از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
اﷲ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اس ساڑھے تیرہ سو برس کے عرصے میں کتنے کروڑ مرتبہ خطیبوں نے بر سرِ منبر حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے افضل البشر بعد الانبیاء بالتحقیق ہونے کا اعلان کیا ہے ۔کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت انبیاءکرام کے بعد مقدس ترین جماعت اورتمام مخلوق سے افضل اور اعلیٰ ہے یہ عظمت اور فضیلت صرف صحابہ کرام کو ہی حاصل ہے کہ اللہ نے انھیں دنیا میں ہی مغفرت،جنت اور اپنی رضا کی ضمانت دی ہے بہت سی قرآنی آیات اور احادیث اس پر شاہد ہیں، صحابہ کرام سے محبت اور نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں جو ان کی افضلیت بیان کی ہے ان کو تسلیم کرنا ایمان کاحصہ ہے، بصورت دیگر ایمان ناقص ہے، یہ دین چونکہ ہمارے پاس انھیں کے واسطے سے پہنچا ہے اس لیے وہ ہمارے ماں باپ سے زیادہ ہمارے محسن ہیں، صحابہ کا تذکرہ کثرت سے کرنا چاہیے،اس لیے بھی کہ ان عظیم ہستیوں کی تعریف کرنا کار خیر ہے کہ قرآن کریم نے ان مقدس انسانوں کے ایمان کو بعد میں آنے والے انسانوں کے لیے معیار اور پیمانہ بنایا ہے، جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے: یعنی اگر تم ایمان اس طرح لا ؤ جیسا کہ ایمان صحابہ کرام لائے ہیں تو تحقیق تم فلاح پا جاؤ گے،(البقرہ137) اس لحاظ سے بھی صحابہ کرام کا ذکر کرنا ضروری ہے، تاکہ امت محمدیہ ان کے مقام اور مرتبہ کو سمجھے اور ان کے مطابق ایمان بنانے کی کوشش کرےجماعتِ صحابہ میں سے خاص طور پر وہ ہستیاں جنہوں نے آپ ﷺ کے بعد اس امت کی زمامِ اقتدار، امارت، قیادت اور سیادت کی ذمہ داری سنبھالی، اور امور دنیا اور نظامِ حکومت چلانے کے لیے ان کےاجتہادات اور فیصلوں کو شریعتِ اسلامی میں ایک قانونی دستاویز کی حیثیت حاصل ہے، جنھیں خلفائے راشدین کہا جاتا ہے، ان کا مقام و مرتبہ سب سے اعلٰی ہے۔
خلفائے راشدین کی سیرت امت کے لیے ایک عظیم خزانہ ہے، اس میں بڑے لوگوں کے تجربات ہیں مشاہدات ہیں خبریں ہیں امت کے عروج اور غلبہ کی تاریخ ہے اس کے مطالعہ سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ کن کن موقعوں پر اہل حق کو عروج اور ترقی ملی، اس کے اسباب جاننے اور جانچنے کا موقع ملتا ہے، اسی طرح تصویر کا دوسرا رخ بھی نظر آتاہے کہ کن مواقع پر امت ذلت اور پستی کا شکار ہوئی اور اس کے اسباب کیا تھے، ہمیں اپنی عظمت رفتہ اور مرتبے کو حاصل کرنے کے لیے قرون اولیٰ کی تاریخ کو اپنانے کی ضرورت ہے، اس زمانے کے تمام حالات ہمیں معلوم ہونے چاہیے،
جن آیات میں صحابۂ کرام ، سابقون اوّلون ، مہاجرین ، مجاہدین اور مومنین وغیرہ کے اوصاف و فضائل ہیں اُن میں حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ بطریقِ اولیٰ شریک ہیں ۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ بکثرت آیاتِ قرآنی سے فضائلِ صدیقی ثابت ہیں ۔
اوراحادیث رسول میں حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے فضائل میں ایک سو اکیاسی (۱۸۱) حدیثیں مروی ہیں ۔ اٹھاسی (۸۸) حدیثیں ایسی ہیں جن میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رضی اﷲ عنہم ) کی فضیلت کا بیان ہے ۔ سترہ (۱۷) حدیثیں ایسی ہیں جن میں مجموعی طور پر خلفائے ثلاثہ کے فضائل ہیں ۔ چودہ (۱۴) حدیثوں میں خلفائے اربعہ کے ساتھ اور صحابہ کرام بھی شریکِ فضائل ہیں ، رضی اﷲ عنہم اجمعین ۔ اس طرح (۱۸۱ + ۸۸ +۱۷ + ۱۴ + ۱۶= ۳۱۶) تین سو سولہ حدیثیں حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے فضائل میں روایت کی گئی ہیں ۔ یہ تعداد تو اُن حدیثوں کی ہیں جو مخصوص نام کے ساتھ ہیں ۔ جن ہزاروں حدیثوں میں مہاجرین ، مومنین وغیرہ اہلِ ایمان و صلاح کے فضائل مذکور ہیں وہ بھی حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی شان میں صادق آتی ہیں ۔
جب’’ حضرت سرورِ عالم صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم صحابہ کرام مہاجرین اور انصار کے مجمع میں تشریف لاتے تھے جن میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہم بھی ہوتے تھے ۔ اہلِ جلسہ میں سے کوئی صاحب آپ کی جانب نگاہ نہیں اٹھاتے تھے سوائے حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے ۔ یہ دونوں صاحب آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کی جانب دیکھتے تھے آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم ان کی طرف ۔ اور یہ دونوں صاحب آپ کی جانب دیکھ کر مسکراتے تھے ۔ اور آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم ان کی طرف دیکھ کر تبسم فرماتے تھے ۔ ‘‘
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کامختصر تعارف :… آپ کا اسم گرامی عبد اﷲ اور والد محترم کا نام عثمان بن ابی قحافہ ہے ۔ ٭… آپ کا سلسلہ نسب ساتویں پشت میں حضور اقدس صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کے خاندان سے جاملتا ہے ۔ ٭… آپ کا لقب عتیق ہے ۔ اس لئے کہ عتیق کا معنی ہے آزاد کیا ہوا اور حضور اکرم صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا تھا جو جہنم سے آزاد کئے ہوئے کو دیکھنا چاہے وہ ابوبکر صدیق کو دیکھ لے ۔ ٭… آپ اسلام سے پہلے بھی حضور اکرم صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کے ساتھ رہتے تھے ۔ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لائے ، تمام جنگوں میں شریک رہے ۔ آپ کی یہ عظمت ہے کہ آپ خود بھی ، آپ کے والدین بھی اور آپ کے صاحبزادے اور پوتے بھی حضور صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کے صحابی تھے ۔ تمام صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم میں آپ کو یہ امتیازی شان حاصل ہے ۔ ٭… آپ کی پیدائش اصحاب فیل کے واقعہ سے تقریباً دو سال چار ماہ بعد ہوئی ۔ ٭… آ پ حضور صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کے پہلے جانشین ہوئے اور دو سال چار ماہ آپ نے خلافت سنبھالی ۔ تمام صحابہ میں آپ سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں ، آپ کی مرویات کی تعداد ۱۴۲ ہے ۔ ۶۳ سال عمر پاکر ۲۳ جمادی الاخریٰ ۱۳ھ میں وفات پائی ۔
تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے زیادہ یہ شرف اور سعادت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ہی حاصل ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مہاجرین و انصار کا مرتبہ باقی صحابہ کرام سے زیادہ ہے اور چاروں خلفاء میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا پھر حضرت فاروق رضی اللہ عنہ کا مرتبہ سب سے بڑا فائق ہے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسلام لانے کے بعد اپنا سب کچھ اسلام پر قربان کردیا جو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سب سے زیادہ مخلص خادم تھے جنہوں نے اسلام کی نصرت و اعانت اور امداد و حمایت میں کوشش و ہمت کا کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑا جو ختم المرسلین اور خاتم النبیین کا سب سے پہلے اور سب سے زیادہ مضبوط جانشین تھے، جنہوں نے جسمانی لحاظ سے ضعیف و کمزور ہونے کے باوجود حیرت انگیز استقلال اور جوانمردانہ عزم کے ساتھ اسلام کی اس وقت پشتیٔ بانی کی جب پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت کے بعد اسلام کی کشتی منجدھار میں تھی اور مرکز اسلام کوچاروں طرف سے دشمنان اسلام کی فوجوں نے گھیر رکھا تھا یہ اسی مرد مومن کے حالات ہیں جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ عزیز اور سب سے زیادہ محبوب تھے یہی وہ عظیم الشان شخصیت تھی جس کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تین دن تنگ و تاریک غار میں رہنے کی عزت حاصل ہوئی اسی موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے اس اپنے ساتھی کو اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا کا مژدہ سنایا تھا یہی وہ بے نظیر بہادر تھے جن کو اشجع العرب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وقت ہجرت اپنا ہم سفر بنانے کی سعادت بخشی یہ وہی متقی اور پرہیز گار شخص تھےجن کو آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مرض الموت میں اپنی بجائے نماز پڑھانے کا حکم دیا یہ اسی صدیقہ و طاہرہ خاتون کا باپ تھے جسے خیر البشر اور افضل الرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے چہیتی بیوی اور رفیق زندگی ہونے کا فخر حاصل ہوا‘ یہ وہی محترم انسان تھے جس کے متعلق رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا۔لوکنت متخذا من العباد خلیلا لاتخذت ابا بکر خلیلا .لوگوں میں سے میں اگر کوئی ولی دوست بناتا تو ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو بناتا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ ایک نظر میں:
٭…سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اسلام سے پہلے قبائل و اقارب میں راست گوئی‘ امانت و دیانت میں مشہور تھے‘ اہل مکہ ان کو علم‘ تجربہ اور حسن خلق کے باعث معززو محترم سمجھتے تھے۔
٭…آپ طبعاً برائیوں اور کمینہ خصلتوں سے محترز رہتے تھے آپ نے جاہلیت ہی میں شراب اپنے اوپر حرام کررکھی تھی اور شراب نوشی میں انسانی آبرو کا نقصان کہتے تھے کسی نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ کبھی آپ نے شراب بھی پی ہے؟ آپ نے فرمایا نعوذ باللہ! کبھی نہیں پی اس نے پوچھا کیوں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے بدن سے بو آئے اور مروت زائل ہو‘ یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ابوبکر سچ کہتے ہیں۔
٭…آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ابتدا ہی سے خاص انس و خلوص تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلقہ احباب میںداخل تھے چنانچہ تجارت کے سفروں میں بھی ہمراہی کا شرف حاصل ہوتا تھا۔
٭…سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سلیم الطبع‘ حق پسند اور حق پرست انسان تھے یہی وجہ تھی کہ جب ان کو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوت اسلام دی تو آپ نے کچھ پس و پیش نہ کیا فوراً قبول کرکے حلقہ بگوشان اسلام میں شامل ہوگئے۔
٭…اس حسن صداقت کی تصدیق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے اس طرح ظاہر ہوتی ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بجز ابوبکر جس کو میں نے اسلام کی دعوت دی اس نے کچھ نہ کچھ پس و پیش ضرور کیا۔
٭…ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا عورتوں میں‘ حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچوں میں‘ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ غلاموں میں‘ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آزاد بالغ مردوں میں سب سے اول مومن ہوئے۔
٭…سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اسلام لاتے ہی دین حنیف کی نشر و اشاعت کی جدوجہد شروع کردی ان کی کوششوں سے حضرت عثمان بن عفان‘ زبیر بن عوام‘ عبدالرحمن بن عوف‘ طلحہ بن عبیداللہ‘ سعد بن ابی وقاص‘ ابو عبیدہ‘ ابو سلمہ‘ خالد بن سعید‘ ابن العاص رضی اللہ عنہم جیسے اکابر اسلام میں داخل ہوئے۔ یہ آسمان اسلام کے نجوم تابان ہیں۔ ان تمام درخشندہ ستاروں کا مرکز شمسی صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات گرامی ہے۔
٭…ادھر کثیر تعداد غلاموں اور لونڈیوں کی تھی جو نور اسلام سے منور ہوچکی تھی لیکن اپنے مشرک آقائوں کے پنجہ استبداد میں گرفتار ہونے کے باعث طرح طرح کی اذیتوں میں مبتلا تھے۔
٭…سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان تمام بندگان توحید کو ان کے جفا کار مالکوں سے خرید کر آزاد کرایا‘ بلال ابن رباح حبشی‘ عامر بن فہیرہ نہدیہ رضی اللہ عنہم وغیرہ نے صدیقی جودو کرم سے نجات پائی۔
٭…حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعثت کے بعد کفار کی ایذا رسانی کے باوجود تیرہ برس تک مکہ میں دینی تبلیغ و اشاعت کا سلسلہ جاری رکھا سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اس مشکل ترین اوقات میں جان‘ مال‘ رائے‘ مشورہ غرض ہر حیثیت سے پورے متعاون اور کامل دست بازو رہے۔ چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔
٭…حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر روز صبح و شام ہمارے گھر تشریف لایا کرتے‘ ایک دوسرے سے حالات لئے دئیے جاتے‘ دیر تک یہ ہمدردانہ مجلس راز قائم رہتی۔
٭…سفر ہجرت کی پرانوار مصاحبت یہ بابرکت سفر جوکہ تاریخ اسلام کیلئے اصل اصول قرار دیا جاتا ہے اس میں اول سے آخر تک تمام تر معیت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی کے بخت بلند کیلئے اللہ تعالیٰ جل شانہ نے مخصوص کردی تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے بھی صدیق ہی کو رفیق منتخب فرمایا یہ وہ فضل صدیقی ہے جس کی دوسری نظیر نہیں۔
٭…مدینہ کی پہلی مسجد میں سب سے پہلے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی کو مال وزر صرف کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔
٭…سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ زمین والوں کی قیمت ادا کرو۔
٭…آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے بعد سے فتح مکہ تک جہاد فی سبیل اللہ کا سلسلہ جاری رہا اور ان سب غزوات میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ایک مشیر و وزیر باتدبیر کی طرح ہمیشہ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرف ہمرکابی سے مشرف رہے۔
امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:بدر کے موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر سایہ حاصل کرنے کیلئے ایک عریش بنایا جس کا ترجمہ جھونپڑا یا چھاتہ کرسکتے ہیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں آرام فرمائیں۔
دشمن کی طرف سے سخت خوف کی بناپر یہاں پہرے کی ضرورت تھی حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:…مجھے بتائو سب سے زیادہ کون آدمی دلیر ہے تو مخاطبین نے عرض کیا ہمیں معلوم نہیں‘ آپ بیان فرمائیے آپ نے فرمایا کہ وہ ابوبکر ہیں بات یہ ہے کہ بدر کے دن ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے آرام گاہ بنائی اور پھر ہم نے کہا کہ حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگرانی اور خدمت کیلئے کون اس آڑے وقت میں تیار ہے تاکہ دشمنوں سے کوئی بھی آپ کی جانب ارادہ نہ کرسکے۔ پس اللہ تعالیٰ کی قسم ! ہم میں سے کوئی بھی اس خدمت کی طرف سبقت نہیں کرسکا مگر ابوبکر ننگی تلوار لے کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر کے محافظ کھڑے ہوگئے جو دشمن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قصد کرنا چاہتا اس پر ابوبکر فوراً ٹوٹ پڑتے پس یہ سب لوگوں سے زیادہ بہادر ہوئے۔
٭…احد کے دن جب لوگ میدان جنگ میں پریشانی کی حالت میں منتشر ہوئے ہیں تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
رفاقت نبوی ﷺ کے واقعات
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ آپ کا شریک جلوت وخلوت کون ہے؟ اس سوال کا جواب بھی ظاہر ہے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اول من اسلم ہیں پھر اسلام سے قبل بھی دونوں ساتھ اور بعض معاملات میں ایک دوسرے کے شریک و رفیق رہے ہیں اسلام قبول کرنے کے بعد تو معیت و رفاقت کا یہ عالم رہا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ گویا ایک دن کیلئے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدا نہ ہوئے قیام مکہ کے زمانہ میں اور لوگ حبشہ گئے لیکن صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نہ گئے۔ پھر ہجرت مدینہ کا وقت آیا تو بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم جن میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں پہلے سے مدینہ پہنچ گئے۔ لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اور اس طرح رفیق سفرو حضر رہے۔ غزوات کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے جن غزوات میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے جاتے تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی ساتھ ہوتے تھے سرایا میں لوگ کہتے تھے کہ ابوبکر کو بھیجئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ نہیں یہ میرے پاس رہیں گے اور مجھ کو ان کی ضرورت ہے اس طویل ترین رفاقت کے باعث ظاہر ہے کہ جو تربیت و تعلیم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ہوسکتی ہے اور کسی دوسرے کی نہیں ہوسکتی تھی۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ زندگی کے سخت ترین مراحل اور نازک ترین لمحات میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رفیق اور مصاحب رہے ہیں۔ یہ چیز آں موصوف رضی اللہ عنہ کے خلوص اور اخلاص کے نشانات میں سے ہے اور ان کی ذات پر اعتماد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی علامت ہے کیونکہ اعتماد کے بغیر ایسے وقت میں کسی کو رفیق سفر نہیں بنایا جاسکتا۔
قرآن مجید کی نص میں جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ جل شانہ نے اپنے پیغمبر کا صاحب فرمایا ہے جب کہ کسی دیگر شخص کو صاحب نبی نہیں فرمایا اور اس مقام میں صاحب کا معنی ہم نشین ہے۔ پس اس چیز سے آں موصوف رضی اللہ عنہ کی کمال فضیلت کا اظہار ہورہا ہے۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رفیق ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تسکین خاطر کیلئے لاتحزن کے کلمات فرمائے چونکہ جناب صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حزن و ملال اپنی ذات کیلئے نہیں بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے تھے اس سے آں موصوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنجناب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کمال محبت والفت کا ثبوت پایا جاتا ہے۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر صدیق کو فرمایا اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا یعنی اللہ تعالیٰ کی معیت (بصورت نصرت و حفاظت) ہمارے ساتھ ہے۔ اس میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی معیت (بصورت نصرت و حفاظت) میں اپنے ساتھ شریک کرنا آں موصوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمال ایمان کی دلیل ہے کیونکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ جل شانہ کی جانب سے جس طرح کی معیت (بصورت نصرت و حفاظت) حاصل ہوئی بالکل وہی معیت جناب صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حاصل ہوئی۔
اداشناسی اور مزاج دانِ نبوتﷺ
اس قرب و اتصال‘ ہر وقت کی معیت و رفاقت اور پھر خود اپنی ذاتی استعداد و صلاحیت کے باعث جس درجہ کے ادا شناس اور مزاج دان نبوت صدیق اکبر ہوسکتے تھے کوئی اور نہیں ہوسکتا تھا۔ واقعات کا تتبع کیا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مزاج اور انداز طبیعت ایک ہی خمیر سے تیارہوا تھا‘ عادات و خصائل‘ امیال اور عواطف کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جتنے قریب حضور پرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تھے کوئی اور نہیں تھا یہ یاد رکھنا چاہئے یہاں بحث صرف مزاج کی ہم رنگی سے ہے نہ کہ شریعت کے اصل احکام و مسائل سے چنانچہ پہلے ایک روایت گزر چکی ہے جس میں ابن الدغنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصاف و کمالات ٹھیک ٹھاک وہی بیان کئے ہیں جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان کئے تھے اس کے علاوہ چند اور اوقات بھی ہیں جن سے اس پر مزید روشنی پڑے گی۔
اس طرح کا ایک موقع صلح حدیبیہ کے واقعہ میں پیش آیاتھا ابوجندل جن کو کافروں نے بڑی بے رحمی سے ماراتھا جب انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے سامنے آکر اپنے زخم دکھائے اور کہا کیا آپ لوگ اس حالت میں بھی مجھ کو مکہ واپس کردینا چاہتے ہیں تو پورا مجمع تڑپ اٹھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں برداشت کہاں تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر بولے کیاآپ پیغمبر برحق نہیں ہیں اور اس طرح کے اور سوال وجواب کہے آخر جب یہاں تسلی نہ ہوئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور گفتگو وہی کی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے شخص وہ بے شبہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور اپنے رب کی نافرمانی نہیں کرتے خدا تعالیٰ جل شانہ ان کی مدد کرنے والا ہے‘ پس تم ان کے دامن کو پکڑ لو قسم اللہ تعالیٰ کی وہ یقینا حق پر ہیں۔
اب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ’’ کیا آپ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم سے یہ نہیں کہا کرتے تھے کہ ہم جلد ہی بیت اللہ آئیں گے اور اس کا طواف کریںگے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ہاں کیوں نہیں‘ لیکن کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرما دیا ہے کہ تم اسی سال بیت اللہ پہنچو گے۔
اسی طرح جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوئی تو اس حادثہ فاجعہ کی خبر سنتے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا کیا حال ہوا تھا؟ لیکن جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّارَسُوْلٌ ط قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ ط اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰیٓ اَعْقَابِکُمْ ط وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا ط وَسَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَ
آیت پڑھی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یکا یک آنکھ کھل گئی اور ایسا معلوم ہوا کہ گویا اب تک انہوں نے یہ آیت سنی ہی نہ تھی۔
ان سب واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم و تربیت کے سانچہ میں اس طرح ڈھل گئے تھے کہ فکر ذہن اور مزاج و طبیعت تک میں یگانگت اور مکمل مماثلت پیدا ہوگئی تھی اور اس بنا پر ادا شناسی نبوت میں کسی کو ان کے ساتھ دعویٰ ہم سری نہیں ہوسکتا تھا۔
سیدنا صدیقِ اکبررضی اﷲ عنہ آپ ﷺسے عشق ومحبت
٭…یوں تو سیدنا صدیقِ اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سبھی محاسن ومکارم نہایت عظیم اور نہایت جلیل ہیں،لیکن ان کا جو وصف اور شرف دوسرے تمام اوصاف ومحاسن پر حاوی اور غالب ہے وہ ہے ان کا عشقِ رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم ان کی کتابِ سیرت کا ایک ایک ورق اس حقیقت پر شاہد عدل ہے کہ انہوں اپنا سب کچھ عشقِ حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم میں فنا کردیا تھا،ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ عشقِ رسول! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم سے عبارت تھا۔اگر چہ سبھی صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین سرورِ کائنات ،فخرِ موجودات صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے شیدائی تھے لیکن صدیقِ اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے عشقِ رسول ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہمسری کا دعویٰ کو ئی نہ کرسکا،اس عشق کی شان ہی نرالی تھی۔سیدنا صدیقِ اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تمام زندگی عشقِ رسول! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم سے عبارت ہے۔
عشق ومحبت سیدناصدیق اکبر کے ایمان افروز واقعات
٭…سرورعالم صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے شبِ معراج کی صبح کفار کے سامنے واقعہ معراج بیان فرمایا تو انہوں نے ٹھٹھا لگایا ۔ صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کہیں باہر تھے ۔ بعض کفار نے ان سے جاکر کہا کہ تمہارے صاحب اس قسم کی ناقابل یقین باتیں کہتے ہیں ۔ صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے بلا تامل جواب دیا :
لقد صدق وانی لا صدقہ
یعنی آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے سچ فرمایا اور میں اس کی تصدیق کرتا ہوں ۔
٭…بعثت نبوی کے ابتدائی زمانے میں ایک دن سرور عالم صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم طواف کعبہ کیلئے حرم کے اندر تشریف لے گئے ۔ مشرکین نے حضور صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کو دیکھا تو غضب ناک ہوگئے اور آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کو گھیر لیا ۔ کسی نے صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ سے جا کر کہا کہ اپنے صاحب کی خبر لو ۔
صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ دوڑتے ہوئے حرم میں پہنچے ، اپنے آقا و مولا پر کفار کو حملہ آور ہوتے ہوئے دیکھا تو غم و غصہ سے از خود رفتہ ہو کر مجمع کفار میں گھس گئے ، کسی کو مارتے کسی کو ہٹاتے اور کہتے جاتے : اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللٰہّ وَقَدْ جَآئَکُمْ بِالْبَیِّنٰتِ مِنْ رَّبِّکُمْ ۔
یعنی تم پر افسوس ہے کہ تم ایک ایسے شخص کو اس کہنے پر مار ڈالتے ہو کہ میرا رب اﷲ ہے اور حال یہ ہے کہ وہ اﷲ کی جانب سے روشن دلیلیں تمہارے پاس لایا ہے ۔
صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی مداخلت مشرکین کو سخت ناگوار گزری ۔ انہوںنے حضور صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کو تو چھوڑ دیا اور سب ان پر ٹوٹ پڑے ۔ اتنا مارا کہ لہو لہان ہوگئے ، پٹتے جاتے اور کہتے جاتے تھے ۔ تبارک یا ذالجلال والاکرام ۔ ’’ اے عزت وجلال والے تیری ذات بابرکت ہے ۔ ‘‘
ان کے اہل قبیلہ بنو تمیم کو پتہ چلا تو وہ بھاگم بھاگ حرم پہنچے اور انہیں مشرکین کے پنجہ ستم سے چھڑا کر گھر لے گئے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ اس سانحہ کے بعد صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ گھر پہنچے تو ان کا یہ حال تھا کہ سر پر جس جگہ سے ہاتھ لگتا وہیں سے بال جھڑ جاتے ، گھر پہنچ کر بے ہوش ہوگئے ۔ بڑی دیر کے بعد ہوش آیا تو سب سے پہلے جو الفاظ زبان سے نکلے وہ یہ تھے : ’’ رسول صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کا کیا حال ہے ؟ ‘‘
اے رے عشق رسول صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کہ خود موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں لیکن سلامتی کی فکر ہے تو صرف اپنے آقا و مولا صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کی ۔ جب ان کو بتایا گیا کہ حضور بفضل خدا بخیر ہیں تو اس وقت ان کو چین آیا۔
٭…ابتدائے اسلام میں جو شخص مسلمان ہوتا تھا وہ اپنے اسلام کو حتی الوسع مخفی رکھتا تھا ۔ حضور اقدس صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کی طرف سے بھی اس وجہ سے کہ اُن کو کفار سے اذیت نہ پہنچے اخفا کی تلقین ہوتی تھی ۔ جب مسلمانوں کی تعداد انتالیس تک پہنچی تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اظہار کی درخواست کی کہ کھلم کھلا علی الاعلان تبلیغ کی جائے ۔ حضور اقدس صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے اوّل انکار فرمایا مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے اصرار پر قبول فرما لیا اور ان سب حضرات کو ساتھ لے کر مسجد کعبہ میں تشریف لے گئے ۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے تبلیغی خطبہ شروع کیا ۔ یہ سب سے پہلا خطبہ ہے جو اسلام میں پڑھا گیا اور حضور اقدس صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کے چچا سید الشہداء حضرت حمزہ اسی دن اسلام لائے ہیں ۔ اور اس کے تین دن بعد حضرت عمر رضی اﷲ عنہ مشرف باسلام ہوئے ہیں ۔ خطبہ کا شروع ہونا تھا کہ چاروں طرف سے کفار و مشرکین مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو بھی باوجود یکہ مکہ مکرمہ میں ان کی عام طور سے عظمت و شرافت مسلم تھی اس قدر مارا کہ تمام چہرۂ مبارک خون میں بھر گیا ۔ ناک کان سب لہو لہان ہوگئے تھے ، پہچانے نہ جاتے تھے ۔ جوتوں سے ، لاتوں سے مارا ، پائوں میں روندا اور جو نہ کرنا تھا سب ہی کچھ کیا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ بے ہوش ہوگئے ۔ بنو تمیم یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے قبیلے کے لوگوں کو خبر ہوئی وہ وہاں سے اٹھا کر لائے ۔ کسی کو بھی اس میں تردد نہ تھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ اس وحشیانہ حملے سے زندہ بچ سکیں گے ۔ بنو تمیم مسجد میں آئے اور اعلان کیا کہ حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کی اگر اس حادثہ میں وفات ہوگئی تو ہم لوگ ان کے بدلہ میں عتبہ بن ربیعہ کو قتل کریں گے ۔ عتبہ نے حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کے مارنے میں بہت زیادہ بدبختی کا اظہار کیا تھا ۔ شام تک حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو بیہوشی رہی ۔ باوجود آوازیں دینے کے بولنے یا بات کرنے کی نوبت نہ آتی تھی ۔
شام کو آوازیں دینے پر وہ بولے تو سب سے پہلا لفظ یہ تھا کہ حضور اقدس صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کا کیا حال ہے ؟ لوگوں نے اس پر بہت ملامت کی کہ اُنہیں کے ساتھ کی بدولت یہ مصیبت آئی اور دن بھر موت کے منہ میں رہنے پر بات کی تو وہ بھی حضور صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم ہی کا جذبہ اور اُن ہی کیلئے ۔ لوگ پاس سے اٹھ کر چلے کہ بددلی بھی تھی اور یہ بھی کہ آخر کچھ جان باقی ہے کہ بولنے کی نوبت آئی اور آپ رضی اﷲ عنہ کی والدہ اُم خیر سے کہہ گئے کہ ان کے کھانے پینے کیلئے کسی چیز کا انتظام کردیں۔ وہ کچھ تیار کر کے لائیں اور کھانے پر اصرار کیا مگر حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی وہی ایک صدا تھی کہ حضور صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کا کیا حال ہے ؟ حضور صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم پر کیا گذری ۔ اُنکی والدہ نے فرمایا کہ مجھے تو خبر نہیں کہ کیا حال ہے ؟
آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ اُم جمیل رضی اﷲ عنہا (حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی بہن ) کے پاس جاک کر دریافت کر لو کہ کیا حال ہے ۔ وہ بیچاری اپنے بیٹے کی اس مظلومانہ حالت کی بیتابانہ درخواست کو پورا کرنے کے واسطے اُم جمیل رضی اﷲ عنہا کے پاس گئیں اور محمد صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کا حال دریافت کیا ۔ وہ بھی عام دستور کے موافق اس وقت تک اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے تھیں ۔ فرمانے لگیں میں کیا جانوں کون محمد (صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم ) اور کون ابوبکر رضی اﷲ عنہ ۔ تیرے بیٹے کی حالت سن کر رنج ہوا ۔ اگر تو کہے تو چل کر اس کی حالت دیکھوں ۔ اُم خیر نے قبول کر لیا ، اُن کے ساتھ گئیں اور حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی حالت دیکھ کر تحمل نہ کر سکیں ، بے تحاشا رونا شروع کر دیا کہ بدکرداروں نے کیا حال کر دیا ۔ اﷲ تعالیٰ ان کو اپنے کئے کی سزا دے ۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے پھر پوچھا کہ حضور صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کا کیا حال ہے ۔ اُم جمیل نے حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ وہ سُن رہی ہیں ۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ اُن سے خوف نہ کرو تو اُم جمیل رضی اﷲ عنہ نے خیریت سنائی اور عرض کیا کہ بالکل صحیح سالم ہیں ۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے پوچھا کہ اس وقت کہاں ہیں ؟ اُنہوں نے عرض کیا کہ ارقم رضی اﷲ عنہ کے گھر تشریف رکھتے ہیں ۔
آپ نے فرمایا کہ مجھ کو خدا کی قسم ہے کہ اس وقت تک کوئی چیز نہ کھائوں گا نہ پیوں گا جب تک حضور صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کی زیارت نہ کرلوں ۔ اُن کی والدہ کو تو بیقراری تھی کہ وہ کچھ کھالیں اور انہوں قسم کھالی کہ جب تک زیارت نہ کر لوں کچھ نہ کھائوں گا ۔ اس لئے والدہ نے اس کا انتظار کیا کہ لوگوں کی آمدو رفت بند ہوجائے ۔ مبادا کوئی دیکھ لے اور کچھ اذیت پہنچائے ۔ جب رات کا بہت سا حصہ گذر گیا تو حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو لے کر حضور صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کی خدمت میں ارقم رضی اﷲ عنہ کے گھر پہنچیں ۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ حضور صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم سے لپٹ گئے ۔ حضور اقدس صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم بھی لپٹ کر روئے اور مسلمان بھی سب رونے لگے ۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی ۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے درخواست کی کہ یہ میری والدہ ہیں آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم ان کے لئے ہدایت کی دعا بھی فرمادیں اور ان کو اسلام کی تبلیغ بھی فرمائیں ۔ حضور اقدس صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے اول دعا فرمائی ۔ اس کے بعد اُن کو اسلام کی ترغیب دی ۔ وہ بھی اسی وقت مسلمان ہوگئیں ۔ عیش و عشرت ، نشاط فرحت کے وقت محبت کے دعوے کرنے والے سینکڑوں ہوتے ہیں ، محبت و عشق وہی ہے جو مصیبت اور تکلیف کے وقت بھی باقی رہے۔
٭…بدر کے میدان میں ایک ہزار جنگجو سپاہیوں کے مقابلہ میں تین سو تیرہ ۳۱۳ مجاہدین کی مختصر سی جماعت دین کی حمایت میں تیغ بکف ہوئی ۔ ان لوگوں کے پاس جذبۂ جاں نثاری کے سوا کچھ بھی نہ تھا ، نہ سواریاں نہ ہتھیار ۔ یہ رقت انگیز منظر دیکھ کر رسول اﷲ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کا دل درد سے بھر گیا ۔ خضوع کا عالم طاری ہوگیا۔گریہ و زاری کے عالم میں اپنے رب کے سامنے دعا کیلئے ہاتھ اٹھا دیئے ۔
’’ اے میرے رب ! تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے ، اے اﷲ ! اپنا وعدہ پورا کردے ۔ ‘‘
آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم اﷲ کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے اور گلوگیر آواز میںفریاد کی ۔
’’ اے میرے رب ! میں نے اپنی کل کائنات تیری رضا کیلئے میدان میں لاکر کھڑی کر دی ہے ۔ اے اﷲ ! اگر آج یہ چند جانیں ضائع ہوگئیں تو پھر قیامت تک اس زمین پر تیری عبادت کرنے والاکوئی نہ ہوگا ۔ ‘‘
حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کی طرف آئے تو آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کو اس طرح عجز و انکسار کے عالم میں دیکھا ۔ آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کی یہ گریہ و زاری ، یہ رقت و فریاد اور یہ اضطراب و بیقراری دیکھ کر ان کا دل بھر آیا ۔ اپنے محبوب کی شکستہ دلی کی کیفیت کو سمجھ کر رو دیئے ، آگے بڑھ کر گلو گیر آواز میں اپنے محبوب صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کو تسلی دیتے ہوئے عرض کیا :’’ حضور صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم ! میرے ماں باپ آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم پر قربان ! اﷲ آپ کو ہر گز مایوس نہ کرے گا وہ آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم سے کیا ہوا وعدہ ضرور پورا کرے گا ۔ ‘‘
٭…جنگ موتہ میں حضرت زیدبن حارثہ (رضی اﷲ عنہ ) ، عبد اﷲ بن رواحہ (رضی اﷲ عنہ ) اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ جیسے بزرگ صحابہ شہید ہوئے تھے ۔ رسول اﷲ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے ان کے انتقام کے لئے زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ کے بیٹے حضرت اسامہ رضی اﷲ عنہ کو ایک لشکر کا سپہ سالا ر مقرر کر کے موتہ کی جانب روانہ فرمایا ۔ ابھی یہ لشکر مدینہ کے قریب مقام جرف ہی میں تھا کہ آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کے مرض کو شدت ہوئی اور وصال ہوگیا اس لئے اس لشکر کی روانگی ملتوی ہوگئی ۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ خلیفہ ہوئے تو پورے عرب میں ارتداد کا فتنہ برپا ہوگیا ۔ بہت سے قبائل مرتد ہوگئے ، اندرونی فتنوں نے خلافت اسلامیہ کو گھر لیا ۔ ان حالات کی روشنی میں بہت سے صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو مشورہ دیا کہ ایسے انتشار کی حالت میں جب کہ سب طرف سے فتنہ اور فساد کی خبریں آرہی ہیں اور مدینہ پر مرتدوں کا حملہ ہونے کا اندیشہ ہے وہ اس لشکر کو رومی سلطنت کی طرف روانہ نہ کریں ۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے لوگوں کے اس مشورے کے جواب میں فرمایا : ’’ کیا تم چاہتے ہو کہ جس کام کا حکم رسول اﷲ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے دیا ہے اس کو فراموش کر دیا جائے ۔میرا ایمان ہر گز گوارہ نہیں کر سکتا کہ میں حکم رسول صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کو ایک لمحہ بھی ٹالنے کی کوشش کروں ۔ اگر مجھے اس بات کا یقین ہوجائے کہ مدینہ میں تنہا ہونے کی وجہ سے مجھے بھیڑیئے پھاڑ ڈالیں گے تب بھی خدا کی قسم میں اس لشکر کی روانگی کو ملتوی نہ کروں گا جس کو رسول اﷲ صلّی ا ﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے روانہ فرمایا ہو ۔ ‘‘
٭ سرورعالم صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے دعوت حق کا آغاز فرمایا تو صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے ہر قسم کے خطرات کے باوجود سب سے پہلے آگے بڑھ کر اس پر لبیک کہا ، بعثت کے چوتھے سال کے اوائل میں : فاصدع بما تؤمر واعرض عن المشرکین کا حکم خداوندی نازل ہوا اور حضور صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے مشرکین کو علانیہ حق کی طرف بلانا شروع کیا تو مشرکین کے قہر و غضب کا آتش فشاں پوری قوت سے پھٹ پڑا اور انہوں نے اہل حق کو لرزہ خیز مظالم کا نشانہ بنالیا ۔ ان بلاکشانِ اسلام میں صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ بھی شامل تھے ۔ ان کے ہم قبیلہ ایک مشرک عثمان بن عبید اﷲ نے انہیں اپنے بھائی طلحہ رضی اﷲ عنہ کے ساتھ ایک ہی رسی میں باندھ کر سخت زدو کوب کیا لیکن ان کے قدم جادہ حق سے لمحہ بھر کیلئے بھی نہ ڈگمگائے ، بلکہ ان کے عشق رسول صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم میں اور بھی اضافہ ہوگیا ۔ انہوں نے اپنا مال ان غریب الوطن بے سہارا اور بے کس غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کرانے کیلئے وقف کر دیا ، جو ان کے آقا و مولا صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کا دامن اقدس تھامنے کی پاداش میں کفار کے پنجہ ستم میں گرفتار تھے ۔ حضرت بلال حبشی رضی اﷲ عنہ ، حضرت صہیب رومی رضی اﷲ عنہ ، حضرت عامر بن فہیرہ رضی اﷲ عنہ ، حضرت نہدیہ رضی اﷲ عنہ وغیرہ نے صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کے جودو کرم ہی کے ذریعہ کفار کے دست تعدی سے نجات پائی ۔
٭ سفر ہجرت میں صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کو اپنے آقا و مولا صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کی رفاقت کا وہ مہتم بالشان شرف حاصل ہوا کہ بارگاہِ الٰہی کی طرف سے وہ ثانی اثنین کے لازوال اور بے مثال لقب کے سزاوار ٹھہرائے گئے ۔ اس موقع پر حضور صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کی رفاقت کوئی آسان کام نہ تھا ، یہ تو اپنی جان پر کھیلنا تھا اور یہ جان پر کھیلنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کیلئے اتنی مسرت کا باعث تھا کہ حضور صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم سے اپنے ساتھ چلنے کا حکم پاکر رونے لگے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ اس وقت مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ فرط مسرت سے بھی گریہ طاری ہوجاتا ہے ۔ غارثور میں پہلے خودد اخل ہوئے کہ کوئی سانپ وغیرہ ہو تو ان پر حملہ کرے ۔ چند سوراخ تھے انہیں اپنی چادر کی دھجیاں بنا کر بند کردیا لیکن ایک سوراخ رہ گیا ۔ اس کے سامنے اپنے پائوں کی ایڑی رکھ دی اور حبیب پاک صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کا سر اقدس اپنے زانو پر رکھ لیا کہ آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم آرام فرمائیں ۔ سوراخ میں سے ایک سانپ نے پائوں پر ڈس لیا ۔ سخت تکلیف ہوئی لیکن اپنا پائوں نہ ہٹایا کہ مبادا آقا صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کے آرام میں خلل پڑے ۔ درد کی شدت سے آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور حضور صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کے چہرے اقدس پر پڑے تو آپ جاگ پڑے ۔ اپنے جان نثار کا جذبہ فدویت دیکھ کر ان کیلئے دعائے خیر فرمائی اور اپنا لعاب دہن ڈنک کی جگہ پر لگا کر زہر کا اثر دور کیا ۔
٭…صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش کے سفیر عروہ بن مسعود ثقفی نے حضور صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم سے مخاطب ہو کر کہا: محمد صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم ! یہ بھیڑ جو تمہارے اردگرد نظر آرہی ہے اگر تم پر کوئی نازک وقت آپڑا تو یہ آناً فاناً چھٹ جائے گی اور تمہاری حمایت کا دم بھرنے والے یہ تمام لوگ تمہیں چھوڑ کر بھاگ جائیں گے ۔حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ قریب ہی کھڑے تھے عروہ کی بات سن کر سراپا جلال بن گئے ۔ نہایت حقارت سے عروہ کی طرف دیکھاور کڑک کر فرمایا : ’’ ہم رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے ؟ جا اپنا کام کرو اور پوجا کراپنے معبودلات کی ۔ ‘‘ سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کا یہ جلال ان کے عشق رسول صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کا مظہر اتم تھا ۔
٭…حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ رسول اﷲ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کے راحت و آرام اور دکھ تکلیف کی ہر وقت فکر رکھتے تھے ۔ معمولی معمولی باتوں میں بھی توجہ کرتے ، ایک نظر مستقل رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم پر رکھتے تھے ۔ انتہائی نازک موقعوں پر بھی ان کی نظر رسول اﷲ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم سے نہیں ہٹتی تھی ۔ اگر کوئی خطرہ کا وقت ہوتا وہ شمشیر بکف آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کی حفاظت پر معمور رہتے اور تسلی اور دلدہی کے کلمات کہتے تھے ۔ آپ بدر سے لے کر آخر تک تمام غزوات میں رسول اﷲ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کے ہمرکاب ہو کر ایک اچھے مشیر اور وزیر کی خدمت انجام دیتے رہے ۔ معرکہ بدر کے وقت جب رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کے چہرہ اقدس پر پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے تو انہوں نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر عرض کی ’’ یا رسول اﷲ ! آپ پریشان نہ ہوں ، اﷲ تعالیٰ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا ۔ ‘‘
رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا ’’ کفار آج درہم برہم ہوجائیں گے ۔ ‘‘
میدانِ بدر میں جب جنگ کے شعلے انتہائی تیزی پر تھے تو وہ رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کے برابر ، برابر تلوار لئے ہوئے لڑ رہے تھے ۔ ایک طرف جنگ میں دشمن کو قتل کرنے کی فکر تھی تو دوسری طرف رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کی حفاظت کا خیال ۔ ساتھ ساتھ آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کی خدمت گزاری سے بھی خالی نہیں تھے ۔
جنگ کی حالت میں ایک مرتبہ آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کی چادر شانۂ اقدس سے ڈھلک گئی وہ فوراً لپک کر آئے اور جلدی سے چادر اٹھا کر آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کے شانۂ مبارک پر رکھ دی اور رجز پڑھتے ہوئے دشمن کی صفوں میں جا گھسے ۔ اور اس وارفتگی اور جوش کا انجام یہ ہوا کہ ان تین سو تیرہ (۳۱۳) نفوس کو ایک ہزار جنگجو لوگوں پر فتح حاصل ہوئی ۔
٭میدانِ بدر میں قریش بڑے عجیب انداز میں دو گروہوں میں بٹ کر آمنے سامنے کھڑے تھے۔ ایک طرف اﷲ کے دوست تھے ، دوسری طرف اس کے دشمن ۔ ان میں سب قریبی عزیز اور رشتہ دار تھے ۔ ایک طرف باپ تھا تو دوسری طرف بیٹا ، ایک طرف چچا تھا تو دوسری طرف بھتیجا ، ایک طرف سسر تھا تو دوسری طرف داماد تھا ، ایک طرف بھائی تو دوسری طرف دوسرا بھائی ۔ لیکن ایک طرف ہٹ دھرم مشرکین تھے اور دوسری طرف اﷲ اور رسول صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کے متوالے شیدائی تھے جن کیلئے سب قرابتیں ، سارے رشتے اﷲ کے رشتہ میں ہیچ تھے ۔ اسی جنگ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا بیٹا عبدالرحمن بھی مشرکین کی طرف سے شامل تھا ۔ جب وہ میدان جنگ میں نکلا اور حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی نظر پڑی تو وہ تلوار سونت کر اس کے قتل کو بڑھے اور چاہتے تھے کہ اس کا کام تمام کردیں ۔ لیکن رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے انہیں اس بات کی اجازت نہ دی اور انہیں مجبوراً رکنا پڑا ۔ جب عبد الرحمن رضی اﷲ عنہ ایمان لے آئے تو ایک دن انہوں نے اپنے والد سے کہا : ’’ بدر کے روز آپ کئی مرتبہ میرے تیر کی زد میں آئے مگر میں نے اپنا ہاتھ روک لیا ۔ ‘‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : ’’ خدا کی قسم اگر مجھے رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے نہ روکا ہوتا تو میں اپنا ہاتھ ہر گز نہ روکتا ۔ ‘‘
٭…حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کے ارشادات اور ہدایات کا تو پاس کرتے ہی تھے یہ بھی خیال رکھتے تھے کہ کس معاملے میں رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کا کیا طرز عمل ہوتا تھا ۔ زندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں وہ رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کی حیات طیبہ کو سامنے رکھتے تھے ۔ آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کے ہر قول و عمل کو اپنی زندگی میں اتارنے کی کوشش کرتے تھے ۔ رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم جن لوگوں کی تعظیم و توقیر کرتے تھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ بھی ان کی بے پناہ تعظیم کرتے تھے ۔ آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کے یہاں پابندی سے جانے لگے ۔ یہ رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کے والد عبد اﷲ بن عبد المطلب کی کنیز تھیں ۔ بچپن میں رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کی پرورش کے فرائض انہوں نے ہی انجام دیئے تھے ۔ جب رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم بڑے ہوئے تو آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے انہیں آزاد کردیا اور ان کا نکاح حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ کے ساتھ کر دیا ۔
رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم ان سے بہت محبت کرتے تھے ۔ کبھی کبھی اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم پر غصہ بھی ہوجاتی تھیں ۔ رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم روزانہ پابندی سے ان کے گھر جایا کرتے تھے ۔ ایک دن کسی نے ان سے دریافت کیا کہ ’’ رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کی وفات کے بعد آپ بڑی پابندی سے اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کے یہاں جاتے ہیں ۔ ‘‘ فرمایا : ’’ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ رسول کریم صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم زندگی بھر اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کے یہاں اسی طرح جاتے رہے ؟ پھر میں کیا آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کا خلیفہ ہو کر آپ کی اتباع نہ کروں ۔ ‘‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے زندگی بھر اس سلسلے کو اسی طرح جاری رکھا ۔
٭…ایک دفعہ رسول اکرم صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کسی نزاع کے چکانے کیلئے قبیلہ بنو عمرو بن عوف میں تشریف لے گئے ۔ نماز کا وقت ہوگیا تو مؤذن حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی خدمت میں آیا کہ نماز پڑھا دیجئے ۔ وہ نماز پڑھا رہے تھے کہ حضور صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم واپس تشریف لے آئے اور جماعت میں شریک ہوگئے ۔ لوگوں نے ہاتھوں پر ہاتھ مارنے شروع کردیئے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ اگرچہ نماز میں کسی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے لیکن جب لوگ برابر ہاتھوں پر ہاتھ مارتے رہے تو مڑ کر دیکھا کہ رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم ہیں ۔ آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پر قائم رہو لیکن وہ پیچھے ہٹ آئے اور حضور صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی ۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے پوچھا : ’’ جب میں نے منع کیا تھا تو تم پیچھے کیوں ہٹ آئے؟‘‘
عرض کیا : ’’ ابو قحافہ کے بیٹے کی یہ مجال نہیں کہ وہ اﷲ کے رسول صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کے آگے امام بن کر کھڑا ہو ۔ ‘‘
٭…ایک دفعہ رسول اکرم صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مصروف کلام تھے ۔ کسی خانگی اور نجی مسئلے پر گفتگو تھی ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی آواز بلند ہوگئی ۔ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ ادھر نکلے ۔ اپنی لخت جگر کو بلند (اور قدرے تلخ ) لہجے میں گفتگو کرتے دیکھا تو طیش میں آگئے اور گرج کر کہا : ’’افسوس تو رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کے سامنے آواز اونچی کرتی ہے ۔ ‘‘ پھر ان کو طمانچہ مارنے کیلئے ہاتھ بھی بلند کر دیا لیکن حضور صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم آڑے گئے ۔
الغرض !یہ صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کے عشق رسول صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کی چند مثالیں ہیں ورنہ ان ک ساری زندگی ہی عشق رسول صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کے واقعات سے معمور اور روشن ہے ۔ اگر ہم یہ کہیں کہ صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے عشق رسول صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کا جو نمونہ پیش کیا نہ آج تک اس کی مثال کوئی پیش کر سکا اور نہ قیامت تک پیش کر سکے گا تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا ۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم سے بے پناہ محبت اور عقیدت کی بنا پر آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کا جس قدر ادب اور احترام کرتے تھے وہ بھی اپنی مثال آپ تھا ۔ حضور صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کے سامنے ہمیشہ نہایت دھیمی آواز میں گفتگو کرتے تھے اور بات بات میں کہتے تھے ۔
’’ اے اﷲ کے رسول ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم میرے ماں اور باپ آپ پر قربان ہوں ۔ ‘‘
اﷲ تعالیٰ ہمیں بھی ایسا ہی عشق رسول صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم عطا فرمائے ۔آمین یا رب العالمین ۔