بدکاری کا سدباب شرعی حدہے

بدکاری کا سدباب شرعی حدہے
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
اسلام عصمت وعفت کو سب سے بڑی قیمتی متاع قرار دیتا ہے اور اس کی حفاظت کو ہر شئے پر مقدم رکھتا ہے۔ چنانچہ زنا اسلامی معاشرہ میں انتہائی گھناؤنا اور بدترین جرم ہے اور اسلامی تعزیرات میں اس جرم کی سخت ترین سزا مقرر ہے۔گر کسی نے کسی عورت کے ساتھ جبرا زنا کیا تواس زانی شخص پر بہر صورت زنا کی شرعی حد جاری ہو گی اور اس صورت میں مزنیہ یعنی جس کے ساتھ زناکیاگیاہےاس پر حد جاری نہیں ہوگی ۔حدود‘‘،’’حد‘‘کی جمع ہے اور ’’حد‘‘کے معنی بازرکھنے کے ہوتے ہیں،شرعی اعتبارسے ’’حدود‘‘ان مقررہ سزاؤں کو کہاجاتاہے جواللہ تعالیٰ کے حق کے واسطے متعین ہوںاور ان میں ترمیم یاتبدیلی کاکسی کو حق حاصل نہیں۔شریعت میں پانچ جرائم کی حدودمقرر ہیں:(۱)ڈاکہ(۲)چوری(۳)زنا(۴)تہمت زنا(۵)شراب نوشی۔ان پانچ جرائم کی سزاؤں کو حدود کہاجاتاہے۔ان میں پہلی چارسزائیں قرآن کریم سے اورشراب نوشی کی سزا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع سے ثابت ہے۔حدود کامقصود یہ ہے کہ مجرم کو تنبیہ ہو اور وہ جرم سے بازآئے،مخلوقِ خدابھی ضرر،نقصان اورتکلیف سے محفوظ ومامون ہو اوراسلامی مملکت بھی فسادسے محفوظ رہے۔
ہم اگر اپنے معاشرے اور سوسائٹی کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ آج کے دور میں جہاں بے شمار برائیوں کا ارتکاب بالکل سر عام کیا جارہا ہے ان میں سب سے زیادہ ارتکاب فعل بدیعنی زنا جیسے کبیرہ گناہ کا کیا جارہا ہے۔ ہم اگر صرف مسلم سوسائٹی کی ہی بات کریں تو یہاں بھی زنا کا تناسب خطرناک حد تک بڑھا ہوا ہے اسلام ایسا مذہب ہے جس میں تمام مسائل کا حل موجود ہے ۔اسلام میں جہاں ہر چیز کی ہدایت ہے وہیں اُس ہدایت پر چلنے والوں کے لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رحمت اور رب ذوالجلال کی طرف سے خوشخبری بھی دی گئی ہے۔ اوراسی کے ساتھ ساتھ ہدایت کی پیروی نہ کرنے والوں کے لئے آخرت میں عذاب کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔ اسلام میں جن گناہوں سے دور رہنے کاحکم دیا گیا ہے اُن میں سے ایک ’’زنا ‘‘ بھی ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ جل شانہ نے قرآن ِ مجید میں فرمایا ہے کہ’اور زنا کے قریب مت جاؤ بلاشبہ وہ بے حیائی ہے اوربُرا راستہ ہے۔ اس آیہ کریمہ میں زنا سے اس طرح روکا گیا ہے کہ زنا تو نہ کرو بلکہ زنا کے قریب ہی نہ جاؤ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ زنا ایک بہت بری چیز ہے۔(سورۃ بنی اسرائیل 17) آیت 32)اس آیت مبارکہ میں فرمایا اورتم زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو بلاشبہ یہ ایک فحاشی اوربہت ہی برا راستہ ہے اسی طرح حدیث مبارکہ میں بھی زنا کو حرام قرار دیا گیا ہے۔حضرت عبد اللہ مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول صلّی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سےبڑا گناہ کونسا ہے؟ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’(سب سے بڑا گناہ)یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے لیے شریک ٹھہراؤ حالانکہ اس نے تم کو پیدا کیا ہے ‘‘میں نے پوچھا اس کے بعد کون سا گناہ بڑا ہے۔ فرمایا’’یہ کہ تم اس خوف سے اپنے بچہ کو قتل کردو کہ وہ تمہارے ساتھ کھانا کھائے گا۔ ‘‘ میں نے پوچھا پھر کون سا گناہ بڑا ہے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو‘‘ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)عمرو بن میمون رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں :میں نے دورجاھلیت میں ایک بندریا جس نے زنا کا ارتکاب کیا تھا کے خلاف بندر اکٹھے ہوتے اورانہیں اس بدریا کورجم کرتے ہو دیکھا اورمیں نے بھی ان کے ساتھ اس بندریا کورجم کیا ۔ (صحیح بخاری المناقب حدیث نمبر ( 5360 ) ۔توپھر ایک مسلمان جوکہ مکلف بھی ہے اوراس کا حساب کتاب اوراس سے پوچھ گچھ بھی ہوگی کس طرح راضی ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالی نے اسے اسلام کے شرف سے نوازا اوروہ اس کے باوجود جانوروں اورچوپائیوں کی سطح پرپہنچ جاتا ہے ۔مختلف احادیث میں مختلف اعضاء کے زنا کا ذکر کیا ہے جیسے زبان کا زنابدکاری کے باتیں کرنا ، ہاتھ کا زنا کسی غیر محرم کو چھونا،آنکھ کا زنا ایک نظر غلطی سے پڑنے کے بعد دوسری نظر غلط نیت (بدکاری کی نیت)سے غیر محرم کو دیکھنا، کان کا زنابے ہودہ باتیں غیر محرم سے سننا، اور پائوں کا زنابدکاری کے لئے غیر محرم کی طرف بڑھنا۔یہ وہ بنیادی وجوہات و اسباب ہیں جن سے پرہیز نہ کرنے کے سبب زنا کا صدور ہوتا ہے ۔
حدیث میں وارد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 🙁 لوگوں کی دوقسمیں جہنمی ہیں جنہیں میں نے ابھی تک نہيں دیکھا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اوروہ عورتیں جولباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی ، دوسروں کی طرف مائل ہونے والی اوراپنی طرف مائل کرنے والی ان کے سر بختی اونٹوں کی کوہانوں کی طرح ہونگے ، یہ نہ تو جنت میں داخل ہونگی اورنہ ہی اس کی خوشبو ہی پاسکتی ہے ، حالانکہ اس کی خوشبو اتنے اتنے فاصلہ سے آتی ہے ) صحیح مسلم کتاب اللباس والزینۃ حدیث نمبر ( 3971 ) ۔ آپ کا کسی بھی اجنبی کے ساتھ خلوت کرنا ، اس لیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : کوئی بھی عورت اپنے محرم کے علاوہ کسی اورکے ساتھ خلوت نہ کرے ( صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3842 ) ۔ آپ کسی ایسی شخص کے ساتھ خلوت نہ کریں جوآپ کے لیے حلال نہیں ، اس لیے کہ خلوت کا نتیجہ ہی زنا کی شکل میں نکلتا ہے ، آپ اپنی خواہشات کے پیچھے چلتے ہوئے شیطانی وسوسوں اوراس جرم کے سبز باغ اورآسانی کی طرف متوجہ نہ ہوں اس لیے کہ شیطان نے تو اللہ تعالی کی عزت کی قسم کھا رکھی ہے کہ وہ بنی آدم کو گمراہ کرتا رہے گا :اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :وہ شیطان کہنے لگا توپھر تیری عزت کی قسم میں ان سب کوگمراہ کرکے رہوں گا ، لیکن صرف وہ جوتیرے مخلص بندے ہوں گے انہیں نہیں( ص ( 82 ) ۔
اسلام میں زنا سے بچنے کے لئے ہدایت قرآن میںاس طرح ہے کہ مسلمان مردوں سے کہوکہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں،اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے ۔(سورۃ النور ۲۴ آیت ۳۰) ’’آپ ﷺ سے ( اجنبی عورتوں پر) اچانک نظر پڑ جانے کے بارے میں پوچھاگیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم اپنی نظرپھیر لو ۔‘‘(ابو داود / ۱۲۴۸) بد نظری زنا کی پہلی سیڑھی ہے ہر مرد اگراللہ تعالیٰ کی اس آیت اور نبی پاک کی اس حدیث پر عمل کرے تو انشاء اللہ گناہوں(حرام کام) کا ہونا ممکن ہی نہ رہے گا۔ جب بھی کسی مرد کی نظر اچانک کسی غیر عورت پر پڑجائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی نظر نیچی کرلے۔لیکن افسوس اللہ اور رسولﷺ کے احکامات پر عمل کرنے کے بجائے لو گ اسلام سے اور اسلام کے احکامات( شریعت) سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔اور مسلمانوں کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہیں ہیں ،یہ سب بےعملی کا نتیجہ ہے ۔
اسی طرح سور نور کی دوسری آیت مبارکہ میں ہے زناکار مرد وعورت میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ ، ان پر اللہ تعالی کی شریعت کی حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ہر گز ترس نہیں کھانا چاہیے اگرتم اللہ تعالی اورقیامت کےدن پر ایمان رکھتے ہو ، اوران کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیے۔( النور 2 )اس کی سزا کی تعیین اسلامی شریعت سے کچھ یوں ہوتی ہے:’’نبیﷺ کے دور میں ایک عورت سے زنا بالجبر کیا گیا تو آپؐ نے اس پر حدقائم نہ کی بلکہ اس سے زیادتی کرنے والے پر حد ( حد سے مراد سزا)قائم کی۔‘‘(مشکوۃ المصابیح )اس کے علاوہ (مسند احمد ۶۶۳۶ اور جامع ترمذی۱۴۵۶ او ر ابنِ ماجہ ۲۵۶۱) میں ’’زنابالجبر‘‘ (زبردستی زنا) کی سزا ثبوتوں اور گواہوں کی موجودگی میںقتل قرار دی گئی ہے۔ اس کا طریقہ اسلامی شریعت میں یہ ہے کہ اُس شخص کو لوگوں کے سامنے لاکے مارا جائے یا سر دھڑ سے الگ کر دیا جائے یا پھرسرِعام لٹکا دیا جائے ( پھانسی)۔ یہ سزائیں اسلام میںجلدسے جلد سے دینے کا حکم دیا گیا ہے ۔اوراگر زنا کرنے والا شادی شدہ ہے تو اس کی سزا اسلام میں یہ ہے کہ اس کو سنگسار کردیا جائے یعنی اتنے پتھر مارے جائیں کہ وہ مرجائے او راگر زنا کرنے والاغیر شادی شدہ ہے تو اس کو سو کوڑے مارے جائیں گے۔ مگر یہ سزا پتھر مارنے یا کوڑے مارنے کی اس کا حق اہل حکومت کو ہے یعنی جہاں اسلامی حکومت ہو وہاں کا قاضی یہ سزا دلوائے گا، عام آدمی کو اپنی طرف سے کسی زانی کو پتھر مارنے اور کوڑے لگانے کی اجازت نہیں ہے، یہ صرف اہل حکومت کا کام ہے۔تا کہ یہ سزا دیکھنے والوں کے دل میں ڈر و خوف پیدا کرے اور پھر کوئی اس گناہ کو کرنے کی کوشش تو کیا اس گناہ کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے ۔ ایسی سزا جو کھلے عام دی جائے وہ لوگوں کے لئے ایک عبرت ہوگی ۔کئی بار ذہنوں میں سوال اٹھتا ہے کہ شریعت میں صرف زنا کی سزا ہی اتنی سخت کیوں رکھی گئی توجب قرآن کی طرف رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ جہاں صرف اللہ کے حق کا معاملہ ہوتا ہے تو اللہ نرمی کا رویہ اپناتے ہیں اور جہاں بندے کا حق اللہ کے حق سے مل جائے تو اللہ پاک سختی اختیار کرتے ہیں.دو افراد کے زنا کے متاثرین دو فرد ، دو خاندان، دو قومیں، دو گروہ یا دو قبیلے نہیں بلکہ پوری امت ہے.زنا کی سزا یوں بھی اپنی شدت میں بڑھ کر ہے کہ یہ چھپ کر نہیں بلکہ سرِعام مجمع میں دینی ہے۔
آج اگر قرآن و سنت کی تعلیمات پر مکمل طور پر عمل کیا جانے لگے، مرداپنی نگاہوں کی حفاظت کریں ، عورتیں اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں اور پردے کا خاص اہتمام کریں تو وہ سارے راستے خود بخود بند ہوجائیں جو زنا کے ارتکاب کی طرف لے جاتے ہیں۔ یاد رکھیں “جب عورت نے اپنے ستر کا خیال نہ رکھا تو محرم محرم کا دشمن بن گیا.جب اللہ کی مقرر کردہ حدود و قیود کا خیال نہیں رکھا جائے گا تو باپ بیٹیوں کو خود پہ حلال کر لیں گے اور بھائی بہنوں کو خود پر حلال کر لیں گے اور بہنوئی سالیوں کو اور سالیاں بہنویوں کو حلال کر لیں گی اور یہ بھی یاد رکھیں شادی پر اصرار وہی مرد کرتا ہے جو پاک رہ کر صرف بیوی سے سکون حاصل کرنا چاہے.ورنہ معاشرہ بھرا ہوا ہے ایسے غلیظ لوگوں سے جو شادی کو بوجھ سمجھتے ہیں کیونکہ انہیں اس بوجھ کو گلے میں ڈالے بنا بھی سب کچھ مل رہا ہوتا ہے.اللہ تعالٰی نے اجازت دی ہے کہ ایک سے خواہش پوری نہیں ہوتی تو دو شادیاں کرلو. تین کرلو ، چار کرلواور اس میں بیوی کی اجازت بھی شرط نہیں ہاںمگر بیوی کے حقوق پورے کرنا فرض ہے مگر کیا کریں آج کے اخلاقی طور پر دیوالیہ نکل گیا ہےمعاشرے کاکہ جو گرل فرینڈز تو دس دس برداشت کر لیتا ہے مگر بیوی ایک سے دو نہیں۔ہم نے گھروں میں کیبل لگوا کر ، کھلی آزادی دے کر ،کو ایجوکیشن میں پڑھا کر پھر اپنے بچوں سے رابعہ بصری اور جنید بغدادی بننے کی توقع کریں تو ہم احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں.جو جوان لڑکا لڑکی جب سکول کالج یونیورسٹی کے آزاد اور “روشن خیال” ماحول میں پڑھیں گے تو انکو تعلق بنانے سے کون روکے گا؟جب گھروں میں دینی تربیت نہ ہو ، مائیں ڈراموں اور اٹس ایپ اور فیس بک اور کپڑوں کی ڈیزائننگ فیشن میں مگن رہتی ہوں،اولاد کی سرگرمیوں اور ان کی صحبت سے ناواقف ہوں تو جیسی خبریں آئے دن اخبارات کی زینت بنتی ہیں وہ بعید نہیں.مگر ہمیں تو یہ سکھایا جاتا ہے کہ جب نظروں میں حیا ہو تو پردے کی ضرورت نہیں.اس کا تو یہ مطلب بھی بنتا ہے کہ جب نظروں میں حیا ہو تو پھر کپڑوں کی بھی ضرورت نہیں اس سلسلے میں ایک اہم چیز آج کل کا موبائل بھی ہے۔ ہم ایک ڈیجیٹل دور میں جی رہے ہیں جہاں کسی بھی شخص سے رابطہ کرنا بالکل بھی مشکل نہیں ہے، اجنبی مرد و خواتین عام طور پر ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں، یہ رابطے دھیرے دھیرے بڑھ کر تعلقات میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور اس طرح سے ملنے ملانے اور پھر ساتھ پھرنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو زنا پر جاکر ختم ہوتا ہے۔ آج کے دورمیں ہمیں اس بات کی بھی خاص احتیاط رکھنی چاہیے کہ بلاضرورت کسی اجنبی عورت یا مرد سے رابطہ بالکل بھی نہ رکھیں۔ اگر ہم اللہ کی حدود کی حفاظت کریں گے تو واللہ ہماری حفاظت کرے گا۔ تمام ایسے اعمال جو بظاہر ہمیں چھوٹے معلوم ہوتے ہیں ان سے بھی مکمل احتیاط کریں اور حتی الامکان ان سے بچنے کی کوشش کریں کیونکہ چھوٹے اعمال ہی ہمیں بڑے اعمال تک پہنچاتے ہیں۔ آج میڈیا اور معاشرہ ہمارے ایمان دین اور آخرت کی کامیابی کو بڑی تیزی سے نگلتا جا رہا ہے آج ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اس رب العزت کے غلام ہیں یا اپنے نفس کے۔اگر آخرت کی فلاح چاہیے تو اللہ تعالیٰ کی غلامی میں پناہ لے لیں اللہ تعا لی ٰہم سب کو دین کو سمجھنے کی اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور ہم سب کو اپنی شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین