بری عادات سے چھٹکارا یسےحاصل کریں
جمع و ترتیب :قاری محمد اکرام
انسان اشرف المخلوقات کہلاتا ہے اچھی صحبت اورعادات ہی انسان کو ایک اچھا انسان بناتی ہیں انسان بہتر صحت کے لئے اچھی عادات کو زندگی کا حصہ بنانے کی ہرممکن کوشش کرتا ہے کیوں کہ اچھی عادات ہی انسان کی زندگی کو پرکشش بناتی ہیں اس لئے ہمارے ارد گرد بہت سے ایسے افراد ہوتے ہیں جو اپنے حلقے میں بہت مقبول ہوتے ہیں۔ لوگ ان سے ملناجلنا، ان کے ساتھ وقت گزارنا اور باتیں کرنا پسند کرتے ہیں۔اس کے برعکس کچھ شخصیات کو دیکھتے ہی دل میں منفی تاثرات ابھرتے ہیں اور لوگ ان سے بچنے لگتے ہیں۔ فرق دراصل سوچ اور عادات کا ہوتا ہے۔ انسان کے اندر موجود مثبت خیالات اسے لوگوں میں مقبول جبکہ منفی خیالات و عادات ناپسندیدہ بناتی ہیں۔ہمارے اندر بھی بیک وقت اچھی اور بری عادات موجود ہوتی ہیں۔ یہ عادات ہماری شخصیت کا تعین کرتی ہیں اور یہی ہمارے حلقہ احباب کو وسیع یا محدود کر سکتی ہیں۔ماہرین نفسیات کے مطابق ہمارے اندر موجود کچھ عادات ہر مزاج کے انسان کو ناگوار گزرتی ہیں۔ ہم خود بھی ایسی عادات رکھنے والے افراد سے بچنا چاہتے ہیں۔ تو آئیں ان عادات کے بارے میں جانتے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کے اندر بھی وہ عادات موجود ہوں کیونکہ،اس قسم کی بری عادا ت پروان چڑھ جائیں تو آسانی سے جان نہیں چھوڑتیں،دیکھا گیا ہے کہ لوگ بہت سی چھوٹی چھوٹی بری عادات سےچھٹکارا پانے کی کوشش نہ کرنے کا خمیازہ اس طور پر بھگتتے ہیں کہ نوکری نہیں بلکہ کیرئیر اور کبھی کبھی تو زندگی ہی داو پر لگ جاتی ہےورنہ کم از کم آپ کا حلقہ احباب مختصر سے مختصر ضرور ہوجا تا ہے۔
مثلاًان میں چند مضر عادتیں یہ ہیں کہ (1)لوگوں سے گفتگو کرتے ہوئے ہر وقت اپنے بارے میں بات کرنا جولوگوں کو آپ سے بد دل کر دیتا ہے۔ اس قسم کی گفتگو چند منٹ سے زیادہ برداشت نہیں کی جاسکتی۔(2)اگر آپ کسی کی بات سنتے ہوئے اس کی بات کاٹ کر بولناشروع کردیتے ہیں، اگرکسی ایسے مواقع پر آپ کے ساتھ کوئی ایسا کرے تو آپ کیا کرتے ، تو جان لیں کہ آپ ایک نہایت ناقابل برداشت عادت کے حامل ہیں جو کوئی بھی برداشت نہیں کرے گا۔(3)اوراگر آپ لوگوں کی شخصیت، بہترین مزاج، عادات اور اچھے رویوں کو نظر انداز کر کے صرف ان کی بیرونی شخصیت پر توجہ دیتے ہیں، کہ اس نے کیا پہنا، کس رنگ کا پہنا، بال کیسے بنائے، اور اس بنیاد پر لوگوں سے تعلقات رکھتے اور ختم کرتے ہیں، تو آپ اپنے دوستوں کی تعداد دن بدن کم کر رہے ہیں۔(4)اگر آپ کسی شخص کی کامیابی کے بارے میں سنتے ہوئے اسے مبارکباد دینے اور حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے یہ باور کرواتے ہیں، کہ اس کی کامیابی تو کچھ بھی نہیں، اصل کامیابی وہ تھی جومیں نے اتنے برس قبل حاصل کی، تو آپ یقیناً اپنے مخالفین کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں۔(5)اورمشترکہ منصوبوں میں اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے بغیر پوچھے فیصلے کرنا اور سب کو اسے ماننے کے لیے مجبور کرنا، بہت جلد آپ کو لوگوں میں غیر مقبول بنا دیتا ہے اور لوگ آپ کی صحبت سے بچنے لگتے ہیں۔(6)اگر آپ اپنے ساتھیوں اور دوستوں کے ساتھ مستقل سخت، طنزیہ رویہ رکھیں گے یا تنک مزاجی دکھائیں گے تو لوگ آپ کو اپنے دوستوں کی فہرست سے خارج کردیں گے۔(7)کیا آپ ضرورت پڑنے پر اپنے دوستوں کی مدد حاصل کرتے ہیں؟ ایسا کرنا کوئی بری بات نہیں، مگر اس مدد کو بھول جانا، اور اسی دوست کے ضرورت پڑنے پر اس کی مدد نہ کرنا نہایت غلط عادت ہے۔اس حرکت سے آپ اپنے آپ کو تنہا کرلیں گے اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ برا وقت آنے پر کوئی بھی آپ کی مدد کو نہیں آئے گا۔(8)لوگوں کے بارے میں منفی خیالات رکھنا اور ان کے پیٹھ پیچھے اس کا اظہار کرنا آپ کے دوستوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردے گا کہ کہیں انہوں نے آپ سے دوستی کر کے کوئی غلطی تو نہیں کی۔اس کے علاوہ چند بری عادات جو انسان کی زندگی کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔
مثلاً:(1)انسانی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ کئی ناخوشگوار واقعات اسے ذہنی طور پر جلد پریشان کردیتے ہیں جس کے براہ راست اثرات انسانی شخصیت پر پڑتے ہیں اوراسی ذہنی پریشانی کی وجہ سے انسان دیگر کئی بیماریوں میں گھر جاتا ہے۔(2)شراب کو ’’ام الخبائث‘‘ یعنی تمام خرابیوں کی ماں کہا جاتا ہے، اس کے منفی اثرات انسان کو موت کی طرف لے جاتے ہیں۔(3)تمباکو نوشی اب فیشن کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں موت کا سبب بننے والی سب سے بڑی عادت بن چکی ہے جو نہ صرف کینسر بلکہ اندھا پن، ذیابیطس، جگر اور آنت کے کینسر جیسی بیماریوں کا بھی باعث بنتی ہیں۔(4)دور حاضرمیں مصروف زندگی کے باعث اکثر لوگوں میں ناشتہ نہ کرنے کی عادت دیکھنے میں آئی ہے جب کہ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان اگر صرف صبح کا ناشتہ اچھی طرح کرنے کو عادت بنا لے تو جسم دن بھر بھرپور توانائی اور نشو نما سے کام کرتا ہے۔(5)زیادہ جاگنا اور نیند پوری نہ کرنے کی عادت دن بدن بڑھتی جارہی ہے خواہ وہ رات بھر موبائل کے استعمال سے ہویا آفس میں مصروفیات کی وجہ سے جس کے منفی اثرات یہ ہیں کہ انسان چڑ چڑا پن اور دیگر ذہنی و جسمانی بیماری کا شکار ہوجاتا ہے۔(6)پانی اللہ پاک کی دی ہوئی وہ نعمت ہے جس کا نعم البدل کوئی نہیں لیکن آج کل مصروفیت کی وجہ سے لوگ کم پانی پیتے ہیں اور اب یہ ایک عادت بنتی جارہی ہے جس کی بنیادی وجہ دیگر مشروبات کو پانی کے متبادل استعمال کرنا ہے تاہم اس بات کو بھی خاطر خواہ رکھنا ہوگا کہ قدرت کی طرف سے دی گئی نعمت کو نظر انداز کرنے کے نقصانات بھی بہت ہیں۔(7)بیماری چھوٹی نوعیت کی ہو یا بڑی، ادویات کا استعمال ڈاکٹر کی ہدایت پر ہی کیا جانا چاہیے تاہم لوگ چھوٹی چھوٹی بیماریوں پر بھی مختلف اقسام کی ادویات اپنی روز مرہ زندگی میں شامل کرلیتے ہیں اور پھر انہیں پر انحصار کرتے ہیں جب کہ اکثر لوگ نیند کی گولیوں کے اتنے عادی ہو چکے ہوتے ہیں کہ اس کے کھائے بغیر اُنھیں نیند نہیں آتی لیکن ادویات کے زیادہ استعمال سے انسانی ذہن کام کرنا کم کردیتا ہے اور جسم میں بیماریوں سے لڑنے کی توانائی بھی خاصی کم ہوجاتی ہے۔
بُری عادات سے چھٹکارا پانے کے لئےچند انقلابی اقدامات:ہم سب صحت مند توانا اور خوش و خرم زندگی گزارنا چاہتے ہیں،لیکن ہم ایسی عادات بھی اپنائے رکھتے ہیں، جو ہمیں اس مثالی زندگی سے دُور لے جاتی ہیں۔ عادت کو بدلنا دنیا کا مشکل ترین مرحلہ سمجھا جاتا ہے۔ ذیل میں دیئے گئے کچھ اصول ہماری راہنمائی کرتے ہیں کہ بُری عادت سے کیسے نجات حاصل کی جائے۔ (1) بُری عادت سے نجات کا سب سے پہلا مرحلہ اسے بُرائی کی حیثیت سے تسلیم کرنا ہے۔ جب تک ہم خود کو یہ یقین نہیں دلاتے کہ فلاں عمل ہماری عادت بن چکا اور ہمیں نقصان پہنچا رہا ہے، اس سے نجات ممکن نہیں ہوتی۔ (2) پُر عزم ہونا صرف حقائق جاننا کافی نہیں ہوتا۔ مثلاً اگر ہم یہ جانتے ہیں کہ تلی ہوئی اشیا کا بہت زیادہ استعمال دل کی بیماریوں کا باعث بنتا ہے، تو ہم میں سے اکثر اِن حقائق کے باوجود اپنی عادت پہ قائم رہتے ہیں۔ بہتر زندگی کے امکانات کے لیے شدید خواہش اور عزم بہت ضروری ہے۔ خود کو ذہن نشین کروائیں کہ بُرے طرزِعمل سے چھٹکارا پانے کی صورت میں زندگی کی کتنی مسرتیں آپ کی منتظر ہوں گی۔ اس سوچ سے آپ میں حوصلہ اور ہمت پیدا ہوگی۔ (3) منصوبہ بندی کیجیے ایک مرتبہ جب آپ درست ذہنی رویہ اختیار کر لیں تو اگلا مرحلہ اپنے طریقہ کار کی منصوبہ بندی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کب اپنی کوشش شروع کریں گے اور اپنی کارکردگی کاجائزہ کیسے لیں گے۔ (4) عمل کیجیے ابھی تک ہم نے ذہنی رویوں کی بات کی ہے جو بْری عادت کے حصار سے نکلنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ ایک اہم چیز عمل کے لیے نکل پڑنا ہے یعنی صرف سوچتے رہنا مسئلہ کا حل نہیں بلکہ ارادہ کیجیے اور اس پہ عمل شروع کر دیں۔ (5) بُری عادت سے چھٹکارے کے لیے اچھا دوست تلاش کیجیے جو آپ کی کوشش میں آپ کا معاون بنے۔ آپ کو یاد دہانی کرواتا رہے یا تعریف سے آپ کا حوصلہ بڑھائے۔ (6) اگر آپ کی کوشش کامیاب ہو رہی ہے تو خود کو انعام دیجیے۔یہ انعام کسی ایسی نئی عادت کے آغاز کی شکل میں نہیں ہونا چاہیے جو آپ کے لیے نقصان دہ ہو۔ جیسے فاسٹ فوڈ کھانے کی عادت سے نجات کی صورت میں خود کو ایک دن کے لیے فاسٹ فوڈ کی عیاشی کا تحفہ نہ دیجیے۔ (7) معاف کرنا/ درگزر کرنا جب آپ ناکام ہو رہے ہوں تو خود کو مجرم نہ سمجھیں اور خود کو ایک اور موقع دیں۔ اگلے دن نئے سرے سے اپنی کوشش کا آغاز کریں اور پوری دیانت داری سے بُری عادت کو شکست دینے کی کوشش کریں۔ ماضی کی غلطیاں تاریخ کا حصہ ہوتی ہیں، ان سے سیکھیں اور آگے بڑھیں۔ جو لوگ بُری عادت سے نجات کے لیے پُر عزم ہوں، وہ چھوٹی چھوٹی وقتی ناکامیوں سے نہیں گھبراتے۔ (8)آخری بات سابقہ گناہوں پر سچے دل سے ندامت کے ساتھ توبہ واستغفار کرے،آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ، توبہ پر استقامت مانگے، اور گناہ سے بچنے کے اسباب اختیار کرنا،مثلا اگر تنہائی کے گناہ کی عادت ہے تو اپنےآپ کو تنہائی سے بچائے ،بری صحبت سے بچے، نیک صحبت اختیار کرے ، (ہوسکے تو کسی متبعِ شریعت عالم سے اصلاحی تعلق قائم کرلے) کثرت سے روزے رکھے ،گناہ ہوجانے کی صورت میں اپنے نفس کوایسے اعمالِ صالحہ اختیار کرکے سزا دے جو اس پر بھاری گزریں، مثلاً دس ،بیس رکعات نوافل پڑھے،ایک دو وقت کا فاقہ کرے کچھ زیادہ رقم صدقہ کرے اور ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے مسلسل دعا بھی کرتا رہے تو امید ہے کہ بری عادات اور گناہوں سے بچ جائے گا۔
جمع و ترتیب:قاری محمد اکرام
مدرس! مدرسہ فیض القرآن اوڈھروال چکوال