اولاد کی تربیت میں والدین کا کردار

 از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
ہر با شعور انسان یہ جانتا ہے کہ مستقبل میں معاشرے کی تخلیق اور ترقی میں بنیادی کردار نئی نسل کا ہی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اولاد کی صحیح تربیت کرنے کو ایک قابل تحسین بلکہ حد درجہ ضروری قرار دیا ہے،اور احادیثِ مبارکہ میں اس کے بے شمار فضائل آئے ہیں ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کی صحیح تربیت ، ان کی دیکھ بھال اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا والدین کے لیے ضروری ہے اور یہ ایسا پاکیزہ عمل ہے جو والدین کو جنت میں لے جانے کا باعث بنتا ہے۔
٭…جناب کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے :…’’کسی باپ نے اپنے بیٹے کو عمدہ اور بہترین ادب سے زیاد ہ اچھا ہدیہ نہیں دیا ۔‘‘(مسند احمد ،ج : ۱۲،ص:۱۶۰)
٭… حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :ترجمہ :۔’’اپنے بچوں کا اکرام کرو اور انہیں اچھی تربیت دو۔‘‘(سنن ابن ماجہ ،ج:۴ص:۱۸۹)
٭…ایک اور روایت میں آتا ہے
:ترجمہ:۔’’ اپنی اولاد اور گھر والوں کو خیر و بھلائی کی باتیں سکھاؤ اور ان کی اچھی تربیت کرو۔(: اسلام اور تربیت اولاد۔مکمل۔مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار شہیدؒ)
غور کیجئے کہ جناب نبی کریمؐ کس قدر سہل انداز میں بچوں کی تربیت کے متعلق زریں ارشادات فرمائے ہیں ،یقیناً جو کوئی آپ ا کے فرمودات کی روشنی میں اس عزم کے ساتھ اپنی اولاد کی تربیت کرے گا کہ حضور اکرم ا کے یہ فرامین ہماری اولاد کی بہترین تربیت میں مدد گار ثابت ہوں گے تو انشاء اللہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ آنے والا وقت برکتیں لے کر آئے گا۔
آ ج آپ دیکھ رہے ہیں کہ صحیح تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے مستقبل کے یہ معمار اعداء اسلام کی نقالی اور ان کے حلیوں کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور ان کی تہذیبوں سے ثقافتوں سے پوری طرح باخبر ہوتے ہیں جبکہ اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ اور ناآشنا ہوتے ہیں،شاید کہ انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ترقی کی علامت یہی ہے کہ لادین ملحدین کی نقالی کی جائے، ان کے بیہودہ اور غیر اسلامی تہذیبوں اور ثقافتوں کو اپنا یا جائے ،ایسا معلوم ہو تا ہے کہ ان کے لیے نہ دین کی طرف سے کوئی رکاوٹ ہے اور نہ ضمیر کی طرف سے کوئی روک ٹوک ہے ،یہی وجہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل اہل باطل سے مقابلہ کرنے سے قبل ہی خود اپنی شخصیت اور ارادے سے شکست کھا چکی ہے ،جس کی وجہ سے اہل مغرب کو آج کی نوجوان نسل سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ،کیونکہ وہ اس با ت کو جانتے ہیں کہ آج کا مسلمان ہم سے اس درجہ متاثر ہو چکا ہے کہ وہ ہماری تہذیب اور ثقافت کو اپنا نے میں ذرا سی بھی عار محسوس نہیں کر تا ۔اس میں قصور کس کا ہے ؟
بقول اکبر الہ آبادی مرحوم :
بچوں میں کیا خو آئے ما ں با پ کے اطوار کی
دودھ ہے ڈبے کا اور تعلیم ہے سرکار کی
مسلمان قوم جو ابتداء میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے علم و فضل اور مکارم و محاسن کے نور سے روشنی حاصل کرتی رہی اور تعلیم و تربیت کے سلسلے میں بھی انہی کے طور طریقوں کو اپنایا،جس کی وجہ سے ایسا پاکیزہ معاشرہ وجود میں آیا جس نے آگے چل کر ایک تاریخ رقم کی تا آنکہ وہ دور آگیا جب اسلامی معاشرے سے اسلامی احکام ختم ہونے لگے اور روئے زمین سے خلافت اسلامیہ کے نشانات زائل ہونے لگے اور دشمنان اسلام سمجھنے لگے کہ اب ہم اپنے مذموم مقاصد اور ناپسندید ہ اغراض کی تکمیل کر لیں گے، دشمنان اسلام کی یہ آرزو عرصہ دراز سے ان کے دلوں میں پوشیدہ تھی لیکن یہ اسی وقت ممکن تھا جب مسلمان اسلام کے بنیادی اصولوں اور اس کے احکامات سے دور ہو جائیں اور ان کی ساری توجہ دنیاوی خواہشات اور لذتوں کے حصول کی طرف مبذول ہو جائے تاکہ ان کے سامنے کو ئی واضح مقصد اور منزل موجود نہ ہو۔چنانچہ وہ دور آگیا جب مسلمان دین سے دور ہٹنے لگے اور ان میں باہمی اتحاد کی جگہ نفرتوں اور تفرقہ بازی نے لے لی تو اعداء اسلام نے ان پر یلغار کر دی ،یہاں تک کہ ان کی سوچ اور تہذیب کو بدل ڈالا ،جس کی وجہ سے معاشرے کا امن و سکون تہہ و بالا ہو کر رہ گیا ۔چنانچہ جب مسلمان قوم اپنے مقصد حقیقی سے پیچھے ہٹ گئی اور ان لادین ملحدین کے نرغے میں آ گئی جنہوں نے روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے خوشنما نعروں کے ذریعے مسلمان قوم کو ورغلا کر انہیں اپنی تہذیب اور ثقافت سے دور کر دیا جس کے اثرات سے پور ا معاشرہ متاثر ہو ا ،اور وہ مسلمان جو کل تک توحید کی امانت کوسینے میں لے کر پوری دنیا پر حکمرانی کا فریضہ انجام دے رہا تھا آج وہی مسلمان اپنے دین و مذہب کے دفاع کے لیے بھی غیروں کا محتاج ہو کر رہ گیا ہے ۔آج اگر ہم معاشرے کے زوال کے اسباب پر نظر دوڑائیں تو منجملہ اور اسباب کے ایک بڑا سبب یہ بھی نظر آتا ہے کہ مسلمان قومیں اسلامی تعلیمات سے ہٹ گئیں ہیں ،انہیں یہ احساس ہی نہیں کہ اسلام زندگی کے تمام شعبو ں کے لیے واضح لائحۂ عمل رکھتا ہے ،تاریخ کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہو گا کہ وہی قومیں کامیاب ہوتی ہیں جو مستقبل کے معماروں کی تربیت اور اصلاح پر توجہ دیتی ہیں کیونکہ نئی نسل ہی قوم کا مستقبل ہوا کرتی ہے۔
شریعت نے والدین کے کچھ حقوق مقرر کئے ہیں کہ جن کا خیال رکھنا اور پورا کرنا اولاد پر واجب ہے،ویسے ہی اولاد کے کے لئے کچھ حقوق بیان فرمائے ہیں جن کا اہتمام والدین پر فرض ہے اور ان میں کوتاہی یا سستی دراصل اولاد کے ساتھ خیانت کے زمرے میں آتی ہے۔ والدین چونکہ اولاد کی تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہیں۔ اس لئے بچوں کے حقوق کا تحفظ ہر لحاظ سے کرنا ہوگا ورنہ ناقص تربیت اور لاپرواہی کی پاداش میں جہاں نئی نسل کا مستقبل تباہ و برباد ہوگا وہاں والدین پروردگار عالم کے حضور ایک مجرم کی حیثیت سے پیش ہوں گے اور اس کی گرفت سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔
اولاداللہ کی بے شمار نعمتوں،نوازشوں اور احسانات میں سے ایک عظیم نعمت ہے ۔ اس نعمت کی قدر ان لوگوں سے معلوم کی جاسکتی ہے جو اس سے محروم ہیں ۔اوراولاد اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی امانت ہے ۔ قیامت کے دن والدین سے ان کے بارے میں باز پرس ہوگی ۔ آیا انھوں نے اس ذمہ داری کو محسوس کر کے اس کی حفاظت کی تھی یا اسے برباد کیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ ان کے وجود کو دنیاوی زندگی میں زینت اور رونق سے تعبیرکیاجاتاہے؛لیکن یہ (اولاد)رونق وبہار اور زینت وکمال کاسبب اسی وقت بنتی ہے جب انہیں زیورتعلیم سے آراستہ کیا جاتاہے، بچپن ہی سے ان کی صحیح نشوونما کا خیال رکھاجاتاہے، ان کی دینی تربیت وپرداخت کو ضروری سمجھاجاتاہے، نیز اسلامی وایمانی ماحول میں انہیں پروان چڑھانےکا اہتمام کیاجاتاہے۔ شریعت مطہرہ کی رو سے والدین پر اولاد کےسلسلہ میں جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان میں سب سے اہم اور مقدم حق اُن کی دینی تعلیم وتربیت ہی ہے۔ اسلام عصری تعلیم کا ہرگز مخالف نہیں ؛لیکن دین کی بنیادی تعلیم کا حُصول اور اسلام کے مبادیات وارکان کا جاننا تو ہر مسلمان پر فرض ہے اور اسی پر اخروی فلاح وکامیابی کا دار و مدار ہے۔
کیونکہ ہم ٹیکنالوجی کے دور میں رہتے ہیں اور ٹیکنالوجی نے بچوں کی پرورش و تربیت سمیت زندگی کے ہر ایک شعبے میں اپنا حد سے زیادہ عمل دخل قائم کرلیا ہے۔ یوں والدین کے لیے بچے کی پرورش کی ذمہ داریاں پہلے کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔گھر کا ماحول وہ واحد سب سے اہم ترین عنصر ہے جو بچے کی زندگی پر گہرا اثر مرتب کرتا ہے۔ ایک بچہ اپنی زندگی کے ابتدائی لمحات سے ہی اپنے والدین پر منحصر ہوتا ہے جو اس کی ہر ایک ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔ والدین بچوں کے پہلے معلمین ہوتے ہیں اور ان کے لیے رول ماڈل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ زیادہ تر بچے خوش قسمت ہیں کہ جنہیں اپنے والدین کی محبت اور شفقت سے بھرپور مطلوبہ گھریلو ماحول ملتا ہے۔تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان اسباب کو اپنائیں جو مثالی معاشرے کی تخلیق کا باعث ہو ں اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری ان والدین کی بنتی ہیں جو آنے والی نسل کے سر براہ ہیں کہ وہ اولاد کی ایسی تربیت کریں کہ آگے چل کر یہ نسل معاشرے کے لیے مفید ثابت ہو ، آج اگر ہم ان کی ایسی تربیت کریں گے جو تربیت اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہو گی تب تو بہتری کی امید رکھی جا سکتی ہے ورنہ حسرت ہی رہ جائے گی ۔
اس لیے والدین کو اپنے بچوں کو اپنے گھروں کے اندر بہتر ماحول کی تشکیل کے ذریعے اپنے بچوں کو نیک کردار اور ادب و آداب کی تعلیم دینی چاہیے۔ بچوں کو اخلاق سکھانے کے لیے بلیک بورڈ، فلپ چارٹ یا ملٹی میڈیا کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ والدین کے طور طریقے، عادات، عوامل اور الفاظ بچوں کے اذہان پر دیرپا اثرات مرتب کرتے ہیں۔چنانچہ حضرت علی کرم الله وجہہ سے منقول ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” اپنے بچوں کو تین باتیں سکھاؤ، اپنے نبی کی محبت اور ان کے اہل بیت سے محبت اور قرآن مجید کی تلاوت، اس لیے کہ قرآن کریم یاد کرنے والے الله کے عرش کے سایہ میں انبیاء کے ساتھ اس دن میں ہوں گے جس دن اس کے سایہ کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ “(طبرانی)
ظاہری اعتبار سے تربیت میں اولاد کی ظاہری وضع قطع، لباس، کھانے، پینے، نشست وبرخاست، میل جول، اس کے دوست واحباب اور تعلقات و مشاغل کو نظر میں رکھنا، اس کے تعلیمی کوائف کی معلومات اور بلوغت کے بعد ان کے ذرائع معاش کی نگرانی وغیرہ امور شامل ہیں، یہ تمام امور اولاد کی ظاہری تربیت میں داخل ہیں۔ اور باطنی تربیت سے مراد اُن کے عقیدہ اور اخلاق کی اصلاح ودرستگی ہے۔
اولاد کی ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی تربیت والدین کے ذمہ فرض ہے۔ ماں باپ کے دل میں اپنی اولاد کے لیے بے حد رحمت وشفقت کا فطری جذبہ اور احساس پایا جاتا ہے۔ یہی پدری ومادری فطری جذبات واحساسات ہی ہیں جو بچوں کی دیکھ بھال، تربیت اور اُن کی ضروریات کی کفالت پر اُنھیں اُبھارتے ہیں۔ ماں باپ کے دل میں یہ جذبات راسخ ہوں اور ساتھ ساتھ اپنی دینی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہو تو وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں احسن طریقہ سے اخلاص کے ساتھ پوری کرسکتے ہیں۔
بچوں کی تعلیم و تربیت میں بعض کوتاہیاں:
٭…بعض والدین اپنے بچوں پر بے جا سختی کرتے ہیں اور ان کو معمولی بات پر بھی سخت سزا یا شدید ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بچوں کے تمام جذبات و احساسات مرجاتے ہیں۔ ان کی صلاحیتیں دم توڑ جاتی ہیں اور گھر کو جیل خانہ تصور کرنے لگ جاتے ہیں۔ ایسے بچے والدین سے نفرت کرتے ہیں اور ان سے دور رہنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے جو بڑوں کی عزت نہ کرے، چھوٹوں پر شفقت نہ کرے، وہ ہم میں سے نہیں۔
٭… اکثر والدین نے مادیت پرستی کو اس قدر اپنے دل و دماغ پر سوار کررکھا ہے کہ ان کے پاس اپنی اولاد کے لئے بھی وقت نہیں ہے اور دن رات اسی فکر میں سرگرداں ہیں کہ کس طرح دنیاوی اسباب ووسائل کا دائرہ کار وسیع سے وسیع تر کیا جائے۔ ایسے والدین کے بچے احساس محرومی کے بوجھ تلے دفن ہوجاتے ہیں۔ دنیا کمانا اور روزی کے اسباب اختیار کرنا ہر انسان کے لئے ضروری ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اپنی ذمہ داریوں کو بھی پس پشت ڈال دے۔
٭…بعض والدین اپنی اولاد کے ساتھ یکساں سلوک کا اہتمام نہیں کرتے۔ وہ بڑے بچے کو چھوٹوں پر یا لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ جس بچے کے ساتھ زیادہ شفقت اور پیار کا رویہ رکھا جائے اور دوسروں کی حق تلفی کرکے اسے اہمیت دی جائے گی ۔تودوسرا ضدی، ہٹ دھرم اور خودسر بن جائے گا جبکہ بقیہ بچے احساس کمتری کاشکار ہوکر والدین کے خلاف سوچنے پر مجبور ہوں گے۔
٭…بعض والدین کبھی بھی اس بات کی طرف توجہ دینے کی کوشش نہیں کرتے کہ ان کے بچے کون سی چیزیں اپنے استعمال میں رکھتے ہیں۔ موبائل فون کا استعمال صحیح یا غلط اور موبائل فون کی میموری کس قسم کا ڈیٹا سیو ہے،کیا دیکھا جارہا ہےاور کن آلات اور کن چیزوں سے کھیلتے ہیں۔ ان کی سرگرمیاں کیا ہیں؟ ان کی سوچ کے دھارے کس سمت بہہ رہے ہیں۔ ایسے والدین اپنی ذمہ داری کو پس پشت ڈالنے والے ہیں اور امانت میں خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔
٭…بعض والدین اس قدر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ اگر ان کا چھوٹا بچہ بڑوں کے ساتھ بدتمیزی، اونچی آواز یا ان سے بداخلاقی سے پیش آئے تو وہ بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کا بچہ انتہائی جرات مند ہے اور بڑوں سے بات میں جھجک محسوس نہیں کرتا۔ یہ درحقیقت بہت بڑی غلطی ہے۔ بڑوں کی عزت کرنا اور ان سے شرم کرنا اچھی چیز ہے۔ حدیث شریف میں ایک واقعہ کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ ایک نوجوان اپنے چھوٹے بھائی کو بعض باتوں میں شرمانے اور حیاءکرنے پر ملامت کررہا تھا توآپ ﷺنے فرمایا: اس کو چھوڑ دو حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔
٭…بعض والدین اپنے بچوں کو نوکروں، خادماؤں اور ڈرائیوروں کے سپرد کرکے اپنی ذمہ داری سے عہدہ براں ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ ان لوگوں کا تعاون حاصل کرنا بعض دفعہ مجبوری ہوسکتا ہے مگر بچوں کو اپنی محبت سے محروم کردینا عقلمندی نہیں۔ جو حقیقی پیار، محبت، مودت، عاطفیت اور شفقت ماں باپ کی آغوش میں اولاد کو مل سکتی ہے، وہ پرائے ہاتھوں میں کہاں ہے؟ والدین کو چاہئے کہ بچوں کا خود خیال رکھیں اور مجبوری کے وقت نوکروں اور خادماؤں سے مدد لیں۔
٭…بعض والدین استاد کی ڈانٹ ڈپٹ کے ردعمل میں بچوں کے سامنے ہی استاد کو برا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیں۔ اس سے جہاں استاد کا وقار مجروح ہوتا ہے وہیں بچوں کے دل سے استاد کا خوف اور اس کا احترام ختم ہوجاتا ہے۔ اگر استاد نے کہیں پر بے جا سختی سے کام لیا ہو تو اسے الگ بیٹھ کر سمجھائیں اور اس سے تنہائی میں تبادلہ خیال کریں۔ بچوں کے سامنے ایسا ہرگز نہ کریں۔
٭…بعض والدین بچوں کے سامنے لڑائی جھگڑے کے نقصانات کو پس پشت ڈال کر چھوٹی چھوٹی بات پر انحصار شروع کردیتے ہیں، والدین کی لڑائی اور کثرت نزاع بچوں کے سامنے ایک دوسرے کی توہین اور ایک دوسرے کے ساتھ سخت جملوں کا تبادلہ کرتے ہیں تو بچے پریشان اور فرار ہوجاتے ہیں۔ اگر والدین بچوں کے سامنے مسلسل لڑتے ہیں اور آئے روز ایک دوسرے سے کشیدگی پیدا کرتے ہیں تو بچے بھی چڑچڑے اور بداخلاق بن جاتے ہیں۔
٭…بعض والدین بچوں کے سامنے غیر شرعی افعال کا ارتکاب کرتے ہیں مثلا تمباکو نوشی، فلم بینی، سماع موسیقی اور گالی گلوچ اور اس کے باوجود بچوں کو ایسی باتوں سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں یہ تو ایسے ہی ہے کہ آپ اپنے بچوں کو کنویں میں دھکا دیں اور کہیں بیٹا دھیان رکھنا کہیں تمہارے کپڑے گیلے نہ ہوجائیں۔
ایک حدیث شریف کے مفہوم کے مطابق ایک عورت اپنے چار محرم رشتہ داروں کو اس لئے جہنم میں لے جانے کا سبب بنے گی کہ وہ مالک کائنات سے کہے گی کہ یہ دنیا داری کے معاملات میں مجھے ڈانٹتے اور غصے کا اظہار کرتے تھے مگر دینی امور سے اعراض پر کبھی بھی انہوں نے مجھے سرزنش نہیں کی اور وہ چار لوگ باپ، بیٹا، خاوند اور بھائی ہیں۔
٭…ایک حدیث شریف کے مفہوم کے مطابق جب بچہ سات سال کا ہوجائے تو اسے نماز کی ترغیب دی جائے اور جب دس سال کا ہوجائے تو اگر پھر بھی نماز کا عادی نہ بنے تو اس پر سختی کی جائے اور یعنی اس کے والدین کو چاہئے کہ وہ اسے سختی کے ساتھ نماز کا پابند بنائیں کیونکہ یہ ان کی ذمہ داری ہے۔
الغرض !اولاد کی تربیت میں والدین کا کردار بہت اہم ہوتا ہے اس لیے والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کا خاص خیال رکھیں ‛ ورنہ اولاد کے بگڑنے کے امکانات بہت ہیں ۔ﷲ تعالی والدین کو اولاد کی صحیح تربیت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے (آمین) یاد رہے کہ اولاد کی صحیغ تعلیم و تربیت والدین کے لئے صدقہ جاریہ اور ذخیرہ آخرت ہے۔