حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مرتدین اور مانعینِ زکوٰۃ سے جنگ کا اہتمام کرنا
تابندہ ستارے ۔حضرت مولانا محمدیوسفؒ کاندھلوی
غور سے سنو! اللہ کی قسم! تم( امیر المومنین) کے اس دروازے میں ایک دوسرے سے زیادہ حرص کررہے ہو اور یہ دروازہ تمہارے لیے آج کھلا بھی نہیں، تو اس دروازے کے ہاتھ میں نہ آنے سے زیادہ سخت تو ( دعوتِ اسلام کو قبول کرلینے اور دینی محنت میں لگنے کی)فضیلت سے محروم ہونا ہے جس فضیلت کی وجہ سے وہ تم سے آگے نکل گئے ہیں اور یہ لوگ جیسے کہ تم دیکھ رہے ہو تم سے آگے نکل گئے ہیں اور اللہ کی قسم! تم سے آگے بڑھ کر انہوں نے جو درجہ پالیا ہے اب تم وہ کسی طرح حاصل نہیں کر سکتے ہو۔ لہٰذا اب تم جہاد کی طرف متوجہ ہو جائو اور اس میں مسلسل لگے رہو، ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں جہاد اور شہادت کا مرتبہ نصیب فرمادے۔ پھر حضرت سہیل بن عمرو کپڑے جھاڑتے ہوئے کھڑے ہوئے اور(جہاد کے لیے) ملکِ شام چلے گئے۔ حضرت حسن فرماتے ہیں:حضرت سہیل نے سچ فرمایا۔ اللہ کی قسم! جو بندہ اللہ کی طرف (چلنے میں) جلدی کرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ دیر کرنے والے کی طرح نہیں بناتے ہیں۔
حضرت ابو سعید بن فضالہ رضی اللہ عنہ ایک صحابی ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں اور حضرت سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ دونوں اکٹھے شام گئے۔ میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے حضورﷺ سے یہ سنا کہ زندگی میں سے ایک گھڑی کسی کا اللہ کے راستہ میں کھڑا ہونا اس کے اپنے گھر والوں میں عمر بھر کے اعمال سے زیاد ہ بہتر ہے۔ حضرت سہیل نے کہا: میں اب اسلامی سرحد کی حفاظت میں یہاں مرتے دم تک لگا رہوں گا اور مکہ واپس نہیں جائوں گا۔ چنانچہ وہ ملکِ شام میں ہی ٹھہرے رہے یہاں تک کہ ان کاطاعونِ عمواس میں انتقال ہوگیا۔
حضرت ابو نوفل بن ابی عقرب بیان کرتے ہیں کہ حضرت حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ ( ملک ِ شام جانے کے لیے) مکہ سے روانہ ہونے لگے، تو تمام مکہ والے( ان کے یوں ہمیشہ کے لیے چلے جانے کی وجہ سے) بڑے غمگین اور پریشان تھے۔ دودھ پینے والے بچوں کے علاوہ باقی سب چھوٹے بڑے رخصت کرنے ان کے ساتھ شہرمکہ سے باہر آئے۔ جب وہ بطحا مقام کی اونچی جگہ یا اس کے قریب پہنچے تو وہ رک گئے اور تمام لوگ ان کے اردگرد رک گئے اور تمام لوگ رورہے تھے۔ جب انہوں نے ان لوگوں کی یہ پریشانی دیکھی تو کہا:اے لوگو! اللہ کی قسم ! میں اس وجہ سے نہیں جارہا ہوں کہ مجھے اپنی جان تمہاری جان سے زیادہ پیاری ہے یا میں نے تمہارے شہر(مکہ) کو چھوڑ کر کوئی اورشہر اختیار کرلیا ہے بلکہ اس وجہ سے جارہا ہوں کہ (اسلام لانے اور اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے کی) بات چلی تھی تو اس وقت قریش کے بہت سے ایسے آدمیوں نے نکلنے میں پہل کرلی جو نہ تو قریش کے بڑے لوگوں میں سے تھے اور نہ وہ قریش کے اعلیٰ خاندانوں میں سے تھے(قریش کے بڑے لوگ تو ہم تھے اور ہمارے خاندان اعلیٰ تھے) اب ہماری حالت یہ ہوگئی ہے کہ اللہ کی قسم! اگر ہم مکہ کے پہاڑوں کے برابر سونا اللہ کے راستے میں خرچ کردیں تو بھی ہم ان کے ایک دن کے ثواب کو نہیں پا سکتے ہیں۔ اللہ کی قسم! اگر وہ دنیا میں ہم سے آگے نکل گئے ہیں تو ہم یہ چاہتے ہیں کہ کم از کم ہم آخرت میں تو ان کے برابر ہوجائے ۔ عمل کرنے والے کو( اپنے عمل کے بارے میں) اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ چنانچہ وہ ملک شام روانہ ہوگئے اور ان کے تمام متعلقین بھی ان کے ساتھ گئے اوروہاں وہ شہید ہوگئے۔ اللہ ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے! حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے خاندان کے آزاد کردہ غلام حضرت زِیادؒ کہتے ہیں کہ حضرت خالدرضی اللہ عنہ نے اپنے انتقال کے وقت فرمایا: جو رات سخت سردی والی ہو جس میں پانی جم جائے اور میں مہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ ہوں اور صبح کو دشمن پر حملہ کروں، روئے زمین پر کوئی رات مجھے اس رات سے زیادہ محبوب نہیں ہے لہٰذا تم لوگ جہاد کرتے رہنا۔
حضرت خالدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس رات میرے گھر میں نئی دلہن آئے جس سے مجھے محبت بھی ہو اور مجھے اس سے لڑکے کے ہونے کی بشارت بھی اس رات مل جائے ،یہ رات مجھے اس رات سے زیادہ محبوب نہیں ہے جس رات میں پانی جما دینے والی سخت سردی پڑ رہی ہو اور میں مہاجرین کی ایک جماعت میں ہو ں اور صبح کو دشمن پر حملہ کرنا ہو۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جہاد فی سبیل اللہ ( کی مشغولی کی وجہ سے) میں زیادہ قرآن نہ پڑھ سکا۔
ایک روایت میں ہے حضرت خالد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں جہاد کی وجہ سے بہت ساقرآن نہیں سیکھ سکا۔
حضرت ابو وائل کہتے ہیں کہ جب حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے انتقال کا وقت قریب آیا تو انہوں نے فرمایا: میرے دل میں تمنا تھی کہ میں اللہ کے راستہ میں شہید ہوجائوں ،لہٰذا جن جگہوں سے شہادت مل سکتی تھی میں ان تمام جگہوں میں گیا لیکن میرے لیے بستر پر مرنا ہی مقدر تھا۔
لا الہ الا اللہ کے بعد میر ے نزدیک سب سے زیادہ امیدوالا عمل یہ ہے کہ میں نے ایک رات اس حال میں گزاری تھی کہ ساری رات صبح تک بارش ہوتی رہی اور میں ساری رات سر پر ڈھال لیے کھڑا رہا اور صبح کو ہم نے کافروں پر اچانک حملہ کردیا ۔ پھر فرمایا:جب میں مرجائوں تو میرے ہتھیار اور گھوڑے کو ذراخیال کر کے جمع کرلینا اور انہیں اللہ کے راستہ میں بطور سامانِ جنگ کے دے دینا۔ جب ان کاانتقال ہو گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے جنازے کے لیے باہر تشریف لائے اور فرمایا: خاندانِ ولید کی عورتیں حضرت خالد کے انتقال پر آنسو بہا سکتی ہیں، نہ تو گریبان پھاڑیں، نہ چیخیں چلائیں۔