از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
بنی نوع انسان پر اللہ تعالیٰ کے عظیم احسانات ہیں جو اتنے بے حد و حساب ہیں کہ ان کا شمار ناممکن ہے اس کی پیدائش سے پہلے ہی ان تمام ضرورتوں کا انتظام فرمایا گیا تھا جن کی دنیاوی زندگی میں ایسے کسی بھی لحاظ سے حاجت پڑ سکتی تھی۔ زمین و آسمان کی تمام چیزیں اسی انسان کے فائدہ کیلئے پیدا فرمائی گئیں پھر اللہ تعالیٰ جل شانہ نے انسان کو نہ صرف ایک وجود بخشا‘ بلکہ غیر معمولی اور ممتاز صلاحیتوں سے آراستہ ایسا حسین و جمیل وجود بخشا ہے جو کسی جاندار کو نہیں بخشا گیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی اہم ترین ضرورت‘ اس کی ہدایت کا روحانی نظام مکمل اور مفصل شکل میں اتارا گیا ان انعامات کی فہرست بڑی طویل ہے جس سے انسان کو فیض یاب کیا گیا اب یہ انسانوں کا فرض ہے اور شرف انسانیت کا تقاضا ہے کہ ان نعمتوں کے بدلہ میں وہ مناسب رویہ اختیار کریں۔ نعمتوں کے ملنے پر جو موزوں رویہ اور مناسب طریقہ اختیار کیا جاتا ہے اس کا اصطلاحی نام شکر ہے اورسورہ ابراہیم میں ارشاد ہے:اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم کو اور بڑھائوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بڑا ہی سخت ہے۔
شکر کے معنی ہیں احسان ماننا اور قدر پہچاننا۔ یہ نعمت کا صحیح تصور اور اس کا اظہار ہے اس لئے شکر اس قدر شناسی کا نا م ہے جو دل سے زبان سے اور ہاتھ پائوں تینوں سے ہوتا ہے یعنی دل میں قدر شناسی کا جذبہ ہو زبان سے اس کا اقرار اور ہاتھ پائوں سے جواباً ایسے کام ہوں‘ جن سے احسان کرنے والے کی بڑائی اور تعریف کا اظہار ہوتا ہو۔
شکر کی ضد کفر ہے جس کے معنی چھپانے اور انکار کرنے کے ہیں۔ کفر یا کفران نعمت یہ ہوگا کہ انسان اپنے محسن کا احسان نہ مانے یا اسے اپنی قابلیت یا کسی کی سفارش کا نتیجہ سمجھے دی ہوئی نعمت کی ناقدری کرے یا محسن کی رضا کے خلاف استعمال کرے یا اس کے احسانات کے باوجود اس کے ساتھ غداری کرے اور بغاوت کرے۔
اس کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ انسان کو جو بھی اور جتنی بھی نعمتیں ملیں وہ انہیں اپنا کمال یا اپنی قابلیت کاثمرہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کا احسان سمجھتا رہے خواہ اسے کتنی ہی مصیبت سے دو چار ہونا پڑے‘ اس کی زبان پر شکایت کا حرف تک نہ آئے۔ ان حالات میں اس کی نظر اپنی محرومیوں کی بجائے ان نعمتوں پر ہی مرکوز رہے جو بدترین سے بدترین حالات میں انسان کو حاصل رہتی ہے۔ اس طرح دکھ سکھ دونوں حالتوں میں وہ احسان شناس رہے۔
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح کفر اللہ تعالیٰ جل شانہ کی نعمتوں کو بھلا کر احسان فراموش بننا اور اس کی فرمانبرداری سے انکار کردینا ہے جو اسلام کی نظر میں سب سے بری خصلت ہے اس طرح اس کے برعکس شکر اسلام کی نگاہ میں سب سے بہتر اور اعلیٰ خصلت ہے کیونکہ اس کی ادائیگی سے انسان اللہ پاک کا احسان مند ہوتا ہے اور احسان کی قدر شناسی میں پوری زندگی فرمانبرداری میں گزار دیتا ہے۔
شکر کے پانچ اجزا ہیں:… شکر کرنے والے شخص کی طرف سے مشکور یعنی جس نے اس پر احسان کیا ہے اس کے لئے عاجزی کا اظہار کرنا۔٭… اس سے محبت کرنا۔٭… اس کی نعمت کا معترف ہونا۔٭… اس کی نعمت کی بنا پر اس کی ثنا کرنا۔٭… اس نعمت کو ایسی جگہ استعمال میں لانا جہاں وہ پسند کرے۔یہ پانچ باتیں شکر کی اساس ہیں۔شکر کے لفظ سے بالعموم یہ مراد لیا جاتا ہے کہ نعمت کے ملنے کے وقت انسان زبان سے الحمدللہ کہے اور بس حالانکہ یہ شکر کا ناقص مفہوم ہے‘ ادائے شکر کے تین طریقے ہیں۔
(1)… قلبی شکر۔ یہ کہ انسان کے دل میں محسن حقیقی کی نعمت کا اعتراف ہو اور تہہ دل سے پروردگار عالم کا شکر گزار ہو چونکہ یہ نعمتیں بے حدو حساب ہیں۔ اس لئے انکا حقیقی شکریہ ایمان ہے۔(2)… قولی شکر۔ زبان سے بھی احسان و انعام کا شکریہ ادا کرنا ضروری ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ جل شانہ کے احسانات کا برسرعام اعتراف اور اظہار کرنا بھی ضروری ہے۔(3)… کسی نعمت کا شکر یہ ہے کہ اس کا ذکر کیا جائے۔ اور جس نے اس نعمت کو چھپایا اس نے کفر کیا۔ (ترمذی)
انسان پر اللہ تعالیٰ کے عظیم احسانات اور شرف انسانیت کا تقاضا ہے کہ انسان نعمتوں کے ملنے پر مناسب رویہ اختیار کرے جس کا نام شکر ہے‘ شکر نعمت کا صحیح تصور اظہار اور اس کی قدر دانی ہے۔ شکر نقطہ نظر میں روشن بینی پیدا کرتا ہے۔ قلبی‘ قولی‘ عملی شکر کے تقاضے‘ ان نعمتوں کا صحیح اور دیانتدارانہ استعمال ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہم کہاں تک شکر بجا لاتے ہیں‘ کتنے ہیں وہ لوگ‘ جن کو اللہ تعالیٰ جل شانہ نے رزق حلال اور باعزت بخشا اور شکر ادا کرتے ہیں‘ کتنے ہیں وہ حضرات جن کو اللہ تعالیٰ جل شانہ نے گھریلو زندگی کا سکون نصیب فرمایا صالح اولاد سے نوازا اس پر وہ شکر بجا لاتے ہیں۔ کتنے ہیں وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ جل شانہ نے اقتدار و اختیار دیا اور اس کو وہ مخلوق خدا کی بھلائی کیلئے صرف کرتے ہیں کون کون ہیں وہ لوگ جن کو اچھے حکام نہ ملے تو اسکے باوجود وہ اپنا کام دیانتداری سے کرتے ہیں ہم میں سے کتنے ہوں گے جن کو اچھا Trade ملا اور پروموشن بھی مقررہ وقت پر ہورہی ہے تو اس شکر میں ان کا سر نیاز یاد اللہ کے حضور جھک جاتا ہے۔
خدا کی دی ہوئی نعمتوں کو صحیح طریقے سے استعمال کرے ان کو ضائع نہ کرے اور نہ شیطانی مشاغل میں انہیں صرف کرے خدا نے انسان کو کان آنکھیں اور دل دیا ہے ان سے وہ معلومات مرتب کرتا ہے اسے چاہئے کہ ان نعمتوں کو وہ اسلامی طریقے سے استعمال کرے۔