حیات طیبہ ایک نظر میں

ماہ ربیع الاول اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ہے۔ جس میں دنیا کے ہادی خاتم الانبیاء و المرسلین جناب آقائے نامدار حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیر کے دن مکہ معظمہ میں ولادت باسعادت ہوئی۔ اسی وجہ سے اس مہینہ کی بہت فضیلت ہے۔
لِھٰذا الشَّھْر فی الاسلام فضل ۔ ومنقبۃ تفوق علی الشھورِ ربیعٌ فی رَبِیْعٍ فی رَبِیْعٍ و نوْرٌ فوقَ نورٍ فَوقَ نورٍ۔
یعنی اسلام میں اس مہینہ کی خاص فضیلت ہے جوبعض اعتبار سے اور مہینوں سے بڑھی ہوئی ہے اور وہ خاص فضیلت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اس دنیا میں تشریف لانا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا تشریف لانا دنیا کی بہار کا سبب ہے۔ پھر جس مہینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لائے وہ ربیع ہے ربیع در ربیع اور نور علی نور ہے۔
اس ماہ مبارک کی یہ فضیلت ہے کہ یہ زمانہ ہے تولد شریف حضور پرُنور سید بنی آدم فخرعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اور جس قدر فضیلت کسی زمانہ کی ہوتی ہے اس زمانہ میں حدود شرعیہ سے تجا وز کرنا عنداللہ والرسول اسی قدر ناپسندیدہ ہوتا ہے اور حدود سے تجاوز کرنے کا معیار صرف علم ہے۔ البتہ حدود کے اندر رہ کر ذکر مبارک رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم منجملہ اعظم البرکات افضل القربات ہے۔ اس لیے کسی مومن کو خصوصاً ساعی فی اتباع السنۃ کو اس میں کلام نہیں ہوسکتا۔
تاریخ ولادت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
طیبی کا بیان ہے تمام مسلمانوں کا اس امر پر اتفاق ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم 12 ربیع الاول کو اس دنیامیں رونق افروز ہوئے۔
قتادہ انصاری کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو ارشاد عالی ہوا یہ وہ دن ہے جس میں میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ کو نبوت عطا فرمائی گئی۔
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پیر کے دن پیدا ہوئے اورا سی دن ہی مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت فرمائی۔ پیر کے دن ہی حجر اسود اٹھا کر نصب کیا ٗ نیز فتح مکہ اور سورۂ مائدہ کا نزول بھی پیر کے دن ہی ہوا ہے۔
سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شب ولادت یقیناً شبِ قدر سے زیادہ افضل ہے کیونکہ شب ولادت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیدائش و جلوہ گری کی شب ہے اور شبِ قدر آپ کو عطا کی ہوئی شب ہے اورجو رات کو ظہور ذات کے سبب سے مشرف کی گئی ہو وہ اس رات سے زیادہ سربلند ہے جو عطیہ و سرفرازی کی وجہ سے معزز بنائی گئی ہو۔ اس شب کی افضلیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شبِ قدر میں صرف آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور شبِ ولادت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات عالی کا ظہور ہوا جن کے پاس مقرب فرشتے آتے رہتے تھے۔
علاوہ ازیں شبِ ولادت کی برتری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شب قدر کی برتری و خوبی صرف امت محمدیہ کے لیے ہے اور ذات رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اللہ تعالیٰ جل شانہٗ نے تمام جہانوں کے لیے رحمت بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی کی ذات والا صفات کے سبب سے آسمانی و زمینی تمام مخلوقات کو اللہ تعالیٰ جل شانہٗ نے عام نعمتیں سرفراز کی ہیں۔
عجائبات ولادت
حمل مبارک سے پہلے قریش سخت قحط اور تنگی ترشی کے عالم میں مبتلا تھے۔
لیکن بطن آمنہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تشریف ارزانی کے ساتھ ہی سرزمین مکہ سرسبز اور درخت بار آور ہوگئے اور قریش کو ہر سمت سے آمدنی ہونے لگی۔ اسی لیے قریش نے اس سال 570ء؁ کا نام جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بطنِ مادر میں تشریف لائے تھے ’’ سال مسرت فراخی‘‘ رکھا۔
حضرت آمنہ ؓ فرماتی ہیں’’ جب محبوب رب العالمین میرے پیٹ میں آئے تو ایک دن میں نیند و بیداری کی درمیانی حالت میں تھی کہ ایک غیبی آواز آئی ’’ اے آمنہ تمہارے پیٹ میں امت کا سردار ہے۔ ‘‘ حضرت آمنہ فرماتی تھیں ’’ جب حمل کو چھ ماہ ہو چکے تو کسی آنے والے نے خواب میں آکر مجھ سے کہا اے آمنہ تمہارے پیٹ میں دو عالم کے سردار ہیں وضع حمل پر آپ کا اسم گرامی محمد رکھنا۔‘‘
پھر مجھے دردِ زہ ہوا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولادت اس طرح ہوئی کہ آپ سجدہ میں تھے اورجیسے کوئی عاجزی گریہ و زاری کرتا ہے ویسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حالت تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم انگشتِ شہادت آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے تھے۔ ایک دوسری روایت میں ہے حضرت آمنہ فرماتی ہیں کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولادت کے وقت آپ کے ساتھ ایسا نور بھی نکلا جس سے مشرق و مغرب کی ہر چیز روشن دکھائی دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولادت اس طرح ہوئی کہ آپ اپنے ہاتھوں کے سہارے زمین پر آئے پھر آپ نے اپنی مٹھیاں زمین سے اٹھائیں اور سر مبارک آسمان کی جانب بلند فرمایا۔
طبرانی کی روایت ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم جب پیدا ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مٹھیاں بند تھیں البتہ انگشت شہادت اس طرح اٹھائے ہوئے تھے گویا سبحان اللہ پڑھ رہے ہیں۔
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مختون و ناف بریدہ پیدا ہوئے۔رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اپنا بیان ہے کہ میرے رب کی جانب سے میری بزرگی اور کرامت یہ ہے کہ میں ختنہ شدہ پیدا ہوا اور کسی نے میری شرمگاہ نہیں دیکھی۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ جس دن رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پیدا ہوئے اسی شب ایک یہودی نے مکہ معظمہ میں کہا اے جماعت قریش ! کیا تمہارے خاندان میں کوئی لڑکا پیدا ہوا ہے ؟ پھر اس یہودی نے کہا اس رات وہ پیدا ہوں گے جوامت کے نبی ہیں اور ان کے نبی ہونے کی علامت یہ ہے کہ ان کے دونوں کاندھوںکے درمیان مہر نبوت ہے۔ یہ سن کر قریش پھیل گئے اور دریافت پر معلوم کیاکہ حضرت عبداللہ کے فرزند تولد ہوئے ہیں۔ چنانچہ وہ یہودی چند قریش کے ساتھ آپ کی والدہ ماجدہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت آمنہ نے اس یہودی کی خواہش پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دیدار کرایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھتے ہی یہودی غش کھا کر گرا اور پھر کہا اے جماعت قریش!سنو! بنواسرائیل کی نبوت ختم ہوگئی اور اب تم کو ان نبی کے ذریعہ بے حد غلبہ و شوکت حاصل ہوگی اور آپ کی دعوت مشرق سے مغرب تک جاری رہے گی۔
رضاعت
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دودھ پلانے کی سعادت حلیمہ سعدیہ کو حاصل ہوئی۔ خو د فرماتی ہیں میں بنو سعد کے قافلہ کے ساتھ مکہ معظمہ میںاس صورت کے ساتھ داخل ہوئی کہ ایک خشک سالی کے زمانہ میں ہم سب کسی بچہ کو دودھ پلانے کی جستجو میں تھے۔ میری گود میں ایک بچہ تھااور میںایک گدھی پر سوار تھی اور ہمارے ساتھ ایک بوڑھی اونٹنی بھی تھی۔ کیفیت یہ تھی کہ میرے پستان میںاتنا دودھ نہ تھا کہ اپنے بچے کو سیراب کر سکتی اور ساتھ والی اونٹنی بھی اتنا دودھ نہیں دیتی تھی کہ غذا کے کام آسکے۔ ہمارے قافلہ کی ایک عورت نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کودودھ پلانے سے اس لیے انکار کر دیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یتیم ہیں۔ پھر ان میں سے ہر ایک کو مکہ کا ایک بچہ دودھ پلانے کے لیے مل گیا ایک میں بچی تھی میں نے اپنے شوہر سے کہا اللہ کی قسم ! میں یہ امر پسند نہیں کرتی کہ اپنی ساتھ والیوں کے ساتھ اس حال میںواپس چلوں کہ میرے ساتھ کوئی دودھ پینے والا بچہ نہ ہو۔ اس لیے میں اس یتیم بچہ کے ہاں جاتی ہوں اورا سی کو لے لیتی ہوں۔ چنانچہ جب میں حضرت عبداللہ کے گھر گئی تو میں نے دیکھا کہ وہ درِ یتیم ایک صاف شفاف کپڑا اوڑھے ہوئے ہیں ان کے جسم سے مشک کی خوشبو پھوٹی پڑ رہی ہے اور وہ سبز ریشمی بچھونے پر چت لیٹے سو رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا حسن وجمال دیکھ کر میں نے آپ کو بیدار کرنا مناسب نہ سمجھا تاہم آہستہ آہستہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قریب پہنچی اور اپنے دونوںہاتھ آپ کے سینے پر رکھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تبسم فرمایا اور دونوں آنکھیں کھول کر میری طرف نظر فرمائی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آنکھوں سے نور نکلا جس نے آسمانی فضا کو بھر دیا۔ یہ دیکھ کر میں نے آپکی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنا داہنا پستان پیش کیا تو آپ نے جتنا چاہا پیا پھر میں نے بایاں پستان آپ کے منہ کو لگایا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بائیں پستان سے نہ پیا اور اب تک آپ کی یہی کیفیت ہے کہ صرف ایک پستان سے دودھ نوش فرماتے ہیں۔
علماء نے فرمایا اللہ تعالیٰ جل شانہٗ نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بتا دیا تھا کہ آپ کاایک دودھ شریک بھائی بھی ہے اس لیے آپ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عدل و انصاف سے کام لیا۔
حضرت حلیمہ سعدیہ کا بیان ہے کہ ہماری ساتھ والیاں جب بچے کو لے کر مکہ سے چلنے لگیں تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی والدہ ماجدہ سے رخصت ہوکراپنی گدھی پر سوار ہوئی اور آپ میرے ہاتھوں میں تھے۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ میری گدھی نے کعبہ کی جانب تین مرتبہ سجدہ کیا اور پھر وہ سر اٹھا کر چلنے لگی اس کی تیزرفتاری کی یہ حالت تھی کہ جو سواریاں آگے نکل گئی تھیں میری گدھی ان سے بھی آگے نکل گئی۔ یہ دیکھ کر قافلہ کی عورتوں نے تعجب کیا ’’ اس کی بڑی شان ہے ‘‘ ہمارے قبیلہ کی سرزمین ہی سب سے زیادہ قحط سالی کاشکار تھی لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو لانے کے بعد ہی صبح کو دیکھا کہ ہماری بکریو ں کے تھن دودھ سے پھٹے پڑے ہیں۔ چنانچہ ہم دوہتے اور خوب پیتے اس کے برعکس دوسرے لوگوں کی کیفیت یہ تھی کہ کوئی ان کا دودھ دوھ ہی نہ سکتا کیونکہ ان کے جانور کے تھنوں میں دودھ کا کوئی قطرہ ہی نہ ہوتا۔ حلیمہ اسی طرح ہمیشہ خیرو سعادت حاصل کرتی رہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی برکتوں سے بخوبی فیض یاب ہوتی رہیں۔
حلیمہ سعدیہ نے بتایا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا جب میں نے دودھ چھڑایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سب سے پہلا کلمہ یہ ادا فرمایا:
اَللّٰہُ اَکْبَرُ کَبِیْراً وَالْحَمْدُ للّٰہِ حَمْدًا کَثِیْراً وَسُبْحَانَ اللّٰہِ بُکْرَۃً وَّ اَصِیْلاً
پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کچھ عمر ہوئی تو باہر جانے لگے لیکن جب دوسرے بچوں کو کھیلتے دیکھتے تو ان میں نہ کھیلتے بلکہ ان سے علیحدہ رہتے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جناب حلیمہ سعدیہ کبھی بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس لیے تنہا نہ چھوڑتی تھیں کہ کہیں آپ دور نہ چلے جائیں۔ ایک دن آپ اپنی دودھ شریک بہن شیما کے ساتھ دوپہر کے وقت مویشیوں میں چلے گئے اور حلیمہ سعدیہ آپ کو تلاش کرتی ہوئی وہاں پہنچیں جہاں بھائی بہن دونوں موجود تھے۔ آتے ہی کہا اے نورِ درخشاں! آپ اتنی دھوپ میں باہر تشریف لائے جس کے جواب میں شیما نے کہا اماں جان! میرے بھائی دھوپ میں نہیں آئے میں نے خود دیکھا ہے کہ بادل کا ایک ٹکڑا آپ پر سایہ فگن تھا۔ جب آپ چلتے تھے تووہ بادل بھی چلتا اور جب آپ ٹھہر جاتے تو وہ بادل آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سرپر ٹھہرا رہتا تاآنکہ اس بادل کے سایہ میں ہم یہاں آگئے۔
شقِ صدر
حضرت حلیمہ کا بیان ہے کہ ایک دن آپ کا رضاعی بھائی دوڑتا ہوا آیااور کہامیرے ان قریشی بھائی کے پاس دو سفید پوش آئے اور انہوں نے آپ کا سینہ چاک کیا۔
اس واقعہ شقِ صدر کے بعد اس خوف سے کہیں آپ کی والدہ ماجدہ کو اس کی اطلاع دوسروں سے نہ مل جائے آپ کو لیے آپ کی والدہ ماجدہ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور پورا ماجرا کہا جسے سن کر مادر مشفقہ نے فرمایا۔ شاید تمہیں ان پر شیطان کے قابو پانے کاخوف ہے اللہ کی قسم ! آپ پر شیطان کا ہرگز ہرگز کوئی اثر نہیں ہوسکتا اور میرے بیٹے کی تو شان ہی انوکھی ہے۔
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سینہ مبارک کے شق ہونے اور قلب اطہر کودھونے کا واقعہ چار مرتبہ ہوا۔
پہلی مرتبہ اس وقت جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قبیلہ سعد میں اپنے رضاعی بھائی کے ساتھ مکان کے پچھواڑے تھے اور کم سن تھے۔
دوسری مرتبہ اس وقت جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عمر دس سال تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جنگل میں تھے۔ سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا یہ واقعہ احکام نبوت کی ابتدائی منزل تھی۔
تیسری مرتبہ جب آپ کو نبوت کا تاج پہنایا گیا۔ چوتھی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا شقِ صدر شبِ معراج میں ہوا۔
کئی احادیث میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قلب اطہر کو سونے کے طشت میں رکھ کر آبِ زم زم سے غسل دیا گیا۔ ان تمام احادیث سے یہ امر ثابت ہے کہ جنت کے پانی کی نسبت آبِ زم زم زیادہ افضل اور پاکیزہ ہے ۔ ورنہ جنت کے پانی ہی سے غسل دیا جاتا۔
سفرِ شام
12 سال کی عمر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے چچا خواجہ ابوطالب کے ساتھ مکہ سے سفرِ شام کے لیے روانہ ہوئے اور جب آجرہ پہنچے تو آپ کو بحیریٰ راہب نے جس کا نام جرجیس تھا دیکھ کر پہچان لیا اور آپ کادست مبارک پکڑ کر کہا یہ سرورِ دو عالم ہیں انہیں اللہ نے نبی بنا کر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنایا ہے ۔ پھر اس سے پوچھا گیا کہ تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا تو اس نے جواباً کہا آپ سب لوگ عقبہ کی پہاڑی پر آئے تو ہر ایک شجرو حجر نے ان کو سجدہ کیا اور شجر و حجر صرف نبی اللہ کو سجدہ کرتے ہیں اور میں تو آپ کی مہر نبوت کو بھی پہچانتا ہوں جو آپ کی پشت پر آپ کے کندھے کی نرم ہڈی کے پاس ایک سیب کی مانند ہے اور یہ تمام علامات نبوت میں نے کتب قدیم میں پڑھی ہیں۔
شادی
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ و سلم نے بعمر 25 سال حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ جن کی عمر40 سال تھی عقد فرمایا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو زمانہ جاہلیت میں طاہرہ کے نام سے پکاراجاتا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مہر بیس سرخ اونٹ مقرر فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محفل عقد میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور قبیلہ خضر کے رئیس وسردار شریک تھے۔
نبوت
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عمر جب 40 سال کی ہوئی تو پیر کے دن 17 یا 24 رمضان کو اللہ نے آپ کو رحمۃ للعالمین اورتمام جنات اور انسانوں کی طرف رسول بنایا۔
تاریخ انسانی کا یہ انوکھا انقلاب ہے جس میں قائد اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی جدوجہد کے نتائج دیکھتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک انقلابی تحریک چلا رہے تھے کیونکہ اس کا مقصد حق غالب کرنا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖط وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا
’’ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو سیدھی راہ اور سچا دین دے کر بھیجا کہ اس دین کو ہر ایک دین پر غالب کردے اور اللہ حق ثابت کر دینے کے لیے کافی ہے۔ ‘‘
خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کو تمام دینوں پر غلبہ دیا جس نے سنا اسے یقین ہوگیا کہ یہ دین سچا ہے۔
ارشاد الٰہی ہے:
اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِ ط اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاط
’’ آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہوگئے تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو آج ہم نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لیے اسلام کو پسند کرلیا۔ ‘‘
ڈاکٹر حمیداللہ کے بقول عہد نبوی میں دس سال میں دس لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح ہوا جس میں یقیناً کئی ملین آبادی تھی۔ اس طرح روزانہ تقریباً 274 مربع میل کے اوسط سے دس سال سے فتوحات کا سلسلہ ہجرت سے وفات تک جاری رہا۔ ان فتوحات میں دشمن کا ماہانہ ایک آدمی قتل ہوا۔ اسلامی فوج کا نقصان اس سے بھی کم ہے۔
ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے:
انا نبی الرحمہ
میں رحمت کا پیغمبر ہوں۔
اسکا اس سے بہتر کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ دشمن کے 70آدمیوں کا مارا جانا سب سے بڑی تعداد ہے ۔ یاد رہے کہ یہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس دنیا کے سب سے بڑے انقلابی ہیں کیونکہ آپ نے طاغوتی نظام بدل کر الٰہی نظام قائم کیا اور کفر کے سیاسی غلبے کو مٹاکر اسلام کو غالب قوت کے طورپر مستحکم کیا۔
علالت
روایت ہے کہ بدھ کے دن 28 صفر 11ھ؁ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سرمبارک میں جبکہ حضرت میمونہ کے دولت کدہ میں تشریف فرما تھے درد کی ابتداء ہوئی۔
مرض لاحق ہونے کے دن سے پہلی والی رات کا واقعہ ہے کہ آپ بقیع (مشہور قبرستان) تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے غلام ابو مویہبہ کا بیا ن ہے ۔ رات کے وقت سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مجھے طلب کرکے فرمایا ا ے ابو امویہبہ مجھے حکم دیا گیا کہ بقیع کے مدفونوں کے لیے دعائے مغفرت کروں تم میرے ساتھ چلو۔
چنانچہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ چلا …اس کے بعد سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا اے ابو مویہبہ اللہ نے مجھے اختیار دیا ہے کہ تمام دنیاوی خزانوں کی کنجیاں لے لوں اور ہمیشہ ہمیشہ اس دنیا میں رہوں اور چاہے جنت کو سدھاروں اور وصال رب حاصل کروں۔
اس پر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم )میرے ماں باپ آپ پر قربان دنیا کے خزانوں کی کنجیاں لے کر ہمیشہ ہمیشہ دنیا میں رہئے اور پھر جنت بھی لے لیجئے گا۔ یہ سن کر ارشاد عالی ہوا۔ نہیں ابو مویہبہ ! اللہ کی قسم میں نے تو وصال رب اور جنت کو پسند کرلیا ہے۔
روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بے انتہا شدید بخار تھا اور بخار کی تیزی کی وجہ سے کسی کا ہاتھ جسم اطہر پر ٹھہر نہیں سکتا تھا۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کسی نبی کو اتنی زیادہ تکلیف نہیں ہوئی جتنا مجھ پر تکلیفوں کا بار ہے اور اللہ نے اتنا ہی ہمارے لیے ثواب بھی زیادہ مقرر کردیا ہے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو سخت بخار چڑھا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) آپ کو شدید بخار ہے۔ ارشاد فرمایا ہاں مجھے اتنا بخار ہے جتنا تم دوآدمیوں کو ہوتا ہے۔ میں نے عرض کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کیلئے دگنا ثواب مقررہے؟ فرمایا ہاں یہی بات ہے اور اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ جب کسی کو کانٹا چبھے یا اس سے کم و بیش تکلیف پہنچے تو اسی قدر اللہ اس مسلمان کے گناہوں کا اس تکلیف کو کفارہ بنا دیتا ہے۔ جس کی مثال ایسی ہے جیسے درخت اپنے پتے گرا دیتا ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے زیادہ کسی پر میں نے مرض کی شدت و تکلیف نہیں دیکھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ مرض کا ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ بحالت علالت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دورانِ خطبہ فرمایا اللہ نے بندہ کو اختیار دیا تھا کہ دنیا کو پسند کرے یا اللہ کے پاس چلا جائے اس پر بندہ نے اللہ کے پاس جانا منظور کرلیا ہے۔ یہ سن کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رو دیئے۔ لوگوں نے آپ کے گریہ پر اظہارِ تعجب کیا کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تو یہی فرمایا تھا کہ اللہ نے ایک بندہ کو اختیار دیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی ذہانت سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رحلت اس جملہ سے معلوم کرلی۔
ایک روایت ہے کہ بزمانۂ علالت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 40 غلام آزادکئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جملہ بارہ دن علیل رہے بقول بعض 18 دن۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے زمانۂ علالت میں فرمایا مسجد میں آمدورفت کے تمام دروازے سوائے ابوبکر کے دروازہ کے بند کر دو کیونکہ صحابہ میں منجملہ میرے نزدیک ابوبکر ہی سب سے زیادہ احسان کرنے والے ہیں۔ ایک روایت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ابوبکر کی کھڑکی کے علاوہ میری طرف مسجد میں کھلنے والی تمام کھڑکیاں بندکردو۔
اسی علالت کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے چپکے سے کچھ کہا تو وہ رونے لگیں ٗ پھر چپکے سے کچھ اور کہا تو وہ ہنسنے لگیں۔ اس پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا تو کہا میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا راز افشا کرنا نہیں چاہتی۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رحلت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد جناب فاطمہ سے بوقت واحد گریہ و خنداں کا سبب پوچھا تو انہوںنے جواباً کہارسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پہلی مرتبہ مجھ سے کہا تھا کہ ’’ جبرئیل علیہ السلام ہر سال تین مرتبہ مجھے قرآن سناتے تھے اور اس مرتبہ صرف دو قرآن سنائے ہیں اس سے یہ پایا جاتا ہے کہ میرا وقت اب پورا ہو چکا ہے۔ اور میرے اہل بیت میں سے تم سب سے پہلے مجھ سے آملو گی اور میں تمہارا بہترین پیشرو ہوں۔ ‘‘ یہ سن کر مجھ پر گریہ طاری ہوگیا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ خوش ہوجاؤ تم میری امت کی خواتین کی سردار ہو۔ ‘‘ اس پر میںخوش ہوگئی اور ہنسنے لگی۔
شدت مرض کے زمانہ میں وصال سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مسواک کیا۔ ایک روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی ہرعلالت کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے حضور عافیت و صحت کے لیے دست دعا بلند فرمائے لیکن مرض الموت کے زمانہ میں شفاء کے لیے دعا نہیں کی بلکہ اپنی جان پر سختی برداشت کرتے اور فرماتے اے نفس تیری عجیب کیفیت ہے تو ہر آن بیماری سے پناہ کا مطالبہ کر رہا ہے۔
امامت
ابتدائی علالت کے دوران آپ نماز پڑھاتے رہے البتہ آخری تین دن آپ نے امامت نہیں فرمائی۔ بعض کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سترہ وقت کی نماز اپنی علالت کے آخری زمانہ میں نہیں پڑھائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس نماز کے وقت جس میں امامت نہیں فرمائی جب اذان ہوئی تو فرمایا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہو وہ امامت کریں اور لوگوں کو نماز پڑھائیں اور یہ نماز عشاء تھی۔
ایک روایت ہے کہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اذان دینے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قیام گاہ کے دروازہ پر جا کر کھڑے ہو ئے اور کہا السلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ! آپ پر اللہ کی رحمتیں ہوں۔ جواب میں ارشاد عالی ہوا جاؤ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہو وہ امامت کریں۔ چنانچہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے اپنا سر پکڑے باہر آئے اور کہا ہائے فریاد میری آرزوئیں پامال ہوگئیں اور میری کمر ٹوٹ گئی ٗ کاش میں پیدا ہی نہ ہوتا اور اگر پیدا ہوتا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ حالت علالت نہ دیکھتا۔ اس کے بعد وہ مسجد میں آئے اور کہا اے ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ! آپ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے حکم دیا ہے کہ آپ امامت کریں۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب مسجد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نہ دیکھا تو غش کھا کر گر پڑے کیونکہ وہ بڑے نرم دل تھے اور مسجد کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے خالی دیکھنا برداشت نہ کرسکے۔ اس پر عام لوگوں نے آہ وفغاں کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے شور سن کر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا یہ غل کیسا ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ آپ کی عدم موجودگی میں مسجد میں لوگ آ و فغاں کر رہے تھے۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت علی و ابن عباس رضی اللہ تعالی ٰعنہما کو طلب فرمایا اور ان کے کندھے کے سہارے مسجد میں تشریف فرما ہو کر نماز پڑھائی۔ پھر ارشاد فرمایا: ’’ اے مسلمانو! اللہ تمہارا حافظ و نگہبان ہے۔ بخدامیں تم پر ایک خلیفہ مقرر کررہا ہوں۔ اللہ سے ڈرو اور اس کی اطاعت سے کسی صورت انحراف نہ کرنا اور میں عنقریب دنیاچھوڑنے والا ہوں۔ ‘‘
بعض لوگوں کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم جب دردِ دولت سے مسجد میں تشریف لائے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی للہ تعالیٰ عنہ نماز پڑھا رہے تھے۔ لوگوں نے آپ کو آگے آنے کے لیے جگہ دی اس سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تشریف آوری محسوس ہوئی اور آپ مصلیٰ سے پیچھے ہٹنے لگے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے آپ کی پیٹھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا لوگوں کی امامت کرتے رہو اور خود حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھ گئے اور صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دائیں جانب کھڑے ہوئے نماز پڑھاتے رہے۔
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبانی بیان کیاجاتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی امت میں سے صرف ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی اور ایک مرتبہ دورانِ سفر عبدالرحمن بن عوف کے پیچھے بھی ایک رکعت پڑھی۔ پھر ارشاد فرمایا کسی نبی نے اس وقت تک رحلت نہیں کی جب تک اپنی امت کے کسی صالح شخص کے پیچھے نماز نہ پڑھ لی ہو۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبانی مرقوم ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امامت تفویض فرمائی جنہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور یہ واقعہ میری موجودگی کا ہے۔ مجھے کسی قسم کی بیماری وغیرہ نہ تھی بلکہ میں تندرست تھا۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اگر مجھے آگے بڑھاتے تو میں امامت کرتا لیکن اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مذہبی امور کی انجام دہی میں خوش تھے اس لیے ہم نے اپنے دنیاوی معاملات کی انجام دہی میں بھی ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اظہار رضا مندی کیا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آخر وقت میں امامِ نماز بنانے کی روایت بکثرت راویوں نے روایت کی ہے۔ محدثین نے اس کو متواتر لکھا ہے اس آخری وقت کے علاوہ بھی جب کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خود امامت نہ کرسکتے تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کو امامت کاحکم دیتے۔ جب آپ قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں صلح کرانے کو تشریف لے گئے توحضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرما گئے کہ نماز کا وقت ہو جائے تو ابوبکر کو امام بنانا۔ غزوۂ تبوک میں لشکر کا جائزہ لیتے ہوئے بھی ایسا ہی ہوا۔
وصال
حضرت عبداللہ بن مسعودکا بیان ہے کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے وصال سے ایک ماہ قبل ہمیں اپنے وصال کی اطلاع دے دی تھی۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جس دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہمارے ہاں مدینہ میں تشریف فرما ہوئے وہ دن بہترین دن اور نہایت تاباں و درخشاں تھا اور جس دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہم کو داغِ مفارقت دیا یہ دن نہایت تاریک و غمناک تھا۔ جس دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مدینہ میں تشریف فرما ہوئے تھے تو اس دن مدینہ کی ہر چیز منور ہوگئی تھی اور جس دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ملک الموت کو لبیک کہا اس دن ہر چیز تاریک ہو گئی تھی اورلوگوں کی یہ کیفیت ہوئی کہ ابھی ہم تدفین میں مصروف تھے اور ہم نے اپنے ہاتھوں کی مٹی تک نہ جھاڑی تھی کہ لوگوں کے دل پھر گئے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کابیان ہے کہ اللہ کی مجھ پر یہ نعمت ہوئی کہ میرے گھر میں میری باری کے دن میری گود میں میرے سینہ پر رسالت مآب ؐ نے وصال فرمایا۔ ایک روایت میں ہے کہ میری ٹھوڑی اور میری گردن پر آپ نے سہارا لے کر وصال فرمایا اور اللہ نے میرا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا لعاب دہن وصال الٰہی سے پہلے ایک جا کیا وہ اس طرح کہ میرے بھائی عبدالرحمن بن سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ہاتھ میں مسواک لیے میرے گھر آئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میری گود میں آرام فرما رہے تھے میں نے دیکھا کہ بھائی عبدالرحمن کی مسواک کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دیکھ رہے ہیں میں نے محسوس کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مسواک چاہتے ہیں۔ چنانچہ میں نے کہا یا رسول ا للہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) مسواک پیش کروں؟ تو سر کے اشارہ سے کہا ہاں۔ غرضیکہ میں نے وہ مسواک پیش کی اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو سخت معلوم ہوئی تو میں نے کہا اسے نرم کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سر کے اشارہ سے فرمایا ہاں۔ چنانچہ میں نے ملائم کر دی۔ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مسواک کی۔
نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس ایک برتن میں پانی رکھا ہوا تھا جس میں ہاتھ ڈالتے اور چہرہ پر ہاتھ پھیرتے اور لا الٰہ الا اللہ کہتے اور فرماتے موت کے وقت سکرات ہوتی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہاتھ اونچے کرکے فرمانے لگے : رفیق اعلیٰ رفیق اعلیٰ تاآنکہ روح پرواز ہوئی اور دست مبارک زمین پر آرہے۔
ابولہب کی باندیوں میں سے ثوبیہ نے ابولہب کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولادت کی خوشخبری دی جسے سن کر ابولہب نے اپنی اس لونڈی ثوبیہ کو آزاد کر دیا۔ ابولہب کے مرنے کے بعد اس کے کسی ساتھی نے اسے خواب میں دیکھ کر اس کا حال پوچھا تو جواب دیا جہنم میں پڑا ہوں البتہ اتنا ضرور ہے کہ ہر پیر کی رات کو عذاب میں تخفیف ہو جاتی ہے اور اپنی ان دو انگلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان انگلیوں سے میں نے اپنی لونڈی ثو بیہ کو آزاد کیا تھا اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خوشخبری دی تھی اس صلہ میں ان دونوں سے کچھ پانی پی لیتا ہوں۔
شدت مرض کے زمانہ کا ایک واقعہ یہ ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال سے تین دن پہلے تک جبرئیل علیہ السلام روزانہ آتے اور مزاج پرسی کرتے تھے یعنی ہفتہ اتوار اور پیر کے دن مسلسل آتے رہے اور اسی پیر کے دن ملک الموت بھی اجازت لے کر دولت کدہ کے اندر داخل ہوئے۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مرض الموت کے زمانہ میں جبرئیل علیہ السلام نے حاضری دے کرکہا اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو سلام کہا ہے اور مزاج پرسی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جواباً کہا اے اللہ کے امین میں علیل ہوں۔
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ چالیس سال کی عمر میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی یعنی تاج نبوت سے سرفراز فرمایاگیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تیرہ سال مکہ اور دس سال مدینہ میں قیام فرما رہے اور 63 سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے داعی اجل کو لبیک کہا۔
اسی طرح صحیح روایت یہ ہے کہ ابوبکر صدیق و عمر فاروق اورحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے 63 سال کی عمر پائی۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بوقت وصال الٰہی یہ وصیت فرمائی کہ نماز پڑھتے رہو اور غلاموں کے حقوق ملحوظ رکھو۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بوقت وصال فرمایا ’’ اے اللہ مجھے اپنی رحمتوں میں لے لے اور اے ملک الموت مجھے رفیق اعلیٰ سے ملا دے۔ ’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے یہ آخری کلمات میں نے اپنے کانوں سے خود سنے ہیں۔
حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے وقت میں نے اپنا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سینہ انور پر رکھا تھا باوجود یکہ میں کھانا بھی کھاتی ہوں اور وضو بھی کرتی ہوں لیکن اب تک میرے ہاتھ سے مشک آمیز خوشبو نہیں گئی ہے۔
وصال رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر صحابہ کی ردعمل
بوقت وصال رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رونے کی آوازوں اور فرشتوں کی تسبیح کا غل تھا۔ اکثر صحابہ کا بیان ہے کہ لوگ مدہوش و حواس باختہ تھے۔ بعض دیوانے نظر آتے ۔ بعض سکتہ کے عالم میں خاموش تھے اور بعض فرشِ زمین پر تڑپ رہے تھے۔
ایک روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب سے زیادہ ثابت قدم تھے لیکن جب اندر آئے تو رو رہے تھے اور سانس اکھڑی ہوئی معلوم ہو رہی تھی لیکن جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس حاضری دی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر جھک گئے اور چہرہ اقدس سے چادر اٹھا کر کہا اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آپ کی زندگی و وصال دونوں پاکیزہ و صد آفریں ۔ آپ کے تشریف لے جانے سے وہ خیر منقطع ہوگئی جو دوسرے انبیاء علیہم السلام کی وفات سے منقطع نہیں ہوئی تھی۔ اے حبیب ! صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آپ تعریف و توصیف سے بالاتر اور گریہ وزاری سے بلند ہیں۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رحلت پر اختیار ہوتا تو ہم یقین سے کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رحلت کے عوض ہم اپنی جانیں قربان کردیتے اے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بارگاہِ الٰہی میں ہمیں یاد رکھئے اور خاطر عالی میں ہمارا خیال رکھئے۔
ایک روایت یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ننگی تلوار ہاتھ میں لیے فرما رہے تھے ۔ اگر میں نے کسی کو یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم انتقال کر گئے تو اس شمشیربراّن سے اس کی گردن اڑادوں گا۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ کیفیت تھی کہ وہ بالکل گم سم ہو کر رہ گئے تھے۔ انہیں بعض لوگ ادھر ادھر لے جاتے تھے لیکن بالکل گنگ تھے اور کوئی با ت ان کی زبان سے نہ نکلتی تھی اور ان پر یہ کیفیت دوسرے دن تک رہی۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے حس و حرکت ہو کر بیٹھ گئے۔
عبداللہ بن انیس رنج و الم میں ایسے علیل ہوئے کہ آپ کے غم میں گھل گھل کر انتقال کیا۔
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب دولت کدہ عالی سے باہر آئے تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں سے خطاب کر رہے تھے۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا عمر بیٹھ جائیے لیکن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انکار کیا تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کی جانب متوجہ ہو کرکہا۔ تم میں سے جو کوئی محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پرستش کرتا تھا سن لے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وصال ہو چکا ہے اور جو شخص اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ بھی سن لے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے کبھی موت نہیں آئے گی اور اللہ نے خود کہاہے:
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌ ج قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ۔
’’ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم )تو اللہ کے رسول ہیں اور آپ سے پہلے اکثر رسول گزر چکے ہیں۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم لوگوں نے آیت متذکرہ بالا کی موجودگی کو شاید طاق نسیاں بنا دیا تھا جس کی یاددہانی کے لیے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آیت تلاوت کی۔
صحیح بخاری میں ہے کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خطبہ دینے لگے تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھ گئے۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حمد و صلوٰۃ کے بعد کہا اچھی طرح سن لو جو کوئی حضور انور محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پرستش کرتا تھا وہ بخوبی یقین کرلے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے وصال فرمایا اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا وہ بھی بخوبی یقین کرلے کہ اللہ تعالیٰ زندہ و پائندہ ہے اور اسے کبھی موت نہیں آئے گی پھر یہ آیات تلاوت فرمائیں۔
اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّھُمْ مَّیِّتُوْنَ
’’ یقیناً آپ کو بھی موت سے دو چار ہونا ہے اور ان کو بھی مرنا ہے۔ ‘‘
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌ ج قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ۔
’’ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور آپ سے پہلے رسول گزر چکے ہیں۔ ‘‘
اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خطبہ کے دوران میں لوگوں کی روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں۔
جب آپ کو سپرد زمین کیا جا چکا تو جناب فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مزار اقدس پر آئیں اور کہا تمہارے دلوں نے کس طرح قبول کرلیا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر مٹی ڈالو … جناب فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا گریہ وزاری کرنے لگیں اور فرماتی تھیں اے ابا جان ! ہائے رسول اللہ ہائے نبی رحمت ٗ اب وحی نہیں آئے گی ۔ اب جبرئیل کی آمد ختم ہوگئی۔ اے اللہ ! میری روح کو سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی روح سے ملادے۔ آپ کے دیدارسے میری آنکھوں کو سیراب کر دے اور قیامت کے دن آپ کی شفاعت سے محروم نہ رکھ۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا گریہ اپنے حقیقی والد محترم فخرکائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جدائی پر تھا۔ آپ نے کوئی ماتم اس لیے نہیں کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے جس نے سینہ کوبی کی وہ جہنم میں گیا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے سے حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کا یقین ہوا تو اپنے قول سے رجوع کیا اور بہ صد گریہ وزاری کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) میرے ماں باپ آپ پر قربان وہ کھجور کا ٹھنٹھ جس پر سہارا دے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خطبہ دیا کرتے تھے لوگوں کی اکثریت تعداد کے پیش نظر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک نیا منبر بنوا کر خطبہ دینا شروع کیا تو وہ ٹھنٹھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جدائی کے سبب رونے لگا تھا اور از راہ مہربانی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنا دست مبارک رکھا تو اسکا رونا بند ہوا۔ اس واقعہ کے پیش نظر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فراق میں گریہ وزاری کرنے کی زیادہ مستحق ہے۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر قربان۔
اللہ کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کادرجہ بہت بلند وبالا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری کو اس نے اپنی اطاعت بنا دیا اور صاف کہہ دیا ’’ جس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت کی اس نے یقیناً اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔ ‘‘
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ اللہ کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا درجہ بہت بلند و بالا ہے جس کاایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کو تمام انبیاء علیہم السلام کے بعد مبعوث فرمایا آپ صلی اللہ علیہ آلہٖ وسلم کی اولیت کو یوں بیان کیا ہے:
وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَھُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُّوْحٍ
یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ اللہ کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا مرتبہ نہایت بلند و بالا ہے جس کاایک ثبوت یہ بھی ہے کہ دوزخی تک یہ تمنا کریں گے اے کاش ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت کرتے اور دوزخی اس وقت جبکہ دوزخ کے اندر عذاب میں گرفتار ہوں گے یوں اظہار تمنا کریں گے کاش ہم نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فرمانبردار ہوتے۔
روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے بعد حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اذان دینے میں جب اشھد ان محمدا رسول اللّٰہ (شہادت دیتا ہوں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں) کہتے تو گریہ و زاری سے پوری مسجد گونجنے لگتی اور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تدفین کے بعد حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اذان دینا چھوڑ دیا تھا۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جدائی پر مرثیہ لکھا جس کے دو شعر یہ ہیں:
اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب سے آپ ہم سے جدا ہوئے تب سے وحی الٰہی نے بھی ہمیں چھوڑ دیا اور اللہ کے کلام سے بھی ہم محروم ہوگئے۔ البتہ وہ کلام پاک ہمارے پاس موجود ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مکرم کاغذوں پر مرقوم چھوڑ گئے ہیں۔
حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فراق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں ایک مرثیہ کے دو شعر یہ ہیں:
کنت السواد لناظری
اے محبوب! آپ ہماری نگاہوں کی روشنی تھے۔
فعمیٰ علیک النّاظر
اب آپ کے جمال جہاں آرا کے دیدار سے ہماری آنکھیںاندھی ہوگئیں۔
من شاء بعد ک فلیمت
آپ کے بعد اب جو چاہے مرے مجھے کوئیپرواہ نہیں ۔
فعلیک کنت احاذر
مجھے تو آپ کی رحلت کا ہی خوف دامنگیر تھا۔
غسل شریف
سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے بعد جب تمام لوگ امرِ خلافت پر مجتمع ہوگئے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ مان کر آپ کی خلافتِ حقہ پر بیعت کر چکے تو تمام صحابہ کرام غسل شریف اور تجہیز وتکفین کی جانب متوجہ ہوئے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے رسالت مآب کے غسل شریف پر لوگوں کا باہمی اختلاف ہوا کہ آپ کو لباس پہنیں غسل دیں یا لباس اتار کر۔ جب اختلاف باہمی نے شدت اختیار کی تو ہم سب پر نیند غالب آگئی اور حالت یہ ہوئی کہ ہر ایک کی ٹھوڑی اس کے سینہ سے لگ گئی۔ اتنے میں ہمارے گھر کے کونہ سے آواز آئی اور ہمیں نہیں معلوم کہ کہنے والا کون تھا جس نے کہا رسالت مآب کو لبا س پہنے ہوئے غسل دو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو لباس پہنے پہنے ہی غسل دیا اور بوقت غسل آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قمیض زیب تن کئے ہوئے تھے۔ مشکوٰۃ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اوپر سے پانی ڈالا گیا اور قمیض ہی کے ذریعے جسم اطہر کو ملا گیا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس پانی سے جن میں بیری کے پتے تھے آپ کو غسل دے رہے تھے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جسم اطہر سے وہ چیز دکھائی نہ دی جو عام مردوں کے جسم سے دکھائی دیتی ہے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر میرے ماںباپ قربان ٗ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیات و ممات دونوں بہت پاکیزہ ہیں۔
بوقت غسل جب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حلقہ چشم پر پانی رہ جاتا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی زبان سے پی لیا کرتے تھے۔ کسی نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے فہم و ادراک اورقوی الحافظہ ہونے کا سبب پوچھا تو جواب دیا رسول اکرم کو غسل دیتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حلقۂ چشم میں جو پانی رہ جاتا تھا میں اسے اپنی زبان سے چوس کر پی جاتا تھا اور میری دانست میں اسی کی برکت سے قوت حافظہ عطا ہوئی۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو غسل دیا اور بوقت غسل شریف آواز آئی اے علی ! اپنی نگاہ آسمان کی طرف کرلو۔
نماز جنازہ
ایک روایت میں ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے وصیت فرمائی تھی کہ سب سے پہلے مجھ پر میرا رب صلوٰۃ پڑھے گا پھر جبرئیل ٗمیکائیل ٗ اسرافیل یکے بعد دیگرے اور پھر ملک الموت اپنے لشکر سمیت پھر دوسرے فرشتے گروہ در گروہ آ آ کر صلوٰۃ و درود پڑھیں گے۔
امام محمد نے لکھا ہے کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نماز جنازہ لوگوں نے فرداً فرداً پڑھی نماز جنازہ کسی امام کے ساتھ باجماعت نہیں پڑھی گئی۔
حجرہ مبارک تنگ تھا اس لیے دس دس شخص اندر جاتے تھے جب وہ فارغ ہو کر باہر آتے تب اور دس اندر جاتے یہ سلسلہ لگاتار شب و روز جاری رہا۔ ترمذی کی روایت سے ظاہر ہے کہ نماز جنازہ اداکرنے کی یہ تجویز حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتائی تھی اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے اتفاق فرمایا تھا۔ نماز جنازہ پہلے کنبہ والوں نے پھر مہاجرین نے پھر انصار نے مردوں نے اور عوتوں نے ٗ پھر بچوں نے ادا کی۔ اس لیے تدفین مبارک شب چہار شنبہ کو یعنی رحلت سے تقریباً 32 گھنٹے بعد عمل میں آئی۔ اسلامی تاریخ بعد از غروب شروع ہوتی ہے۔ میں نے اس لیے منگل اور بدھ کی درمیانی شب کو شب چہار شنبہ لکھا ہے اور ملا باقر صاحب نے اسی کو تاشام سہ شنبہ تحریر فرمایا ہے۔ صحت تعین وقت کے لیے گھنٹوں کا شمارکیا گیا۔ ( رحمۃ للعالمین 279ٗ 280)
سہ شنبہ 13ربیع الاول 11ھ ؁ مطابق 632ء؁ کو کونین کی دولت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجرہ کی پاک و مطہر زمین کے سپردہوئی۔
(انسان کامل 71)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے انوار کدہ کے اندر لوگ گروہ در گروہ آتے اور بعد درود و صلوٰۃ واپس ہوجاتے۔
تدفین رسول اکرم ﷺ میں تاخیرکیوں؟
سوال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تدفین میں تاخیرکیوں کی گئی حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اہل بیت نے جب اپنی کسی میت کی تدفین میں تعویق کی تھی تو فرمایا تھا میت دفن کرنے میں جلد کرو دیر نہ لگاؤ۔
آپ صلی ا للہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رحلت پر سب متفق نہ تھے ایک روایت میں ہے کہ بوقت وصال سرور عالم لوگ مختلف الرائے ہوگئے۔ بعض آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات اور بعض دوبارہ زندہ ہو کر آنے کے قائل بن گئے۔ ( مومن کے ماہ و وسال ص 104)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال پر لوگ گریہ وزاری کرنے لگے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد میں کھڑے ہوکر فرمایا۔ آئندہ تمہارے یہ الفاظ میرے کانوں تک نہ آئیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے رحلت کی۔ سنو! آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ کے پاس اسی طرح تشریف لے گئے ہیں جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام ابن عمران اپنی قوم سے چالیس دن تک پوشیدہ رہ کر اللہ کے پاس گئے تھے۔اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے قائل ہیں اللہ کی قسم ! ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے جائیں گے۔
مقام دفن پر اختلاف تھا کہ کس مقام پر سپرد زمین کیاجائے بعض کہتے مکہ میں تدفین کی جائے اور بعض مدینہ طیبہ میں۔ بعض کہتے قدس میں اوربعض جنت البقیع میں۔ ان تمام اختلاف آرا کی موجودگی میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ہر نبی کی اسی جگہ قبر بنائی گئی جہاں اس نے وصال کیا۔ اور ایک روایت یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اللہ نے ہر نبی کو اسی جگہ موت سے ہم آغوش کیا جہاں اس کی خواہش تدفین تھی۔ ان احادیث کے پیش نظر جس جگہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ملک الموت کو لبیک کہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بستر کو ہٹاکر اسی جگہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے قبر مبارک تیار کی گئی۔
تاخیر کاایک سبب مہاجرین وانصار میں خلافت کی حوالگی پر باہمی اختلاف تھا۔
ماخذجات
٭… مومن کے ماہ وسال
ترجمہ: مولانا اقبال الدین صاحب
٭ رحمۃ للعالمین ﷺ جلد اول
مولانا سلیمان منصورپوری رحمۃ اللہ علیہ
٭ جدید سیرۃ النبی ﷺ
٭ انسان کامل
خالد علوی