اُمّ المومنین سیدہ میمونہ بنت حارث

اُمّ المومنین سیدہ میمونہ بنت حارث
اجمالی خاکہ
نام میمونہ
والد حارث بن حزن
والدہ ہند بنت عوف
سن پیدائش بعثت نبوی سے16سال قبل
قبیلہ قریش بنو ہلال
زوجیت رسول 7 ہجری
سنِ وفات 51ہجری
مقامِ تدفین مقام ِسَرفْ مکہ مکرمہ کا نواحی علاقہ
کل عمر 80سال
نام و نسب:
آپ کاپیدائشی نام برہ تھاجسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدل کر میمونہ کر دیا سلسلہ نسب اس طرح ہے: میمونہ بنت حارث بن حَزن بن بُجير بن ہُزم بن رُؤَيْبَۃ بن عبد الله بن ہلال بن عامر بن صَعْصَعَۃ بن معاویۃ بن بكر بن هَوَازِن بن منصور بن عِكْرِمَۃ بن خَصفۃ بن قَيْس بن عَيْلان بن مُضَر۔
جبکہ والدہ کی طرف سے کچھ یوں ہے میمونہ بنت ہند بنت عوف بن زہیر بن حارث بن حماطۃ بن جرش بن اسلم بن زيد بن سہل بن عمرو بن قيس بن معاويہ بن جشم بن عبد شمس بن وائل بن الغوث بن قطن بن عريب بن زہير بن غوث بن ايمن بن الہميسع بن حمير بن سبأ بن يشجب بن يعرب بن قحطان۔
والد کی طرف سے18ویں اٹھارویں پشت میں مُضَر پر جا کر آپ رضی اللہ عنہا کا سلسلہ نسب جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملتا ہے۔
ولادت:
آپ رضی اللہ عنہا کی ولادت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت سے تقریباً16 سال پہلے ہوئی۔
خاندانی پس منظر:
سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کا تعلق قریش کے معزز قبیلہ بنو ہلال سے تھا،آپ رضی اللہ عنہا کی ایک بہن ام الفضل لبابۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوا ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے۔
دوسری بہن لبابۃ الصغریٰ کا نکاح ولید بن مغیرہ مخزومی کے ساتھ ہوا جن سے مشہور صحابی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔
تیسری بہن عصماء رضی اللہ عنہا کا نکاح اُبّی بن خلف سے ہوا لیکن انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا، چوتھی بہن عِزہ رضی اللہ عنہا کا نکاح زیاد بن مالک الہلالی سے ہوا انہوں نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔
اس کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہا کی ایک ماں شریک بہن اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ سے ہوا ان سے عبداللہ، عون اور محمد رضی اللہ عنہم پیدا ہوئے۔ جنگ مُوتہ میں حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے ان کی شہادت کے بعداسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کا سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ہواان سے محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعدان کا نکاح حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے ہوا ان سے ایک بیٹا یحیٰ پیدا ہوا۔
دوسری ماں شریک بہن سلمیٰ بنت عمیس رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ سے ہوا، ان سے ایک بیٹی امۃ اللہ پیدا ہوئی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کا شداد بن الہاد رضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا جن سے عبداللہ اور عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے۔
تیسری ماں شریک بہن سلامہ بنت عمیس رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عبداللہ بن کعب رضی اللہ عنہ سے ہوا جبکہ چوتھی ماں شریک بہن زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا۔
فائدہ: ماں شریک بہن وہ ہوتی ہے کہ ان دونوں کی ماں ایک ہو، والد الگ الگ ہوں۔ یعنی ماں نے پہلے ایک شخص سے شادی کی اس سے اولاد ہوئی، خاوند کی وفات یا طلاق کے بعد اس ماں نے کسی دوسرے شخص سے شادی کی، اس سے بھی اولاد ہوئی۔ اب پہلے شخص سے جو اولاد ہوئی وہ اور اس دوسرے شخص سے جو اولاد ہوئی اسے” ماں شریک“ کہتے ہیں۔
سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ہند بنت عوف کا نکاح خزیمہ بن عبداللہ بن عمر بن عبدمناف بن ہلال بن عامر سے ہوا، ان سے ام المومنین سیدہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں۔ اسی طرح ان کا نکاح عمیس بن معد بن حارث خثعمیہ سے ہوا ان سے اسماء، سلمیٰ اور سلامہ رضی اللہ عنہن پیدا ہوئیں اور انہی ہند بنت عوف کا نکاح سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے والد حارث بن حَزن ہلالی سے ہواجن سے لبابۃ الکبریٰ، لبابۃ الصغریٰ، عصماء اور عزہ پیدا ہوئیں۔
ہند بنت عوف کی خوش نصیبی:
سیدہ میمونہ رضی اﷲعنہا کی والدہ ہند بنت عوف کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ دامادوں کے اعتبار سے کوئی عورت اس خوش نصیب بڑھیا کے مقام کو نہیں پہنچ سکتی کیونکہ ان کے دامادوں میں درج ذیل جلیل القدر شخصیات شامل ہیں:
محمد رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وسلم
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ
حضرت عباس رضی اللہ عنہ
حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ
حضرت عبداللہ بن کعب رضی اللہ عنہ
حضرت شداد بن الہاد رضی اللہ عنہ
اس کے علاوہ ان کے نواسوں اور نواسیوں میں بھی کئی جلیل القدر صحابہ و صحابیات رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔
پہلا نکاح:
سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح مسعود بن عمرو بن عمیر ثقفی کے ساتھ ہوا۔ اس نے سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی۔ یہ وہی عمرو بن عمیر ثقفی ہے جس کے تین بیٹے عبد یا لیل، مسعود اور حبیب طائف کے معززین شمار ہوتے تھے ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنےسفر طائف میں خصوصی طور پر دعوت اسلام دی، لیکن انہوں نے بد اخلاقی کا مظاہرہ کیا اور اوباش لڑکوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگا دیا۔
دوسرا نکاح:
اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہا کا دوسرا نکاح ابو رُہم بن عبدالعزیٰ سے ہوا۔کچھ عرصہ ان کے ساتھ گزارا اور ان کا بھی انتقال ہو گیا۔
عمرۃ القضاء:
ماہ ذوالقعدہ 7 ہجری کو عمرۃ القضاء کے لیےآپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ اسے عمرۃ القضاء اس کہا جاتا ہے کہ اس سے ایک سال پہلے ذوالقعدہ 6ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خواب دیکھا کہ میں مدینہ منورہ سے مکہ گیا ہوں وہاں میں نے بیت اللہ کا طواف کیا۔ صحابہ کرام سے اس خواب کا ذکر فرمایا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہم بھی آپ کی معیت میں شرف ہمراہی چاہتے ہیں۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو ہمراہ لیا جب آپ مقام حدیبیہ پہنچے جو مکہ کے قریب ہے اور اس کا کچھ حصہ حدود حرم میں بھی داخل ہے تو کفار نے مزاحمت کی۔ مختصر یہ کہ چند کڑی شرائط کے ساتھ آپ کو واپس لوٹنا پڑا، ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ آئندہ سال عمرہ کے لیے تشریف لائیں اور جتنے دن اہل مکہ چاہیں آپ وہاں رہ سکتے ہیں۔ اسلحے کے بغیر آنا ہے ہاں صرف تلواریں لانے کی اجازت ہو گی اور وہ بھی میان میں ہوں گی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ ذوالقعدہ 7 ہجری کو تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ صرف وہ صحابہ کرام تشریف لائے جو صلح حدیبیہ میں آپ کے ساتھ شریک تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عمرہ ادا فرمایا۔
اسی دوران جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمرۃ القضاء کو ادا فرما چکے تھےاور مکہ مکرمہ ہی میں تشریف فرما تھے تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کی کہ یارسول اللہ !آپ برہ )میمونہ (بنت حارث کو اپنے رشتہ ازدواج سے جوڑ لیں۔ چونکہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی بہن ام الفضل لبابۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ تھیں، آپ رضی اللہ عنہ خاندانی طور پر سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کو اچھی طرح جانتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہا کے اعلیٰ اخلاق و کردار سے خوب واقف تھے۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ آپ ان سے نکاح فرما لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمایا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے 400 درہم حق مہر کے عوض آپ کا نکاح کردیا۔
میمونہ؛ ام المومنین بنتی ہیں:
صلح حدیبیہ کی شرائط میں ایک یہ بھی تھی کہ مسلمان صرف تین دن مکہ میں رہیں گے، شرط کے مطابق مدت قیام بھی پوری ہو چکی تھی۔ سہیل بن عمرو اور حویطب بن عبدالعزی قریش کی جانب سے دربار رسالت مآب میں حاضر ہوئے اور کہا: شرط کے مطابق چونکہ مدت قیام ختم ہوگئی ہے لہذا آپ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مدینہ واپس تشریف لے جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولیمہ میں شرکت کے لیے انہیں کہا لیکن انہوں نے بات ماننے سے یکسر انکار کر دیا۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو روانگی کا حکم دیا۔ اور خود بھی مکہ سے چل پڑے۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کومکہ سے ہمارے قافلے تک پہنچائیں۔ چنانچہ ابو رافع رضی اللہ عنہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کو مقررہ مقام) سَرِفْ……. س پر زبر اور راء کے نیچے زیرکے ساتھ تک بخیر وعافیت لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم 400 درہم حق مہر ادا کیا۔
ایک اہم مسئلہ:
قرآن کریم اور احادیث میں ایک فقہی مسئلہ ہے کہ کوئی شخص دوبہنوں کو نکاح میں اکٹھے نہیں رکھ سکتا۔ خواہ وہ سگی بہنیں ہوں / ماں شریک ہوں یا باپ شریک ہوں۔ ام المومنین سیدہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا دونوں ماں شریک بہنیں ہیں اور دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجات مطہرات میں سے تھیں۔
یہاں یہ بات ذہن میں آسکتی ہے کہ جب دو بہنوں کو نکاح میں جمع نہیں کیا جاسکتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بہنوں سے نکاح کیسے فرما لیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصل مسئلہ اس طرح ہے کہ بیک وقت دونوں کو نکاح میں ایک ساتھ جمع نہیں کیا جاسکتا۔
ہاں اگران بہنوں میں سے ایک نکاح میں باقی نہ رہے خواہ اس کی وجہ طلاق ہو یا عورت کا فوت ہونا تودوسری بہن سے نکاح کیا جاسکتا ہے۔ بیک وقت دونوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین سیدہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا سے پہلے نکاح فرمایا پھر ان کی وفات کی بعد ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا۔
نوٹ: اس مسئلہ سے متعلق دیگر احکام و مسائل میری کتاب” مسلمان عورت“ میں ملاحظہ فرمائیں۔
اس مبارک نکاح کی برکات:
یہ تو آپ کے علم میں آ چکا ہے کہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کا پیدائشی نام برہ تھا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیل فرما کر میمونہ رکھ دیا۔ میمونہ کا مطلب ہوتا ہے باعث برکت۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر اس نام کو منتخب کرنے کی کئی پوشیدہ حکمتیں بھی ہوں گی لیکن جو ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ
صلح حدیبیہ کے اگلے سال عمرۃ القضاء کی ادائیگی نے مسلمانوں کی شان و شوکت اور دین اسلام پر جانثاری نے اہل مکہ پربہت گہرے اثرات مرتب کیے، کفار و مشرکین مکہ کا زور ٹوٹ چکا تھا۔ صرف چند بدگمانیاں باقی تھیں، انہیں یہ صاف نظر آ رہا تھا کہ اگراہل مکہ کے ساتھ مسلمانوں کا مزید کچھ میل جول اور رہاتو سارے مکہ والے اسلام قبول کر لیں گے غالباً یہی وجہ تھی کہ صلح حدییبہ میں کفار کی طرف سے یہ شرط بطور خاص تھی کہ آئندہ سال مسلمان تین دن کے اندر اندر عمرہ کر کے واپس چلے جائیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی خواہش یہی تھی کہ یہ لوگ اسلام قبول کر لیں اور اس مبارک خواہش کی تکمیل کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طرح طرح کی صعوبتیں جھیلیں، سختیاں برداشت کیں، ظلم و ناانصافی کو سہتے رہے۔
اس لیے بیوہ و بے آسرا نیک خاتون کو سہارا دینے کے ساتھ ساتھ آپ کے پیش نظر اس وقت کے معروضی حالات بھی تھے۔ آپ سمجھتے تھے کہ اس نکاح سے فوائد و ثمرات میں اہل مکہ کے بااثر شخصیات کے علاوہ اہل نجد کے لوگ بھی اسلام کے قریب آجائیں گے، اسلامی اخلاق و تعلیمات کا قریب سے مشاہدہ کریں گے تو جو بدگمانیاں اذہان و قلوب میں گردش کر رہی ہیں وہ ختم ہو جائیں گی۔
چنانچہ ایسے ہی ہوا حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے خاندان والے مکہ کے با اثر لوگوں میں سے تھے۔ اس نکاح کے بعد سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا اسی موقع حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کنجی بردار کعبہ نے بھی اسلام قبول کرلیا۔
دوسری طرف اہل نجد کا سردار زیاد بن مالک الہلالی جو کہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کا بہنوئی تھا جب اہل نجد کو اپنے قبیلے کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک طرح کی قرابت داری کا علم ہوا تو وہی لوگ جنہوں نےکبھی دھوکے کے ساتھ 70 مبلغین اسلام کو شہید کرنے کا سنگین جرم کیا تھا اب وہی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حامی بن گئے اور مسلمان ہو کر اہل اسلام کی اجتماعی قوت میں اضافہ کا سبب بنے۔ اس نکاح کے ذریعے یہ تھیں وہ بنیادی حکمتیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر تھیں۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی ہوں گی جن کا علم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہے۔
باکمال ایمان کی نبوی شہادت:
آپ رضی اللہ عنہا کے باکمال ایمان کی گواہی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، حدیث پاک میں ہے کہ ایمان والی خواتین آپس میں بہنیں ہیں اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند خواتین کے نام لیے جن میں پہلا نام سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کا ہے۔
گھریلو زندگی:
آپ رضی اللہ عنہا اتنے بڑے اعزاز سے عزت پانے کے باوجود اپنے گھریلو کام کاج خود کرتیں، چنانچہ آپ کے بھانجے یزید بن الاصم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میری خالہ ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا گھر کے کام کاج خود کرتیں، کثرت سے مسواک کرتیں اور نمازوں کی ادائیگی کا خوب اہتمام کرتیں۔
تقویٰ و صلہ رحمی:
آپ رضی اللہ عنہاکے دل میں خدا کی محبت بھی موجود تھی اور یہ خوف بھی تھا کہ کہیں میرے کسی کام سے اللہ ناراض نہ ہو جائے۔ معاشرتی رہن سہن میں اسلامی تعلیمات کی سب سے بنیادی چیز صلہ رحمی بھی آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، تقوی اور صلہ رحمی یہ دو اوصاف حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ رضی اللہ عنہا کو یہ نعمتیں خوب عطا فرمائی تھیں، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے ان دو عمدہ اوصاف کی گواہی دیتے ہوئے فرماتی ہیں:
انھا کانت من اتقانا للہ واوصلنا للرحم
ترجمہ: میمونہ ہم میں خدا خوفی اور صلہ رحمی میں ممتاز مقام رکھتی ہیں۔
علم و فضل:
آپ رضی اللہ عنہا نےدین کی تعلیم کو امت تک پہنچانے میں بہت بڑا کام کیا ہے، گھریلو مسائل اورخانگی امور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے روشناس کرایا۔ بالخصوص خواتین سے متعلق اکثرطہارت و پاکیزگی کےمسائل احادیث مبارکہ میں آپ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے مذکور ہیں۔
ایک مرتبہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس حالت میں تشریف لائے کہ آپ کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے کہ مجھے ام عمار کنگھا کرتی ہے لیکن یہ دن ان کے ماہواری کےچل رہے ہیں، اس لیے انہوں نے کنگھا نہیں کیا۔
آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ شریعت کا مسئلہ ایسے نہیں جیسے تم نے سوچ رکھا ہے بلکہ ان دنوں میں بھی وہ آپ کو کنگھا وغیرہ کر سکتی ہے پھر اس پر دلیل کے طور پر اپنا ذاتی عمل پیش کیا کہ جب ہمارے خاص ایام ہوتے تھے اس دوران بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری گود میں سر رکھ آرام فرما لیتے اور قرآن کریم کی تلاوت بھی فرماتے تھے …… اس کے بعد انہیں سمجھایا کہ بیٹا ! خاص ایام کے اثرات ہاتھوں تک سرایت نہیں کرتے۔
نوٹ: ایام خاص کے احکام ومسائل میری کتاب” مسلمان عورت” میں تفصیل کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں۔
سخاوت و دریا دلی:
آپ رضی اللہ عنہا فیاضی و سخاوت میں بھی بلند مقام رکھتی تھیں، غریب پروری اور لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قرضہ اٹھانے سے بھی دریغ نہ کرتی تھیں۔ کبھی کبھار تو قرضہ بہت اٹھا لیتیں۔ چنانچہ لوگوں کی سماجی ضروریات کو پورا کرنے کے پیش نظر ایک بار زیادہ رقم قرض لی تو کسی نے کہا کہ آپ اس کو کس طرح ادا کریں گی؟
تو اس سے آپ رضی اللہ عنہا نےفرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جو شخص ادا کرنے کی نیت میں مخلص ہو قرضے کی ادائیگی کا بندوبست خدا خود کر دیتا ہے۔ اسی سے آپ رضی اللہ عنہا کے توکل علی اللہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کو کس قدر اللہ کی ذات پر یقین اور اعتماد تھا۔
غلام / لونڈیاں کو آزاد کرنا:
سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہاکثرت سے غلام اور لونڈیاں آزادکرتی تھیں۔ ایک بار آپ رضی اللہ عنہا نے ایک لونڈی آزاد کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعا دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تمہیں اس کا اجر عطا فرمائے۔
وفات:
جس مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے بعد آپ رضی اللہ عنہا کو قربت بخشی بالکل اسی مقام پر آپ رضی اللہ عنہا خدا کے قرب میں چلی گئیں۔ یعنی مقام سرف میں آپ رضی اللہ عنہا کا ولیمہ ہوا اور اسی مقام پر آپ رضی اللہ عنہا نے وفات پائی۔
51 ہجری سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور امارت میں آپ رضی اللہ عنہا حج یا عمرہ کی غرض سے مکہ مکرمہ تشریف لائیں، یہاں آ کر آپ رضی اللہ عنہا کی طیبعت ناساز ہوئی، اپنے بھانجےحضرت یزید بن الاصم رحمہ اللہ کو فرمایا کہ مجھے مکہ سے لے چلو اس لیے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آپ کا انتقال مکہ میں نہیں ہوگا۔ یزید بن الاصم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کو مرض کی حالت میں مکہ سے لے کر چلے جب مقام سرف پر پہنچے تو آپ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو گیا۔
جنازہ:
آپ رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا نے پڑھائی۔ حضرت عطا ء تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے جنازے میں شریک تھے، جب آپ رضی اللہ عنہا کا جنازہ اٹھایا گیا تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں اس لیے باادب طریقے سے آہستہ آہستہ لے کر چلو، زیادہ حرکت نہ دو۔
تدفین:
آپ رضی اللہ عنہا کو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما، یزید بن الاصم رحمہ اللہ، عبداللہ بن شداد رحمہ اللہ اور عبداللہ خولانی رحمہ اللہ نے قبر میں اتارا۔ پہلے تین بھانجے ہیں جبکہ عبداللہ خولانی رحمہ اللہ یتیم تھے ان کی پرورش اور کفالت آپ رضی اللہ عنہا نے فرمائی تھی۔
…… ……
نوٹ: مندرجہ بالا ازواج مطہرات جنہیں امہات المومنین ہونے کا شرف حاصل ہے ان کی تعداد 11 ہے۔ ان کے علاوہ کچھ کنیزیں اور باندیاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےزیر تصرف تھیں۔ ان کے نام یہ ہیں:
1.

سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند حضرت ابراہیم پیدا ہوئے جو 18 ماہ بعد فوت ہو گئے۔ 
2.

سیدہ ریحانہ بنت شمعون رضی اللہ عنہا
3.

سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا
4.

سیدہ جمیلہ رضی اللہ عنہا