عَنْ عَبْدِ اللهِ (بْنِ مَسْعُوْدٍ) رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا لِیُضِلَّ بِهٖ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهٗ مِنَ النَّارِ.
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا تاکہ اس سے لوگوں کو گمراہ کرے تو اسے اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لینا چاہیے۔
نبی کریم ﷺ کی حدیث میں جھوٹ بولنا بڑے گناہوں اور عظیم معاصی میں سے ہے، لہٰذا جو شخص کوئی بات خود سے گڑھے اور یہ دعویٰ کرے کہ یہ نبی ﷺ کا فرمان میں سے ہے تو وہ بہت بڑے گناہ کا کام کرتا ہے اور جوشخص رسول اللہ ﷺ پر پر کو ئی جھوٹی بات(جھوٹ کی وضاحت کئے بغیر)نقل کرے تو اس نے ظلم وزیادتی سے کام لیا اور بہت بڑی گستاخی اور بے ادبی کا مظاہرہ کیا۔
بڑے افسوس کی بات ہے کہ موجودہ دور میں سوشل میڈیا پر بعض اچھے لوگ بھی نیک ارادہ سے گھڑی ہوئی حدیثوں کو نشر کرتے رہتے ہیں جبکہ یہ نہایت منکر اور ناپسندیدہ عمل ہےہمارے لئے ضروری ہے کہ اس سے بچنےکی تلقین اور وصیت کریں۔
رسول اللہ!ﷺ کا فرمان ہے:
میرے اوپر جھوٹ باندھنا ایسا نہیں ہے جیسے کسی اور پر جھوٹ باندھنا ہو پس جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے،وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔ اسے بخاری نے روایت کیاہے۔
اور آپ ﷺ نے فرمایاجس نے مجھ سے کوئی بات بیان کی اور اسے معلوم ہے کہ وہ جھوٹی ہے تو ایسا شخص دو جھوٹ بولنے والوں میں سے ایک ہے۔ اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
جاں نثار صحابہ رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کے اس ارشاد سے ہر دَم خوفزدہ رہتے تھے اور آپﷺ کا یہ دستور ہمہ وقت اُن کی نگاہوں کے سامنے رہتا تھا۔آپ ﷺ کا یہ فرمان ہمہ گیری میں اپنی نظیر نہیں رکھتا، آپ ﷺ کے اسی ارشاد کا اثر تھا کہ جب ذخیرۂ اَحادیث میں من گھڑت اور ساقط الاعتبار روایات کے ذریعے رَخنہ اندازی کی مذموم کوششیں شروع ہو گئیں، تو محدثینِ کرام نے احادیث کے صحت و سُقَم کے مابین ــــ ’’اِسناد‘‘ کی ایسی خلیج قائم کر دی،جس کی مثال اُممِ سابقہ میں ملنا مُحال ہے، چنانچہ ہر زمانے میں احادیث کا ذخیرہ محفوظ شاہراہ پر گامزن رہا، غرضیکہ روئے زمین پر جہاں کہیں اسلام کا سورج طلوع ہوا ہے، وہ حدیث کے محافظین خودساتھ لایا ہے۔
لہٰذاجو لوگ اپنی گھڑی ہوئی باتیں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف یا ا ن کی شریعت کی جانب منسوب کرتے ہیں وہ بھی نبی کرمﷺ پر جھوٹ باندھنے والوں میں شامل ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ا س کی ایک عام مثال یہ ہے کہ کچھ لوگ سوشل میڈیاوغیرہ کے ذریعے قرآن پاک اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کر کے عوام میں پھیلاتے ہیں اور انہیں عام کرنے کی لوگوں کو ترغیب دیتے ہیں اور بعض اوقات عام نہ کرنے پر جھوٹی وعیدیں بھی بیان کر دیتے ہیں۔ عوامُ النّاس کو چاہئے کہ آیات و اَحادیث اور مُستَنَد علماءِ کرام سے تصدیق کروائے بغیر کسی کو مت بھیجیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنے کی وعید بہت سخت ہے۔
جیسا کہ مذکورہ روایت میں حضرت مغیرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’مجھ پر جھوٹ باندھنا کسی اور پر جھوٹ باندھنے کی طرح نہیں ہے،جو مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے گا تو اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔ (بخاری، کتاب الجنائز، باب ما یکرہ من النّیاحۃ علی المیّت، ۱ / ۴۳۷، الحدیث: ۱۲۹۱)
اس لیے ہرمسلمان پر واجب ہے کہ حدیث کو پیش کرنے میں احتیاط سے کام لے مبادا وہ اس وعید میں داخل نہ ہوجائے۔ جب بھی کوئی حدیث پیش کرنا چاہیں تو معتبر کتاب سے مکمل حوالہ جات او رحدیث کے فنی حیثیت کو اجاگر کرتے ہوئے پیش کرے، بلکہ بہتر یہ ہے کہ کسی معتبر عالم سے رجوع کرنے کے بعد حدیث پیش کرے۔ اس طرح متحقق طور پراحادیث کی حیثیت معلوم ہونے سے قبل محض اٹکل اور گمان سے کسی حدیث کے صحت یا ضعف کا فیصلہ کرنا درست نہیں ہے۔
نبی کریم ﷺ کی طرف احادیث کو منسوب کرنے سے پہلے ا ن کی صحت کو جان لیں۔ ہم لوگوں پر یہ اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کا فضل وکرم ہے کہ اس دور میں مختلف کتابوں اور معتمد ویب سائیٹوں کے ذریعہ احادیث کی جان پرکھ کرنا اور ان کی صحت کو جاننا ہمارے لئے آسان ہو گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اور اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف کوئی بھی جھوٹی بات منسوب کرنے سے بچنے کی توفیق عطافرمائے، اٰمین۔