حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مرتدین اور مانعینِ زکوٰۃ سے جنگ کا اہتمام کرنا

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مرتدین اور مانعینِ زکوٰۃ سے جنگ کا اہتمام کرنا
تابندہ ستارے ۔حضرت مولانا محمدیوسفؒ کاندھلوی
اے میرے بیٹو!( اللہ کے راستے میں جانے کے لئے) مجھے تیار کرو، مجھے تیار کرو۔ ان کے بیٹوں نے ان سے کہا: اللہ آپ پر رحم فرمائے!آپ حضورﷺ کے ساتھ جہاد میں شریک رہے یہاں تک کہ ان کا وصال ہوگیا اور پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد کیا یہاں تک کہ ان کا انتقال ہوگیااور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد کیا یہاں تک کہ ان کا بھی انتقال ہوگیا( آپ تو اللہ کے راستے میں بہت جا چکے ہیں، اب آپ نہ جائیں) آپ ہمیں اپنی طرف سے جہاد میں جانے دیں۔ انہوں نے فرمایا :نہیں، تم لوگ مجھے( جہاد میں جانے کے لئے) تیار کرو۔ چنانچہ جہاد میں انہوں نے سمندر کا سفر کیا اور سمندر ہی میں ان کا انتقال ہوگیا اور سات دن کے بعد ان کے ساتھیوں کو ایک جزیرہ ملا جس میں انہیں دفن کیا۔ (اتنے دن گزرنے کے باوجود) ان کے جسم میں ذرا بھی فرق نہیں پڑا تھا( ان کا جسم گلنے سے محفوظ رہا، یہ ان کی کرامت ہے)
حضرت محمد بن سیرینؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ حضورﷺ کے ساتھ غزوئہ بدر میں شریک ہوئے، اس کے بعد وہ مسلمانوں کے ہر غزوہ میں شریک ہوتے رہے، لیکن ایک سال لشکر کا امیر ایک نوجوان کو بنادیا گیا اس وجہ سے اس سال وہ اس غزوہ میں نہ گئے لیکن اس سال کے بعد وہ ہمیشہ افسوس کرتے رہے اور تین مرتبہ فرمایا کرتے کہ مجھے اس سے کیا غرض کہ میرا امیر کس کو بنایا گیا ہے؟(میری غرض تو مسلمانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جانا ہے) چنانچہ اس کے بعد وہ ایک غزوہ میں گئے( جس میں) وہ بیمار ہوگئے اور لشکر کا امیر یزید بن معاویہ تھا۔ وہ ان کی عیادت کے لیے ان کے پاس آیا اور اس نے پوچھا کہ آپ کوکسی چیز کی ضرورت ہے؟انہوں نے فرمایا :مجھے اس بات کی ضرورت ہے کہ جب میں مرجائوںتو میری لاش کو کسی سواری پر رکھ دینا اور جہاں تک ہو سکے مجھے دشمن کے علاقہ میں لے جانا اور جب آگے لے جانے کا راستہ نہ ملے تو وہاں مجھے دفن کردینا اور وہاں سے تم واپس آجانا۔
چنانچہ جب ان کا انتقال ہوگیا تو یزید نے ان کی لاش کو ایک سواری پر رکھا اور دشمن کے علاقہ میں لے کر گیا اور جب آگے لے جانے کا راستہ نہ ملا تو ان کو وہاں دفن کردیا اور وہاں سے واپس ہوگیا اور حضرت ایوب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
انفرواخفافاوثقالا
تم ہلکے ہو یا بھاری ہر حال میں( اللہ کی راہ میں) نکلو۔
لہٰذا میں اپنے آپ کو ہلکا پائوں یا بوجھل( مجھے ہر حال میں نکلنا چاہیے)
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک غزوہ میں گئے اور بیمار ہوگئے۔ جب زیادہ بیمار ہوگئے تو اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ جب میں مرجائوں تو مجھے سواری پر لے چلنا۔ جب تم دشمن کے سامنے صفیں باندھنے لگو تو اپنے قدموں میں مجھے دفن کردینا۔
چنانچہ ان حضرات نے ایسا ہی کیا۔ آگے اور حدیث بھی ہے۔
حضرت ابوظبیان کہتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ یزید بن معاویہ کے ساتھ ایک غزوہ میں گئے۔ حضرت ابو ایوب نے فرمایا:جب میں مرجائوں تو مجھے دشمن کی زمین میں لے جانا اور جہاں تم دشمن سے مقابلہ کرنے لگو وہاں مجھے اپنے قدموں کے نیچے دفن کردینا۔ میں نے حضورﷺ سے سنا ہے کہ جو اس حال میں مرے گا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو بھی شریک نہیں کررہا ہوگا تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔
ابن ِ اسحاق بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺ کے (غزوئہ تبوک میں) تشریف لے جانے کے چند دن بعد حضرت ابو خیثمہ رضی اللہ عنہ اپنے گھر واپس آئے، اس دن سخت گرمی پڑرہی تھی۔ انہوں نے دیکھا کہ ان کے باغ میں ان کی دوبیویاں اپنے اپنے چھپر کے اندر ہیں اور ہر ایک نے اپنے اپنے چھپر میں چھڑکائو کر رکھا ہے اور ہر ایک نے ان کے لیے ٹھنڈاپانی اور کھانا تیار کررکھا ہے۔ چنانچہ جب یہ اندر گئے تو چھپر کے دروازے پر کھڑے ہوکر انہوں نے بیویوں اور ان تمام نعمتوں پر نظر ٖڈالی جو ان کی بیویوں نے تیار کر رکھی تھیں۔ اور یوں کہا کہ حضورﷺ تو دھوپ میں اور لو میں اور سخت گرمی میں ہوں اور ابو خیثمہ ٹھنڈے سائے اور تیار کھانے اور خوب صورت بیویوں میں ہو اور اپنے مال ومتاع میں ٹھہرا ہوا ہو۔ یہ ہرگز انصاف کی بات نہیں ہے۔ اس کے بعد کہا: اللہ کی قسم ! میں تم دونوں میں سے کسی کے چھپر میں داخل نہیں ہوںگا، میں تو سیدھا حضورﷺ کی خدمت میں جائوں گا، تم دونوں میرے لیے زادِ سفر کردو۔ چنانچہ انہوں نے تیار کردیا۔ پھر اپنی اونٹنی کے پاس آئے اور اس پر کجاوہ کسا۔ پھر حضورﷺ کی تلاش میں چل پڑے اور حضورﷺ جب تبوک پہنچے ہی تھے تو یہ حضورﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے۔ راستہ میں حضرت عمیر بن وہب جمحی رضی اللہ عنہ کی ان سے ملاقات ہوئی تھی، وہ بھی حضورﷺ کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے۔ وہاں سے آگے یہ دونوں حضرات اکٹھے چلتے رہے، تبوک کے قریب آکر حضرت ابو خیثمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ سے کہا:مجھ سے ایک غلطی ہوئی ہے، اس لیے میں حضورﷺ کی خدمت میں جلدی حاضر ہونا چاہتا ہوں( اور چونکہ تم سے کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے اس لیے اگر) تم ٹھہرکر آئو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے( اس لیے مجھے پہلے جانے دو)
(جاری ہے)