بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا سنگ بنیاد
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 5اگست 2020ء کو شہیدبابری مسجد ایودھیامیں رام مندر کی بنیادیں رکھ کر مسلمانوں کے خلاف ایک اور قدم اٹھا لیا ہے ، مودی نے اپنے خطاب میں اس دن کو تاریخی دن قرار دیا۔متشدد ہندو ایک عرصے سے بابری مسجد کو رام مندر میں تبدیل کرنے کے لئے جدوجہد کررہے تھے اور اب 5اگست کوانہوں نے عملاً ایسا کر دکھایا ہے۔ ہندوستان میں بالکل ایسے ہی ہو رہا ہے،جیسے اسرائیل میں مسلمانوں کے خلاف ہو رہا ہے۔ یہودیوں نے مسلمانوں / فلسطینیوں کے آزاد وطن کی امیدوں پر پانی نہیں بلکہ تیزاب پھیر دیا ہے،بالکل جس طرح ہندوؤں نے کشمیریوں کی آزاد وطن کی خواہش اور جدوجہد کو کچل کر رکھ دیا ہے۔ یہودی مسلمانوں کے قبلہ اول پر قابض ہو چکے ہیں۔ وہ مسجد اقصیٰ پر ایسے ہی تھرڈ ٹیمپل کی بنیادیں کھڑی کرنے جا رہے ہیں، جس طرح بابری مسجد پر رام مندر کی بنیادی کھڑی کی جا رہی ہیں۔ آزاد ذرائع کے مطابق بھارت، کشمیریوں اور مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے، اس میں اسرائیلی مشاورت اور معاونت شامل ہے۔ اور بھارتی حکمرانوں اور اسرائیلی یہودیوں کی بھارتی مسلمانوں اور فلسطینی مسلمانوں کے خلاف اقدامات میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں بڑی کامیابی کے ساتھ من مانیاں کر رہے ہیں،جبکہ ہم مسلمان، عرب ہوں یا عجمی،کچھ بھی کرنے سے قاصر نظر آ رہے ہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کی اجازت دیکر دم توڑتے ہوئے سیکولر ازم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے ۔ سوئی ہوئی امت کیا جاگتی اس نے تومودی حکومت کی اس فیصلے پر باز پرس کرنابھی مناسب نہ سمجھا ۔ 52 آزاد اسلامی مملکتوں میں سوائے ترکی کے کسی نے بھی اظہار مذمت کرنا بھی ضروری خیال نہ کیا اسلامی تعاون کی تنظیم او آئی سی بھی اجلاسوں اور کانفرسوں سے آگے نہ بڑھ سکی ۔عرب امارات تو ویسے بھی مودی سے قربتیں بڑھانے میں مصروف ہے ۔ بابری مسجد شہید کرنے والے آر ایس ایس کے پرچارک مودی کوابو ظہبی سمیت دیگر عرب ریاستوں میں مندر بنا کر ان کی چابیاں تحفے میں دی گئیں۔وطن عزیز کے موجودہ حکمران بھی کسی سے پیچھے نہیںوہ بھی ان کی محبت میں انہیںمندر کی زمینیںالاٹ کرکےاوران پر مندر کی تعمیر میں بے چین ہیں غیروں سے کیا گلہ کریں مسلم حکمران ہی ہنود ویہود کے اسیر نظر آتے ہیں۔بابری مسجدمسلمانان ہند کا سب سے نازک ،حساس اور سنگین مسئلہ ہے ،مورتی رکھے جانے سےلیکر اس کی شہادت تک اور اس کے بعد سے اب تک مسلمانان ہند اس کی حصول یابی اور بازیابی کیلئے ہزاروں قربانیاں دے چکے ہیں اور عدلیہ سے انصاف کی امید لگائے بیٹھے تھے ۔اور اسی عدلیہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے بھارت کے جھوٹے سیکولرازم کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ فیصلے نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ بھارت اقلیتوں کے لیے غیر محفوظ ہے۔کیا سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے بارے ناقابل تردید حقیقتوں کو بھی نہیں دیکھا یا جان بوجھ کر ان کو جھٹلایا۔ کیا کسی نے عدالت کو نہیں بتایا کہ یہاں کئی صدیوں تک اذان کی صدائیں بلند ہوتی رہیں اور یہاں باقاعدہ نماز ادا کی جاتی رہی۔ مسلمان مغلوں کا دور گزرا، انگریز حکمران ہوئے، اس کے بعد بھارت ایک آزاد ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا مگر ان سب کے باوجود بابری مسجد کے مینار کھڑے رہے کسی کو اس پر قبضہ کرنے یا اسے مسمار کرنے کی جرات نہ ہو سکی۔کیا سپریم کورٹ بھول گئی کہ بھارت کے آئین میں مذہب، رنگ اور نسل سے اوپر اٹھ کر تمام بھارتیوں کو یکساں تحفظ حمایت دی گئی تھی۔ ان کے بنیادی حقوق یکساں تھے، ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت سرکار کی اولین ذمہ داری تھی، لیکن ہندتوا کے نعرے لگانے اور بھارت کو ہندوانے کے جنون میں مبتلا عناصر گزشتہ تین عشروں سے سیکولر اقدار کو زمین بوس کرنے کے لئے شدت سے سرگرم ہیں۔
بابری مسجد بھارت کی شمالی ریاست اترپردیش کے ضلع فیض آباد کے ایودھیا میں، جو نوابوں کے شہر لکھنؤ کے پاس ہی واقع ہے، ستائیس برس قبل چھ دسمبر سن 1992ء کو ہندو حملہ آوروں نے مغل بادشاہ بابر کے ایک جنرل میر باقی کی تعمیر کردہ تقریبا ساڑھے چار سو برس قدیم تاریخی بابری مسجد کو دن دہاڑے منہدم کر دیا تھا۔ مسلمانوں نے اس مسجد کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ایک طویل عدالتی جد و جہد کی تاہم گزشتہ ماہ نو تاریخ کو سپریم کورٹ نے اس پر اپنا فیصلہ سنایا اور بابری مسجد کے انہدام کو پوری طرح غیر قانونی بتا کر اراضی کی ملکیت اُسی ہندو فریق کو سونپ دی، جو مسجد کی مسماری کی ذمہ دار تھی۔بابری مسجد جو مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے نام سے منسوب ہے،بھارتی ریاست اترپردیش کی بڑی مساجد میں سے ایک تھی۔ اسے مغل سالار میر باقی نے تعمیر کروایا تھا۔تعمیری پس منظر بابری مسجد مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر ( 1483ء – 1531ء) کے حکم سے دربار بابری سے منسلک ایک نامور شخص میر باقی کے ذریعہ سن 1527ء میں اتر پردیش کے مقام ایودھیا میں تعمیر کی گئی۔یہ مسجد اسلامی مغل فن تعمیر کے اعتبار سے ایک شاہکار تھی۔ بابری مسجد کے اوپر تین گنبد تعمیر کیے گئے.جن میں درمیانی گنبد بڑا اور اس کے ساتھ دو چھوٹے گنبد تھے۔ گنبد کے علاوہ مسجد کو پتھروں سے تعمیر کیا گیا تھا.جس میں صحن بھی شامل تھا۔ صحن میں ایک کنواں بھی کھودا گیا۔گنبد چھوٹی اینٹوں سے بنا کر اس پر چونا کا پلستر کیا گیا تھا۔ مسجد کو ٹھنڈا رکھنے کی غرض سے اس کی چھت کو بلند بنایا گیا.روشنی اور ہوا کے لیے جالی دار کھڑکیاں نصب تھیں۔ اندرونی تعمیر میں ایک انتہائی خاص بات یہ تھی کہ محراب میں کھڑے شخص کی سرگوشی کو مسجد کے کسی بھی اندرونی حصے میں آسانی سے سنا جا سکتا تھا۔ الغرض یہ اسلامی فن تعمیر کا شاہکار تھا۔اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہمیں بھی کوئی طیب ایردوان جیساغیرت مند اور حمیت دینی رکھنے والالیڈر عطا فرمائیں تب ہی بھارت کے کریہہ عزائم کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔