اسلام عبادت کا تصور اور مفہوم

از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
اسلام میں عبادت کا وہ تنگ مفہوم نہیں جو دوسرے مذہبوں میں پایا جاتا ہے عبادت کے لفظی معنی اپنی عاجزی اوردرماندگی کا اظہار ہے اور اصطلاح شریعت میں خدائے عز وجل کے سامنے اپنی بندگی اور عبودیت کے نذرانے کو پیش کرنا اور اس کے احکام کو بجا لانا ہے ۔اس بنا پرصحیفہ محمدی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی زبان میں عبادت بندہ کا ہر ایک وہ کام ہے جس سے مقصور خدا تعالیٰ کے سامنے اپنی بندگی کااظہار اور اس کے احکام کی اطاعت ہو اگر کوئی انسان بظاہر کیسا ہی اچھے سے اچھا کام کرے لیکن اس سے اس کا مقصود اپنی بندگی کا اظہار اور خدا تعالیٰ حکم کی اطاعت نہ تو وہ عباد ت نہ ہوگا اس سے ثابت ہوا کہ کسی اچھے کام کو عباد ت میں داخل کرنے کے لئے پاک اور خالص نیت کا ہونا شرط ہے اور یہی چیز عباد ت اور غیر عبادت کے درمیا ن امر فارق ہے۔
آنحضرت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے اس کی تفسیران مختصر لیکن بلیغ فقروں میں فرمادی ہے کہ:اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِاالنِّیَّاتِ .’’اعمال کا ثواب نیت پر موقوف ہے۔‘‘
آنحضرت ﷺ نے عبادت کا جومفہوم دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اس میں پہلی چیز دل کی نیت اور اخلاص ہے اس میں کسی خاص کام اور طرز طریقہ کی تخصیص نہیں ہے بلکہ انسان کا ہر وہ کام جس سے مقصود خداتعالیٰ کی خوشنودی اور اس کے احکام کی اطاعت ہے عبادت ہے اگر تم اپنی شہرت کے لئے کسی کو لاکھوں دے ڈالو تو وہ عبادت نہیں ،لیکن خدا تعالیٰ کی رضا جوئی اور اس کے حکم کی بجاآوری کے لئے چند کوڑیاں بھی کسی کو دو تو یہ بڑی عبادت ہے۔کیونکہ تعلیم محمدی ﷺ کی اس نکتہ رسی نے عبادت کو درحقیقت دل کی پاکیزگی روح کی صفائی اور عمل کے اخلاص کی غرض وغایت بنا دیا ہے اور یہی عبادت سے اسلام کا اصلی مقصود ہے۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھاکہ عبادت صرف ان چند مخصوص اعمال کانام ہے ،جن کو انسان خدا تعالیٰ کے لئے کرتا ہے،مثلاً:نماز،دعا،قربانی لیکن محمد رسول اللہ!ﷺ کی تعلیم نے اس تنگ دائرہ کو بے حد وسیع کر دیا ۔اس تعلیم کی رو سے ہر ایک وہ نیک کام جو خاص خدا تعالیٰ کے لئے اور اس کی مخلوقات کے فائدہ کے لئے ہو اس جس کو صرف خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لئے کیا جائے۔مثلاً:کسی شکستہ دل سے اس کی تسکین وتشفی کی بات کرنا اور کسی گناہ گارکو معاف کرنا بھی عبادت ہے ۔سورۃ البقرہ میں ارشاد ہے:’’اچھی بات کہنا اور معاف کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے ستانا ہو۔‘‘
اور تعلیم محمدیﷺ کا پہلا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے دنیا کے معبودوں سے تمام باطل معبودوں کو باہر نکال کر پھینک دیا باطل معبودوں کی عبادت اور پرستش یک قلم موقوف کردی اور صرف اس ایک خدا کے سامنے خدا تعالیٰ کی تمام مخلوقات کی گردنیں جھکادیں۔خداتعالیٰ کے سوا نہ تو آسمان میں اور نہ زمین میں اور نہ آسمان کے اوپر اور نہ زمین کے نیچے کوئی ایسی چیز ہے جو انسان سے سجدہ اور رکوع قیام کی مستحق ہے اور نہ ہی اس کے سوا کسی اور کے نام پر کسی جاندار کا خون بہایا جاسکتا ہے،ہر عبادت صرف اسی کے لئے اور ہر پرستش صرف اسی کی خاطر ہے:چنانچہ سورۃ الاعراف میں ہے:’’بلاشبہ میری نماز،اور میری قربانی ،اور میری زندگی اور میری موت سب اسی ایک عالم کے پروردگار اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔‘‘خدا تعالیٰ کی عبادت اور پرستش کے وقت جسم وجان کے باہر کے کسی وجود کی ضرورت نہیں ،نہ سورج کے نکلنے اور اس کی طرف دیکھنے کی حاجت،نہ دریا میں جاکر اس کا پانی اچھالنے سے مطلب ،نہ سامنے آگ الاؤ جلانے کی ضرورت ،نہ دیوتاؤں،بزرگوں اور ولیوں مجسموں کو پیش نظر رکھنے کی اجازت ،نہ سامنے موم بتیوں کو روشن کرنے کا حکم ،نہ گھنٹوں اور ناقوسوں کی ضرورت نہ لوبان اور دوسرے بخورات جلانے کی رسم ،نہ کسی خاص قسم کے کپڑوں کی قید،ان تمام بیرونی رسوم وقیود سے اسلام کی عباد ت پاک اور آزاد ہے ۔اس کے لئے صرف ایک پاک ستر پوش لباس،پاک جسم اور پاک دل کی ضرورت ہے ،اگر جسم ولباس کی پاکی سے کبھی مجبوری ہو جائے تو یہ بھی معاف ہے۔یہاں ہربندہ اپنے خدا سے آپ مخاطب ہوتا ہے ،آپ باتیں کرتا ہے آپ عرض حال کرتا ہے ،ہر مسلمان اپنا آپ برہمن ،آپ کا ہن اپنا آپ پادری اور اپنا آپ دستور ہے ،یہاں یہ حکم ہے کہ تم مجھے براہ راست پکارو میں جواب دوں گا ۔اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لِکُمْ۔’’تم مجھے پکارو میں تم کو جواب دوں گا۔
خاتم الانبیاء ﷺ نے عبادت کے ان تمام غلط راہبانہ طریقوں کا اپنے ایک مختصر فقرہ سے ہمیشہ کے لئے خاتمہ کردیا اور آپﷺ نے فرمایا:لا صرورۃ فی الاسلام۔’’اسلام میں رہبانیت نہیں ۔‘‘اسلام کا صحیح تصور یہ ہے کہ انسان تعلقات کے اژدحام اور علائق کے ہجوم میں گرفتار ہوکر ان میں سے ہر ایک کے متعلق جو اس کا فرض ہے اس کو بخوبی ادا کرے جو شخص ان تعلقات وعلائق اور حقوق وفرائض کے ہجوم سے گھبر اکر کسی گوشۂ عافیت کو تلاش کرتا ہے وہ دنیا کے کارزار کا نامراد اور بزدل سپاہی ہے ،اسلام اپنے پیروؤں کو جوانمرد سپاہی دیکھنا چاہتا ہے ان سب جھمیلوں کو اٹھا کر بھی خدا تعالیٰ کو نہ بھولے غرض اسلام کے نزدیک عبادت کا مفہوم ترک فرض نہیں بلکہ ادائے فرض ہے۔