اتفاق واتحاد ملی ضرورت ہے
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
اسلام ایک عظیم دین ہے، اس کے اہم ترین اصول، امتیازات اور قواعد میں یہ شامل ہے کہ مسلمانوں کو حق پر جمع کیا جائے اور دلوں میں باہمی الفت ڈالی جائے، انبیائے کرام اپنی امتوں کو حق پر متحد کرنے کیلیے متفق تھے، اسی لیے انہوں نے اسلام قائم کر کے اس پر کار بند رہنے کا حکم دیا، چاہے وہ علم کے اعتبار سے ہو یا عمل کے، عقائد کے اعتبار سے ہو یا طرزِ زندگی کے اعتبار سے،ارشاد الٰہی ہے:وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا:تم تمام اللہ کی رسی کو تھام لو گروہوں میں مت بٹو(آل عمران: 103)
اتفاق واتحاد ایسی چیز ہے جس کے محمود اور مطلوب ہونے پردنیا کے تمام انسانوں کا اتفاق ہےاورتاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ قوموں کے عروج وزوال، عزت و زلت،اقبال مندی و سربلندی، ترقی و تنزلی، خوشحالی و فارغ البالی اور بدحالی کے تقدم و تخلف میں اتفاق و اتحاد، باہمی اخوت و ہمدردی اور آپس کی اختلاف و انتشار، تفرقہ بازی،اور باہمی نفرت، بغض و عداوت کلیدی رول آدا کرتا ہے۔ اور آج کے دور میں مسلمان جس قدر ذلیل و خوار اور رسوا ہے شاید اس سے پہلے کسی دور میں رہا ہو۔
اس لئے امت مسلمہ اولین فرصت میں اپنے اختلافات کو فراموش کرکے پھر سے ایک بن جائے اور اعتصام بحبل اللہ پر عمل کرکے دشمنان اسلام کی سازشوں کو ناکام بنائےاس وقت اسلام دشمن طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف آپسی اختلاف کے باوجود اس عنوان پر متفق ہوچکی ہیں اور روز بروز ان کی سازشوں کا جال پھیلتا جارہا ہے ،پھر بھی مسلمان خواب غفلت سے بیدار ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں، اس وقت نوشتہ دیوار پڑھ لینے کی ضرورت ہے ،اسلام دشمن طاقتوں کی سازشوں کو ناکام کرنے کی ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ کہ مسلمان آپسی اختلافات کوبھول بھال کر پھر سے ایک جسد واحد بن جائیں ،اور ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوط بن کر مخالف سمت سے آنے والے تیروں کو سہارنے کی طاقت پیدا کرلیں،لیکن صورتحال یہ ہے کہ امت مسلمہ عقل کے ناخن لینے تیار نہیں ہے ،اپنے اندر اتحاد پیدا کرنے کے بجائے اختلاف وافتراق کو مزید بڑھاوا دیتے ہوئے دشمنان اسلام کی ناپاک کو ششوں کو بارآور کررہی ہے ۔کیا بات ہے کہ ساری دنیا مذہب ،تہذیب ،زبان اور طبقات کے صدہا اختلافات کے باوجود باطل پر رہتے ہوئے اسلام کے خلاف متفق ہے، لیکن مسلمان جن کا اللہ(جل شانہ) ایک،رسول (ﷺ) ایک ،کتاب(قرآن) ایک اور وہ کعبۃ اللہ ایک ،جس کی طرف رخ کرکے سارے مسلمان نماز جیسی اہم عبادت ادا کرتے ہیں اور جس کعبہ کا سارے مکتب ومسلک کے مسلمان سب مل کر اس کا طواف کرتے ہیں ۔ یہ سب جب ایک ہیں تو امت مسلمہ ایک کیوں نہیں بن سکتی۔
عالمی احوال اوربھی ناگفتہ بہ ہیں ایسے میںمسلمان بلکہ مسلمانوں کے رہنماؤںماہرین کو عالمی و ملکی ناخوشگوار احوال کے تناظر میں اپنے اختلافات و مفادات سے اونچا اٹھ کر الفت و محبت کی ڈور میں بندھ جانا چاہئےاور عوام کو اپنے کردار و عمل سے یہی پیغام دینا چاہئےکیونکہ: اتحاد حکم رسالت ہے۔٭… اتحاد دینی فریضہ ہے۔٭… اتحاد میں عظمت ہے۔٭… اتحاد میں برکت ہے۔٭… اتحاد میں رحمت ہے۔٭… اتحاد میں طاقت ہے۔٭… اتحاد میں قوت ہے۔٭… اتحاد میں عروج ہے۔٭… اتحاد میں امن ہے۔٭… اتحاد میں فتح ہے۔٭… اتحاد میں نصرت ہے۔٭… اتحاد ملی ضرورت ہے۔ الغرض! ہر وہ قدم اٹھائیں کہ جس سے آپس کے تعلقات کو وسعت ملتی ہو۔ہم ایک دوسرے کے مزید قریب آنے کی کوشش کریں۔ہمیں آپس کے فروعی اور ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر اتحاد و اتفاق سے رہنا سیکھنا ہوگا، اسی میں مسلم امہ کی بقاءاور بہتری ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشادکے مصداق بنیں، جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے مضبوط مکان (اور اس کی دیوار)کے مانند ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے سے مل کر تقویت پاتا ہے، اگر معمولی ذرات مل کر بلند پہاڑ بن سکتے ہیں، پانی ایک ایک قطرہ مل کر سمندر بن سکتا ہے،ایک ایک ٹہنی اور شاخ مل کر درخت بن سکتا ہے، جسم کے اعضا مل کر بہترین انسان بن سکتا ہے،تو یقینا امت کے تمام افراد بھی ایک دوسرے سے مل کر بہترین امت بن سکتی ہے ۔ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے انسان کواُخو ّت کا بیاں ہوجا، محبت کی زباں ہو جاحق تعالیٰ ساری امت کو صراطِ مستقیم پر جمع فرمادے۔ ۔علامہ اقبال رحمہ اللہ نے برسوں پہلےامت کو ایک درد مندانہ پیغام دیا ہے جو آج بھی امت کے رہنما ؤںاور عوام کیلئےنشان راہ ہے۔منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک۔ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک۔حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک۔کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک