اہانتِ رسولﷺ بدترین جرم ہے
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
یورپ کے بڑے مسلم آبادی والے ملک فرانس میں کارٹونوں کی اشاعت اورحکومتی سطح پرفرانسیسی صدر میکرون نے نبی اکرمﷺ کے بارے بنے گستاخانہ اور توہین آمیز خاکے اور کارٹون شاہراؤں اور بڑی عمارات پر سرعام لگانے کا حکم دیا ، مغرب میں پےدرپےتوہین آمیز خاکوں کی اشاعت ایک سازش ہے ،موجودہ صدر انتہائی متعصب ذہنیت رکھتا ہے،یہ مغربی بھیڑیے کتنے جمہوریت پسند، انسانی حقوق کے دل دادہ اور حقِ اظہار رائے کے حمایتی ہیں ہیں۔اورمسلمانوں کو گردن جھکاکر جینےکا سبق دینے والے اور شعائرِ اسلام اور پیغمبرِ آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی کردار کشی پر مظاہرہ کرنے والوں کوجذباتی، بیوقوف اور صبر وحکمت سے عاری بتانے والے کہاں ہیں؟دنیا کا کوئی بھی عقل مند انسان اس کی حمایت نہیں کرسکتا ہے ۔آزادی اور سچائی کسی پر الزام تراشی ، کسی کی تضحیک اور کسی کی دل آزای کا نام نہیں ہے۔ کسی بھی مذہب کا مذاق اڑانا ، اس کے بانی کی تذلیل کرنا اور اس کے پیروکاروں کے جذبات کو مجروح کرنا خلاف انسانیت عمل اور بدترین جرم ہے اس کا مرتک بدترین اور سخت ترین سزا کا مستحق ہے ۔مسلم دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات کوٹھیس پہنچانایہ وہ اقدام ہیں جو صرف مسلمانوں کے خلاف جاتے ہیں۔ یورپ اور غیر مسلم ممالک مسلمانوں کے حقوق غصب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کبھی گستاخانہ خاکے بنا کر ، کبھی حجاب اور داڑھی پر پابندی لگا کر ، کبھی قبلہ اول کو اسرائیلی تحویل میں لینے کی بات کر کے ۔ غرض تمام غیر مسلم دنیا مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے درپے ہے۔ اسلام اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں کو مکمل تحفظ دیتا ہے تاہم جب گستاخانہ خاکے چھاپ کر ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانو ں کے دلوں کو چھلنی کیاجاتا ہے تو مغرب کے حکمران اس کی مذمت کرنے کی بجائے گستاخانہ خاکے چھاپنے والوں کی حمایت کرتے ہیں۔ظلم، نا انصافی اور توہین کے خلاف صداے احتجاج بلند کرنا انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ اور جب یہ توہین کسی ایسے مسئلہ پر ہو جس کا تعلق گہرے قلبی اور روحانی معاملہ سے ہو تو رد عمل میں شدت کا آ جانا ایک لازمی اَمر ہے۔ ان گھناونی حرکات پر ہر دل غمگین ہے جبکہ قرآن پاک اور صاحبِ قرآنﷺ سے محبت کرنےوالی ہر آنکھ فرطِ جذبات سے لبریز نظر آتی ہے۔ پورا عالم اسلام پوری قوت کے ساتھ اس توہین رسالت اور توہین قرآن کے سانحہ کے خلاف جلسے اور جلوسوں کی صورت میں ابھی تک سراپا احتجاج ہےاس مذموم اور گھناونی حرکت کیخلاف احتجاج کرنا ہر مسلمان کا ایمانی فریضہ اور حضورؐ سے محبت کا تقاضہ ہے۔ مسلمان کیلئے آقائے دوجہاں کی ناموس سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔ اور مغرب کے خوشادیوںاور ٹھیکیداروں سے سوال یہ ہے کہ56 ملکوں اور ڈیڑھ ارب آبادی والی اُمّتِ مسلمہ پر شعائرِ اسلام کی بے حرمتی ہونے پر کوئی شرعی ذمہ داری حکومتی اور اجتماعی سطح پر عائد ہوتی ہے یا نہیں؟ اس ملعون صدر کی مذموم حرکات سے جان بوجھ کر مسلمانوں کو اشتعال دلایا جارہا ہے ،کسی بھی مذہب ، اس کے بانی ، اور رہنماؤں کا مذاق اڑانے جیسے عمل پر آزدای کا لیبل لگانا اور اسے اظہار رائے کی آزادی سے تعبیر کرنا آزادی کو روح کو سنگسار کرنے کے مترادف ہے،اگر یہ مغرب کی سازش کا ایک پہلو ہوسکتا ہے کہ وہ ہمیں چھیڑکر اس کے ردعمل کے ذریعہ ہماری منفی تصویر دکھانا چاہتا ہے تو کیا ایک پہلو یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ دھیرے دھیرے ملت کے اندر سے ایمانی غیرت، حمیت، اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن، کعبہ کی بے توقیری کا ماحول پیدا کردے۔اگرساری امت، ”صبر“، ”حکمت“ اور ”دانائی“ کے ساتھ ﴿انَّا ہٰہُنا قٰعِدون﴾ ”ہم تو یہاں بیٹھے رہنے والوں میں سے ہیں“ کا ورد کرتی رہے گی، تو کیا اللہ تعالیٰ کے حضور بھی یہ پوری ملت، حکومتیں، جماعتیں اور علماء ودانشوران جواب دہی کرپائیں گے؟
نبی کی شان میں گستاخی کرنا بدترین گناہ اور بدترین وعیدکا مصداق بننا ہے، جس طرح روزِ قیامت وہ لوگ جو نبیﷺ کے ہاتھ سے واصل جہنم ہوں گے، بدترین عذاب کا صلہ پائیں گے، اسی طرح وہ لوگ جنہوں نے انبیا جیسی مقدس ہستیوں کی ذات وشان میں زیادتی کی ہوگی، بدترین انجام کے مستحق ہوں گے۔نبی کریمﷺ کی شانِ اقدس میں زیادتی کا ارتکاب بدترین گناہ ہی نہیں، سنگین ترین جرم بھی ہے۔کیونکہ حضور اقدس ﷺ کی گستاخی دراصل اللہ تعالیٰ کی گستاخی ہے،جناب نبی کریم ﷺ کی گستاخی ہزاروں لاکھوں بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے سے بھی زیادہ خطرناک جرم ہے جولوگ اسے ماں باپ کی نافرمانی اور قطع رحمی کی طرح محض ایک گناہ سمجھتے ہیں، وہ غلطی پر ہیںیہ جرم انسانوں کے لئے جہنم اور ہمیشہ ہمیشہ کی ناکامی کے دروازے کھولتا ہے، حضور اقدس ﷺ کی شان اَقدس میں گستاخی پورے پورے شہروں کو آبادیوں سمیت جلا دینے سے بھی زیادہ مہلک اور نقصان دِہ گناہ ہے۔ اسلام کی رو سے اہانتِ رسول بدترین جرم ہے، جس کی سزا دینا خلافتِ اسلامیہ کا فرض ہے۔ نبی کریمﷺ کی ذات پر طعن وتشنیع آپ پر ایک بہتانِ عظیم بھی ہے۔ جس طرح کسی جرم کے ارتکاب پر محض توبہ اور رجوع کافی نہیں ہوتے، بلکہ چوری یا زنا کی طرح عوام میں ظاہر ہوجانے کے بعد اس کی سزا دینا مسلم حکمرانوں کے لئے واجب ہوجاتا ہے، اسی طرح اہانتِ رسول کا سنگین جرم بھی مستوجبِ سزا ہے۔ اگر مسلمان حکمران اس کی سزا دینے سے احتراز کرتے ہیں ، تو وہ اپنے شرعی فریضہ سے واضح انحراف کے مرتکب ہوتے ہیں۔
شاتمین رسالت کو ذاتِ جلّ جلالہ نے کبھی معاف نہیں کیا اور عفو ودرگزر کے اُس دور میں بھی شانِ رسالت میں حرف گیری کرنے والے اللہ کی بدترین پکڑ کا شکار ہوئے تھے، تاریخ ہر ہر شاتم رسول کے بدترین انجام سے ہمیں خبردارکرتی ہے۔ مدینہ منورہ میں چلے آنے کے بعد ایسے بدبختوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا حکم دے دیا گیا اور شاتمانِ رسالت مآب ﷺکی سرکوبی کے لئے آپ خود مہمّات روانہ کرتے، صحابہ کی مجالس میں صلاے عام دیا کرتے اور اللہ تعالیٰ سے ایسے رسالت کے پروانوں کی مدد کی فریاد کیا کرتے۔ ایک بار محمد بن مسلمہ نے آپ کی دعوت پر لبیک کہا، ایک بار سیف الاسلام سیدنا خالدؓ بن ولید ، ایک بار سیدنا زبیر نے اور حسانؓ بن ثابت کو تو آپ نے خود بزبانِ شعر ظالموں کاجواب دینے کی تلقین کی، اور روح القدسؑ کے ذریعے اللہ سے اُن کی مدد ونصرت کے طالب ہوئے۔ رحمۃ للعالمین ﷺکا قلبِ اطہر ظلم وبدزبانی کے اوچھے ہتھکنڈوں پر زخمی ہوجایا کرتا اور آپ اپنے صحابہ کو شانِ رسالت کے تحفظ کے لئے اُبھارا کرتےتھے۔
اہانتِ رسول کے ذریعے تین طرح کے حقوق میں زیادتی کا ارتکاب کیا جاتا ہے، اللہ کے حق میں جس نے آپ کی ذات کو پیغامِ رسالت کا مرکزومحور بنایا۔پھرنبی کریمﷺ کی ذات کا حق اس سے متاثر ہوتا ہے کہ آپ پر سبّ وشتم اور الزام تراشی کرکے ، صریح بہتان کا ارتکاب کیا جاتا ہے؛ یہ آپ کا شخصی حق ہے۔ اور توہین رسالت کے ذریعے شمع رسالت کے پروانوں یعنی محبانِ رسول ﷺاور پوری اُمّتِ محمدیہ کا حق مجروح کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان تینوں حقوق کو مجروح کرنے والابدبخت ترین انسان ہے۔
اس بدتردور میں نبی اسلامﷺ کی شان رسالت میں کی جانے والی گستاخیاں، اس تکرار، تسلسل، ڈھٹائی، وسعت اور بڑے پیمانے پر جاری ہیں، جن کا ماضی میں کوئی وجود نہیں ملتا۔ ماضی کا مسلم حکمران دیبل میں کسی ایک مسلم خاتون کی عصمت دری پر تڑپ اُٹھتا اور اس کے نتیجے میں آنے والے لشکرِ اسلام سے آخرکار پورا برصغیر اسلام کے نور سے منور ہوجاتا، کبھی وا معتصماہ کی پکارپر مسلمان خلیفہ بے چین ہواُٹھتا اور روم کے شہروں انقرہ وعموریہ کو زیرنگین لاکر دم لیتا۔ کبھی خلیفہ ہارون الرشید وقت کے امام سے پوچھتا کہ اہانتِ رسول پر میری ذمہ داری کیا ہے، توامام بے چین ہوکر جواب دیتےہیں کہ ا س اُمّت کو دنیا میں جینے کا حق نہیں رہتا جس کے نبی کی توہین کردی جائے۔لیکن آڈیڑھ ارب تک پہنچنے والے مسلمان، لاکھوں تک پہنچنے والی مسلم افواج، پانچ درجن مسلمان ریاستیں، دنیا کے بہترین اَموال ونعم سے معمور مسلم سرزمینیں، عظیم تجارتی راستوں کی نگہبان مسلم حکومتیں ذلّت ورسوائی کو قبول کئے خوابِِ غفلت میں مدہوش ہیں۔ ان میں ایٹمی قوت پاکستان بھی ہے؛ وہ تیل جس سے دنیا کا پہیہ چلتا ہے، اس کی دولت سے مال مالاعرب ریاستیں بھی ہیں، اورصنعت وٹیکنالوجی کی حامل جنوب ایشیائی مسلم ممالک بھی ہیں۔ ان ممالک پرمسلط حکمرانوں کے محلات اور جاہ وحشم دیکھیں تو ماضی کے بادشاہوں کی شان وشوکت ہیچ نظر آئے ،لیکن ان سب کے ہوتے ہوئے، مسلم اُمّہ پر ذلّت ومسکنت مسلط کر دی گئی ہے۔ جب کسی قوم وملّت کی عظمت کو نشان کو سرنگوں کرنے کی ناروا کوششیں جاری ہوں تو اس قوم کے قائدین کا عزت وسربلندی کی جھوٹی علامتوں اور مصنوعی جاہ وحشم پر مطمئن ہونا جانا شرمناک نہیں تو اور کیا ہے!
امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ کا فرمان بالکل درست ہے کہ دنیا میں ہر مسلمان کی شناخت ذاتِ رسالت مآب سے ہوتی ہے، آخرت میں بھی ان کا تعارف امت محمدیﷺ کے طور پرہوگا اور نبی کریمﷺ ہمارے ساتھ روزِ محشرمیں پیش ہوکر ،ہماری کثرت پر فخر کریں گے، لیکن جب اپنی شناخت کی حفاظت سے اتنے زیادہ انسان اور اتنی بڑی افواج عاجز آجائیں تو پھر سمجھنا چاہئے کہ کہیں ضرور ایسا بدترین مغالطہ ہے جس میں اس دور کی اُمتِ محمدیؐﷺگرفتار ہے۔ ظاہر ہے کہ یا تو مذکورہ بالاحقائق درست نہیں یا اسلام کےنام لیواؤں کا اپنے نبی سے محبت کا دعویٰ جھوٹا ہے!درحقیقت یہ وہی زمانہ ہے جب اسلام کاصرف نام اور قرآن کے صرف حروف باقی ہیں، اسلام اور قرآن پر عمل کرنے اور اُنہیں جاننے والے خال خال ہی ملتے ہیں۔ اکثر وبیشتر مسلمانوں کی صورتِ حال تو یہی ہے، مسلم عوام میں اسلامی شعور کی صورتِ حال قدرے بہتر ہے ،لیکن مسلم حکمران تو ملّی جذبہ اور غیرت وحمیت سے بالکل عاری ہیں۔ اس لحاظ سے فی زمانہ اسلام اور شعائرِ اسلام کی توہین دراصل مسلم حکمرانوں کی بے غیرتی اور بے حمیتی کا نوحہ ہے۔
آج بعض معذرت خواہانہ مسلم دانشور یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ ناموسِ رسالت اور توہین اسلام کی یہ مذموم کاروائیاں چند ایک کھلنڈرے اور نادان لوگوں کا فعل ہیں،یہی موقف مغربی حکمرانوں نے بھی اپنا رکھا ہے جبکہ یہ دعویٰ حقائق کے سراسر خلاف ہے۔اور اس موقع پر یہ تکلیف دہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ دیگر مسلم ممالک کی طرح پاکستان کے میڈیا پر بھی بے ضمیر اور بے دل لوگوں کا قبضہ ہے۔ یہاں کے میڈیا پر وہ لوگ چھائے ہوئے ہیں جنہیں غیرتِ ایمانی اور حبِ نبویﷺ سے بہت کم حصہ نصیب ہوا ہے۔ پاکستانی میڈیا کے کارپردازوں کو لاکھوں افراد کی حبِ رسول سے معمور ریلیاں تو نظر نہیں آئیں، نہ ہی ان کو نمایاں کرنے کی اُسے کوئی توفیق ملی۔
نبیِ اسلامﷺ اور شعائرِ اسلام کے خلاف اہانت وتمسخر کی اس بدترین مہم اور اس کے خلاف مسلمانوں کے احتجاج سے ایک اور بات روزِ روشن کی طرح آشکار ا ہے کہ مسلم حکمرانوں اور مسلم عوام کے مابین خلیج وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ گہری سے گہری ہوتی جارہی ہے۔ مسلم عوام اسلام کے خلاف ہونے والے مظالم سے دل برداشتہ ہیں، لیکن ان کے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ستاون مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کی حیثیت ایک مردہ گھوڑے سے زیادہ نہیں اور اسے اس الم ناک مرحلے پر ماضی کی طرح کسی بامقصد اقدام کی کوئی توفیق نہیں ہوئی، اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہے کہ یہ تنظیم ان مفاد و زَرپرست حکمرانوں کی رہین منت ہے جن کے نزدیک ہر چیز پران کا ذاتی مفاد مقدم ہے۔ اگر ذاتی جاگیروں کی طرح پھیلی اُن کی حکومتوں پر کوئی زد پڑتی ہو تو اس تنظیم کے تن مردہ میں بھی انگڑائی اور بیداری کی کوئی لہر دکھائی دیتی ہے۔ لیکن اسلام اور شعائر اسلام پر کوئی حملہ اُن کے لئے اس بنا پر قابل توجہ نہیں، کیونکہ اس سے ان سے آقائے ولی نعمت کی پیشانی پر شکن نمودار کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ یہ حکمران ہر لمحہ علما کو اتحاد کی تو بے جا تلقین کرتے نظر آتے ہیں جبکہ اس مرحلہ پر پوری اُمتِ محمدیہﷺ متفق ومتحد ہے لیکن کاش ان حکمرانوں میں بھی اسلام نہیں تو کم ازکم نبی اسلامﷺ کی حرمت وناموس کے لئے کسی درجہ میں اتحاد ہوجائے تو دنیا کا کفر چند لمحوں میں ایسی شنیع حرکات سے توبہ کرلے۔اس وقت عالم اسلام کے سیاسی اتحاد کی ضرورت ہے!
مغرب میں ہتکِ عزت کے دفاع کا حق توہر شخص کو حاصل ہے، ازالۂ حیثیت عرفی کے لئے درجنوں قوانین موجود ہے، مغرب کا ظالم انسان ہر فرد کو تو اپنے عزت کے تحفظ کا حق دیتا ہے لیکن صد افسوس کہ جب اللہ کی برگزیدہ ہستیوں اور پیغمبران علیہم السلام کی بات آتی ہے تو یہ اہل مغرب اظہارِ رائے اور انسانی حقوق کی ہفوات شروع کردیتے ہیں۔دراصل یہ معرکہ مذہب اور اِلحاد کا ہے، جسے دھوکہ دینے کے لئے قوانین کی غلط تعبیر کا سہارا لیا جاتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی شخص کو بدنام کیا جائے تو اُس کے تحفظ کی بجائے اس کو انسانی حقوق کا چارٹر تھما دیا جائے گا۔ جب کچھ عرصہ قبل برطانوی شاہی خاندان کی بعض نامناسب تصاویر شائع ہوئی ہیں تو ان کی جھوٹی عزت کے تحفظ کے لئے قانون حرکت میں آیا اور گرفتاریاں تک عمل میں آئی ہیں،اس موقعہ پر آزادی اظہار کا غلغلہ کیوں بلند نہیں کیا گیا؟ یہ مغرب کے مکار وعیار ذہن اور مغرب کے ٹکڑوں پر پلنے والامیڈیا کی کارستانی ہے جو تصویر کا محض ایک رخ پیش کرتا ہے!
انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے کی حقیقت جس کا شور مچاکر اپنی ذہنی خباثت اور مذہبی دشمنی کو روبہ عمل لایا جارہا ہے۔ اہانتِ دین کے قانون کو یہ ظالم مغربی ممالک پاس نہیں ہونے دیتے کہ اس کا غلط استعمال ہوگامگر دہشت گردی کے خلاف خصوصی قوانین کی زد میں پاکستان،افغانستان اور دنیا بھر میں ہزاروں بے گناہوں کی جو جوانیاں برباد کردی گئیں اور گھر اجاڑدیے گئے؛ مگر قوانین زندہ ہیں کیونکہ ممالک کے تحفظ کا سوال ہے۔ اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ اہلِ ایمان کے لیے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن، کعبہ عزیز ہے۔ وہ ان کی بے ادبی پر تمام قانونی کارروائیاں کرے گی، چاہے دشمنان دین کو کتنا ہی ناگوار گذرے۔ جس جس طرح کی کارروائیاں اہلِ مغرب دینِ اسلام کے خلاف کررہے ہیں، وہ علمی نوعیت کی ہے ہی نہیں کہ ان کا علمی جواب دیا جائے۔ وہ سب کے سب ہتک اور توہین کے زمرہ میں آتی ہیں۔ امت مسلمہ کے لیے فی الوقت ترجیحات میں سب سے ضروری کاموں میں الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کو وجود میں لانے کا ہے۔ کروڑوں روپیہ کے کانفرنس، سیمینار، اجتماعات، امریکہ، برطانیہ کے تبلیغی دوروں کے ساتھ ساتھ صبر، حکمت، طویل المدتی پالیسی کے تحت اپنا میڈیا کیوں نہیں کھڑا کیاجاتا؟ غیرمسلموں نے E-TV اور Z. Salam شروع کردیا اور ہمارے دانشور بھی انھیں کے بھروسہ بیٹھے رہتے ہیں، جو حضرات بڑی حکمت و دانائی کی باتیں کررہے ہیں وہ ایمان داری کے ساتھ بتاسکتے ہیں کہ احتجاج یا مظاہرہ کے بجائے کتنے غیرمسلموں تک نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے متعلق مواد پہنچاسکے؟ اب تک طویل المدتی پالیسی کے تحت وہ کتنے غیرمسلموں تک دعوتی ربط کرپائے؟
مذہبی شعائر اور شخصیات پر حملہ کسی مسلمان نے نہیں کیا، اور نہ ہی یہ اسلام کی تعلیم ہے، دوسری طرف یہ دہشت گردی مغربی اقوام کے حصّے میں آئی ہے، اس سے بخوبی پتہ چل جاتاہے کہ دنیا کو خطرہ مسلمانوں کی بجائے اہل کفر کی دہشت گردی سے ہے جو نظریات وعقائد سے بڑھ کر اقوام وملل کے خلاف جارحیت وبربریت کا وتیرہ اپنائے ہوئے ہیں۔اسلام جس طرح جبر سے نہیں بلکہ اپنے پیغام کی بدولت پھیلا ہے اور غیرمسلموں نے اپنے مذاہب کو ترغیب وتحریص اور جبر وتشدد کےذریعے پروان چڑھایا ہے ، اسی طرح مغربی اقوام کی یہ موجودہ نسل بھی اسی ابلاغی جبر وقوت کا اظہارکرکے بزور اپنے نظریات کو ٹھونسنا چاہتی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مغرب کی الحادی تعلیم سے فیض یافتہ مسلمان بھی ان حقائق کو جان اور سمجھ بوجھ لیں اور اہل مغرب کی اسلام سے نفرت و تعصّب اور دوہرے معیارات کا جائزہ لے کر اپنے فکر وذہن کی تشکیل نو کریں۔اورمسلمانوں کےمغربی تعلیم یافتہ طبقے پر بخوبی واضح ہوجانا چاہئے کہ امن اور عزت بھیک مانگ کر یا رواداری اور انسانی حقوق کے مغربی مغالطوں کے ذریعے نہیں ملتی۔ امن وسلامتی کا اس کے سوا کوئی طریقہ نہیں کہ مخالف کو اپنی قوت سے ڈرا کر، اس پر رعب مسلط کرکےاُسےامن رہنے پر مجبور کیا جائے جسے قرآن نے ترہبون بہ عدو اللہ وعدوکم سے تعبیر کیا ہے، یہ حقیقت گو کہ کڑوی ہے لیکن مفادات کی اسیر دنیا کا ضابطہ کل بھی یہ تھا اور آج بھی یہی ہے۔ مغربی تہذیب اپنے عروج وکمال کے دور میں اپنے دعووں کی تکذیب خود اپنی زبان سے کررہی ہے اور اسلام کا نظریۂ امن درست ثابت ہورہا ہے۔ پھر بھی مسلمان نہ سمجھیں اور خوابِِ خرگوش کے مزے لیتے رہیں تو اہانت وتذلیل کا یہ سلسلہ کہیں نہیں رکے اور تھمے گا۔
ان حالات میں نبی اکرم ﷺ سے محبت کرنے والوں کی ذمہ بڑھ جاتی ہے۔ مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ عالمی سطح پر انبیاے کرام اور مقدس کتابوں کی توہین کے واقعات کی روک تھام کے لئے قانون سازی کی جائے۔ ایسی حرکتیں کرنےوالے شرپسند عناصر عالمی امن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں اس لئے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے ان کے خلاف کار روائی کریں۔
یاد رکھیں! سرمایہ دار کو سب سے زیادہ تکلیف مالی نقصان سے ہوتی ہے۔ گستاخ ممالک کی ہر قسم کی مصنوعات اور کمپنیوں کا مکمل بائیکاٹ کریں، عارضی اور وقتی نہیں، مستقل بائیکاٹ روزانہ کم از کم کسی ایک جاننے والے یادوست احباب، رشتہ دار کو گستاخوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے پر آمادہ کریں۔ اگر کسی دکان یا مارکیٹ میں گستاخوں کی مصنوعات دیکھیں تو مالکان سے شکایت کریں، انہیں آمادہ کریں کہ یہ چیزیں شیلف سے ہٹا دیں۔خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کے بدترین دشمن فرانس کی اشیاء Total پیٹرولیم Lu کمپنی کے تمام مصنوعات کا ہر کلمہ گوبائیکاٹ کرکے ایمانی غیرت کا ثبوت دیں۔ ناموس رسالت ﷺ کے لیے؟اگر آپ عام شہری ہیں، استاذ ہیں، کاروباری آدمی ہیں، حکومتی عہدے دار ہیں، جو بھی ہیں، اپنے دائرہ کار کے مطابق ہر ممکن کوشش کریں۔ اس ایشو پر پوری امت کی ایک ہی آواز ہے ۔ہمارے پاس ہے کیا سوائے اللہ کریم کی رحمت اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کی امید کےفرانس میں سرکاری سرپرستی میں توہین کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ ان کی مصنوعات کی ایک فہرست درج ذیل ہے، ہمیشہ کے لیے ان کا بائیکاٹ کریںلو LU کمپنی کے تمام بسکٹ. Gala, Tuc, orieo, party, prince, candy وغیرہبک BIC کمپنی کی تمام اشیاء شیونگ ریزر سٹیشنری لائٹر وغیرہٹوٹل Total کمپنی کے پٹرول پمپس، انجن آئل وغیرہگارنیئر Garnier کمپنی کی تمام مصنوعات۔ کریمیں، لوشن، ہئیر کلر وغیرہلورئیل L’Oreal کمپنی کی تمام مصنوعات۔ شیمپو، کنڈیشنر، کاسمیٹکس وغیرہفرانسیسی کمپنی Chloe کے پرفیومز ، کپڑے، جوتے وغیرہ یا دوسرے اشیاء کھاتے ہیں تو آپ اپنے آقا مدنی ﷺکے بدترین دشمن فرانس کی مالی مدد کرتے ہیں آئیں آج وعدہ کریں آج کے بعد ہم فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرینگے فرانس پاکستان کے ساتھ سالانہ 420.09 ملین امریکی ڈالرز کاروبار کرہا ہے آئیں قطر کے غیرت مند مسلمانوں کی طرح ہم بھی فرانس کا مکمل بائیکاٹ کرکےسچے محمدیﷺ ہونے کا ثبوت پیش کریں۔
ڈاکٹر محمد مشتاق انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آبادلکھتے ہیںکہ:
توہینِ رسالت ایک جنگی اقدام ہے۔-دو صورتوں میں فرق کیجیے۔توہینِ رسالت اگر کوئی ایک فرد یا چند افراد کریں تو یہ ایک جرم ہے جس پر فوجداری قانون (criminal law) کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے موقع پر یہ بحث کی جاتی ہے کہ کیا ملزم/مجرم ہمارے دائرۂ اختیار میں، یعنی ہمارے ملکی حدود کے اندر، ہے یا نہیں؟ یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ کیا ملزم/مجرم اس جرم سے قبل مسلمان تھا یا نہیں؟ مزید بھی کئی سوالات اس پہلو سے اٹھائے جاتے ہیں۔توہینِ رسالت اگر ایک مضبوط جتھا کرے، جسے عسکری قوت حاصل ہو، تو اس صورت میں یہ محض جرم نہیں بلکہ جنگی اقدام (act of war) ہے اور اس پر قانونِ جنگ (law of war) کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہی دوسری صورت اس وقت بھی ہوتی ہے جب یہ فعل کوئی ایک فرد یا چند افراد کریں لیکن انھیں بھرپور حکومتی تائید یا حفاظت حاصل ہو۔ فرانس کے صدر کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی حمایت دراصل مسلمانوں کے خلاف جنگی اقدام ہے۔ اس لیے جنگ سے متنفر تمام “امن پسند” لبرلز پر لازم ہے کہ اس جنگ کو روکنے میں بھرپور حصہ ڈالیں اور فرانس کو اس جنگی اقدام سے روکیں۔اس دوران میں مسلمان حکومتوں پر لازم ہے کہ جنگ کی بھرپور تیاری کریں۔ گر یہ نہیں تو ، بابا ، پھر سب کہانیاں ہیں!اللھم صل علی سیدِنا محمد و علی آلِ سیدِنا محمد و بارِک و سلِم
اور ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ پرجوش مظاہروں اور محبت رسولﷺ کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت پر سختی سے عمل پیرا ہونے کا عملی مظاہرہ بھی کریں۔ کفار کی سازشوں کا بہترین جواب یہ بھی ہے کہ مسلمان سنّتوں کے فروغ اور نبی اکرم ﷺ کی سچی تعلیمات دنیا بھر میں پھیلانے کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیں۔ اگر مسلمانوں کے جذبہ ایمانی، نبی محترمﷺ اور قرآن پاک سے ان کی محبت عملی اظہار شروع ہو گیا تو یقیناً بہت جلد اسلام کو عروج ملے گا اور دنیا اس سچے اور آفاقی دین کی برکات سے مستفید ہو گی۔