فی زمانہ اضطراب عام ہے اور ہمارے معاشرے کا ہر فرد اس سے دو چار ہے۔ ہم روحانی طور پر مفلوج ہیں۔ ہمارے ذہن پریشان ہیں اور ہماری روحیں اذیت ناک اضطراب میں مبتلا ہیں۔ باشعور لوگوںکاخیال ہے کہ تمام خرابیوں کی بنیاد دو کیفیات ہیں یا دو اسباب ہیں۔ پہلی چیز اللہ تعالیٰ جل شانہٗ سے بے تعلقی اور غفلت اور دوسرے دنیوی انہماک یا اتباع ہوٰی۔ ظلم سنگدلی ٗ خودغرضی ٗ لالچ ٗ حرص و ہوس سب انہی دو کے نتائج ہیں۔ اللہ تعالیٰ جل شانہٗ سے غفلت اور اتباع ہوٰی کی وجہ سے ہمارا معاشرہ مفلوج ہو رہا ہے۔ ہم بگاڑ کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
اس کا مداوا صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم اس مثالی زندگی کوعملی طورپر اپنا لیں جسے پوری انسانیت کارہنما قرار دیا گیا ہے۔ سیرت کی تشکیل اورشخصیت کی تعمیرکے لیے یہی ذات منبع فیض ہے۔ مسلمان صوفیا کے نزدیک انسان کامل محمد کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات گرامی ہے کیونکہ قرب الٰہی کاجو مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کو حاصل ہے وہ کسی اور نبی کو بھی حاصل نہیں ہوسکا۔ فرمایا ’’ مجھے اللہ جل شانہٗ کی معیت میں ایسا لمحہ نصیب ہوتا ہے جس میں کسی ملک مقرب اور کسی نبی مرسل کی بھی رسائی ممکن نہیں۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات گرامی زندگی کے تمام دوائر کے لیے مکمل نمونہ ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہمہ گیرشخصیت کا بے حد اہم پہلو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قانون ساز ہونا ہے۔
مفہوم
(1) قانون کے لفظی معنی باہمی روابط و سلوک کے مجموعہ قواعد کے ہیں۔ فقہ اسلامی میں قانون کے بجائے شرع شریعت یا حکم شرعی کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے نزدیک شریعت یا شرع اس مذہب کا نام ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ جل شانہٗ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعہ نازل فرمایا۔ لفظ شرع کے اس معنی کا استعمال حسب ذیل آیت کریمہ میں موجود ہے:
شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَاوَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰھِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی
’’ مسلمانو! اللہ تعالیٰ (جل شانہٗ) نے تمہارے لیے وہ دین مقرر کیا جس کا نوح علیہ السلام کو حکم دیا اور وہی حکم ہم نے بذریعہ وحی آپ کو بھیجااور اس دین کاحکم ہم نے بذریعہ وحی آپ کو بھیجا اور اس دین کاحکم ہم نے ابراہیم موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کو دیا۔ ‘‘
ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْھَا وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۔
’’ پھر اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ! ہم نے تمہیںدین کے سیدھے راستے پر قائم کر دیا پس تم اس راستہ پر چلو اور جاہل لوگوں کی پیروی نہ کرو۔‘‘
(2)… اسلامی نقطہ نظر سے شریعت ٗ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رہنمائی سے متعین کردہ اصول و ضوابط کا نام ہے۔
(3) … پس شارع حقیقی صرف اللہ تعالیٰ جل شانہٗ ہے جس نے شریعت اسلامی کے ذریعہ دین و دنیا دونوں کے احکام نازل فرمائے اس لیے قدرتی طور پر علم فقہ میں عبادات و معاملات دونوں سے بحث کی جاتی ہے۔ شریعت اسلامی اپنے ماخذ اور بنیادی احکام کے لحاظ سے خدائی شریعت ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بحیثیت بے نظیر مقنن: (قانون دان)
سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ایک پہلو یہ ہے کہ آپ شارع تھے۔ شارع کا ایک مفہوم ہے شریعت لانے والا اور دوسرا قانون سازی کرنے والا۔ قرآن مجید سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قانون سازی کا اختیاردیا گیا ہے۔ گویہ بات واضح ہے کہ یہ قانون سازی وحی و الہام کی نگرانی میں ہوتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس حیثیت کا ذکرکرتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد ہوتاہے:
یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ۔
’’ وہ ان کو معروف کا حکم دیتا ہے اور منکر سے ان کو روکتا ہے اور ان کے لیے پاک چیزوں کو حلال کرتا ہے اور ان پر ناپاک چیزوں کو حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اور بندھن اتار دیتا ہے جو ان پر چڑھے ہوئے تھے۔ ‘‘
پس اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تشریعی اختیارات عطا کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کی طرف سے امر و نہی اور تحریم و تحلیل صرف وہی نہیں جو قرآن میں بیان ہوئی ہے بلکہ جو کچھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حرام یا حلال قرار دیا ہے اور جس چیز کا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حکم دیا ہے یا جس چیز سے منع کیا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کے دیئے ہوئے اختیارات سے ہے۔ اس لیے وہ بھی قانون خداوندی کا ایک حصہ ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
وَمَآاٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ق وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا ج وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۔
’’ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تمہیں دیں اسے لے لو اور جس سے منع کردیں اس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو اللہ تعالیٰ (جل شانہٗ) سخت سزا دینے والا ہے۔ ‘‘
قرآن مجید ایک تیسری چیز کی بھی خبردیتا ہے جو کتاب کے علاوہ نازل کی گئی تھی:
فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالنُّوْرِ الَّذِیْٓ اَنْزَلْنَا ط وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۔
’’ پس ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر اور اس نور پر جو ہم نے نازل کیا۔ ‘‘
قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌ ۔ یَّھْدِیْ بِہٖ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ۔
’’ تمہارے پاس آگیا ہے اللہ کی طرف سے نور اور کتاب مبین جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو جو اس کی مرضی کی پیروی کرنے والا ہے سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے۔‘‘
ان آیات میں جس نور کا ذکر کیا گیا ہے وہ کتاب سے الگ ایک چیز ہے یہ نور بھی اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کی طرف سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نازل کیا گیا تھا۔ ظاہر ہے اس سے مراد وہ علم و دانش اور وہ بصیرت و فراست ہی ہوسکتی ہے جو اللہ تعالیٰ جل شانہٗ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو عطا فرمائی تھی۔ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے زندگی کی راہوں میں صحیح اورغلط کا فرق واضح فرمایا جس کی رو سے زندگی کے مسائل حل کئے۔ گویا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تشریعی اختیارات حاصل تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے تشریعی عمل کی بنیاد وما انزل اللّٰہ ہے جو نور حکمت اور میزان کی صورت میں عطا ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے تشریعی اختیارات کی بنیادپر قانون سازی فرماتے تھے۔
یہی ہے وہ مخصوص و مستقل شریعت جس کی تشریح و تنفیذ اورعمل تشکیل کے لیے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کو مبعوث کیا گیا۔ ان تمام احکام شرعیہ کے ماخذ صرف دو ہیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’ لوگو ! میری با ت سنو! اس لیے کہ مجھے معلوم نہیں کہ میں تمہیں اس سال کے بعد اس مقام پر شاید نہ ملوں … میں نے تمہارے پاس ایک چیز چھوڑی ہے اگر اس کو تھامے رکھا تو کبھی گمراہ نہ ہو گے وہ ایک واضح امر اللہ جل شانہٗ کی کتاب اوراس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنت ہے۔‘‘
رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اسلام کے اولین قانون ساز تھے۔ انہوں نے اس ضمن میں مسلمانوں کی رہنمائی کی جس پر تمام اسلامی آئین کی بنیاد قائم ہے۔ مسلمان پابند ہیں کہ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیروی کریں۔ ارشاد ہے:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ج
’’ جس نے رسول کی اطاعت کی فی الحقیقت اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘
اسلام انسان کی پوری زندگی کے لیے ہدایت ہے اس لیے حضورا کرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عبادت ٗ معاملات ٗ سیاسی ٗ معاشی ٗ بین الاقوامی اصلاح کے دائروں میں قانون سازی کی ہے۔
شریعت اسلامیہ کی عظمت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مقننانہ حیثیت کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عصمت کے پہلو کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ جس طرح وحی و الہام نبی کو عام انسانوں سے ممتاز کرنے کا باعث ہوتے ہیں ٗ اسی طرح ان کی شخصی عصمت بھی انہیں منفرد مقام عطاکرتی ہے۔ نبی کی معصومیت ہی بے خطا قانون سازی کو مستحکم کرتی ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی عصمت کے معنی یہ ہیں کہ ان کے اقوال ہوں یا افعال ٗ عبادات ٗ عادات یا اخلاق و احوال ان سب کو حق تعالیٰ جل شانہٗ اپنی قدرت کاملہ سے نفس و شیطان کی دخل اندازی سے محفوظ فرماتا ہے۔ خواہ وہ خطا انسان کی صورت میں ہی سے کیوں نہ ہو اور اپنے حفاظت و نگرانی کرنے و الے فرشتے ان کے ساتھ ساتھ رکھتا ہے تاکہ بنیاد بشریت بھی ان کے دامن پاک پر ذرا سا دھبہ بھی نہ لگا سکے۔
حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’ خود چلنے اور کسی دوسرے کے لیے چلنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
اجتباء اصطفاء
صفت اجتباء اصطفاء کے تحت پروردہ خود نہیں چلتا کہ بشری ضعف ان کے لیے ٹھوکر کا باعث بن جائے یہاں ان کو بچا بچا کر خود قدرت چلے چلتی ہے۔
ارشاد الٰہی ہے:
وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا۔
’’ آپ اپنے رب کے حکم کے انتظار میں صبر کیجئے۔ آپ تو ہماری نگرانی اور ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ ‘‘
عصمت اقوال کامطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اقوال ذاتی خواہشات اور شیطانی اثرات سے پاک ہوتے ہیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہتے اس لیے قرآن عظیم کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زبان سے نکلے ہوئے تمام اقوال اورا وامر و نواھی کا ماخذ و منبع اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کی وحی ہوتی ہے۔
ارشاد الٰہی ہے:
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَویٰ ۔ اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی۔ عَلَّمَہٗ شَدِیْدُ الْقُوٰی ۔ ذُوْمِرَّۃٍ۔
’’ وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتے وہ جوکچھ بولتے اور کہتے ہیں وہ تو محض وحی الٰہی ہوتی ہے جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے ان کو بتلاتا ہے ایک بڑی قوت والا فرشتہ ٗ خوش نظر فرشتہ۔‘‘
یہ امر واقعہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زبان مبارک سے کوئی بات اپنی زندگی کے نجی پہلو میں کبھی خلاف حق نہیں نکلتی تھی اس لیے درحقیقت وحی کا نور ان میں بھی کارفرما تھا۔ ایک موقع پرآپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
لا اقول اِلا حقاً
’’ میں کبھی حق کے سوا کوئی بات نہیں کہتا۔ ‘‘
کسی صحابی نے عرض کیا فانک تلاعینا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم۔ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہم سے ہنسی مذاق بھی تو کرلیتے ہیں۔
فرمایا:
انی لا اقول الا حقاً فی الواقع
’’ میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا۔ ‘‘
عبداللہ بن عمروبن العاص کہتے ہیں ’’ میں جو کچھ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زبان اقدس سے سنتا تھا لکھ لیتا تھا تاکہ اسے محفوظ کروں۔ قریش کے لوگوں نے کہا تم ہر بات لکھتے چلے جاتے ہو حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم انسان ہیں کبھی غصے میں بھی کوئی بات فرما دیتے ہیں۔ اس لیے میں نے لکھنا چھوڑ دیا۔ بعدمیں اس بات کا ذکر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
اکتب فو الذی نفسی بیدہ ماخرج منی الا الحق۔
’’ تم لکھتے جاؤ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری زبان سے بھی کوئی بات حق کے سوا نہیں نکلی۔ ‘‘
یہ تمام تر حفاظت و صیانت اس لیے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ ٖوسلم کی زبان مبارک ترجمان وحی و الہام اور مصدر تشریح احکام الٰہیہ ہے آپ کو بھی اس امرکا احساس تھا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جب یہ آیت کریمہ ’’وللہ علی الناس حج البیت‘‘ نازل ہوئی تو لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کیا ہر سال حج کرنا فرض ہے ؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خاموش رہے لوگوں نے پھرعرض کیا ٗ کیا ہر سال یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا نہیں ٗ اور اگر میں کہہ دیتا ’’ ہاں‘‘ تو ہر سال حج واجب ہوجاتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ جل شانہٗ نے آیت:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآئَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤْکُمْ ۔
نازل فرمائی اور بلا ضرورت سوال کرنے سے منع فرمادیا۔
احکام سے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زبان سے نکلی ہوئی ہر بات چونکہ حکم شرعی رکھتی ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے اصول و مصالح تشریع کا ہمیشہ خیال رکھا۔
فرمایا: اگر میری امت کے لیے مشقت میں ڈال دینے کا موجب نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے وقت مسواک کااور عشاء کی نماز کو تہائی رات تک دیر سے اداکرنے کاحکم دیتا۔
عصمت اعمال
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہر قول کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہر عمل اور فعل بھی وحی الٰہی ہی کے ماتحت سرزد ہوتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی خواہش یا طبعی تقاضے سے کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ قرآن کریم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی معصوم الفعل کی شہادت دی ہے۔
ارشاد الٰہی ہے:
اِنْ اَتَّبِعُ اِلاَّ مَا یُوْحٰی اِلَیَّ اِنْ اَنَا اِلاَّ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ۔
’’ میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے اور میں تو صرف کھلا ہوا خبردار کرنے والا ہوں۔‘‘
ایک اور چیز جس کا ذکر قرآن مجید میں خصوصیت سے کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صراط مستقیم پر قائم ہیں۔ صراط مستقیم پر چلنا حفاظت الٰہی کے بغیر ممکن نہیں اور اس پر قائم رہنا اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کی نصرت و حمایت کارہین منت ہے۔ یہ درست روی آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے معصوم الفعل ہونے کی کھلی دلیل ہے:
فَاسْتَمْسِکْ بِالَّذِیْ اُوْحِیَ اِلَیْکَ ج اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔
’’ پس آپ مضبوطی سے قائم رہیں اس پر جو آپ کے پاس بھیجی گئی ہے ٗ بے شک آپ صراط مستقیم پر قائم ہیں۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ فرمایا:
’’ اے لوگو! بے شک رائے توصرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یقینی اور صحیح ہوتی اس لیے کہ اللہ تعالیٰ جل شانہٗ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کو (وحی خفی) کے ذریعہ بتلاتا تھا۔
شریعت اسلامیہ اور قوانین جدید
قوانین موضوعہ اور شریعت کو ایک حیثیت دینا صحیح نہیں کیونکہ قوانین موضوعہ انسانی دماغ کی پیداوار ہیں اور شریعت کے وضع کرنے کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ جل شانہٗ نے لے رکھی ہے۔ ان کو ایک حیثیت دینا گویا زمین پر آسمان سے اور لوگوں پر لوگوں کے پروردگار سے قیاس کرنا ہے۔ ایک سمجھدار انسان کے لیے کم از کم یہ قابل قبول بات نہیں ہوگی کہ وہ اپنے آپ پر اپنے رب سے اور اپنی زمین پرآسمان سے قیاس کرے۔
ارشاد الٰہی ہے:
اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلاَّ الظَّنَّ وَمَا تَھْوَی الْاَنْفُسُ۔
’’ وہ جس چیز کی پیروی کرتے ہیں وہ بجز گماں اور خواہشات نفس کے اور کچھ نہیں۔ ‘‘
پس اسلامی قانون الہامی قانون ہے اور قوانین جدیدہ انسانی قانون ہیں۔
انسانی معاشرے کی دو قسمیں قرار دی جاسکتی ہیں ایک وہ جو اپنے تمام معاملات وحی و الہام پراستوار کرتے ہیں اوردوسرے وہ جو انسانی کاوشوں کو اپنے معاملات کا ذمہ قراردیتے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں وحی و الہام کو اولین مقام حاصل ہے۔ اس لیے قانون سازی میں انسانی کاوشوں کو ثانوی حیثیت دی گئی ہے۔ انسانوں کے بنائے ہوئے ضابطوں اور قوانین میں ایک بنیادی خامی ہے کہ ان کی بنیاد یقینی علم پر نہیں اس حقیقت پر قرآن مجید بار بار تنبیہ کرتا ہے:
وَمَالَھُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ ط اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلاَّ الظَّنَّ ج وَاِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا۔
’’ ان کے پاس حقیقت کاکوئی علم نہیں ہے وہ صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں اورگمان کا حال یہ ہے کہ وہ حق کی ضرورت کو کچھ بھی پورا نہیں کرتا۔‘‘
وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ھَوٰئہُ بِغَیْرِ ھُدًی مِّنَ اللّٰہِ۔
’’ اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہوگا جس نے اللہ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کی بجائے اپنی خواہش کااتباع کیا۔ ‘‘
بخلاف اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اللہ جل شانہٗ کی طرف سے علم عطا کیا جاتا ہے اسکی رہنمائی گمان اور ہوائے نفس پر نہیں ہوتی۔ الہام کی اسی خصوصیت کو قرآن مجید نے علم سے تعبیر کیا ہے۔ حضرت ابراہیم فرماتے ہیں یہ آیت:
اِنِّیْ قَدْ جَآئَ نِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَالَمْ یَاتِکَ فَاتَّبِعْنِیْ اَھْدِکَ۔ صِرَاطاً سَوِیًّا۔
’’ اے پدر عزیز! یقین جان کہ میرے پاس وہ علم آیا ہے جو تیرے پاس نہیں آیا لہٰذا تو میری پیروی کر میں تجھے سیدھے راستے پر چلاؤں گا۔ ‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے فرمایا جاتا ہے:
وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَآئَ ھُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَآئَ کَ مِنَ الْعِلْمِ لا مَا لَکَ مِنَ اللّّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ۔
’’اور اگر آپ نے اس علم کے بعد جو آپ کے پاس آیا ان کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ سے آپ کو بچانے والا کوئی حامی و مددگار نہ ہوگا۔‘‘
انسانی قانون بنیادی طورپر ناقص ٗ نامکمل اور محدود ہوتا ہے جبکہ الہامی بنیادوں پر استوار قانون کامل اور وسیع ہوتا ہے۔ اسی الہام پرمبنی نظام و قانون کا نام اسلام ہے۔
انسانی قانون کے قانون ہونے کا تمام تر انحصار اس بات پر ہے کہ اس کو شیخ قبیلہ یا بزرگ خاندان کی منظوری حاصل ہے یا عدالت نے اس پر عمل کیا ہے یا کسی حکومت نے اس کو تسلیم کیا ہے۔ اگر ان باتوں میں سے کوئی چیز اس کو حاصل نہ ہوتو پھر اس کی قانونیت ختم ہوجاتی ہے۔ برعکس اس کے اسلامی قانون کے قانونیت ان چیزوں میں سے کسی چیز کی بھی محتاج نہیں ہے۔ وہ بہرحال قانون ہے کوئی عدالت اس کو مانے یا نہ مانے اور کوئی حکومت اس کو تسلیم کرے یا نہ کرے۔ وہ اس کائنات کے حقیقی مالک اور حکمران کا قانون ہے اگرکوئی عدالت یا حکومت اس کو تسلیم نہیں کرتی تو اس کے تسلیم نہ کرنے سے اس کی قانونیت متاثر نہیں ہوتی بلکہ خود وہ عدالت یا حکومت نافرمانی اور بغاوت کی مجرم ٹھہرتی ہے۔ چنانچہ اس بنا پر فرما دیا گیا ہے:
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ۔
’’جو لوگ اللہ تعالیٰ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہیںکرتے وہی لوگ نافرمان ہیں۔‘‘
اس حقیقت کاا ظہار ان ناموں سے بھی ہوتا ہے جو اسلام نے اپنے قانون کے لیے اختیار کئے ہیں۔ اسلامی قانون کے لیے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان میں ایک لفظ کتاب ہے جس کے معنی ہیں:ماکتب اللّٰہ لنا۔جواللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا ہے دوسرا لفظ سنت کا ہے جس کے معنی ہیں ما سنۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے مقرر کر دیا ہے۔ تیسرا مشہور لفظ شریعت کا ہے جس کے معنی ہیں ماشرعہ اللّٰہ لنا۔ جو اللہ نے ہمارے لیے ٹھہرا دیا ہے۔ اسی طرح دوسرے الفاظ سے بھی یہی حقیقت ظاہر ہوتی ہے۔
انسانی قانون اپنے ساتھ احترام یا تقدیس یا کوئی پہلو نہیں رکھتا۔ وہ آدمی کے ایمان کاجزو نہیں ہوتا۔ اس کے متعلق یہ تصور نہیں ہوتا کہ جس نے اس قانون کو دیا ہے وہ اس کی نافرمانی یا فرمانبرداری کو دیکھ بھی رہا ہے۔ اس کے بارہ میں یہ عقیدہ بھی نہیں ہوتا کہ اس کی اطاعت سے جنت ملتی ہے اور اس کی خلاف ورزی سے آدمی دوزخ کے عذاب میں گرفتار ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اسلامی قانون خدا کا قانون ہونے کے سبب سے نہایت مقدس و محتر م ماناجاتا ہے۔ وہ ہر مسلمان کے ایمان کی بنیاد ہوتا ہے۔ جس کو مانے بغیر اس کاایمان درست نہیں ہوتا۔ اس کے دینے والے کے متعلق ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ وہ دلوں کے بھیدوں اور خلوت خانوں کے رازوں سے بھی واقف ہے۔ ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ خدا کی رضا اس کے مانے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی اس کے اندر دنیا کی صلاح بھی اور آخرت کی فلاح بھی۔
انسانی قانون کا اصلی رول انسانی زندگی کے اندر منفی قسم کاہے۔ جو چیز اس کو وجودمیں لائی ہے خود اس کے اپنے ماہرین کے بیان کے مطابق یہ ہے کہ لوگوں کو ایک دوسرے پر دست درازی سے روکا جاسکے۔ اگر انسان کے اندر یہ خرابی نہ ہوتی تواس کی سرے سے کوئی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ برعکس اس کے اسلامی قانون اپنی ضرورت صرف دست درازی کی روک تھام ہی نہیں بتاتا بلکہ اپنا اعلیٰ کام انسان کی ہدایت و رہنمائی بتاتا ہے۔ اس کادعویٰ یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی خواہ انفرادی ہو یااجتماعی ٗ کی تہذیب وتکمیل کے لیے اس کا محتاج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی قانون صرف ہمارے مروجہ ضابطہ دیوانی یا ضابطہ فوجداری کے قسم کی دفعات ہی پر مشتمل نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ طہارت اور عبادت کا ایک ضابطہ بھی ہے تربیت اخلاق اور تزکیہ نفس کے قواعد اور احکام بھی ہیں۔
قانون انسان کا بنایا ہوا ہے اورشریعت اللہ جل شانہٗ کی طرف سے نازل کردہ اور دونوں میں ان کے بنانے والے کی صفات کا عکس دیکھا جاسکتا ہے۔ قانون انسان کا بنایا ہوا ہونے کی وجہ سے انسان کی عاجزی ٗ کمزوری اور بے چارگی کا آئینہ دار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ ادلتا بدلتا رہتا ہے۔ اس کے برعکس شریعت اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کی صفت ہے اور صانع کی قدرت و عظمت اس کے کمال اور احاطہ علم پر شاہد ہے۔ جس طرح خدائے علیم و خبیر کا علم ہر شے کو محیط ہے ٗ اسی طرح اس کی شریعت بھی موجودہ و آئندہ کے تمام حالات کااحاطہ کئے ہوئے ہے۔ اس میں کسی تغیر و تبدل کی گنجائش نہیں: لا تبدیل لکلمات اللّٰہ۔ ایسا نہیں ہے کہ ابتدائی حالت میں شریعت چند مختصر سے قواعد اور ابتدائی اور نامکمل نظریات کا نام رہا ہو پھر اس کے بعدان میں پختگی پیدا ہوتی ہو بلکہ وہ تو اپنے یوم پیدائش ہی سے پورے شباب کو پہنچی ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ جل شانہٗ نے اسے ہر قسم کی کمی اور نقص سے پاک کامل و ہمہ گیر صورت میں اتارا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت سے اس کی ابتدا ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات پر اس آخری وحی پر اس کا اختتام ہوا جبکہ اللہ تعالیٰ جل شانہٗ نے اعلان فرمایا:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔
قوانین شریعت کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ ان کا اصل مقصود اخلاق فاضلہ کی حمایت و حفاظت ہے۔ شریعت اس مقصد کے لیے اتنا اہتمام کرتی ہے کہ جس شے کا ادنیٰ تعلق بھی اخلاقیات سے ہو اس کے معاملے میں شریعت کا قانون فوراً حرکت میں آجاتا ہے۔ لیکن انسانی قوانین کو اخلاقیات سے کوئی خاص شغف اور دلچسپی نہیں جب تک کسی شخص کی بداخلاقی کاامن عامہ اور نظم حکومت میں کوئی خلل پڑتا نظر نہیں آتا اس وقت تک قانون انفرادی اعمال کو خاموش تماشائی بن کر بلکہ محافظ بن کر دیکھتا رہتا ہے۔ مثلاً قانون مروجہ کی رو سے زنا صرف اس حالت میں جرم اور قابل گرفت و دست اندازی ہے جبکہ طرفین میں سے ایک دوسرے پرجبر کرے گویا کہ اصل جرم زنا نہیں ہے بلکہ جبر و اکراہ ہے۔ اس طرح تو گویا قانون کی نظر میں فریقین کی رضا مندی سے ایک کی عصمت دوسرے پر حلال ہو جاتی ہے۔ اور اگر کوئی تیسرا مداخلت کرکے اس فعل کو روکنا چاہے تو قانون اسے دھر لیتاہے۔ لیکن شریعت اسلامیہ میں زنا ہر حالت اور ہر صورت میں حرام اور ناجائز ہے۔ کیونکہ شریعت کی نگاہ میں یہ ایک ایسا جرم ہے جو اخلاق کی جڑ کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ اس طرح قوانین موضوعہ کی نگاہ میں شراب نوشی جرم نہیں ہے اور نہ ہی اس سے پیدا شدہ بدمستی اور مدہوشی قابل مواخذہ ہے۔ البتہ نشے کی حالت میں اگر مخمور کسی سے گالی گلوچ یا ہاتھا پائی کر بیٹھے یا وہ شارع عام پر اس طرح جھومتا چلا جاتا ہو کہ خمار اس کی حرکات میں نمایاں ہو تب کہیں جا کر قانون اس پر ہاتھ ڈالے گا۔ گویا کہ قانون موجودہ کی رو سے فی الحقیقت شراب خوری کا فعل قابل گرفت نہیں بلکہ اصل قابل گرفت جرم فقط دوسروں کو ایک خاص شکل میں ایذا پہنچانا ہے۔ شراب کے دوسرے اخلاقی ٗمالی ٗ جسمانی نقصانات جو پینے والے کو اور اس کے گردوپیش معاشرے کو پہنچتے ہیں قانون کو ان کی روک تھام کی قطعاً کوئی فکر نہیں۔ لیکن شریعت تو مے نوشی کو حرام قرار دیتی ہے خواہ اس سے بدمستی پیدا ہو یا نہ کیونکہ شریعت اس معاملے کو اس بدامنی کے ایک محدود نقطہ نگاہ سے نہیں دیکھتی بلکہ اسے نہایت وسیع اخلاقی نقطۂ نظر سے دیکھتی ہے۔ اس کی نگاہ میں سب سے مقدم اخلاق کی حفاظت ہے۔
حرِف آخر
حقیقت یہ ہے کہ قوانین شریعت روئے زمین کے تمام قوانین سے افضل اور اشرف ہیں۔ مسلمان آج اس لیے ذلیل و خوار نہیں کہ وہ شریعت کے قوانین پر عامل ہیں بلکہ ان کی ذلت کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے۔ آج تمام دیار اسلامیہ کے مسلمان محض زبانی دعویٰ کرنے والے نام کے مسلمان ہیں ۔ وہ اپنے خیالات اور اعمال کے لحاظ سے مسلمان نہیں ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ میںخود عبرت پذیری کابہت بڑا سامان ہے اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمانوںکی زندگی بخشنے والی یہی شریعت ہے۔ اسی نے انہیں تمام قوموں کی امامت عطا کی تھی اور تمام قوموں پر غلبہ و تسلط بخشا تھا۔ اس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ مسلمانوں کی زندگی ترقی اور کامیابی سب اسی پر منحصر ہے اور اس کو اپنا دستور عمل بنانے ہی میں ان کی بقا ہے۔ شریعت ہی مسلمانوں کی اصل بنیاد ہے۔
ماخذجات
٭… انسان کامل
از: خالد علوی