امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں بہت سے اچھے اور نیک کاموں کی ابتداء کی جن کو اولیات عمر رضی اللہ عنہ کہا جاتا ہے –
1 – حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے تاریخ اور سن ہجری کا آغاز کیا-
2 – عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کردیا –
3 – باقاعدہ بیت المال قائم کیا –
4 – فوج کامحکمہ قائم کیا اور رضاکار مجاہدین کی تنخواہیں مقرر کیں –
5 – کوفہ، بصرہ،موصل،فسطاس وغیرہ نئے شہر آباد کئے-
6 – مردم شماری کرائی –
7 – جرائم کے لیے جیل خانے بنائے –
8 – فوجی گھوڑوں کوچوری سے محفوظ رکھنیاور ان کاحساب کتاب رکھنے کے لیے ان پر نشان “جیش فی سبیل اللہ ” داغے گئے –
9 – امن و امان کے لیے پولیس کا محکمہ قائم کیا –
10 – مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان مسافروں کے لیے سرائیں قائم کیں –
11 -نئی نہریں کھدوائیں اورآبپاشی کا بندوبست کیا –
12- ڈاک کا نظام قائم کیا اور ڈاک چوکیاں بنائیں –
13- لاوارث اور بیسہارا بچوں کے لیے وظیفے مقرر کیے –
14- چاندی کے سکے جاری کیے –
15- رات کو گشت کا طریقہ ایجاد کیا –
16- عشور یعنی مال تجارت پر 1/10محصول مقرر کیا –
17- فجر کی آذان میں “الصلوۃ خیرمن النوم “کا اضافہ فرمایا –
18- نماز تراویح کاباجماعت اہتمام کیا –
19- شراب نوشی پر 80کوڑوں کی حد مقرر کی –
20- مساجد میں وعظ کا طریقہ شروع کیا –
21- امام اور مؤذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں –
22- قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم کے لیے دینی مدارس قائم کیے اور ان میں تنخواہ دار معلمین مقرر کیے –
23- نماز جنازہ میں چار تکبیروں کی سنت جاری فرمائی –
اوّلیاتِ عمر فاروق رضی اللہ عنہ
عمر بن خطابؓ ایسی ہستیوں میں سے تھے جنہوں نے اسلام کیلئے بے شمار خدمات سرانجام دیں۔ دوسرے خلیفہ راشد، امیرالمؤمنین، مراد رسول ﷺ، رسول اللہﷺ کے سسر اور عشرہ مبشرہ میں شامل تھے۔ انہوں نے خلافت اسلامیہ کو فتوحات کے ذریعے وسعت دی۔ آپ نے انتہائی قابل قد اور قابل تقلید نظام حکومت قائم کیا۔ وہ بڑے دواندیش اور زیرک تھے۔ انہوں نے بہت سے جدید شعبہ جات کا آغاز کیا۔ ان امور کو ’’اولیاتِ عمرؓ ‘‘ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس مضمون میں ان اولیات میں سے بعض اہم کا ذکر حسب ذیل ہے۔
1۔باقاعدہ فوجی نظام: عہد نبوی اور عہدصدیقی میں باقاعدہ فوج نہ تھی اور نہ ہی ان کی تنخواہیں مقرر تھیں۔ مالِ غنیمت میں سے مال ان کو تقسیم کیا جاتا تھا۔ عہد صدیقی میں بھی نہ کوئی فوج کا رجسٹر بنا اور نہ کوئی محکمہ جنگ قائم ہوا۔ حضرت عمرؓ کے اوائل دورِخلافت تک بھی یہی حال رہا۔ لیکن 15ھ ہی میں حضرت عمرؓ نے اس صیغے کو اس قدر منظم اور باقاعدہ کردیا کہ اس وقت کے لحاظ سے تعجب ہوتا تھا۔ اسی طرح بڑے بڑے شہروں اور مناسب مقامات پر فوجی چھاؤنیاں قائم کیں۔ تنخواہوں میں ترقی، فوج میں موسموں کے اعتبار سے تقسیم، رخصت کے ضوابط، فوج کے لباس کے ضوابط مقرر ہوئے۔ فوج کے ساتھ افسر خزانہ، محاسب، قاضی، مترجم، طبیب اور جراح ہوتا تھا۔ )فتوح البلدان، تاریخ طبری(
2۔محکمہ پولیس: حضرت عمرؓ نے پولیس کا محکمہ قائم کیا۔ پولیس افسر کو ’’صاحب الاحداث‘‘ کہتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے ابوھریرہؓ کو بحرین میں صراحت کے ساتھ پولیس کے اختیارات دئیے جیسے دوکاندار ترازو میں دھوکہ نہ دیں ، کوئی آدمی سڑک پر مکان نہ بنائے ، جانوروں پر زیادہ بوجھ نہ لادا جائے، اعلانیہ شراب نہ بکے، حضرت عمرؓ نے حضرت عبداللہ بن عتبہؓ کو بازار کی نگرانی کیلئے مقرر کیا۔ )کنزالعمال(
3۔جیل خانہ جات کانظام: قرآن حکیم میں جیل کا ذکر ہے مگر عربوں کے ہاں جیل کا باقاعدہ نظام نہ تھا۔ زنا کی سزا کے احکام نازل ہونے سے قبل قرآن حکیم نے خواتین کو گھر میں نظر بندکرنے کا حکم دیا۔ )النور( حضرت عمرؓ نے باقاعدہ جیل خانے بنوائے۔ انہوں نے مکہ مکرمہ مںت سب سے پہلے صفوان بن اُمیہ کا مکان چار ہزار درہم میں خرید کا جیل خانہ بنوایا۔ بعدازاں جیل خانہ جات اضلاع میں بھی قائم کئے گئے۔ )فتوح البلدان(
4۔بیت المال کا باقاعدہ : عہد نبوری کا عہد صدیقی میں مالِ غنیمت کو اسی وقت تقسیم کردیا جاتا تھا۔ اس لئے بیت المال کی اتنی ضرورت نہ تھی۔ اس لئے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جو مکان بیت المال کیلئے مخصوص کیا تھا وہ بند رہتا تھا ۔ )طبقات ابن سعد ) حضرت عمرؓ کے دور مںس بحرین سے خطیر رقم کرنے پر بیت المال کے باقاعدہ نظام کا آغاز ہوا۔ حضرت عبداللہ بن ارقم ؓ کو اس افسر مقرر کیا گیا۔ تمام صوبہ جات اور اہم مقامات پر بیت المال قائم ہوئے۔ بعدازاں حضرت عمرؓ نے بیت المال کیلئے شاندار اور مضبوط عمارتیں بنوائیں۔ )تاریخ طبری(
5۔نئے شہروں کو آباد کرنا: حضرت عمرؓ کے اولیات میں سے یہ بھی ہے کہ انہوں نے نئے شہر بسائے۔ ان شہروں میں بصرہ، کوفہ، فسطاط، موصل، جیزہ شامل ہیں۔ )معجم البلدان ؛ تاریخ الخلفاء( یہ عمرفاروق ؓ کی بصیرت کا منہ بولتاثبوت ہے۔ آج کے دور میں اس پر عمل کرتے ہوئے نئے شہر آباد کئے جائیں تاکہ بہت سے لوگوں کو سہولیات پہنچائی جائیں اور بڑے شہروں کو آبادی کی کثرت کے سبب مسائل سے بچایا جائے۔
6۔نہروں کا اجراء: حضرت عمرؓ نے نہروں کے اجراء کے کام کا آغاز کیا۔ ان کا مقصد لوگوں کو پینے کا پانی فراہمی اور زراعت کی ضروریات کو پورا کرنا تھا۔ حضرت عمرؓ نے نہر ابوموسیٰ، نہر معقل، نہر سعد اور امیرالمؤمنین کا اجراء کیا۔ )فتوح البلدان(
7۔مردم شماری: حضرت عمرؓ نے سب سے پہلے مردم شماری کروائی۔ زکوٰۃ اور جزیہ کی تشخیص کیلئے ہر جگہ پر مردم شماری کرائی ۔ خاص شعبہ جات کے حوالے سے بھی فہرستیں تیار کروائی گئیں جیسے قرآن پڑھنے والوں، شاعروں کی فہرست۔ )تاریخ طبری(
8۔عشور کا اجراء: حضرت عمرؓ نے عشور کا آغاز کیا۔ اس کی ابتداء یوں ہوئی کہ مسلمان غیر ملکوں میں تجارت کیلئے جاتے تو ان سے وہاں کے دستور کے مطابق مالِ تجارت پر دس فیصد ٹیکس کیا جاتا تھا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے حضرت عمر کو اس واقعہ کی اطلاع دی حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ ان ملکوں کے تاجر ہمارے ملک میں آئیں تو ان سے بھی اس قدر محصول لیا جائے۔ بعدازاں ذمیوں اور مسلمانوں پر بھی یہ باقاعدہ کردیا گیا۔ البتہ اس کی شرح میں تفاوت تھا کہ حربیوں سے دس فیصد، ذمیوں سے پانچ فیصد اور مسلمانوں سے اڑھائی فیصد وصول کیا جاتا تھا۔ دو سو درہم سے کم قیمت پر مال پر کچھ وصول نہیں کیا جاتا تھا۔ )الفاروق(
9۔صوبے اور اضلاع بنانا: حضرت عمرؓ پہلے شخص ہیں جنہوں نے مفتوحہ علاقوں کر مختلف صوبوں اور اضلاع میں تقسیم کیا۔ ان میں انتظامات کیلئے مختلف آفیسرز مقرر کئے گئے۔ اس کا مقصد لوگوں کے مسائل کے حل کرنے میں سہولت کیساتھ ساتھ انتظامات میں آسانی تھا۔ )تاریخ طبری(
10۔سن ہجری کا آغاز: 21ھ میں حضرت عمر کے سامنے ایک تحریر پیش ہوئی جس پر شعبان کا لفظ لکھا ہوا تھا ۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ یہ کیسے معلوم ہو کہ یہ گذشتہ شعبان ہے یا موجودہ۔ اس مسئلہ پر مجلس شوریٰ منعقد ہوئی ۔ حضرت علیؓ کی رائے پر سب کا اتفاق ہوا کہ ہجرت نبوی سے سنۃ)سال( کا آغاز کیا جائے۔ )الفاروق(
11۔آئمہ اور معلمین کی تنخواہوں کا تقرر: حضرت عمرؓ نے سب سے پہلے آئمہ کی تنخواہوں کا تقرر کیا)مؤطا امام محمد( اس طرح معلمین قرآن کی تنخواہیں مقرر بھی کی گئیں۔ )سیرت ابن جوزی( اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ لوگ اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے صرف مذہبی خدمات سرانجام دیں۔
12۔لازمی تعلیم کا حکم: حضرت عمرؓ کی اولیات میں یہ بات بھی ہے کہ انہوں نے لازمی تعلیم کا حکم دیا۔ انہوں نے ہر جگہ تاکیدی احکام بھجوائے کہ قرآن حکیم کو صحتِ اعراب کیساتھ پڑھایا جائے۔ )مسند دارمی( بدوؤں کیلئے قرآن حکیم کی جبری تعلیم کا انتظام کیا۔ قبائل میں جاکر امتحان لینے او رقرآن کا کوئی حصہ بھی یاد نہ ہونے پر سزا کا نظام رائج کیا۔ )الاصابۃ( تمام اضلاع میں بچوں کو شہسواری اور کتابت کی تعلیم کے احکام بھجوائے۔ )الفاروق )
13۔باجماعت نمازِ تراویح کا اہتمام: حضرت عمرؓ نے 14 ھ میں نمازِ تراویح جماعت کیساتھ مسجد نبوی میں قائم کی۔ تمام اضلاع کے افسروں کو اس پر عمل کرنے کا حکم دیا )موطاء امام مالک؛ الفاروق(اس کا مقصد یہ تھا کہ قرآن حکیم کو مکمل طور پر پڑھا اور سنا جائے جو کہ قرآن کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔
14۔مساجد میں روشنی کا انتظام: حضرت عمرؓ سے قبل مساجد میں ر وشنی کا انتظام نہ تھا۔ حضرت علیؓ رمضان میں ایک مسجد کے پاس سے گزرے تو وہاں قندیل روشن دیکھے۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کی قبر کو روشن کرے کہ انہوں نے ہماری مسجدوں کو روشن کردیا۔ )ابن عساکر(
اس کے علاوہ بھی اوّلیات کا ذکر کتبِ تاریخ میں موجود ہے۔ یہ اوّلیات آپ کی فہم و فراست کی واضح دلیل ہیں۔ آج کے حکمرانوں کئےکر سبق ہے کہ وہ ان دواندیشی پر مبنی اوّلیات پر عمل کریں اور اس کیساتھ ساتھ حضرت عمرؓ کی اقتداء کرتے ہوئے انتظام حکومت اور ترویج دین کے سلسلے میں ایسے مثالی اور نئی روایات کا آغاز کریں جو کہ آئندہ نسلوں کیلئے قابل رشک اور قابل تقلید ہوں