انٹرنیٹ کامثبت اور منفی استعمال

از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
اب انٹرنیٹ اتنا عام ہو چکا ہے کہ اب کمپیوٹر کی مجبوری سے نکل کر لیپ ٹاپ اور موبائلز میں بھی انٹرنیٹ بہت ہی کم ریٹس اور ہر جگہ بآسانی میسر ہو سکتا ہے۔لیکن اس بڑھتی ہوئی صورتِ حال میں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا انٹرنیٹ ہماری نوجوان نسل کے لیے تسکین کا باعث ہے یا ایک ایسا مرض ہے جو ہمارے معاشرے میں فحاشی، عریانی اور بے حیائی کو فروغ دینے میں بہت بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ انٹرنیٹ نے ہماری زندگی میں ایک انقلاب برپا کیا ہے۔ نایاب کتب کا بآسانی میسر آنا، ہزاروں میل دور بیٹھے اپنے اعزا و اقارب سے اسکائپ پر بات چیت کرنا اور دنیا کے کسی بھی خطے میں رونما ہونے والے واقعے کی خبر آناً فاناً دنیا بھر میں پھیل جانا وغیرہ اس کے بنیادی فوائد ہیں، اس کے علاوہ آج کی کاروبای دنیا میں بھی انٹرنیٹ کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔لہذا آج جبکہ انٹرنیٹ ایک اہم اور کاروباری ضرورت بن چکا ہے اور دوسری طرف یہود و نصاری نے ذرائع ابلاغ کے ذریعے اسلامی تہذیب و اقدار کو تباہی کے دھانے تک پہنچانے کا عزم کر رکھا ہے تو ایسی صورتِ حال میں بحیثیت مسلمان ہر شخص کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی بساط کی حد تک انٹرنیٹ کے استعمال کا صحیح رخ متعین کرے، بلا ضرورت اس کے استعمال سے اپنا وقت ہرگز ضائع نہ کرے، خاص طور اپنی اولاد کو حتی الامکان اس سے دور رکھے۔ اس وقت پاکستان میں ڈھائی کروڑ سے زائد افراد انٹرنیٹ کا استعمال کر رہے ہیں، جن میں طالب علموں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔پاکستان کے ایک ہزار آٹھ سو بارہ شہر اب تک انٹرنیٹ سے منسلک ہو چکے ہیں اور ان میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔کسی بھی چیز کے ہمیشہ دو پہلو ہوتے ہیں، مثبت اور منفی۔ اسی طرح انٹرنیٹ کے بھی مثبت اور منفی اثرات ہیں۔البتہ ایک افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی ستائش کرنے والے اور اس پر فریقہ ہونے والے اکثر حضرات اس کے نقصانات اور اُس کے منفی گوشوں پر سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کرتے، جس کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ مختلف دینی، جسمانی اور نفسیاتی مشکلات کے شکار ہوجاتے ہیں۔
ایسے آلات جدیدہ کو جو مختلف الجہات یعنی فوائد و نقصانات دونوں پر مشتمل نظر آتے ہوں، اس قوت تک استعمال کرنے کی کوشش نہ کریں، جب تک ان کے مثبت و منفی دونوں گوشوں پر غور اور دونوں کے درمیان موازنہ نہ کریں، اس لیے کہ انسان جلد باز واقع ہوا ہے، وہ مثبت گوشوں سے جلد متأثر ہوتا ہے اور منفی گوشوں سے غفلت برتتا ہے، چنانچہ ذرائع ابلاغ و اشتہارات کے ذریعہ جب کسی نئی چیز کے فوائد اس کے علم میں آتے ہیں تو وہ فوراً اس کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے اس کے منفی گوشوں اور نقصانات پر غور کرنے کی کوشش نہیں کرتا، جس کے نتیجے میں وہ آہستہ آہستہ اس کے نقصانات کا شکار ہوجاتا ہے اور اس کو اندازہ بھی نہیں ہوتا، اور بالآخر بہت بڑا نقصان اُٹھاتا ہے۔“
انٹرنیٹ کے فوائد:انٹرنیٹ کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے اگرچہ ہم مسلمان اس میدان میں بہت پیچھے ہیں ۔ہم نے مذہب اور سائنس کو الگ کر دیا ہے جب کہ کسی زمانے میں ہم لوگ سائنس کے میدان میںیورپ والوں سے آگے تھے ۔ آپ ﷺ کے فرمان سے اندازہ ہوتا ہے کہ قیامت کی علامتوں میں سے یہ بھی ہے کہ فاصلے سمٹ جائیں گے ۔جس کی دو شکلیں واضح طور پر سامنے آتی ہےں ۔اول یہ کہ نقل و حمل کی ترقی کہ مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہونے لگے لگا ۔چنانچہ آج پوری دنیا کا سفر چوبیس گھنٹوں میں ممکن ہے اور دوم یہ کہ ذرائع ابلاغ کی ترقی تو اب ٹیلی گرام ، ٹی وی ،ٹیلی فون ،موبائل اور انٹرنیٹ کی ایجادات نے اس میدان میں بہت آسانی پیدا کر دی ہے۔انٹرنیٹ کے ذریعہ ہم ایمیل،ای کامرس،ای بزنس،آن لائن تعلیم،فاصلاتی تعلیم،آن لائن اکزامس، یونیورسٹی، کمپنی کی معلومات ، اشیاء،اخبارورسائل وجرائد،فلاحی وزرعی تنظیمیں،سیاسی پارٹیوں کی جانکاری،بینکنگ اورتمام طرح کے بلوں کی ادائیگی،طبی و سائنسی معلومات ،شریعت کے احکام و مسائل اور قرآن و حدیث کو سمعی و بصری شکل میں حاصل کر سکتےا سی طرح مشرقی وسطی میں تیونس ،مصر ،لیبیا میں مطلق العنان حکومتوں کے خلاف جو انقلاب آیا اس میں انٹرنیٹ کا اہم رول رہا ہے۔اس سے سرحدی فاصلے ختم ہو گئے اور بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس کے ذریعہ پوری دنیا ایک انسان کی مٹھی میں آگئی ہے۔اگر انٹر نیٹ کا استعمال بہتر مقاصد اور تعمیری کاموں کے لیے ہو، معلومات میں اضافے کے لیے ہو ،تعلیم و تعلم میں ہو تو یہ جائز اور مستحب ہے کیونکہ ایسے کاموں کا قرآن مجید میں حکم دیا گیا ہے:نیکی اور پر ہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو۔(المائدہ)
انٹرنیٹ کےنقصانات:انٹرنیٹ کی خاص برائیوں میں فحش گانے ،بلو فلمیں،بے حیائی کے مناظر،اشتہارات کے نام پر بے پر دگی ،عریانیت ،بت پرستانہ و مشرکانہ رسوم ،معاشی دھاندلیاں ،رقومات کی منتقلی، نجی معلومات کی فریب دہی، جلد دولت مند بننے کے چکر میں دھوکہ دہی ، فریب دہی کے نئے نئے طریقے ،دھمکی آمیز پیغامات کی ترسیل اور فحش پیغامات و فحش مواد دوسروں کوبھیجناوغیرہ ہے ۔یہ کانوں اور آنکھوں دونوں کی لذت کا سامان مہیا کرتا ہے اس لیے لوگ اس کے دلدادہ ہیں۔مگرایجاد کو شرعی حدود کا پابند ہونا چاہیے کیونکہ کان آنکھ دل سب کی بازپرس ہوگی ۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:اور کان آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے(سورہ بنی اسرائیل:36)
فوائد کے حصول کے لیے آپ کو کچھ نقصان بھی اٹھانا پڑے گا۔اور یہی اس ایجاد کا منفی پہلو ہے جس کے ذریعے اسلام مخالف قوتیں ہماری تہذیب و ثقافت کو ختم کرنے کے درپے ہیں جس کو دوسرے لفظوں میں یہود کا ’ذرائع ابلاغ‘ کہا جا سکتا ہے۔ اور ان ذرائع ابلاغ (خاص کر ٹی وی،ڈش اور انٹرنیٹ)کوبد قسمتی سے ہم لوگ بنا کسی روک ٹوک کے اپناتے جا رہے ہیں جس کی سخت وعید ہے جیسا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:اور کوئی انسان ایسا بھی ہے جو اللہ تعالی سے غافل کرنے والی باتیں خریدتا ہے تاکہ اللہ کی راہ سے بے سمجھے بوجھے (دوسروں کو) گمراہ کرے اور اس راہ کی ہنسی اڑائے ،ایسے ہی لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔(سورہ لقمان:06)
اگر انٹر نیٹ کا غلط استعما ل اسی طرح ہمارے ہاںجاری رہا تو پھر ہم لوگوں کو تباہی کے لیے تیار رہنا ہوگا ۔کیونکہ ہاری ہوئی جنگ کو تو جیت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے مگر تہذیب و ثقافت کی شکست پوری قوم کو تباہ و برباد کر دیتی ہےکیونکہ اس وقت زیادہ تر انٹرنیٹ کا استعمال فحش و بے حیائی و اخلاقی بگاڑ کی طرف دعوت، مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور غلط معلومات کو پھیلانے میں ہو رہا ہے۔اگر بے حیائی و فحش فلموں و ویڈیوز کی بات کی جائے تو اس کو دیکھنا ، سننا اور پسند کرنا بھی حرام ہے ۔قرآن کریم میں بے حیائی کی باتوں کو پھیلانے والوں کے لیے دردناک عذاب کی خبر سنائی گئی ہے ۔ارشادِ ربانی ہے:جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی پھیلے ،ان کو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہوگا اور اللہ تعالی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔( سورہ النور:19)آج کل سوشل نیٹ ورکنگ کا چلن فروغ پا رہا ہے ۔ جیسے فیس بک، ٹوئٹر اور گوگل پلس ، یوٹیوب وغیرہ ۔جس میں سب سے زیادہ فیس بک کا استعمال ہو رہا ہے۔ فیس بک ایک امریکی نوجوان طالب علم’ مارک زکر برگ‘ اور اس کے ساتھیوں نے ہارڈورڈیونیورسٹی میں اپنے دوستوں کے لیے قائم کیا تھا مگر چند دن ہی میں اس کو پورے برطانیہ میں مقبولیت حاصل ہو گئی اور 2005 تک یہ پوری دنیا میں پھیل گیا ۔ عموما فیس بک کا استعمال لڑکے لڑکیوں کو نشے کی لت کی طرح لگ جاتا ہے اور اس میں نئی نئی دوستیاں صنفِ مخالف سے ہوتی ہیں اور پھر معاملات پیار،شادی اور زنا تک پہنچ جاتے ہیں ۔فیس بک کی وجہ سے غیر مذہب میں شادی اورطلاق کے رجحان میں زبردست اضافہ ہوا ہے ۔
فیس بک اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے لڑکے لڑکیوں کی اخلاقی قدروں کے ساتھ ساتھ ذہنی و جسمانی صلاحیتوںپر کاری ضرب لگتی ہے چنانچہ اس سلسلے میں والدین کو ہمیشہ بیدار رہنا چاہیے کہ بیٹا یا بیٹی انٹرنیٹ پر کیاکیا دیکھ رہے ہیں ۔ایک عجیب بات ہے کہ کمپیوٹر گھروں میں عموما ایک کونے اور آڑ میں رکھا ہوتا ہے ۔رات رات بھر کمپیوٹرچلتا رہتا ہے اور والدین سمجھتے ہیں کہ پڑھائی ہو رہی ہے جب کہ عموما پڑھائی کے علاوہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے اور نہ والدین کو توفیق ہوتی ہے کہ وقتا فوقتا اس کو چیک کرتے رہیں ۔یامخصوص فحش و غیر اخلاقی ویب سائٹوں کو بند کرا دیں ۔جب کہ اس کی سہولت موجود ہے ۔اور جب سے ٹچ موبائل کارواج عام ہوا ہےمذہبی اور دیندار طبقہ جو اس سے بچا ہوا تھاوہ بھی اس دلدل میں سر سے پاوں تک غرق ہوگیا ہے،اور ہر گھر میں ایک دوسرے کا کسی کو ہوش ہی نہیں۔ایک مرتبہ میرے والد رحمہ اللہ نے میر ے چھوٹے بھائی موبائل کے ساتھ مشغول دیکھا تو اس سے کہا بیٹا اس میں دو چار فائدے ضرور ہوں گے لیکن یہ اپنے اندر میری معلومات کے مطابق یہ بے حیائی کا ایک پلندہ ہے ،جس سے بے شمار شریف کہے جانے والے لوگوں کی قبائے حیا تار تار ہو کر رہ گئی ہے اپنے لئے کوئی سادہ سا موبائل فون اپنی ضرورت کیلئے رکھ لو۔ اس میں اب تو ایسے لوگ بھی پھنسے ہیںجو پہلے اللہ اللہ کر لیتے تھے اب وہ اسی کے ہو کر رہ گئے ہیں اور اسی میں ہر وقت سر دیا ہوا ہے۔ اس وقت جب کہ انٹرنیٹ ایک اہم و بنیادی ضرورت بن چکا ہے ہم کسی کو بھی اس کے استعمال سے روک نہیں سکتے اور نہ ہی یہ ممکن ہے ۔کیونکہ ہمارے پاس اس کا کوئی دوسرا بدل نہیں ہے ۔یہودیوں نے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اسلامی تہذیب و اقدار کو تباہ و برباد کرنے کاعزم کر رکھا ہے۔ جب کہ ہمارے علمائے کرام ،مذہبی و ملی تنظیموں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان ذرائع کو زیادہ سے زیادہ خیر اور نیکی کے کاموںمیں استعمال کرنے کے لیے رہنمائی کریں ۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ کوئی ایسا ملک جہاں انٹرنیٹ میں فحش و غیر اخلاقی ویب سائٹ کے استعمال پر نا بالغوں کے لیے پابندی ہو۔آپ کو حیرت ہوگی لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ملک اسرائیل ہے ۔اور اسرائیل کی پالیسی یہ ہے کہ خود قرآن کریم کے مطابق چلتا ہے اور عمل کرتا ہے کیونکہ اسی میں اس کی بھلائی ہے اور دنیا کو خاص طور سے مسلم ممالک میں فحاشی و غیر اخلاقی مواد کو انٹرنیٹ یا دوسرے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ فروغ دے رہا ہے تا کہ مسلمان ذہنی و اخلاقی طور پر ہمیشہ کے لیے بچھڑ جائیں اور ترقی نہ کر سکیں۔راقم نے کسی اخبار کے کالم میں پڑھا ہے کہ ایک مغربی محقق نے لکھا ہے کہ مسلمان اپنے دین مذہب ،تہذیب و ثقافت پر اس قدر سختی اور پابندی سے عمل پیرا کیوں رہتے ہیں؟اس نے ایک وجہ یہ لکھی ہے کہ مسلمانوں کا اپنے دین و مذہب سے عشق کی حد تک لگائو ہے جب تک مسلمانوں کے پاس قرآن، احایث ، بیت اللہ شریف اور روضۂ رسول ﷺ اپنی اصلی حالت میں موجود ہیںاس وقت تک مسلمانوں کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا، لہٰذا مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے دلوں سے ، قرآن ، کعبۃ اللہ ، اور روضۂ رسول کی محبت کو نکلاجائے۔ اگرہم اس بے روح آلہ اور ڈھانچہ جو ٹچ موبائل کے نام سے موجود ہے اگر ہم نے اس کو مثبت استعمال نہ کیا اور ایسے ہی منفی اس کا استعمال کرتے رہے تو وہ دن دور نہیں ہے اسلامی تشخص کے حامل اشیاء سے ہم محروم ہو جائیں گے۔ کیونکہ جہاں جہاں بھی اس کا آشیانہ بنا ہے اس جیب سے مسواک اور ٹوپی، تسبیح جیسی گراں قدر چیزیں رخصت ہو گئی ہیں یا ہو رہی ہیں، بلکہ بہت ساری جیبوں سے روپیہ کا بوجھ بھی کم ہو رہا ہے آپ نے دیکھا ہو گا کہ اس کی برکت سے بڑے بڑے صوفیاء، اولیاء، حافظوں ، قاریوں ، مولویوں کی حلال و پاکیزہ کمائی ’’ریچارج‘‘ اور ’’انٹر نیٹ پیکج‘‘ کے سانچوں میںڈھل کر بڑی آسانی سے فضائِ آسمانی میں بکھر جاتی ہے، اور اس کا حلقۂ اثر اس حد تک وسیع ہو چکا ہے کہ مسجدیں خانقاہیں ، دینی مراکز اور جلسے بھی اس کے زیرِ اثر آ چکے ہیں، اس کی وجہ سے نمازیوں کا خشوع غارت ہو گیا ہے، اس نے ذاکرین کے ذکر میں رخنے ڈال کر انہیں بے حقیقت کر دیا ہے، طلبۂ کرام سے توجہ و انہماک چھین کر انہیں علم کی لازوال دولت سے محروم ہونے پر مجبور کر دیاہے، پر وقار دینی مجلسوں کی سنجیدگی ومتانت کو اپنے دل کش ترانوں سے منتشر کر دیا ہے اللہ ہمیں اس کے فتنے سے بچائے اور اس کے مثبت استعمال کی توفیق عنایت فرمائیں۔ آمین یا رب العلمین!