اقوال حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ

٭…کسی مسلمان کو یہ زیبا نہیں کہ تلاش رزق میں بیٹھ جائے اور دعا ء کرے کہ اے اﷲمجھ کو رزق دے،کیونکہ تم کو معلوم ہے کہ آسمان سے چاندی اور سونا نہیں برستا۔
٭…اگر غیب دانی کے دعویٰ کا خیال نہ ہوتاتو میں کہتا کہ پانچ اشخاص جنتی ہیں :…
(۱)…وہ محتاج جو عیالدارمگر صابر ہو۔(۲)…وہ عورت جس کا خاوند اس سے راضی اور خوش ہو۔(۳)…وہ عورت جس نے اپنے شوہرکا حق مہر معاف کردیا ہو۔(۴)…وہ جس کے والدین اس سے خوش ہوں۔(۵)…وہ جو اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرے۔
٭…ایک دفعہ بکری ذبح کی گئی ،آپ نے غلام سے فرمایاکہ سب سے پہلے میرے پڑوسی یہودی کو گوشت بھیجا جائے،آپ نے باربار یہی تاکید فرمائی۔غلام نے عرض کیا کہ آپ باربار کیوں تاکید فرماتے ہیں ،فرمایا:کہ اﷲ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسول صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے باربار اس کے متعلق تاکید فرمائی ہے،اس لیے میں بھی باربار کہتا ہوں۔
٭…ایمان اس کا نام کہ اﷲ واحد کودل سے پہچانے اور زبان سے اس کا اقرار کرے اور حکم شرع پر عمل کرے۔
٭…اگر میں ایسی حالت میں مرجاؤںکہ اپنی محنت وسعی سے اپنی روزی تلاش کرتا ہوں ،تو مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ اﷲ تبارک وتعالیٰ کی راہ میں غازی ہو کر مروں۔
٭…لوگوں کے ساتھ نیک خُلق آدھی عقل ہے،حُسن سوال نصف علم ہے اور حُسن تدبیر نصف معیشت ہے۔
٭…کسی کے خُلق پر اعتماد نہ کر،تاوقتیکہ غصہ کے وقت اسے نہ دیکھ لے۔
٭…نیکی کے عوض نیکی حق ادائیگی ہے،اوربدی کے عوض نیکی احسان ہے ۔
٭…جب حلال وحرام جمع ہوں ،تو حرام غالب ہو تا ہے چاہے وہ تھوڑا ہی ساہو۔
٭…بدترین آوازیں دو ہیں ’’راگ اور نوحہ ‘‘کی۔
٭…عزت دنیا مال سے ہے اور عزت آخرت اعمال سے ہے۔
٭…کم بولنا حکمت ہے،کم کھانا صحت ہے،کم سونا عبادت اور عوام سے کم ملنا عافیت ہے۔
٭…تین چیزیں محبت بڑھانے کا ذریعہ ہیں:…
(ا)…سلام کرنا۔(۲)…دوسروں کے لیے مجلس میں جگہ خالی کرنا۔(۳)…مخاطب کو بہترین نام سے پکارنا ۔
٭…قوت فی العمل یہ ہے کہ آج کے کام کل پر نہ اٹھا رکھے جائیں۔

اولیات حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
بے شمار چیزیں ایسی ہیں جن کی ابتداء حضرت فاروقِ اعظم رضی اﷲ عنہ نے کی تھی ان میں سے چند یہ ہیں :…
(۱)…سال ہجری سے پہلے تعین واقعات کے لیے عام الفیل اور رومیوں کے سال سے کام لیا جا تایکم ہجری میں حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے سال ہجرت کی ترویج کی اور یہ آج تک جاری ہے۔
(۲)…محکمہ قضاسب سے پہلے آپ نے قائم کیا تھا ،اور ان صحابہ رضی اﷲ عنہم کو قاضی مقرر کیا تھا:قاضی شریح کو کوفہ میں ، ابو موسیٰ اشعری کو بصر ہ میں،قیس بن ابی العاص کو مصر میں۔
(۳)…وظائف کا سلسلہ آپ نے شروع کیا تھا اور تمام صحابہ وصحابیات رضی اﷲ عنہم اجمعین کی حسب مراتب تنخواہیں مقرر کی تھیں۔
(۴)…وظیفہ خواروں کے رجسٹر تیار کرائے تھے اور فرما یا تھا،کہ اگر میں ایک سال زندہ رہاتو مفلس ترین آدمی کو دولت مند ترین کے مساوی کردوں گا ۔
(۵)…بیت الما قائم کیا۔
(۶)…زمینوں کی پیمائش کرائی۔
(۷)…مردم شماری کرائی،نہریں کھدوائیں،نئے شہر آباد کئے(مثلاً:…کوفہ ،بصرہ ،موصل فسطاط وغیرہ)جیل خانے بنوائے،فوجی چھاؤنیاں قائم کیں،پرچہ نویس مقرر کیے۔
(۸)…مکہ سے مدینہ تک مسافروں کے لیے سرائیں بنوائیں۔
(۹)نماز تراویح باجماعت کا انتظام کیا۔
(۱۰)شراب نوشی کی حد مقرر کی۔
(۱۱)…نماز جنازہ میں چار تکبیروں پر اجماع کرایا۔
(۱۲)…قصائد میں عورتوںکا نام لینا جرم قرار دیا۔
٭…٭…٭

آپؓ کے مشہور اور ایمان افروز اقوال میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں
شبہ کے ساتھ کمانا مانگنے سے بہتر ہے۔
ایمان کے بعد بڑی نعمت عورت ہے۔
قبل اس کے کہ بزرگ بنو، علم حاصل کرو۔
اسراف اس کا بھی نام ہے کہ جس چیز کو انسان کی طبیعت چاہے کھائے۔
جو شخص اپنا راز پوشیدہ رکھتا ہے وہ گویا اپنی سلامتی کو اپنے قبضے میں رکھتا ہے۔
جو آدمی اپنے کو عالم کہے وہ جاہل ہے اور جو اپنے آپ کو جنتی بتائے وہ جہنمی ہے۔
توبتہ النصوح اس کا نام ہے کہ برے فعل سے اس طرح توبہ کی جائے کہ پھر اس کو کبھی نہ کرے۔
قوت فی العمل یہ ہے کہ آج کے کام کل پر نہ اٹھا رکھے جائیں۔
کسی مسلمان کے لئے یہ زیبا نہیں کہ تلاش رزق میں بیٹھ جائے اور دعا کرے کہ اے خدا مجھ کو رزق دے۔ کیونکہ تم کو معلوم ہے کہ آسمان سے چاندی اور سونا نہیں برستا۔
اگر غیب دانی کے دعویٰ کا خیال نہ ہوتا تو میں کہتا کہ پانچ اشخاص جنتی ہیں۔ (1) وہ محتاج جو عیالدار مگر صابر ہو۔ (2) وہ عورت جس کا خاوند اس سے راضی اور خوش ہو۔ (3) وہ عورت جس نے اپنے شوہر کا حق مہر معاف کر دیا ہو۔ (4) وہ جس کے والدین اس سے خوش ہوں۔ (5) وہ جو اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرے۔
ایک دفعہ بکری ذبح کی گئی۔ آپ نے غلام سے فرمایا کہ سب سے پہلے میرے پڑوسی یہودی کو گوشت بھیجا جائے۔ آپ نے بار بار یہی تاکید فرمائی۔ غلام نے عرض کیا کہ آپ بار بار کیوں تاکید فرماتے ہیں۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ نے بار بار ہم سایہ کے متعلق تاکید فرمائی ہے، اس لئے میں بھی بار بار کہتا ہوں۔
آپؓ نے فرمایا تین چیزیں محبت بڑھانے کا ذریعہ ہیں (1) سلام کرنا (2) دوسروں کے لئے مجلس میں جگہ خالی کرنا (3) مخاطب کو بہترین نام سے پکارنا۔
ندامت چار قسم کی ہوتی ہے۔ (1) ندامت ایک دن کی، جب کوئی شخص گھر سے بے کھانا کھائے چلا جائے۔ (2) ندامت سال بھر کی کہ زراعت کا وقت غفلت میں گزر جائے۔ (3) ندامت عمر بھر کی، جب بیوی سے موافقت نہ ہو۔ (4) ندامت ابدی کہ رب ناخوش ہو۔
آپ اکثر دعا مانگتے کہ خدا یا دنیا میں کوئی چیز باقی نہ رہے گی اور نہ کوئی حالت قائم رہے گی۔ تو مجھے ایسا کرلے کہ میں علم کے ساتھ بولوں اور حلم کے ساتھ خاموش رہوں اے اللہ تو مجھ کو بہت دنیا نہ دے کیونکہ شاید میں سرکش ہو جاؤں، اور نہ بہت تھوڑی کیونکہ شاید مںا تجھے بھول جاؤں۔ پس تھوڑی اور کافی ہونا بہ نسبت اس کے بہتر ہے کہ زیادہ ہو اور گناہوں میں مبتلا کرے۔
آدمی تین قسم کے ہوتے ہیں۔ کامل، کاہل، لاشے، کامل وہ ہے جو لوگوں سے مشورہ کرکے اس پر غور کرے۔ کاہل وہ ہے جو اپنی رائے پر چلے اور کسی سے مشورہ نہ کرے۔ لاشے وہ ہے کہ نہ وہ خود صاحب الرائے ہوا اور نہ دوسرے سے مشورہ کرے۔
جب تم کسی صاحب علم کو دنیا کی طرف مائل دیکھو تو سمجھ لو کہ دین کے بارے میں وہ قابل الزام ہے، کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ جو شخص جس چیز کا خواہاں ہوتا ہے اسی کی دھن میں ہر وقت لگا رہتا ہے۔
ایمان اس کا نام ہے کہ خالق واحد کو دل سے پہچانے اور زبان سے اس کا اقرار کرے، حکم شرع پر عمل کرے۔ تم نے لوگوں کو کیوں غلام بنا لیا ہے حالانکہ ماؤں نے تو انہیں آزاد جنا تھا۔
خشوع و خضوع کا تعلق دل سے ہے نہ کہ ظاہری حرکات سے۔
مقدمات کا جلد تصفیہ کرنا چاہئے تاکہ دعویٰ کرنے والا دیر کے سبب سے کہیں اپنے دعویٰ سے مجبوراً دستبردار نہ ہو جائے۔
بدخوکی دوستی سے احتراز لازم ہے کیونکہ وہ اگر بھلائی بھی کرنا چاہتا ہے تو بھی اس سے برائی سرزد ہو جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحمت فرمائے جو میرے عیوب پر مجھے مطلع کرتا ہے۔
جب عالم کو لغزش ہوتی ہے تو اس سے ایک عالم )دنیا جہان( لغزش میں پڑ جاتا ہے۔
ایک دن ایک شخص نے آپؓ کی تعریف کی تو فرمایا کہ کیا تو مجھے اور اپنے نفس کو ہلاک کرتا ہے۔
میں کسی چیز کو نہیں دیکھتا، مگر اس کے ساتھ اللہ کو دیکھتا ہوں۔
اگر میں ایسی حالت میں مر جاؤں کہ اپنی محنت وسعی سے اپنی روزی تلاش کرتا ہوں، تو مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ اللہ کی راہ میں غازی ہو کر مروں۔
لوگوں کے ساتھ نیک خلق آدھی عقل ہے، حسن سوال نصف علم ہے اور حسن تدبیر نصف معیشت ہے۔
طالب دنیا کو علم پڑھانا راہزن کے ہاتھ تلوار فروخت کرنا ہے۔
کسی کے خلق پر اعتماد نہ کر، تاوقتیکہ غصہ کے وقت اسے نہ دیکھ لے۔
کسی کی دینداری پر اعتماد نہ کر، تاوقتیکہ طمع کے وقت اسے نہ آزمالے۔
جو عیب سے واقف کرے، وہ دوست ہے اور منہ پر تعریف کرنا گویا ذبح کرنا ہے۔
ہنسنے سے عمر کم ہوتی ہے اور رعب و داب جاتا رہتا ہے۔ یہ موت سے غافل کا نشان ہے۔ طمع کرنا مفیسن، بے غرض ہونا امیری اور بدلہ نہ چاہنا صبر ہے۔
نیکی کے عوض نیکی حق ادائیگی ہے اور بدی کے عوض نیکی احسان ہے۔
کم بولنا حکمت ہے، کم کھانا صحت، کم سونا عبادت اور عوام سے کم ملنا عافیت ہے۔
بڑھاپے سے پہلے جوانی اور موت سے پہلے بڑھاپا غنیمت جان۔
سخی حبیب خدا ہے اگرچہ فاسق ہو، بخیل دشمن خدا ہے اگرچہ زاہد ہو۔
ظالموں کو معاف کرنا مظلوموں پر ظلم ہے۔
جب حلال و حرام جمع ہوں تو حرام غالب ہوتا ہے چاہے وہ تھوڑا ہی سا ہو۔
نہیں دوستی رکھتے مومن مخالفین خدا و رسولؐ سے، اگرچہ ماں باپ ہوں۔
بدترین آوازیں دو ہیں، راگ کی اور نوحہ کی۔
سلامتی گمنامی میں ہے یا خلوت میں۔
ہم حرام کے خوف سے نوحصے حلال بھی ترک کر دیتے ہیں۔
نہیں حاصل ہوتا مطلب بغیر خوف کے، خصلت اچھی بغیر ادب کے، خوشی بغیر امن کے، تونگری بغیر بخشش کے، فقیری بغیر قناعت کے، رفعت بغیر تواضع کے، جہاد بغیر توفیق خدا کے۔
مشغولی سے پہلے فراغت اور موت سے پہلے بڑھاپا غنیمت جان۔
عزت دنیا مال سے ہے اور عزت آخرت اعمال سے ہے۔
دوزخ سے بچو اگرچہ آدھے خرما ہی کی بدولت ہو۔ اگر یہ بھی نہ ہو تو میٹھی بات ہی سہی۔