حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں بدترین گستاخی
از قلم:… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
صحافی ضیاء شاہد نے اپنے کالم میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں بدترین گستاخی کی ہے۔ حکومت روزنامہ خبریں کی اشاعت پہ پابندی لگاکر ضیاء شاہد کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کرکے اس کو قرار واقعی سزا دے، حضرات صحابہ کرام واہلبیت اطہار رضوان اللہ علیہم کی گستاخیوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے حکومت اور اداروں نے اگر قانون کے تحت گستاخوں کو سزائیں نہ دی تو ملک میں پھر مذہبی فسادات کا آغاز ہو سکتا ہے،ضیاء شاہد کی گرفتاری اور اس کے اخبار روزنامہ خبریں پر پابندی تک تمام مسلمان ، بالخصوص سوشل میڈیا پہ موجود نوجوان فیس بک / ٹوئیٹر پہ آواز بلند کریں ان شاء اللہ قانون کے تحت اس کمینے فرد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ایک عرصہ سے ہمارے وطن عزیز ملک پاکستان میں آئے روزمیں حضرت امیر معاویہؓ کی شان اقدس میں گستاخی کی جارہی ہے۔ان رافضیوں کے دلالوں کو جہاں دیکھو وہاں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سے بکواس کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔جو نہایت ہی قابل افسوس کے ساتھ قابل مذمت بھی ہے۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جناب خاتم النبیین رسول کریم ﷺ کے عظیم المرتبت صحابی، کاتب وحی اور زوجہ رسول ام المومنین حضرت ام حبیبہ ؓ کے بھائی ہیں۔ انکی صحابیت پر شک و شبہہ قطعاً جائز نہیں۔انکی شان اقدس میں کوئی بھی مسلمان گستاخی کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔اگر کوئی کرے تو سمجھ لے کہ وہ یا تو وہ گمراہ ہوچکا ہے یا رافضی یا کافر ہے۔خاتم الانبیاء جناب رسول اللہ!ﷺ کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر اعتماد تھا اسی لئے انہیں قرآن جیسی عظیم کتاب کو لکھنے کی ذمہ داری سونپی تھی، حضرت امیرمعاویہؓ کی عظمت اور بزرگی پر اس سے بڑھ کر اور کوئی بات پیش نہیں کی جا سکتی کہ ان کا شمار ان کاتبین وحی میں ہوتا ہے جنہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں ’’کرام بررۃ‘‘ کے معزز خطاب سے یاد فرمایا۔آپ ﷺنے فرمایا کہ ’’میری امت میں سب سے زیادہ سخی اوربردبار امیر معاویہؓ ہیں‘‘۔ایک مرتبہ نبی کریم خاتم النبیین ﷺ نے فرمایا تھا کہ’’ میری امت کا سب سے بڑا لشکر جو بحری لڑائیوں کا آغاز کرے گا اس پر جنت واجب ہے۔ اور حضرت سیدنا امیر معاویہؓ واحد شخص ہیں جنہوں نے سب سے پہلے بحری بیڑے کا آغاز قبرص سے کیا اور مسلمان قوم سب سے پہلی مرتبہ بحری جہاد سے سرفراز ہوئی۔
حضرت معاویہؓ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اختلاف کسی دولت اور سلطنت کیلئے نہیں تھا بلکہ قاتلان عثمانؓ کے انتقام کیلئے تھا۔دونوں طرف اصحاب رسول تھے،کسی ایک کو مورد الزام ٹھہرانا نہ صحیح ہے اور نہ انصاف کا تقاضا۔ اس مسئلہ میں ناصبی، خارجی بھی غلط ہیں جو حضرت علیؓ کی شان اقدس میں زبان طعن دراز کرتے ہیں اور رافضی بھی غلط ہیں جو حضرت امیر معاویہؓ یا دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان عظمت میں گستاخیاں کرتے ہیں۔ جو لوگ اپنی لاعلمی، نادانی اور بدبختی کی وجہ سے حضرت امیر معاویہؓ یا دیگر اصحاب رسول کی شان اقدس میں گستاخی کرتے ہیں وہ اسلام سے خارج ہیں، انکی بیوی ان پر حرام ہوجائے گی اور پیدا ہونے والی اولاد بھی حرام کی ہوگی۔
بخاری شریف کی ایک حدیث قدسی میں ارشادِ الٰہی ہے ’’جس شخص نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اس کے لئے میری طرف سے اعلان ِ جنگ ہے‘‘ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے بڑا ولی کون ہوسکتا ہے ؟ صحیح بخاری ومسلم شریف میں ایک ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم یوںہے ’’میرے صحابہ کو گالیاں مت دو ، مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ،تم میں سے اگر کوئی شخص اُحد پہاڑ جتنا سونا بھی راہ ِ للہ خرچ کردے تو میرے صحابہ کے ایک مٹھی دانے صدقہ کرنے بلکہ اس سے آدھے ثواب کو بھی نہیں پہنچ سکتا ‘‘ طبرانی میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہے’’ جس نے میرے صحابہ کو گالیاں دیں ،اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو‘‘ ایک اور حدیث میں ہے ’’ جس نے میرے صحابہ کو گالیاں دیں ،اس نے مجھے گالیاں دیں اور جس نے مجھے گالیاں دیں، اس نے اللہ تعالیٰ کو گالیاں دیں ‘‘ غرض مذکورہ احادیـث ِ نبویہ کے پیش نظر اہلِ علم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی دینا اور لعن طعن کرنا کفر قرار دیا ہے۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی ہیں، کاتب وحی ہیں۔ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں۔ اس لحاظ سے تمام اہل اسلام کے قابل صد تکریم روحانی ماموں ہیں۔ لہذا کوئی مسلمان ان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور جو گستاخی کرے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا ۔اللہ تعالیٰ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہ ائمہ و اولیاء و علماء اور عام اہل اسلام کا ادب و احترام ہی ایمان اور تقویٰ ہے۔
خاتم النبیین جناب نبی پاک ﷺ کا ارشاد گرامی ہے’’میرے صحابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ میرے صحابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔میرے بعد انہیں (طعن و تشنیع کا) نشانہ نہ بنانا۔ سو جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا، اس نے میرے ساتھ بغض رکھنے کی بنا پر ان سے بغض رکھا اور جس نے ان کو تکلیف دی اس نے یقینا مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے یقینا اللہ کو تکلیف دی اور جس نے اللہ کو تکلیف دی تو عنقریب اسے اللہ پکڑے گا‘‘۔اسی طرح آپ ﷺ نےارشاد فرمایا:’’میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جس کی پیروی کرو گے راہ پاؤ گے‘‘۔(مشکوٰۃ، 554)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے محبت رکھنا، ان کے راستے پر چلنا، ان کے باہمی تنازعات میں پڑے بغیر ان کے لئے دعائے خیر کرنا، امت پر فرض ہے۔ ان سے بغض رکھنا، ان کی بے ادبی کرنا، ان کی شان و شوکت سے جلنا طریقِ کفار و منافقین ،رافضین ہے۔
جس طرح اللہ تعالی کی شان الوہیت میں گستاخی کرنا کفر ہے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس و شان نبوت میں بھی ذرہ بھر گستاخی کرنا کفر ہے۔ اسی طرح جن نفوس قدسیہ کا سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غلامی کا نیاز مندانہ رشتہ ہے ان میں سے کسی کی گستاخی کرنا بھی کفر ہے خواہ وہ ازواج مطہرات امہات المومنین ہوں، خواہ آل و اولاد ہو، خواہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہوں۔
سیدنا امیر معاویہؓ اور اصحاب محمدﷺ کی زندگیوں کو تاریخ کے بوسیدہ اوراق میں نہیں ٹٹولا جائے گا بلکہ قرآن و حدیث کے ترازو میں تولا جائے گا جس میں ذرہ برابر بھی شک وشبہ کی گنجائش نہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے جنہوں نے قرآن و حدیث کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے،انہوں نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالئ عنہ کی فضیلت کو بصمیمِ قلب تسلیم کیا ہے اور وہ بدنصیب حضرات جنہیں قرآن و حدیث، تفسیرو تشریح کا کوئی علم نہ ہو،اردو داں ہو، ان کی رسائی تاریخی کتابوں کے مطالعہ تک محدود ہو، ایسے ہی مردودوں، کم بختوں اورکم علموں نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی کردار کشی کرکے اسی دنیا میں اپنی آخرت کو تاخت و تاراج کر لیا ہے۔
٭…حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :… حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ ایک شخص تھے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے اور صحابہ رضوان اللہ علیہم میں بڑے صاحب فضیلت تھے تم کبھی اُن کے حق میں بد گمانی نہ کرنا اور ان کی بد گوئی میں مبتلا نہ ہونا ورنہ تم حرام کے مرتکب ہوگے۔(ازالۃ الخفاء جلد اول صفحہ 349) ٭…شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی عبارت کی روشنی میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی گستاخی کرنے والا حرامی ہے !
٭… حضرت عبداللہ ابن مبارک سے پوچھا گیا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز افضل ہیں یا حضرت امیر معاویہ آپ نے فرمایا. رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ جہاد کے موقع پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک میں جو غبار داخل ہوا وہ غبار حضرت عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمہ سے افضل ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: معاویہ رضی اللہ عنہ ہمارے نزدیک محبتِ صحابہ کے پرکھنے کا معیار ہیں، چناں چہ جو معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف نگاہِ غلط اٹھاتا ہے، یا ان کے خلاف بغض و عداوت رکھتا ہے ہم اسے پورے صحابہ سے نفرت کرنے والا سمجھتے ہیں۔یعنی معاویہ رضی اللہ عنہ کی ذات میں طعن پورے صحابہ کی ذات میں طعن کے مترادف ہے ٭…اسی طرح دیگر صحابہ کرام کے بارے میںفتاویٰ بزازیہ میں ہے : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا منکر کافر ہے۔ حضرت علی، طلحہ، زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کو کافر کہنے والے کو کافر کہنا واجب ہے۔(فتاویٰ بزازیہ:۳/۳۱۸) ٭…ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ : شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں: ’’جو شخص ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا انکار کرے تو وہ کافر ہے، کیونکہ ان دونوں کی خلافت پر تو صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے ۔ (شرح فقہ اکبر:۱۹۸) ٭…حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ : مختلف مکتوبات میں روافض کو کافر تحریر فرماتے ہیں: ’’اس میں شک نہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما صحابہ میں سب سے افضل ہیں، پس یہ بات ظاہر ہے کہ ان کو کافر کہنا ان کی کمی بیان کرنا کفر و زندیقیت اور گمراہی کا باعث ہے ۔ (ردّ روافض:۳۱) ٭…فتاویٰ عالمگیری میں ہے: روافض اگر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی شان میں گستاخی کریں اور ان پر لعنت کریں تو کافر ہیں، روافض دائرۂ اسلام سے خارج ہیں اور کافر ہیں اور ان کے احکام وہ ہیں جو شریعت میں مرتدین کے ہیں ۔ (فتاویٰ عالمگیری:۲/۲۶۸) ٭…علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہم تک دین صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے ذریعے ہی پہنچا ہے انہیں کو جب مطعون کردیا جائے گا تو آیات و احادیث بھی محل طعن بن جائیں گی اور اس میں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا اور مبلغ کی تبلیغ کے لیے اس کا عادل ہونا ضروری ہے اور .( برکات آل رسول 281 )
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے اور ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور ہمارے اسلاف کی طرح حبِ صحابہ و اہل بیت پر ہمیں استقامت عطا فرمائے ۔آمین
