حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مرتدین اور مانعینِ زکوٰۃ سے جنگ کا اہتمام کرنا
تابندہ ستارے ۔حضرت مولانا محمدیوسفؒ کاندھلوی
حضرت عبداللہ بن محمد، عمر بن حفص اور حضرت عمار بن حفص ان سب کے والدان سب کے داداؤں سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا:اے خلیفۂ رسول اللہ! میں نے حضورﷺ سے سنا ہے کہ مومنوں کا سب سے افضل عمل جہاد فی سبیل اللہ ہے، اس لیے میں نے یہ ارادہ کرلیا ہے کہ میں موت تک اللہ کے راستہ میں رہوں گا ۔ حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ نے فرمایا :اے بلال! میں تمہیں اللہ تعالیٰ کا اور اپنی عزت کا اور اپنے حقوق کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ میری عمر زیادہ ہوگئی ہے اور میری قوتیں کمزور ہوگئی ہیں اور میرے جانے کا وقت قریب آگیا ہے( اس لیے تم نہ جائو) چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ رک گئے اور حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کے ساتھ رہتے رہے۔ جب حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے جہاد میں جانے کی اجازت مانگی۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ جیسا جواب دیا لیکن حضرت بلال رضی اللہ عنہ رکنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اے بلال! اذان کے لیے کسے مقرر کروں؟حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کہا:حضرت سعد( قرظ) کو، کیونکہ وہ حضورﷺ کے زمانے میں قبا میں اذان دیتے رہے ہیں۔ چنانچہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضرت سعدرضی اللہ عنہ کو اذان کے لیے مقرر فرمایا اور یہ فیصلہ کردیا کہ اس کے بعد ان کی اولاد اذان دے گی۔
حضرت محمد بن ابراہیم تیمی کہتے ہیں کہ جب حضورﷺ کا وصال ہوگیا تو حضورﷺ کے دفن ہونے سے پہلے حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی۔ جب انہوں نے (اذان میں) اشھد ان محمدا رسول اللّٰہ کہا تو مسجد میں تمام لوگ روپڑے۔ جب حضورﷺ دفن ہوگئے تو ان سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا :اذان دو۔ تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کہا:اگر آپ نے مجھے اس لیے آزاد کیا تھا تاکہ میں آپ کے ساتھ( زندگی بھر) رہوں تو پھر تو ٹھیک ہے( آپ کے فرمانے پر میں آپ کے ساتھ رہا کروں گا اور اذان دیتارہوں گا) لیکن اگر آپ نے مجھے اللہ کے لیے آزاد کیا تھا تو مجھے اس ذات کے لیے یعنی اللہ کے لیے چھوڑدیں جس کے لیے آپ نے مجھے آزاد کیا تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا:میں نے تو تمہیں محض اللہ ہی کے لیے ہی آزاد کیا تھا۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ حضورﷺ کے بعد میں اب کسی کے لئے اذان دینا نہیں چاہتا ہوں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اس کا تمہیں اختیار ہے۔ پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ مدینہ ٹھہرگئے۔ جب شام کی طرف لشکر جانے لگے تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ چلے گئے اور ملک شام پہنچ گئے۔ حضرت سعید بن مسیبؒ کہتے ہیں کہ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن منبر پر بیٹھے تو ان سے حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابو بکر! حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:لبیک حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کہا:آپ نے مجھے اللہ کے لیے آزاد کیا تھا یا اپنے لیے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اللہ کے لیے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کہا:آپ مجھے اللہ کے راستہ میں جانے کی اجازت دے دیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انہیں اجازت دے دی چنانچہ وہ ملکِ شام چلے گئے اور وہاں ہی ان کا انتقال ہوا۔
حضرت ابو یزید مکی کہتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب اور حضرت مقداد رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ ہم ہر حال میں( اللہ کے راستہ میں) نکلیں۔ (انفرواخفافاوثقالا) والی آیت کی وہ یہی تفسیر بیان کیا کرتے تھے۔
حضرت ابو راشد حبرانیؒ کہتے ہیں کہ میں حضورﷺ کے شہسوار حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے ملا، وہ حمص میں صراف کے ایک صندوق پر بیٹھے ہوئے تھے۔ چونکہ جسم بھاری ہوچکا تھا اس لیے ان کا جسم تابوت سے باہر نکلا ہوا تھا ( اور اس حال میں بھی) ان کا اللہ کے راستہ میں جہاد کے لئے جانے کا ارادہ تھا۔ میں نے ان سے کہا:اللہ تعالیٰ نے آپ کو معذور قراردیا ہے۔ انہوں نے فرمایا:سورہ بعوث کی آیت( انفرواخفا فاوثقالا) نے ہمارے ہر طرح کے عذر ختم کردیئے ہیں۔
حضرت جبیر بن نفیرؒ کہتے ہیں کہ ہم لوگ دمشق میں حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ایک صندوق پر بیٹھے ہوئے تھے صندوق کی کوئی جگہ خالی نہیں تھی(ان کا جسم اتنا بھاری ہو چکا تھا کہ ان کے جسم سے سارا صندوق بھی بھر گیا تھا بلکہ ان کے جسم کا کچھ حصہ صندوق سے باہر بھی تھا) ان سے ایک آدمی نے کہا کہ اس سال آپ جہاد میں نہ جائیں( گھر میں ہی رہ جائیں) انہوں نے فرمایا:سورئہ بعوث یعنی سورئہ تو بہ ہمیں ایسا کرنے سے روکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا( انفرواخفا فاوثقالا) میں تو اپنے آپ کو ہلکا ہی پاتا ہوں( لہٰذا جانا ضروری ہے)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے سورئہ براء ت پڑھنی شروع کی، جب اللہ تعالیٰ کے اس قول( انفرواخفا فاوثقالا) پر پہنچے تو فرمایا:مجھے تو یہی نظر آرہا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ ہم جوان ہوں یا بوڑھے ،دونوں حالتوں میں( اللہ کے راستے میں ) نکلیں۔