ حقائق خرافات کے انبار میں دب کر رہ گئے ہیں اور مسلمان نسلاً بعد نسل اس شر انگیز پروپیگنڈے سے اس حد تک متاثر ہوتے چلے گئے ہیں کہ مدت سے نہ صرف عامۃ المسلمین بلکہ بہت سے خواص کے احساسات بھی حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جیسے عظیم و جلیل القدر اورکاتبِ وحی صحابی کے بارے میں ویسے باقی نہیں رہ گئے جیسے دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں عموما پائے جاتے ہیں۔
شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہی ایسا جذبات انگیز تھا کہ خانوادہ علی سے گہری محبت رکھنے والی امتِ مسلمہ کو اس کی آڑ میں بہت آسانی سے غلط خیالات و آراء میں مبتلا کیا جا سکتا ہے اور کیا گیا ہے، حالانکہ جذباتی و خیا لی بلند پروازیوں سے الگ ہو کر ٹھوس حقیقی بنیادوں پر علمی و عقلی گفتگو کی جائے تو معلوم ہو گا کہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دامن مقدس اسی طرح داغِ طغیان و معصیت سے پاک ہے جس طرح دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا۔سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی تھے او رآخر سانس تک مرتد نہیں ہوئے تو ’’اصحاب‘‘ اور ’’کالنجوم‘‘ کے دائرے سے انہیں کون نکال سکتا ہے؟ ویسے بھی ہمارا اور آپ کا جج بن بیٹھنا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عدالتِ خیال میں فریقین بناکر لانا ایسی ناروا جسارت ہے کہ دُرّوں سے ہماری پیٹھ کُھرچ دینی چاہیے۔ ہمیں کیا حق ہے کہ تقریبا چودہ سو برس بعد رسول اللہ ﷺ کے بعض محترم اصحاب میں سے ایک کو بر سرِ حق اور ایک کو مجرم اور غلط ثابت کرنے بیٹھیں اور تاریخی واقعات کو صحیفۂ آسمانی تصور کرلیں۔ چاہے ان کی بعض تفصیلات سے قرآن کا توثیق فرمودہ کردارِ صحابہ مجروح ہوتا ہے۔ ہمیں کچھ بھی حق نہیں سوائے اس کے کہ ہر صحابی کے لیے دلوں میں عقیدت او رحسنِ ظن پر ورش کریں اور ان کے ہر فعل و عمل کی اچھی توجہیہ نکالنے میں کوشاں رہیں۔حدیث کے الفاظ ہیں: ’’ میرے تمام صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس کی بھی اقتدا کرلو گے ہدایت پا جائو گے‘‘۔
صحابیت عظمتِ پیغمبر کے حِصار کا درجہ رکھتی ہے۔ نبوت کے قصر کی فصیلیں صحابیّت ہی کے رنگ و روغن سے زینت پاتی ہیں۔ اکرام ِ صحابیت کا طلائی حِصار اگر ٹوٹ جائے تو پیغمبر کی آبرو تک ہاتھ پہنچنا آسان ہوجاتا ہے۔ پس جو لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید کرتے ہیں وہ در اصل امام الانبیاءﷺ کی آبرو اور ختم نبوت کے دشمن ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پر بددیانتی اور خیانت کا الزام لگا کر اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب پر ہاتھ صاف کرنا چاہتے ہیں۔