حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تائید میں نزولِ قرآن
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب وفضائل بے
شمار ہیں ان کی عظیم ترین شخصیت وحیثیت اور ان کے بلند ترین مقام ومرتبہ کی منقبت میں یہی ایک بات کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم دعا قبول کرکے ان کو اسلام قبول کرنے کی توفیق دی اور ان کے ذریعہ اپنے دین کوزبردست حمایت وشوکت عطا فرمائی ۔ ان کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ منجانب اللہ راہ صواب ان پر روشن ہوجاتی تھی، الہام والقاء کے ذریعہ غیبی طور پر ان کی راہنمائی ہوتی تھی ان کے دل میں وہی بات ڈالی جاتی تھی جو حق ہوتی تھی اور ان کی رائے وحی الہٰی اور کتاب اللہ کے موافق پڑتی تھی اسی بناء پر علماء کرام نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں ان کی رائے خلافت صدیق کے حق ہونے کی دلیل ہے۔ جیسا کہ حضرت عمار یاسر کی شہادت کو حضرت علی مرتضی کے حق ہونے کی دلیل ماناجاتا ہے۔
ابن مردویہ نے حضرت مجاہد کا قول نقل کیا ہے کہ (کسی مسئلہ ومعاملہ میں) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ جو رائے دیتے تھے اسی کے موافق آیات قرآنی نازل ہوتی تھیں، ابن عساکر نے سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالیٰ کے یہ الفاظ نقل کئے ہیں، قرآن حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ کی رائے میں سے ایک رائے ہے یعنی قرآنی آیات کا ایک بڑا حصہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کی رائے کے موافق ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ سے بطریق مرفوع روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر (کسی مسئلہ میں اختلاف رائے ہو کہ) تمام لوگوں کی رائے کچھ ہو اور عمر کی رائے کچھ، اور پھر (اس مسئلہ سے متعلق قرآن کی آیت نازل ہو تو وہ عمر کی رائے کے مطابق ہوگی.” اس روایت کو سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ “موافقات عمر” (یعنی عمر کی رائے سے قرآن کریم میں جہاں جہاں اتفاق کیا گیا ہے ایسے مواقع) بیس ہیں ۔’
مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حضرت عمر کے مناقب وفضائل کا بیان ۔ حدیث 642
ایک دفعہ ایک یہودی نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا، جبرئیل فرشتہ جس کا ذکر تمہارے نبی کرتے ہیں وہ ہمارا دشمن ہے۔ یہ سن کر آپ رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا،
مَنْ کَانَ عَدُوَّ لِلّٰہِ وَمَلاَ ئِکَتِہٖ وَرُسُلِہ وَجِبْرِیْلَ وَمِیْکَالَ فَاِنَّ اللّٰہَ عَدُوُّ لِلْکٰفِرِیْن۔
ترجمہ: جو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکائیل کے دشمن ہیں، اللہ ان کافروں کا دشمن ہے۔ (البقرۃ:٩٨)
بالکل اِنہی الفاظ میں یہ آیت نازل ہوئی۔ تفسیر ابن کثیر البقرۃ تفسیرآیت نمبر 98)
ایک دوسری آیت اس طرح نازل ہوئی کہ ایک بار آپ رضی اللہ تعالیٰ نے عرض کی: یا رسول اللہ! ہم مقامِ ابراہیم کو مصلیٰ نہ بنالیں، اس پر یہ آیت نازل ہوگئی،
وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہمَ مُصَلًّی۔
لوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیم ؑ جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اس مقام کو مستقل جائے نماز بنالیں۔ (البقرۃ:١٢٥)۔ بخاری شریف کتاب التفسیر :4243) نیچے بیان کردہ تین آیات کے نزول کا پس منظر کچھ اس طرح ہے حرمت سے قبل مدینہ طیبہ میں شراب اور جوئے کاعام رواج تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی، ہمیں شراب اور جوئے کے متعلق احکامات دیجیے کیونکہ یہ مال اور عقل دونوں ضائع کرتے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی،
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَا اِثْم کَبِیْ۔ (البقرۃ:٢١٩)۔
اس کے نازل ہونے کے بعد سیدنا عمر پھر وہی دعا کرتے رہے تو یہ آیت نازل ہوئی۔
یٰااَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکَارٰی ۔(النساء:٤٣)
اسی سلسلے میں سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ نے بار بار دعا کی، اے اللہ ! شراب اور جوئے کے متعلق ہمارے لئے واضح حکم نازل فرما۔ حتی کہ شراب اور جوئے کے حرام ہونے پریہ آیت نازل ہوگئی۔
اِنَّمَا الْخَمْرُ والْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلاَمُ رِجْس” مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ ۔ ۔ (المائدۃ:٩٠ تو حضرت عمر نے کہا کہ ہم باز آگئے ہم باز آگئے۔ (ترمذی: 3039۔ نسائی شریف: 5049) قرآن مجید کا چھٹا مقام سورت البقرۃ کی آیت نمبر 187 کا شان نزول ہے جس کے بارے حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں رمضان المبارک کی رات میں بھی بیوی سے قربت منع تھی۔ تمام صحابہ کرام اس پابندی سے رخصت کے طلب گار تھے مگر اس کا اظہار سب سے پہلے عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ نے کیا اور جس پر تمام صحابہ کرام کا مسئلہ بھی حل ہوا اور امت کو ایک رخصت مل گئی اور پھر شب میں مجامعت کو جائز قرار دے دیا گیا اور آیت نازل ہوئی۔
اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَائِکُمْ۔البقرۃ 187)
تفسیر ابن کثیر تفسیر سورت البقرۃ آیت 187) حافظ احمد شاکر ؒ نے عمدۃ التفاسیر میں اسے صحیح کہا ہے۔ قرآن مجید کے ساتویں مقام سورت نساء آیت نمبر 65 میں بھی بعض کمزور روایات میں موافقت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ میں شمار کیا گیا ہے۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ دو شخص لڑائی کے بعد انصاف کے لیے بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے ۔ حضور ﷺ نے ان کا فیصلہ کر دیا لیکن جس کے خلاف یہ فیصلہ ہوا، وہ منافق تھا۔ اس نے کہا کہ چلو سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ کے پاس چلیں اور ان سے فیصلہ کروائیں۔ چنانچہ یہ دونوں پہنچے اور جس شخص کے موافق حضور نے فیصلہ کیا تھا اس نے سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ سے کہا، حضور نے تو ہمارا فیصلہ اس طرح فرمایا تھا لیکن یہ میرا ساتھی نہیں مانا اورآپ کے پاس فیصلہ کے لئے لے آیا ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ذرا ٹھہرو میں آتا ہوں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ اندر سے تلوار نکال لائے اور اس شخص کو جس نے حضور کا فیصلہ نہیں مانا تھا، قتل کردیا۔ دوسرا شخص بھاگا ہوا رسولُ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس واقعہ کی اطلاع دی۔ آپ نے فرمایا، مجھے عمررضی اللہ تعالیٰ سے یہ امید نہیں کہ وہ کسی مومن کے قتل پر اس طرح جرات کرے۔ اس پر اللہ تعالٰیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ اس منافق کے خون سے بری رہے۔ آیت یہ ہے۔
فَلاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ الخ۔ ( النساء 65)
یہ واقعہ یا شان نزول ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں علامہ زیلعی نے تخریج الکشاف، علامہ سیوطی نے لباب النقول اور علامہ شوکانی نے فتح القدیر میں نقل کیا ہے مگر سب نے ابن لھیعہ کے وجہ سے اسے ناقابل استدلال ٹھہرایا ہے۔ موافقات عمر رضی اللہ تعالیٰ کا آٹھواں مقام سورت الانفال کی آیت نمبر 68 ہے۔۔ بدر کے قیدیوں کے متعلق بعض نے فدیہ کی رائے دی تھی جبکہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ نے انہیں قتل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس پر آپ کی موافقت میں یہ آیت نازل ہوئی۔
لَوْلاَ کِتَاب مِنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَا اَخَذْتُمْ عَذَاب عَظِیْم
”(الانفال:٦٨)۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے لیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی”۔ صحیح مسلم 2399) سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ کی تائید میں قرآن کریم کانواں مقام سورت التوبہ کی آیت نمبر 84 ہے کہ جب منافق عبداللہ ابن اُبی مرا تو ان کے بیٹے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے درخواست کی۔ اس پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، عبداللہ ابن اُبی توآپ کا سخت دشمن اور منافق تھا، آپ اُس کا جنازہ پڑھا ئیں گے مگر پھر بھی رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کی حکمت کے پیشِ نظر اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ یہ آیت نازل ہوگئی،
وَلاَ تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَاتَ اَبَدًا۔ التوبہ 84، سلسلہ صحیحہ: 1130)
قرآن کریم کا سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ کی تائید میں دسواں مقام سورت منافقون کی آیت 6 بھی اسی وقت یا اس سے کچھ پہلے نازل ہوئی تھی۔ اسی نماز جنازہ کے حوالے سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ نے عرض کی تھی،
سَوَاء عَلَیْہِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَہُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ (منافقون 6) مجمع الزوائد جلد 9 /70) گیارہویں موافقت کی روداد کچھ اس طرح ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب آیت:
لَقَدْخَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلَالَۃٍ مِنْ طِیْنِ۔ (المؤمنون:١٢)
نازل ہوئی تو اِسے سن کر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ نے بے ساختہ کہا،
فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ۔
”تو بڑی برکت والا ہے اللہ سب سے بہتر بنانے والا”۔ اس کے بعد اِنہی لفظوں سے یہ آیت نازل ہوگئی۔ تفسیر ابن ابی حاتم تفسیر سورت مومنون آیت 12،13) بارہویں دفعہ قرآن مجید میں آپ کی موافقت کچھ اس طرح آئی کہ جب حضرت عائشہ صدیقہ پرمنافقوں نے جب بہتان لگایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کی طرح سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ سے بھی مشورہ فرمایا۔ انہوں نے جواب دیا کہ اے میرے آقا! آپ نے اُن سے نکاح خود کیا تھا یا اللہ تعالیٰ کی مرضی سے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ، اللہ کی مرضی سے تو اس پر آپ نے کہا کہ کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ کے رب نے آپ سے اُن کے عیب کوچھپایا ہو گا، بخدا یہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر عظیم بہتان ہے۔
سُبْحٰنَکَ ھٰذَا بُہْتَان” عَظِیْم” (النور:١٦)۔
اسی طرح آیت نازل ہوئی۔ عمدۃ القاری ،کتاب الصلاۃ ،باب ما جاء فی القبلۃ ۔۔۔الخ ،شرح حدیث 402) تیرہویں تائید ایزدی اس طرح حاصل ہوئی کہ سیدناعمر ایک روز سو رہے تھے کہ ایک غلام بغیر اجازت لیے اندر چلا آیا۔ اس وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ نے دعا فرمائی، اے اللہ بغیر اجازت گھروں میں داخل ہونا حرام فرمادے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا ۔(النور:٢٧،)۔
بخاری شریف کتاب التفسیر ج 2 ص 706 حاشیہ 7) قرآن مجید کا چوھدواں مقام جو آپ رضی اللہ تعالیٰ کی تائید میں اترا وہ سورت الاحزاب کی 53 نمبر آیت نازل ہو گئی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ کو لوگوں کا امہات المومنین کے پاس جانا پسند نہیں تھا. آپ رضی اللہ تعالیٰ نے اس کا اظہار فرمایا تو یہ آیات نازل ہو گئیں۔ (صحیح مسلم 2399) پندرویں مقام میں موافقت سورت التحریم کی آیت نمبر 5 جن میں امہات المومنین کو تنبیہ کی گئی ہے، سولہویں نمبر پر سورت الانفال کی آیت نمبر 5، جس میں غزوہ بدر کیلئے باہر نکل کر لڑنے کا مشورہ سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ کا تھا تو قرآن مجید کے نزول نے بھی اس کی تائید کردی، سترہویں موافقت قرآنی سورت منافقون کی آیت نمبر 6 ہے جس میں منافقین کیلئے دعا کرنے یا نہ کرنے سے ان کی مغفرت نہیں ہوتی کے بارے میں بتایا گیا تھا، اٹھارہویں تائید یا موافقت سورت الواقعہ کی آیات نمبر 39،40 ہیں جن میں امت محمد ﷺ کی زیادتی کا ذکر کیا گیا ہے۔
(تاریخ الخلفاء ص 200)
فضل عمربن الخطاب وموافقاته للقرآن الكريم
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:
فإنه قد ذكر السيوطي في تاريخ الخلفاء، والهيثمي في مجمع الزوائد كثيراً من الأحاديث النبوية وأقوال الصحابة في فضل عمر رضي الله عنه، وقد فصل السيوطي في بيان موافقات الوحي لكلام عمر فقال: فصل في موافقات عمر رضي الله عنه: قد أوصلها بعضهم إلى أكثر من عشرين، أخرج ابن مردويه عن مجاهد قال: كان عمر يرى الرأي فينزل به القرآن، وأخرج ابن عساكر عن علي قال: إن في القرآن لرأيا من رأي عمر. وأخرج عن ابن عمر مرفوعاً ما قال الناس في شيء وقال فيه عمر إلا جاء القرآن بنحو ما يقول عمر.
وأخرج الشيخان عن عمر قال: وافقت ربي في ثلاث، قلت: يا رسول الله لو اتخذنا من مقام إبراهيم مصلى فنزلت: وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى. وقلت: يا رسول الله يدخل على نسائك البر والفاجر فلو أمرتهن يحتجبن فنزلت آية الحجاب، واجتمع نساء النبي صلى الله عليه وسلم في الغيرة فقلت عسى ربه إن طلقكن أن يبدله أزواجاً خيراً منكن فنزلت كذلك.
وأخرج مسلم عن عمر قال: وافقت ربي في ثلاث في الحجاب وفي أساري بدر وفي مقام إبراهيم ففي هذا الحديث خصلة رابعة، وفي التهذيب للنووي: نزل القرآن بموافقته في أسرى بدر وفي الحجاب وفي مقام إبراهيم وفي تحريم الخمر فزاد خصلة خامسة، وحديثها في السنن ومستدرك الحاكم أنه قال: اللهم بين لنا في الخمر بيانا شافيا فأنزل الله تحريمها.
وأخرج ابن أبي حاتم في تفسيره عن أنس قال: قال عمر: وافقت ربي في أربع نزلت هذه الآية: وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ. الآية فلما نزلت قلت: أنا فتبارك الله حسن الخالقين فنزلت: فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ. فزاد في هذا الحديث خصلة سادسة وللحديث طريق آخر عن ابن عباس أوردته في التفسير المسند.
ثم رأيت في كتاب فضائل الإمامين لأبي عبد الله الشيباني قال: وافق عمر ربه في أحد وعشرين موضعاً فذكر هذه الستة وزاد سابعاً قصة عبد الله ابن أبي، قلت: حديثها في الصحيح عنه قال: لما توفي عبد الله بن أبي دعي رسول الله صلى الله عليه وسلم للصلاة عليه فقام إليه فقمت حتى وقفت في صدره فقلت: يا رسول الله أو على عدو الله ابن أبي القائل يوم كذا كذا، فوالله ما كان إلا يسيراً حتى نزلت: وَلاَ تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا. الآية، وثامناً: يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ. الآية، وتاسعاً: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَةَ. الآية، قلت: هما مع آية المائدة خصلة واحدة والثلاثة في الحديث السابق.
وعاشراً لما أكثر رسول الله صلى الله عليه وسلم من الاستغفار لقوم: قال عمر: سواء عليهم فأنزل الله: سَوَاء عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ. قلت: أخرجه الطبراني عن ابن عباس، الحادي عشر لما استشار صلى الله عليه وسلم الصحابة في الخروج إلى بدر أشار عمر بالخروج فنزلت: كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِن بَيْتِكَ بِالْحَقِّ. الآية، الثاني عشر لما استشار الصحابة في قصة الإفك قال عمر: من زوجكها يا رسول الله قال: الله، قال: أفتظن أن ربك دلس عليك فيها سبحانك هذا بهتان عظيم فنزلت كذلك.
الثالث عشر قصته في الصيام لما جامع زوجته بعد الانتباه وكان ذلك محرما في أول الإسلام فنزل: أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَآئِكُمْ. الآية، قلت: أخرجه أحمد في مسنده.
الرابع عشر قوله تعالى: قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ. الآية، قلت: أخرجه ابن جرير وغيره من طرق عديدة وأقر بها للموافقة ما أخرجه ابن أبي حاتم عن عبد الرحمن بن أبي ليلى أن يهوديا لقي عمر فقال: إن جبريل الذي يذكره صاحبكم عدو لنا، فقال له عمر: من كان عدوا لله وملائكته ورسله وجبريل وميكال فإن الله عدو للكافرين فنزلت على لسان عمر.
الخامس عشر قوله تعالى: فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ. الآية، قلت أخرج قصتها ابن أبي حاتم وابن مروديه عن أبي الأسود قال اختصم رجلان إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقضى بينهما فقال الذي قضى عليه ردنا إلى عمر بن الخطاب فأتيا إليه فقال الرجل قضى لي رسول الله صلى الله عليه وسلم على هذا فقال ردنا إلى عمر فقال أكذاك قال: نعم، فقال عمر: مكانكما حتى أخرج إليكم فخرج إليهما مشتملا على سيفه فضرب الذي قال ردنا إلى عمر فقتله وأدبر الآخر فقال يا رسول الله قتل عمر والله صاحبي، فقال: ما كنت أظن أن يجترئ عمر على قتل مؤمن، فأنزل الله: فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ. الآية، فأهدر دم الرجل وبرئ عمر من قتله وله شاهد موصول أوردته في التفسير المسند.
السادس عشر الاستئذان في الدخول وذلك أنه دخل عليه غلامه وكان نائماً فقال: اللهم حرم الدخول فنزلت آية الاستئذان. السابع عشر قوله في اليهود إنهم قوم بهت.
الثامن عشر قوله تعالى ثلة من الأولين وثلة من الآخرين، قلت أخرج قصتها ابن عساكر في تاريخه عن جابر بن عبد الله وهي في أسباب النزول.
التاسع عشر رفع تلاوة الشيخ والشيخة إذا زنيا الآية. العشرون قوله يوم أحد لما قال أبو سفيان أفي القوم فلان ،لا نجيبنه، فوافقه رسول اله صلى الله عليه وسلم، قلت: أخرج قصته أحمد في مسنده.
وفي مجمع الزوائد للهيثمي في باب مناقب عمر كثير من الأحاديث وأقوال الصحابة نذكر أثبتها مع كلام الهيثمي على سنده فمن ذلك ما روى عن أبي وائل قال: قال عبد الله لو أن علم عمر وضع في كفة الميزان ووضع علم أهل الأرض في كفة لرجح علمه بعلمهم، قال وكيع: قال الأعمش فأنكرت ذلك فأتيت إبراهيم فذكرته له، فقال: وما أنكرت من ذلك فوالله لقد قال عبد الله أفضل من ذلك قال إني لأحسب تسعة أعشار العلم ذهب يوم ذهب عمر رواه الطبراني بأسانيد ورجال هذا رجال الصحيح غير أسد بن موسى وهو ثقة.
وعن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: رأيت في النوم أني أعطيت عسا مملوءا لبنا فشربت حتى تملأت حتى رأيته يجري في عروقي بين الجلد واللحم ففضلت فضلة فأعطيتها عمر بن الخطاب فأولوها قالوا: يا نبي الله هذا علم أعطاكه الله فملأك منه ففضلت فضلة فأعطيتها عمر بن الخطاب فقال: أصبتم، قلت: هو في الصحيح بغير سياقه رواه الطبراني ورجاله رجال الصحيح.
وعن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضرب صدر عمر بيده حين أسلم ثلاث مرات وهو يقول اللهم أخرج ما في صدر عمر من غل وأبدله إيماناً يقول ذلك ثلاث مرات. رواه الطبراني في الأوسط ورجاله ثقات.
وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله جعل الحق على لسان عمر وقلبه. رواه أحمد والبزار والطبراني في الأوسط ورجال البزار رجال الصحيح غير الجهم ابن أبي الجهم وهو ثقة.
وعن علي قال: إذا ذكر الصالحون فحيهلا بعمر ما كنا نبعد أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم أن السكينة تنطق على لسان عمر. رواه الطبراني في الأوسط وإسناده حسن.
وعن ابن مسعود قال: ما كنا نبعد أن السكينة تنطق على لسان عمر. رواه الطبراني وإسناده حسن، وعن طارق بن شهاب قال: كنا نتحدث أن السكينة تنزل على لسان عمر. رواه الطبراني ورجاله ثقات.
والله أعلم.
http://www.hor3en.com/vb/showthread.php?t=56195
ابوحفص عمر بن خطاب عدوی قریشی، لقب فاروق 586ء تا 590ء میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا لقب فاروق، کنیت ابوحفص دونوں نبی کریم ﷺکے عطا کردہ ہیں۔ آپ کا نسب آٹھویں یا نویں پشت میں رسول اکرم ﷺ سے جا ملتا ہے۔ آپ ﷺ کی آٹھویں یا نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی تھے جن میں سے رسول اللہ ﷺ مرہ کی اولاد جبکہ سیدنا عمر عدی کی اولاد میں سے ہیں۔ ابتدا میں جب حضور اکرم ﷺ نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو سیدنا عمر نے آپ ﷺ کی سخت مخالفت کی۔ مگر کچھ وقت گزرنے کے بعد آپ پر جب حقیقتیں کھلنے لگیں اور آپ ﷺ نے دعا بھی کی تو آپ نے اسلام قبول کر لیا۔ اس لیے آپ کو مراد رسول ﷺ بھی کہا جاتا ہے۔ سیدنا عمر فاروق مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد ﷺ کے سسراور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔آپ عشرہ مبشرہ میں سے بھی ہیں اور ان کا شمار علم وحکمت سے بھرپورصحابہ میں ہوتا تھا۔ سیدنا ابو بکر صدیق کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔ سیدنا عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، ان کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں سے ایک وجہ یہ بھی بن گئی۔ سیدنا عمر بن خطاب کے دور خلافت میں عراق، مصر، لیبیا، سرزمین شام، ایران، خراسان، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا اور سجستان مملکت اسلامیہ میں شامل ہوئے اور سلطنت اسلامیہ کا رقبہ 22 لاکھ 51 ہزاراور30 مربع میل تک پھیل گیا۔ انہی کے دور خلافت میں پہلی مرتبہ یروشلم فتح ہوا، اس طرح ساسانی سلطنت کا مکمل رقبہ اور بازنطینی سلطنت کا تقریباًً تہائی حصہ اسلامی سلطنت کاحصہ بنا۔سیدنا فاروق اعظم کی مہارت، شجاعت اور عسکری صلاحیت سے ساسانی سلطنت کی مکمل بادشاہت کو دو سال سے بھی کم عرصہ میں زیر کر لیا، نیز اپنی سلطنت و حدود سلطنت کا انتظام، رعایا کی جملہ ضروریات کی نگہداشت اور دیگر امور سلطنت کو جس خوش اسلوبی اور مہارت و ذمہ داری کے ساتھ نبھایا وہ ان کی زبر دست صلاحیتوں کی دلیل ہے۔ سیدنا عمر فاروق نے حسن انتظام کے ہر کونے میں جو نئی سمتیں پہلی بار متعارف کر وائیں ان میں بیت المال کو قائم کرنا،عدالتیں اور قاضیوں کی مستقل تقرری،سن ہجری اور تاریخ کو رواج دینا،امیر المومنین کا لقب اختیار کرنا،رضاکاروں کی تنخواہیں مقرر کرنا،فوجی دفتر ترتیب دینا،دفتر مال قائم کرنا،زمینوں کی پیمائش جاری کرنا،نہریں کھدوانا،کوفہ،بصرہ ،جیزہ ،فسطاط اور موصل شہر آباد کرنا،مفتوحہ ممالک کو صوبوں میں تقسیم کرکے وفاق کے ساتھ ملانا، عشور ،دریائی پیدا وار عنبر وغیرہ پر ٹیکس لگانا،ٹیکس لینےوالا عملہ رکھنا،جنگ کرنے والے ملکوں کے تاجروں کو تجارت کیلئے آنے دینا،جیل خانہ جات کا قیام،درہ کا استعمال ،راتوں کو گشت کرکے رعایا کے حالات جاننا ،محکمہ پولیس کا قیام،مختلف علاقوں میں فوجی چھاؤنیوں کا قیام ،گھوڑوں کی نسلوں میں فرق کا نظام ،پرچہ نویسوں کا تقرر،مکہ اور مدینہ کے راستے میں مسافروں کیلئے سراؤں کی تعمیر، اسٹریٹ چلڈرن کی دیکھ بھال کا انتظام، مختلف شہروں میں مہمان خانوں کا اہتمام، عربوں کی غلامی کا مکمل خاتمہ، کمزور اور ناداریہودیوں اور عیسائیوں کے وظائف، مکاتب کاقیام، جناب سیدنا صدیق اکبر کے ذریعے قرآن مجید کی ترتیب واہتمام کی کوشش، اصول قیاس کے معیار کا قیام، وراثت میں مسئلہ عول کی دریافت، صبح کی نماز کیلئے آذان سن کر سوئے رہنے والے لوگوں کیلئے الصلوۃ خیر من النوم کی آواز لگانے کا اہتمام، نماز تراویح کو باجماعت کروانے کا بندوبست، شراب کی حد 80 کوڑے مقرر کرنا، تجارتی گھوڑوں کی زکوۃ کی وصولی، بنو تغلب کے عیسائیوں سے زکوۃ لینا، طریقہ وقف، نماز جنازہ میں چار تکبیروں پر لوگوں کو جمع کرنا، مساجد میں وعظ کے طریقے مقرر کرنا، اماموں اور مؤذنوں کی تنخواہوں کا تقرر، مساجد میں رات کو روشنیوں کا اہتمام، ہجو کہنے پر تعزیر کی سزا اور غزلیہ اشعار میں عورتوں کے نام استعمال کرنے پر پابندی سمیت بہت سے امور اور جہتیں شامل ہیں۔ ان کی تفصیل تاریخ طبری اور کتاب الاوائل ابو ہلال العسکری میں موجود ہے۔
اسلام سے پہلے دنیا کی متمدن اقوام میں متعدد تقویم (کیلنڈر) رائج تھیں جن کا آغاز کسی بادشاہ کی پیدائش ، وفات یا کسی حادثہ، زلزلے، طوفان اور جنگ سے ہوتا تھا، رومیوں کا کیلنڈر سکندر اعظم کی پیدائش سے شروع ہوتا تھا، ایرانیوں کی ایک جنتری یزدگرد کی تخت نشینی سے اور دوسری اس کی موت سے شروع ہوتی تھی، مسیحی کلینڈر کا آغاز حضرت عیسیٰ کی ولادت سے ہوا، ہندوستان میں بکرماجیت کے نام سے سنہ کا رواج تھا۔
’’اس کے برعکس عربوں کا معاشرہ اتنا متمدن نہیں تھا کہ کسی ایک تقویم کی ضرورت محسوس ہوتی لہذا اوقات وموسم کے شمار اور رات دن کی بول چال میں آسانی کے لئے وہ اپنی قومی تاریخ کا کوئی اہم واقعہ لے کر اس سے حساب لگا لیتے تھے، عام طور پر عربوں کی معلوم تاریخ یا شعری ادب میں عام الفیل کا ذکر ملتا ہے، اس سے مراد وہ سال ہے جس میں شاہ حبشہ ابرہہ نے کعبہ پر لشکر کشی کی تھی، ہاتھیوں کی فوج لے کر وہ بیت اللہ کو منہدم کرنے کے ارادہ سے نکلا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی حفاظت فرمائی اور ابابیل کے ذریعہ اس کے پورے لشکر کو تباہ وبرباد کردیا، اہل عرب اس واقعہ کو بنیاد بناکر حساب کتاب کرنے لگے۔ نبی اکرم ﷺ کی ولادت بھی اسی سال ہوئی لہذا اس واقعہ سے اسے جوڑا جانے لگا اسی طرح حرب فجار کا واقعہ عربوں کے نزدیک ایک اہم واقعہ تھا، جس کا کتابوں میں ذکر ملتا ہے کہ اس کے حوالہ سے ماضی وحال کے درمیان تعین کیا جاتا تھا، مثلاً کسی کی پیدائش یا موت کے سنہ کا شمار کرنا ہو تو کہا جاتا تھا کہ ’’یہ شخص حرب فجار سے اتنے سال پہلے پیدا ہوا یا اتنے برس بعد اس کی موت کا واقعہ پیش آیا‘‘۔
(مفتی خالد محمود مضمون ’’ہجرت کا اہم واقعہ اسلامی سنہ کے آغاز کی بنیاد‘‘ روزنامہ ’’آواز ملک‘‘ وارانسی۳۰ جولائی ۱۹۹۳ء صفحہ ۲)
ظہور اسلام کے بعد بھی عرصہ دراز تک صحابہ کرامؓ نے کسی ایک سنہ کی تعین کی ضرورت نہیں سمجھی بلکہ عہدِ اسلام کے واقعات میں سے کسی ایک واقعہ سے یادداشت کو محفوظ رکھا جانے لگا، مکی عہد کا ایک اہم واقعہ ’’بیعت عقبہ‘‘ تھا جو کچھ ایام تک بطور سنہ استعمال ہوتا رہا، دور مدنی کا ایک اہم مرحلہ ہجرت کے بعد ’’اذنِ قتال‘‘ تھا یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کو اس کی اجازت دینا کہ حالات کا تقاضہ ہو تو اہل کفر کی جارحانہ سرگرمیوں سے اپنے دفاع کے لئے مسلح جدوجہد کریں، یہ حکم سورہ حج کی آیتِ اذان کی ذریعہ ملا جو یقیناًاسلام کی تاریخ کا ایک نیا موڑ اور دعوت کے لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل واقعہ تھا، صحابہ کرامؓ اسے ’’سنۂ اِذن‘‘ سے تعبیر کرتے تھے، اسی طرح سورہ برأۃ (سورہ توبہ) بھی اسلامی معاشرہ کے قیام کے بعد دعوت کی اجتماعی شکل اور دین کے قیام نیز اشاعت کے پورے نظام کو بیان کرنے والی پہلی سورت تھی، شاید اسی لئے جس سال یہ نازل ہوئی اس سال کو ’’سنۂ البرأۃ ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا رہا، عہد نبویؐ کا آخری سنہ ’’سنۃ الوداع‘‘ سے موسوم کیا گیا جس میں نبی اکرم ﷺ کے حج کا واقعہ پیش آیا اور وہ ’’ حجۃ الوداع‘‘ کے نام سے مشہور ہوا، بعض تاریخی روایات سے اس طرح کے دوسرے سنوں کا بھی علم ہوتا ہے مثال کے طور پر ’’سنؤ التمحیص‘‘ یا ’’سنأ الاستیناس‘‘ (مولانا خلیل الرحمن سجاد ندوی ماہنامہ الفرقان لکھنؤ نومبر ۱۹۸۳ء صفحہ ۳)
خود بعثتِ نبویؐ یا ہجرت مدینہ بھی اہم واقعات تھے اور تاریخ کی کتب میں ان کے ذریعہ حساب وکتاب رکھے جانے کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ یہ واقعہ بعثتِ نبوئ کے اتنے سال بعد رونما ہوا یا فلاں شخص ہجرت مدینہ کے اتنے سال بعد مسلمان ہوا، قابل غور پہلو یہ ہے کہ ان تام سنوں کا تعلق ان واقعات سے ہے جو اسلام کی دعوت و تحریک کو پیش آرہے تھے، کسی فرد واحد سے اس کا تعلق نہیں، اسلام جو دیگر مذاہب کے برخلاف ہیرو پرستی اور شخصیت سازی کی نفی کرتا ہے یہ اس کی اسی مزاجی خصوصیت کا نتیجہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی مکی زندگی نہایت صبر آزما حالات سے دوچار رہی جس کے دوران تیرہ سال تک اللہ کے رسول کی پوری توجہ اسلام کی دعوت واشاعت پر مرکوز رہی، بے سروسامانی اور کسمپرسی کے باوجود رسول پاک ﷺ ایمان کی دعوت لیکر مکہ اور اس کے اطراف کی گلی کوچوں میں پھرتے رہے اور اپنے مٹھی بھر جاں نثاروں کے ساتھ اہل مکہ کے مظالم کا سامنا کرتے رہے۔ ہجرت کے بعد بھی حالات زیادہ بہتر نہیں ہوئے ایک طرف اسلام کی اشاعت اور دوسری طرف کفار مکہ سے براہ راست دشمنی نیز یہودی ونصاریٰ کی ریشہ دوانیوں نے کسی دوسرے کام کی طرف توجہ دینے کی مہلت نہیں دی، جہاد وقتال کی اجازت ملنے کے بعد غزوات کا سلسلہ شروع ہوگیا، صلح حدیبیہ کے بعد مصائب میں کچھ کمی ہوئی تو رسول اکرمؐ نے جزیرۃ العرب سے باہر دوسرے ملکوں میں خطوط وپیغام ارسال کرکے اسلام کی دعوت کو عام کیا اور فتح مکہ کے بعد وفود کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا، ان جملہ مصروفیات کی وجہ سے آنحضرت ﷺ بہت سے امور کی طرف توجہ مبذول نہ فرماسکے اور ان کی تکمیل حضرات خلفائے راشدین کے عہد میں ہوئی جن کے طریقہ پر عمل کرنے کو رسول مقبول ؐ لازم قرار دے چکے تھے۔ آپ کا ارشاد ہے:
’’تم پر میری سنت اور خلفائے راشدین جو ہدایت یافتہ میں ہیں ان کی سنت پر عمل کرنا لازم ہے اسے دانتوں کے ساتھ مضبوطی سے پکڑو‘‘
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے نبی پاک کے چھوڑے ہوئے متعدد امور کی تکمیل فرمائی لیکن اسلامی تقویم کے آغاز کی طرف آپ کی توجہ مبذول نہ ہوسکی، آپ کا عرصہ خلافت نہایت مختصر تھا، جس کے دوران منکرینِ زکوٰۃ کے فتنہ سے مقابلہ اور اس کے بعد روم وایران کے خلاف لشکر روانہ کرنے پر زیادہ توجہ رہی ، خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت میں کئی دیگر ممالک اسلامی سلطنت میں داخل ہوئے تو وہاں گورنروں کا تقرر ہوا اور ان کو دربارِ خلافت سے ہدایت نامے جاری ہونے لگے، اور نامہ وپیام کا سلسلہ بڑھ گیا۔ اسی زمانہ میں روم سے حضرت عمرؓ کو ایک خط موصول ہوا جس پر عیسوی تاریخ اور سنہ درج تھا، اس کا جواب دیتے وقت انہیں تاریخ وسنہ کی ضرورت محسوس ہوئی، ایک مرتبہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے امیر المومنین حضرت عمرؓ کو خط لکھا کہ آپ کی طرف سے ہمیں جو تحریریں ملتی ہیں اس میں تاریخ و سنہ نہ ہونے کی بناء پر اکثر اندازہ نہیں ہوپاتا کہ یہ کس وقت کی لکھی ہوئی ہیں اور اس لئے بعض اوقات ان پر عمل درآمد میں کافی دقت پیش آتی ہے، اسی عرصہ میں حضرت عمرؓ کے پاس ایک مقدمہ سے متعلق تحریر پہونچی جس میں صرف شعبان لکھا ہوا تھا کوئی سنہ تحریر نہ ہونے سے آپ کو یہ سمجھنے میں پریشانی ہوئی کہ یہ کس سال کے شعبان سے متعلق ہے، اس لئے ضرورت محسوس ہوئی کہ کسی ایک واقعہ کو نقطہ آغاز قرار دے کر سرکاری طور پر سنہ کا درجہ دے دیا جائے یعنی وہاں سے باقاعدہ اسلامی تقویم (کلینڈر) کا آغاز ہو، حضرت عمرؓ نے مشورہ کے لئے صحابہ کرامؓ کو جمع کیا جن کی مختلف آراء سامنے آئیں۔ ان میں یہ رائے بھی تھی کہ رسول اللہ ؐ کی ولادت کو اسلامی تقویم کا آغاز قرار دیا جائے، ایک رائے آپؐ کی بعثت کے بارے میں تھی بالآخر حضرت علی کرم اللہ وجہ کی رائے کو حضرت عمر فاروقؓ نے قبول کیا اور فیصلہ ہوا کہ اسلامی جنتری کو رسول پاکؐ کی ہجرت کے سال سے شروع کیا جائے ، فاروق اعظمؓ کے اس فیصلہ کو امت اسلامیہ نے اس صدق دلی سے قبول کیا کہ آج تک اس میں ترمیم و تنسیخ کی ضرورت کسی معتدل مزاج مسلمان کو بھی محسوس نہیں ہوئی۔
یہ فیصلہ امت مسلمہ کے مزاج کے عین مطابق تھا جس کے تحت فتح واقبال مندی کے تاریخ اور واقعات کو نظر انداز کرکے صحابہ کرامؓ نے بیچارگی اور درماندگی سے اپنی تاریخ شروع کرنا مناسب سمجھا، دنیا کی دوسری قومیں اپنے برے دن بھلا کر فتح کو یاد رکھنا چاہتی تھیں لیکن مسلمانوں نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی شکست کو ہر دم پیش نظر رکھا یقیناًان کی سمجھ دنیا کی دیگر اقوام کے برعکس لیکن اس ذوق، مزاج اور شعور کے عین مطابق تھی جس کو سنت نبوی اور اس کی تعلیمات نے ان کے اندر پیدا کرنا چاہا تھا۔
یوں تو صلح حدیبیہ، حجۃ الوداع اور فتح مکہ بھی اسلامی اتریخ کے اہم واقعات ہیں جن سے شخصیت پرستی کی نہیں اسلام کے سیاسی غلبہ کی نشاندہی ہوتی ہے لیکن یہ تینوں واقعات بھی ہجرت نبوی کے نتائج میں شامل ہیں، عظمتِ اسلامی کی ابتداء کے لئے تاریخ کو ہجرتِ رسولؐ کی طرف لوٹنا پڑتا ہے۔ اسی طرح اعلانِ نبوت اور غزوہ بدر جیسے واقعات کو نظر انداز کرکے صحابہ کرامؓ کی نظر انتخاب ہجرت پر جاکر ٹھہری جسے قرآن حکیم کی سورۃ برأۃ میں بیان کیا گیا ہے، یہ سورہ اگرچہ فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی جس کا مقصود اسلام کے مکمل غلبہ کے بعد ہجرت نبوی کی اخلاقی فتح مندیوں کویاد دلانا اور یہ ظاہر کرنا تھا کہ اس سیاسی غلبہ کی روح حقیقت میں اخلاقی غلبہ ہے جس کے آگے سیاسی انقلاب کوئی حیثیت نہیں رکھتا، سطحی نظر میں ہجرت کا واقعہ آنحضرتؐ اور صحابہ کرام کی مظلومیت وپسپائی کی یادگار ہے لیکن فی الحقیقت یہ واقعہ اسلام کی فتح کا آغاز ہے، مسلسل تیرہ سال تک اسلام تلوار کے زیر سایہ اپنے اخلاقی اصولوں کی تبلیغ واشاعت کرتا رہا، ایک طرف مادی قوت وصلاحیت کا زبردست طوفان تھا تو دوسری جانب اسلام کی برتری تھی، لات وعزیٰ کے پجاری اپنی عددی اکثریت پر نازاں تھے جبکہ اسلام کے چند وفادار خدا کی طاقت ونصرت پر بھروسہ کئے ہوئے تھے، ان کا ایمان مصائب کی بھٹی میں تپ کر کندن بن گیا تو اس کھرے سونے کی چمک کی طرف اہل مدینہ دیوانہ وار کھینچنے لگے اور انہوں نے رسول مقبول ﷺ کو دعوت دی کہ آپؐ مدینہ آئیں اور ہماری قیادت فرمائیں، اس طرح ہجرت مظلوموں کی نہیں مدینہ کی فتح کی یاد گار بن گئی، حضرت عائشہ صدیقہؓ کے الفاظ میں:
’’مدینہ کو تلوار نے نہیں قرآن نے فتح کیا ہے۔‘‘
کسی قوم کی خوش اقبالی کا اندازہ لگانے کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے گزرے ہوئے کن واقعات کی یاد تازہ رکھنا چاہتی ہے ، یادگار کے لئے واقعات کا انتخاب اس قوم کی ذہنی افتاد وارتقاء کا پیام دیتے ہیں، اسلام جو فتح وشکست کا ایک منفرد معیار رکھتا ہے اس کے نزدیک سب سے بڑی فتح انسانوں پر قبضہ کرنا نہیں دلوں کی آبادیوں اور روح کی اقلیموں کو سر کرنا ہے گویا
’’جودلوں کو فتح کرلے وہی فاتحِ زمانہ‘‘