از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
دینی احکام کا وہ اختلاف جو علمی بنیادوں پر فروعی مسائل میں ابتدائے اسلام سے چلا آرہا ہے اور آگے بھی وہ باقی رہے گا، یہ وہ اختلاف ہے جو صحابہ و تابعین اور محدثین و فقہا کے درمیان رہا ہے، وہ اختلاف ناپسندیدہ نہیں ہے کیونکہ اس اختلاف کی بنیاد خواہش نفس کی تعمیل پر نہیں ہے بلکہ مرضیات رب کی تلاش ہے، ایسے ہی اختلاف کے بارے میں حضور سید عالم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت کا اختلاف رحمت ہے، اختلاف امتی رحمۃً۔ لیکن یہ فروعی اختلافات خدا نخواستہ اگر دین کی اصل قرار دے دیئے جائیں تو پھر وہ بھی رحمت کے بجائے زحمت بن جاتے ہیں، اس کی وجہ سے بھی امت کا اتحاد پارہ پارہ ہو سکتا ہے اللہ سبحانہ رحمت فرمائے ہمارے اکابرین و سلف صالحین پر کہ انہوں نے اصولوں کو اصول کی جگہ اور فروعات کو فروع کی جگہ رکھ کر امت کو اختلاف و انتشار سے بچانے کی بڑی کامیاب کوشش کی ہے، جس کی وجہ یہ امت اس پہلو سے اختلاف و انتشار سے محفوظ رہی ہےآج ایک چند دوستوں کی محفل میں فروعی مسائل پر ایک صاحب بڑے ہی جوش وخروش اپنے مدمقابل کودلائل دے رہے تھےبالخصوص وہ مسائل جن کا اسلام کے بنیادی و اصولی احکام سے کوئی تعلق نہیں ہے ان کو بنیادی حیثیت دیئے جارہے تھے،بالکل اسی طرح سے امت کا ایک بہت بڑا طبقہ اب ان مسائل کی وجہ دست بگریباں ہے،یہ صورتحال اس وقت خطرناک موڑ اختیار کرتی دکھائی دے رہی ہے اس پر قدغن لگانا اہل علم کا فرض ہے، جیسے ہمارے اسلاف نے اصول و فروع میں خطِ امتیاز قائم فرمایاتھا وہ اب ٹوٹ رہا ہے اور وہ لکیر جو ان کے درمیان قائم کی گئی تھی وہ آہستہ آہستہ مٹتی جارہی ہے ضرورت اس بات کی ہے اس کو برقرار رکھنے کی جدوجہد کی جائے اسی میں امت کے لئے عافیت و رحمت ہے، اور اسی سے اتفاق کی ڈور سلامت رہ سکتی ہے،ہوا اور خواہش نفس جہاں فروغ پا جائے وہاں اختلاف کی راہ بنتی ہے، پھر فروع تو فروع اصول میں اختلاف ہونے لگتا ہے۔
تفرقہ کیسے پیدا ہوتاہے؟ایک طبقہ دین کا ایک شعبہ لے کر اسی کو سارا دین سمجھنا شروع کردیتا ہے۔ دوسرا طبقہ دین کا دوسرا شعبہ پکڑ کر اسی کو سارا دین سمجھنا شروع کرتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سوچ، وفاداریاں ہرچیز تقسیم ہوجاتی ہے۔ہم جب مسلکی جھگڑے چھوڑنے کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلک کو چھوڑدیا جائے بلکہ اس کا مطلب وہی ہوتا ہے جوحکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ اپنا مسلک چھوڑو نہ دوسرے کا مسلک چھیڑو نہ۔ ہر کوئی اپنے مسلک میں رہتے ہوئے اس جھگڑے کو ختم کرسکتا ہے۔ دلائل کے ساتھ اپنا مسلک اپنے طلباء کو ضرور سمجھایا جائے لیکن اسے عوام میں بیان کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ ’’اگر کسی کے دل میں یہ خواہش ہو کہ نظریات کے اختلاف مٹ جائیں تو یہ تمنا کبھی پوری نہیں ہوسکتی ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ نظریاتی اختلاف کا مٹ جانا دو ہی صورتوں میں ممکن ہے یا تو سب بے عقل ہوجائیں یا بددیانت‘‘ شکل وصورت،قدوقامت، زبان وبیان اور رنگ ونسل کے اختلاف کی طرح عقل و فکر اور طبیعت ومیلان کا اختلاف ایک حقیقت ہے، جس کی وجہ سے اختلاف ایک فطری اور طبعی امر ہے، جسے نہ ختم کیا جاسکتا ہے اور نہ اس سے بچ کر رہا جاسکتا ہے۔اگرعقل اورسوچنے سمجھنےکی صلاحیت موجود نہ ہوتو کسی نے کوئی بات کہہ دی تو دوسرا اس کی تائید اور تصدیق کے سوا اور کیا کرسکتا ہے، یا عقل ہے مگر بددیانت ہے، اس لئے اختلاف کے باوجود حق گوئی کی جرأت نہیں کرتا ہے، اگر عقل و ذہانت دونوں ہوں تو پھر اختلاف ناگزیر ہے۔نبیوں اور رسولوں کے بعد سب سے زیادہ پاکیزہ گروہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت ہے،ان میں بھی باہم بے شمار مسائل میں اختلاف رہا ہے، یہی حال تابعین عظام اور ائمہ کرام کا بھی ہے جو کتاب وسنت سے خوب واقف ،انتہائی مخلص اور خواہش نفس سے کوسوں دور تھے۔ اس سلسلے میں اہمیت اس کی ہے کہ اختلاف دلوں میں نفرت اور کدورت کا سبب نہ بنے، بلکہ الفت ومحبت اور یگانگت برقرارر ہے، جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاحال تھا کہ وہ اختلاف کے باوجود شیر وشکر ہوکر رہتے، کسی کی نیت پر حملہ نہ کیا جائے اور اس کی وجہ سے کسی کے احترام میں کمی اور عزت نفس پر آنچ نہ آنے دیاجائے۔ یہ یقین رکھا جائے کہ ہر ایک مقصد میں متحد ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت اور اتباع کا جذبہ۔
اس معاملے میں جوچیز ممنوع اور قبیح ہے وہ ہے اختلاف کو فرقہ بندی اور دشمنی کا ذریعہ بنا لینا اور اس کی وجہ سے ایک دوسرے کی عزت وآبرو کو حلال سمجھ لینا۔ اس کی برائیوں اور لغزشوں کو تلاش کرنا اور پھیلانا، بدگمانی اور بدزبانی کرنا، حالانکہ یہ اختلافات زیادہ تر ایسے معاملات میں ہیں جو فروعی ہیں اور ان میں ایک سے زیادہ نقطۂ نظر کی گنجائش ہے اور اس کے برخلاف مسلمانوں سے الفت و محبت کرنا، اور ان کے احترام و اکرام کا لحاظ رکھنا اور ایک دوسرے سے بغض و عداوت اور حسد کا حرام ہونا، بدگمانی اور بدگوئی سے بچنا، غیبت اور الزام تراشی اور عیب جوئی سے پرہیز کرنا قطعی اوریقینی دلیل سے ثابت ہے، جس سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اوراختلاف کی نوعیت خواہ کیسی بھی ہو اس میں سنجیدگی، متانت اور وقار کے دامن سے وابستہ رہنا ضروری ہے۔ لڑائی، جھگڑا، گالم وگلوج اور طعنہ زنی سے بچنا لازمی ہے۔ یہاں تک کہ کفر و شرک اور بدعت وضلالت کے حامیوں سے اعلان برأت تو ضروری ہے لیکن ان کے ساتھ بھی بحث و مباحثے میں تیز و تند اور تکلیف دہ الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرنا بھی لازمی ہے،اس لیے کہ مقصد حق کی تفہیم اور تبلیغ ہے، جس کے لیے نرم خوئی اور دل سوزی، شفقت اور ہمدردی، خوبصورت انداز بیان اور مشفقانہ لب ولہجہ مطلوب اور مفید ہے۔ درشتی اور تلخی، بداخلاقی اور سخن پروری اس راہ میں نہایت مضر اور بے نتیجہ ہے اور دلآزار اور جگر خراش باتوں کا الٹا اثر ہوتا ہے۔لہٰذامسلمانوں کو اپنے سارے مسلکی اختلافات کو بھول کر کلمہ کی بنیاد پر متحد و متفق ہو جانے کی ضرورت ہے، ساری دنیا جب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف متحد ہو سکتی ہے تو پھر ہمارے درمیان اتحاد و اتفاق کیلئے کونسی چیز مانع ہو سکتی ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے جس کو علامہ اقبال رحمہ اللہ نے بڑے بلیغ پیرائے میں بیان فرمایا ہے:
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلماں بھی ایک