حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مرتدین اور مانعینِ زکوٰۃ سے جنگ کا اہتمام کرنا
تابندہ ستارے ۔حضرت مولانا محمدیوسفؒ کاندھلوی
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:کیا میں تمہیں وہ آدمی نہ بتادوں جس کا اجر و ثواب ان سے بھی زیادہ ہے جن کاتم نے ذکر کیا ہے اور امیر المومنین سے بھی زیادہ ہے؟ لوگوں نے کہا :ضرور بتائیں۔
آپ ؓ نے فرمایا: وہ ایک چھوٹا سا آدمی ہے جو اپنے گھوڑے کی لگام پکڑ کر شام میں پیدل چل رہا ہے اور جو مسلمانوں کے اجتماعی مرکز( مدینہ منورہ) کی حفاظت کررہا ہے( تاکہ شامی فوج مدینہ پر حملہ کرنے نہ جا سکے) اسے یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ کیا اسے کوئی درندہ پھاڑ کھائے گا یا کوئی زہریلا جانور اسے ڈس لے گایا کوئی دشمن اس پر قابو پالے گا۔ اس آدمی کا اجر و ثواب ان لوگوں سے بھی زیادہ ہے جن کا تم نے ذکر کیا ہے اور امیر المومنین سے بھی زیادہ ہے۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ملک شام کی طرف روانہ ہوگئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت معاذ کے شام جانے سے مدینہ والوں کو فقہی مسائل میں اور فتویٰ لینے میں بڑی دقت پیش آرہی ہے ،کیونکہ حضرت معاذرضی اللہ عنہ مدینہ میں لوگوں کو فتویٰ دیا کرتے تھے۔ میں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے( اللہ ان پر رحمت نازل فرمائے)یہ بات کی تھی کہ وہ حضرت معاذ کو مدینہ میں روک لیں، کیونکہ( فتویٰ میں) لوگوں کو ان کی ضرورت ہے، لیکن انہوں نے مجھے انکار کردیا اور فرمایا کہ ایک آدمی اس راستہ میں جا کر شہید ہونا چاہتا ہے تو میں اسے انہیں روک سکتا ۔ تو میں نے کہا:اللہ کی قسم! جو آدمی اپنے گھر میں رہ کر شہر والوں کے بڑے بڑے( دینی) کام کررہا ہے وہ اگر اپنے بستر پر بھی مرجائے گا تو بھی وہ شہید ہوگا۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضرت معاذ رضی اللہ عنہ حضورﷺ کے زمانے میں بھی اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی مدینہ منورہ میں لوگوں کو فتویٰ دیا کرتے تھے۔
حضرت نوفل بن عمارہ فرماتے ہیں کہ حضرت حارث بن ہشام اور حضرت سہل بن عمرو رضی اللہ عنہما حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے پاس بیٹھ گئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان دونوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے۔ حضراتِ مہاجرین اولین حضرت عمررضی اللہ عنہ کے پاس آنے لگے( ان میں سے جب بھی کوئی آتا تو) حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے:اے سہیل! ادھر ہوجائو ، اور اے حارث! ادھر ہوجائو۔ اس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مہاجرین کو پاس بٹھالیا اور ان دونوں کو ان سے پیچھے کردیا۔ پھر حضراتِ انصار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آنے لگے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ ان دونوں کو انصار سے بھی پیچھے کردیتے۔ ہوتے ہوتے یہ دونوں لوگوں کے بالکل آخر میں پہنچ گئے۔ جب یہ دونوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس سے باہر آئے تو حضرت حارث بن ہشام نے حضرت سہیل بن عمرو سے کہا:کیاتم نے نہیں دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمارے ساتھ کیا کیا؟تو حضرت سہیل نے ان سے کہا:ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ملامت نہیں کر سکتے، ہمیں تو اپنے آپ کو ملامت کرنی چاہیے۔ ان لوگوں کو(اسلام کی) دعوت دی گئی تھی انہوں نے جلدی سے قبول کرلی۔ ہمیں بھی دعوت دی گئی تھی ہم نے دیر سے قبول کی۔
جب حضرات مہاجرین و انصار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس سے کھڑے ہو کر باہر آگئے تو ان دونوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آکر کہا:اے امیر المومنین! آپ رضی اللہ عنہ نے آج ہمارے ساتھ جو کچھ کیا ہے ہم نے اسے خوب دیکھا ہے اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہمارے ساتھ آج جو کچھ ہوا ہے یہ ہماری اپنی غلطیوں کی وجہ سے سے ہوا ہے لیکن کیا ایسی کوئی چیز ہے جسے کر کے ہم آیندہ وہ قدر ومنزلت حاصل کرلیں جو ہم ابھی تک حاصل نہیں کر سکے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:ایسا کام تو اب بس ایک ہی ہے کہ تم ادھر چلے جائو۔ اور ہاتھ سے روم کی سرحد کی طرف اشارہ فرمایا۔
چنانچہ وہ دونوں حضرات شام کی طرف چلے گئے اور وہاں ہی ان حضرات کا انتقال ہوگیا۔
حضرت حسنؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دروازے پر کچھ لوگ آئے جن میں حضرت سہیل بن عمرو، حضرت ابو سفیان بن حرب رضی اللہ عنہ اور بہت سے قریش کے بڑے سردار تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دربان باہر آیا اور حضرت صہیب، حضرت بلال اور حضرت عمار رضی اللہ عنہ جیسے بدری صحابہ کو اجازت دینے لگا۔ اللہ کی قسم! حضرت عمررضی اللہ عنہ خود بدری تھے اور بدریوں سے بڑی محبت کرتے تھے اور ان کا خاصل خیال رکھنے کی اپنے ساتھیوں کو تاکید کر رکھی تھی۔ یہ دیکھ کر حضرت ابو سفیان نے کہا:آج جیسا دن تو میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ یہ دربان ان غلاموں کو اجازت دے رہا ہے اور ہم بیٹھے ہوئے ہیں ہمیں دیکھتا بھی نہیں ہے۔
حضرت حسن ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت سہیل بن عمرو بڑے اچھے اور سمجھ دار آدمی تھے، انہوں نے کہا:
اے لوگو! میں تمہارے چہروں پر ناگواری کے اثرات دیکھ رہا ہوں ۔اگر تم نے ناراض ہونا ہی ہے تو اپنے اوپر ناراض ہو۔ ان لوگوں کو بھی دعوت دی گئی تھی اور تمہیں بھی دعوت دی گئی تھی ،انہوں نے دعوت جلدی مان لی تم نے دیر سے مانی۔
٭…٭…٭