آنکھیں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بیش بہا نعمت اور ان کی قدرو قیمت
از قلم: قاری محمد اکرام
أَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْنِ (البلد:8)
ترجمہ: کیا ہم نے انسانوں کے لئے دو آنکھیں نہیں بنائیں۔
اللہ نے انسانوں کے لئےدنیا میں سینکڑوں قسم کی نعمتیں مہیا فرمائی ہیں جن کو احاطہ شما رمیں لانا محال ہے ، خود انسان کا وجود اس کی ایک عظیم کاریگری اور بیش بہا نعمت ہے ۔اس نے انسانی جسم کے اندر ہی نہ جانے کتنی نعمتیں رکھی ہیں ، ان میں سے چندکا ہم احساس تو کرسکتے ہیں مگر شمار کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ ساری نعمتوں کا ادراک واحساس کرنا۔ایک جملہ میں اللہ نے اپنی نعمتوں کے بارے میں انسانوں کو بتلادیا کہ اگر تم اس کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے ہو۔
ویسے تو جسم انسانی کا ہر عضو اس قابل ہے کہ اس پر رب دوجہاں کا صد ہا شکر ادا کیا جائے،مگر ان میں سے دو آنکھیں اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کی بالکل منفر دنعمتیں ہیں،چنانچہ دماغ جب سوچوں میں گم ہو تو یہ ایک نقطے پر ٹھہر سی جا تی ہیں،دل پر کوئی بات چوٹ کر جائےتو فوری طور پر بھیگ جاتی ہیں،سوتے جاگتے میں کوئی خواب ٹوٹ جائےتو ویرانی آنکھوں کے حصے میں دے جاتی ہیں ،طبیعت ناساز ہونے کا درد بھی خود پر لے لیتی ہیں ،بناوٹ مسکراہٹ میں انسان کا ساتھ چھوڑ دیتی ہیں ،شرم وحیا کی بات پر جھک سی جا تی ہیں ،دل ودماغ حتیٰ کہ پورے جسم کے کسی بھی حصے کی بے بسی ان میں بے تابی لے آتی ہے۔الغرض! مجھے تو لگتا ہےجسم کے ہر حصے کے کا اثر انہیں کے حصے میں آتا ہے۔
نعمتوں کے ادراک واحساس کا ایک نادرواقعہ سعودی عرب کی دارلحکومت ریاض میں پیش آیا اور اس قسم کے واقعات دنیا میں پیش آتےرہتے ہوںگے ، واقعہ یوں ہے کہ ایک 78 سالہ عربی شخص کو ایک اسپتال نے چوبیس گھنٹے کا 600 ریال کا بل پیش کیا ، وہ بزرگ بل دیکھ کر رونے لگا ,لوگوں نے رونے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتلایا کہ صرف چوبیس گھنٹے آکسیجن کا 600 ریال دینا پڑرہا ہے جبکہ میں نے 78 سالوں سے اللہ کی تازہ ہوا میں سانس لے رہا ہوں اور کوئی بل نہیں ادا کیا، کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں اللہ کا کتنا مقروض ہوں ؟
حضرت مولانا محمد انعام الحق قاسمی کے ایک دوست نے انہیں عجیب واقعہ سنایا۔ ایک صاحب کا ایکسیڈنٹ ہوا۔ اس کی آنکھ کے اوپر کا پردہ کٹ گیا۔ کہنے لگے ایک دو گھنٹے میںآنکھوں پرمٹی جمی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ عام آدمی محسوس نہیں کر سکتا کہ ہوا میں کتنے باریک باریک ذرات مٹی کی شکل میں اڑتےرہتے ہیں جو جمتے رہتے ہیں۔اکثر آپ دیکھیں گے کہ اگر کوئی چیز رکھیں دوسرے دن اس پر مٹی نظر آئے گی۔ ہماری آنکھ کے اوپر اللہ نے پردہ بنا دیا، یہ بند ہوتا ہے اور کھلتا ہے۔ بند ہوتاہے کھلتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تھوڑا تھوڑا پانی اندر سے خارج ہوتا ہے تو پانی کے ساتھ جیسے کسی چیز کو جھاڑو لگاتے ہیں یہ اللہ نے جھاڑو کا انتظام کیا ہوا ہے۔ یہ بند ہوتا ہے کھلتا ہے۔ جھاڑو چل رہا ہوتا ہے۔ جب اس کی آنکھ کے اوپر والاگوشت کا پردہ کٹ گیا تو آنکھ ہر وقت بالکل ننگی رہنے لگی۔ مصیبت یہ بنی کہ ہوا میں معلق ذرات کی وجہ سے آنکھ پر مٹی کی تہہ آ جائے تو تھوڑی دیر کے بعد دھونا پڑے۔ پھر مٹی جم جائے پھر دھونا پڑے۔ دن میں کوئی پچاس دفعہ دھونا پڑے۔ اب ایک دن میں پچاس دفعہ پانی ڈالانہیں جاتا، لوگ عیادت کرنے آئے تو کہنے لگا کہ آنکھ کا چھوٹا سے پردہ تھا کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہے۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو رات کو سوتے وقت اس نعمت کا شکر ادا کرتے ہیں۔ مانگتے تو ہم سب ہیں مگر اس کے دینے کا شکر ادا کرنے والے تھوڑے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ انسان کے دل میں غفلت ہوتی ہے۔ جب غفلت ہو انسان کا رویہ اور ہوتا ہے اور جب دل میں استحضار ہو، معرفت ہو پھر رویہ کچھ اور ہوتا ہے۔
مولانا محمد الیاس ندوی بھٹکلی ندوی تحریر فرماتے ہیںہمارے ایک دوست ایک دن عصربعد تشریف لائے ،ان کا چھوٹا سا بچہ ا ن کے ساتھ تھا جو ہمارے جامعہ کے مکتب میں زیر تعلیم تھا، میں نے دیکھا اس معصوم بچہ کی آنکھ پر اتنا موٹاچشمہ لگاہواہے جو ہم نے اپنے دادامرحوم کی آنکھوں پرکبھی اسّی سال کی عمر میں دیکھاتھا، میرے پوچھنے پر والدکا کہناتھاکہ میرا یہ بچہ ایک لمحہ بھی اس چشمہ کے بغیر نہیں رہ سکتا، ڈاکٹر نے کہا ہے کہ پابندی سے چشمہ نہ لگانے پر رہی سہی اس کی بینائی بھی جواب دے سکتی ہے،اس بچہ کو اس آزمائش میں دیکھ کر بے ساختہ میرے دل نے رب کریم کی اس عظیم نعمت کا استحضار پیدا کردیا جس کا مجھے ابھی تک احساس نہیں تھااور میں اسی وقت دل ہی دل میں یوں گویا ہوا:۔ اے پیا رے مولیٰ :۔میری اور میرے بچوں کی آنکھوں کی سلامتی اب صرف ایک نعمت نہیں بلکہ تیری دسیوں نعمتوں کا مجموعہ بن کر سامنے آئی ہے ، اے اللہ:۔ میرے تمام بچوں کی تو نے محض اپنے فضل سے دونوں آنکھیں سلامت رکھیں ، ان کی آنکھ نہ اندر دھنسی ہوئی ہے اور نہ باہرنکلی ہوئی جیسا کہ سینکڑوں بچے اس نقص کے ساتھ دنیا میں آئے ، نہ ان کو قریب کے دیکھنے میں تکلیف ہے نہ دور کے دیکھنے میں ،نہ ان کی آنکھیں لال ہوتی ہیں اور نہ اس میں پانی آتاہے جیسا کہ متعدد نونہالوں کو اس کی شکایت ہے ، نہ ان کی آنکھوں میں درد ہوتاہے کہ چشمہ لگانا پڑے اور نہ اس کے کسی گوشہ چشم سے اندورنی گندگی باربار باہرآتی ہے جیسا کہ میں نے کئی بچوں کو دیکھاہے، نہ ان کی آنکھیں اتنی چھوٹی ہیں کہ عیب دار لگے اور نہ اتنی بڑی کہ بھدّی لگے جیسا کہ میں نے کئی بارایسے بچوں کامشاہدہ کیاہے، اے اللہ :۔ یہ صرف تیراہی فضل ہے جو تو نے محض اپنے کرم سے عدم استحقاق کے باوجود مجھے اور میری اولادکو عطاکیا،اس پر میں تیری ہی پاک ذات کا شکر بجالاتاہوں۔
ان واقعات کے متعلق اب جب بھی اٹھتے بیٹھتے ،سو تے جاگتے میرے ذہن میں بات آتی ہے تو میرا رواں رواں بارگاہ الہٰی میں سجدۂ شکر بجالانے کے لیے بے قرار ہوجاتاہے اور پکار پکار کر نعمت خداوندی مجھ سے کہتی ہے کہ اے خدا کے بندے:۔ تجھ پر ہونے والی تمام نعمتوں کو تو کنارے رکھ، صرف اپنے ایک بچی یابچہ کی وقت پر بعافیت ولادت اور اس کے جسم کے تمام اعضاء کے سلامت ہونے پر زندگی بھر تواللہ پاک کا شکراداکرے گا تو اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔
زندگی کی تمام خوبصورتی آنکھوں کے دم سے ہے . کوئی خوبصورت لمحہ ہو یا کوئی بھی جاذب نظر نظارا ، ہر شے نگاہوں سے ہوتی ہوئی ہماری حسین یادوں کا حصہ بن جاتی ہے . آنکھیں ہزار نعمت ہیں اور ان کی حفاظت بھی اتنی ہی اہم ہے .آنکھوں کا حق یہ ہے کہ اسے آرام پہنچائیں، اس کے ذریعہ قدرت کی نشانیوں کا مشاہدہ کرکے اس کے خالق کی وحدانیت پر ایمان لاکر خالص اسی کی بندگی بجالائیں ، آنکھوں کو نقصان پہنچانے والی چیزوں سے دور رکھیں، ان کو شہوتوں اور فحش کاموں سے بچائیں،ان بیش قیمت آنکھوں سے صرف جائز چیزوں کو دیکھیں اور راہ چلتے آنکھوں کا حق یہ ہے کہ نگاہ نیچی کرکے چلیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سوشل میڈیا کے زمانے میں آنکھوں سے جتنے گناہ آج سرزد ہوتے ہیں اتنے پورے جسم سے نہیں ہوتے ہوں گے۔
رب کائنات کی ان بیش بہا نعمتوں کے تناظر میں ہمیں یہ سبق بھی ملا کہ ان نعمتوں پر اللہ پاک کا شکر اداکریں ، اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے یہ روز کے دوچار شکرانے کے جملے ان شاء اللہ ان نعمتوں کے ہمارے حق میں مرتے دم تک باقی رہنے کی ضمانت بھی دیں گے اور اس کے عوض ہم سب کا اللہ کے شکرگذار بندوں میں شمار بھی ہوگا، ان نعمتوں پراپنے شکر کی ادائیگی کے لیے کئی پیاری دعائیں خود اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھائی ہیں ، اس کو بھی ہم آج سے ہی اپنے معمولات میں شامل کریں ’’
رَبّناَ ھَبْ لَناَ مِنْ اَزْواجِناَ وَ ذُرِّیاَتِناَ قُرّۃَ اَعْیُنٍ وَاجْعَلْناَ لِلْمُتَّقِیْنَ اِماماً
اے اللہ :۔ ہماری بیویوں اور اولاد کو ہمارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک بنا اور ہمیں اہل تقوی کا امام بنا‘
’’ رَبِّ اَوْزِعْنِی اَنْ اَشْکُرَنِعْمَتَکَ الّتیِ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلٰی وَالِدَيَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحاً تَرْضَاہُ وَأدْخِلْنیِ بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الْصّالِحِیْن وَأصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرّیَّتِي إنّیْ تُبْتُ إلیْکَ وَاِنّی مِنَ الْمُسْلِمِیْن ‘‘۔
اے میرے پرودگار :۔ مجھے توفیق دے کہ میں تیرا شکر اداکروں تیرے اس احسان کا جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیااور یہ کہ میں نیک عمل کروں جو تو پسندکرے اور تو اپنے رحم وکرم سے مجھے اپنے صالح بندوں میں داخل کردے اور میری اولاد میں نیکی کی صلاحیت دے ، میں نے تیری ہی طرف رجو ع کیا اور میں تیرے فرماں برداروں میں سے ہوں۔
از قلم: قاری محمد اکرام
مدرس! مدرسہ فیض القرآن اوڈھروال چکوال
