)۱(آپﷺ کی تشریف آوری سے پہلیانسان اپنے آپ کواکثر مخلوقاتِ الہٰی سے اپنے آپ کوکم درجہ کا سمجھتا تھاوہ سخت پتھر،دہکتی آگ،زہریلے سانپ،دودھ دیتی گائے،چمکتے سورج،درخشاں تاروں،کالی راتوں، بھیانک صورتوں؛ غرض دنیا کی ہر اُس چیز کو جس سے وہ ڈرتا تھا یا جس کے نفع کا خواہشمند تھا اُس کو پوجتا تھا اور اُس کے آگے اپنا سر جھکاتا تھا، محمدرسول اللہﷺ نے آکر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اے لوگو !یہ تمام چیزیں تمہارے آقا نہیں ہیں؛ بلکہ تم اُن کے آقا ہو، وہ تمہارے لیے پیدا کی گئی ہیں تم اُن کے لیے پیدا نہیں کیے گئے ہو،وہ تمہارے آگے جھکتی ہیں تم کیوں اُن کے آگے جھکتے ہو، اے انسانو! تم اِس ساری کائنات میں خدا کے نائب وخلیفہ ہو۔
الغرض !انسانیت کا یہ درجہ پیغامِ محمدی کے ذریعہ اتنا بلند کیا گیاکہ اب اُس کی پیشانی سوائے ایک اللہ کے کسی کے سامنے نہیں جھک سکتی اور اُس کے ہاتھ اُس ایک کے سواکسی اور کے آگے نہیں پھیل سکتے،جس سے وہ لینا چاہے اس کو کوئی دے نہیں سکتا اور جس کو وہ دینا چاہے اُس سے کوئی لے نہیں سکتا۔
)۲(بعضوں کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان کا دوبارہ پیدا ہونا ہی اُس کے گناہ گاری کی دلیل ہے، عیسائی مذہب کا یہ عقیدہ ہے کہ ہر انسان اپنے باپ آدم کی گناہگاری کے سبب سے موروثی طور پر گنہگار ہے خواہ اس نے ذاتی طور پر کوئی گناہ نہ کیا ہو اس لیے انسانوں کو بخشش کے لیے ایک غیر انسان کی ضرورت ہے جو موروثی گناہ گار نہ ہو تاکہ وہ اپنی جان دے کر بنی نوع انسانی کے لیے کفارہ ہوجائے۔
محمدرسول اللہ ﷺ کے ذریعہ نوعِ انسانی کو یہ خوشخبری اور بشارت دی گئی کہ انسان اپنی اصل پیدائش میں پاک صاف اور بے گناہ ہے وہ خود انسان ہی ہے جو اپنے اچھے یا برے عمل سیفرشتہ یا شیطان یعنی بے گناہ یا گناہ گار بن جاتا ہے )تفصیل کے لیے دیکھیے،سورۂ تین پارہ:۳۰( بخاری شریف میں یہ حدیث منقول ہے :
“مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَأَبَوَاھُ یُھَوِّدَانِھِ أَوْ یُنَصِّرَانِھِ أَوْ یُمَجِّسَانِھِ “۔
)بخاری،باب اذا اسلم الصبی،حدیث نمبر:۱۲۷۰(
کوئی بچہ ایسا نہیں جو فطرت پر پیدا نہیں ہوتا؛ لیکن ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔
)۳(ظہور محمدی سے پہلے لوگ مختلف گھرانوں میں بٹے ہوئے تھے،ہر ایک نے اپنا اپنا الگ الگ خدا تصور کرلیا تھا،پیغمبروں کو ماننے والے بھی، ایک نبی کو مانتے تھے تو دوسرے نبی کا انکار کردیتے تھے،یہودی اپنی قوم وبنی اسرائیل سے باہر کسی نبی ورسول کی بعثت وظہور کوتسلیم نہیں کرتے تھے۔
لیکن محمدرسول اللہؐ کی تعلیم اس باب میں یہ ہے کہ ساری دنیا ایک اللہ کی مخلوق ہے اور اللہ تعالی کی نعمتوں کو حاصل کرنے اور اس کواستعمال کرنے میں ساری قومیں اور نسلیں برابر کی شریک ہیں،کسی کوکسی پر فوقیت وبرتری حاصل نہیں، جہاں جہاں بھی انسانوں کی آبادی تھی تواللہ نے وہاں وہاں اپنے قاصدوں ورہنماؤں کوانبیاء ورسل کی شکل وصورت میں مبعوث فرمایا، آپﷺ کی اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ کوئی مسلمان اس وقت تک مسلمان نہیں کہلاتا جب تک وہ دنیا کے تمام پیغمبروں پر اور پچھلی آسمانی کتابوں پر یقین نہ رکھے، اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
“کُلٌّ آمَنَ بِاللَّھِ وَمَلَائِکَتِھِ وَکُتُبِھِ وَرُسُلِھِ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِھِ”۔
)البقرۃ:۲۸۵(
سب ایمان لائے اللہ پر اور اُس کے فرشتوں پر اور اُس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اورہم اس کے رسولوں میں باہم فرق نہیں کرتے۔
)۴(تمام مذہبوں نے اللہ اور بندے کے درمیان واسطے قائم کررکھے تھے،قدیم بت خانوں میں کاہن وپجاری تھے،عیسائیوں میں بعض پوپوں کو گناہ معاف کرنے کا اختیار دیا گیا،آپﷺ نے یہ تعلیم دی کہ ہر انسان بغیر کسی واسطے کے اللہ کو پکار سکتا ہے اور اُس سے اپنے گناہ معاف کراسکتا ہے اور اپنی تمام ضروریات بغیر کسی واسطے کے سیدھے اللہ سے مانگ سکتا ہے۔
)۵(انسانوں کی تعلیم وہدایت کے لیے جو مقدس ہستیاں اس دنیا میں آئیں،ان کے متعلق قوموں میں افراط وتفریط تھا،افراط یہ تھا کہ نادانوں نے اُن کو خود اللہ یا اللہ کا مِثل یا اللہ کا روپ یا اللہ کا بیٹا ٹھہرایا،تفریط یہ تھا کہ ہر وہ شخص جو پیشن گوئی کرتا تھا اس کو نبی یا پیغمبر مانتے تھے؛ لیکن جب محمدؐ کونبی ورسول بناکر مبعوث فرمایا گیا توآپؐ نے اسلام کا تعارف کرواتے ہوئے اُن مقدس وعظیم المرتبت ہستیوں کا صحیح حیثیت سے تعارف کرواتے ہوئے یہ فرمایا کہ: انبیاء نہ اللہ ہیں، نہ اللہ کے مثل ہیں، نہ اللہ کے بیٹے ہیں اور نہ اُس کے رشتہ دار ہیں؛بلکہ انبیاء علیہم السلام انسان ہیں ؛لیکن اپنے کمالات کی حیثیت سے تمام انسانوں سے بڑکر ہیں،اُن پر اللہ کی وحی نازل ہوتی ہے،وہ بے گناہ اورمعصوم ہوتے ہیں،اُن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے حکم سے اپنی قدرت کے عجائبات دکھاتا ہے،وہ لوگوں کو نیکی کی تعلیم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، اُن کی عزت وتعظیم تمام انسانیت پر فرض ہے،وہ اللہ تعالی کے خاص، سچے اور مطیع وفرمابرداربندے ہوتے ہیں۔
محمدﷺ کی یہ تعلیمات افراط وتفریط سے پاک ہیں اِس کے علاوہ دیگر تعلیمات بھی افراط وتفریط سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ہی جامع ومانع بھی ہیں؛ چونکہ آپﷺ آخری نبی ورسول ہیں، آپﷺ کے بعد نہ کوئی نبی آئیگا اور نہ رسول جوکوئی نبوت ورسالت کا دعویٰ کریگا، وہ جھوٹا ہوگا؛ خلاصہ یہ کہ آپﷺ کی پیاری عملی زندگی اور آپﷺ کے ارشادات وتعلیمات رہتی دنیا تک کی انسانیت کے لیے دنیوی واُخروی کامیابی کی ضامن ہے توجس طرح یہ دینِ اسلام تمام سابقہ شریعتوں کا جامع گلدستہ ہے اُسی طرح آپﷺ کی حیاتِ مبارکہ بھی تمام سابقہ انبیاء علیہم السلام کی زندگیوں کا ایک جامع حسین گلدستہ ہے، جوکوئی اِس حسین گلدستہ کے ایک ایک پھول کواپنی عملی زندگی کے گلدان میں لگائیگا تواُس کی زندگی بھی گل وگلزار ہوجائیگی اور وہ حضورِ پاکﷺ کی زندگی کا حسین گلدستہ، جوخالقِ کائنات ومالکِ دوجہاں کے منشے کے عین مطابق ہے اس لیے جوکوئی اپنی زندگی کے گلدان کوحضورِاکرمﷺ کے حسین گلدستہ کے مطابق بنائیگا تواللہ تبارک وتعالیٰ اُس کی زندگی کے گلدستہ کوگلستان )جنت( میں ڈال دیں گے آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کے گلدان میں حضورِ پاکﷺ کی زندگی کے حسین گل کھلادے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے عمل کے ایک ایک پھول کوچُن چُن کر اپنی زندگی کے گلدان میں لگانے کی توفیق وجستجو عطا فرمائے، آمین۔
سیرت کے ماخذ اور حوالہ جات
)۱(قرآن مجید
سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے اہم،سب سے مستند اورسب سے زیادہ صحیح حصہ وہ ہے جس کا ماخذ قرآن مجید ہے اور قرآن مجید کہ جس کی صحت کے بارے میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا وہ حضور اکرمﷺ کی زندگی کے ضروری اجزاکو چیدہ چیدہ اِس طرح بیان کرتا ہے، مثلاً:نبوت سے پہلے مکی زندگی،یتیمی،حق کی تلاش اور پھر نبوت سے سرفرازی،وحی،تبلیغ،معراج،مخالفین کی دشمنی،ہجرت اور آپﷺ کے اخلاق حسنہ۔
)۲(حدیث
سیرت محمدی کا دوسرا ماخذ حدیثوں کا وہ سرمایہ ہے جس کا ایک ایک حصہ بہت ہی ناپ تول اور پرکھا ہوا ہے؛ اس میں آپﷺ کے حالات بھی ہیں اور تعلیمات بھی)حدیث کی تمام مستند کتابیں(۔
)۳(مغازی
تیسرا ماخذ وہ قدیم کتابیں جن میں آپﷺ کے غزوات،جنگوں کے حالات اور اس ضمن میں دوسرے واقعات موجود ہیں،مغازی کی چند کتابیں درج ذیل ہیں:
مغازی،عروہ بن زبیر )متوفی۹۴ھ(
مغازی،زہری )متوفی۱۲۴ھ(
مغازی،موسی بن عقبہ )متوفی۱۴۱ ھ(
مغازی،ابن اسحٰق )متوفی۱۵۰ ھ(
مغازی، زیاد بکائی )متوفی۱۸۲ ھ(
مغازی،واقدی )متوفی۲۰۷ ھ(
)۴(کتب تاریخ
تاریخ کی وہ عام کتابیں ہیں،جن کا پہلا حصہ آپﷺ کی سوانح حیات پر مشتمل ہے،مثلاً:
طبقات بن سعد )متوفی۲۳۰ھ(
تاریخ الرسل والملوک،امام ابو جعفر طبری )متوفی۳۱۰ھ(
تاریخ صغیر وکبیر،امام بخاری )متوفی۲۵۶ھ(
تاریخ ابن حبان )متوفی۳۵۴ھ(
تاریخ ابن ابی خثیمہ بغدادی )متوفی۹۹ھ(
)۵(کتب دلائل
جو آنحضرتﷺ کے معجزات پر ہیں:
دلائل النبوۃ،ابن قتیبہ )متوفی۲۷۶ھ(
دلائل النبوۃ،ابو اسٰق حربی )متوفی۲۵۵ھ(
دلائل النبوۃ،امام بیہقی )متوفی۴۳۰ھ(
دلائل النبوۃ،ابو نعیم اصفہانی )متوفی۴۳۰ھ(
دلائل النبوۃ،مستغفری )متوفی۴۳۲ھ(
دلائل النبوۃ،ابوالقاسم اسمٰعیل اصفہانی )متوفی۵۳۵ھ(
خصائص کبریٰ،امام سیوطی )متوفی۹۱۱ھ(
)۶(شمائل
وہ کتابیں جو آنحضرتﷺ کے اخلاق وعادات اور معمولات پر لکھی گئی ہیں:
کتاب الشمائل،امام ترمذی )متوفی۲۷۹ھ(
الشفافی حقوق المصطفی،قاضی عیاض )متوفی۵۴۴ھ(
نسیم الریاض،شہاب خفا جی
شمائل النبی،ابوالعباس مستغفری )متوفی۴۳۲ھ(
شمائل النور الساطع،ابن المقری غرناطی )متوفی۲۵۳ھ(
سفرالسعادۃ،مجدالدین فیروزآبادی )متوفی۸۱۷ھ(
اردو میں سیرت کے موضوع پر چند مستند کتابیں یہ ہیں
سیرت النبیﷺ )علامہ شبلی نعمانیؒ،علامہ سید سلیمان ندویؒ(
سیرۃ المصطفیٰﷺ )حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ(
نبیٔ رحمتﷺ )حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ(
رحمۃ اللعلمین )قاضی محمد سلیمان منصور پوریؒ(
رسول اکرﷺ کی سیاسی زندگی )ڈاکٹر محمد حمیداللہؒ(
محمد رسول اللہﷺ )ڈاکٹر محمد حمیداللہؒ(
النبی الخاتم )مولانامناظر احسن گیلانیؒ(
تاریخ اسلام )اکبر شاہ نجیب آبادیؒ(
اصح السیر )عبدالروف قادری دانا پوریؒ(
نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیبﷺ )مولانا اشرف علی تھانوی ؒ(