تاجدارِ صداقت سیرت و عظمت کے آئینے میں

تاجدارِ صداقت سیرت و عظمت کے آئینے میں

حافظ حسین علی ندیم

( مدرس جامعہ ضیاء العلوم سرگودھا)

خالق کائنات نے اپنے دین کی بقا و نصرت کے لیےجس جماعت قدسیہ کو اپنے حبیب کی معیت کے لیے منتخب کیا اور ان کے قلوب و اذہان میں دین اسلام کی سربلندی ، کلمہ حق کی اشاعت و ترویج اور اس کے لیے ہر طرح کی قربانی و ایثار کا جذبہ صادقہ ودیعت فرمایا ۔ اس پاکباز جماعت میں افضل شخصیت اور اسعد ترین ہستی عبد اللہ بن عثمان بن عامر ہیں جو صدیق و عتیق کے لقب سے ملقب ہیں ،ابوبکر ان کی کنیت ہے۔ غارِ ثور میں معیت ِ نبویہ کا شرف حاصل کرنے پر کلام ربانی نے انہیں ثانی اثنین کا تمغہ سعادت عطا فرمایا۔ مردوں میں سب سے پہلے قبول اسلام سے سرفراز ہوئے۔ امام الانبیاءﷺ کی رحلت کے بعد انہیں خلیفۃ الرسول کہا گیا۔ عالم دنیا میں انہیں قربت و قرابت نبویہ نصیب رہی ۔ عالم برزخ میں بھی صداقت و نبوت کی رفاقت جاری ہے اور عالم آخرت کا حُسنِ رفاقت تو ہے ہی ان کا مقدر ۔( ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء)
ذیل میں سیدنا ابوبکر ‘صدیق رضی اللہ عنہ کی سیرت و کردار کے حوالے سے چند سطور قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہیں۔
صداقت و حقانیت قبل از اسلام: سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ اسلام سے پہلے بھی اپنے اعلی اخلاق ، راست گوئی، امانت و دیانت اور علم و تجربہ پر تما م قبائل و اقارب میں معزز محترم سمجھے جاتے تھے۔ آپ کی رائے کا احترام کیا جاتا تھا ۔ سلامتِ طبع کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ رذائل او رکمینہ خصائل سے محترز رہتے تھے۔ جاہلیت کے تاریک ماحول میں رہ کر بھی آپ رضی اللہ عنہ شراب کے قریب نہیں جاتے تھے۔
قبولیت اسلام: سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ کو حضور ﷺ کے ساتھ ابتدا ہی سے انس و محبت تھی ۔ حضورﷺ کے حلقہ احباب میں شامل تھے۔ تجارتی اسفار میں بھی ہمراہی کا شرف حاصل ہوتا رہتا تھا ، چنانچہ اعلانِ نبوت کےبعد حضورﷺ نے دعوتِ اسلام دی تو آپ رضی اللہ عنہ بغیر کسی پس و پیش کے حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اس امتیازی شرف کا تذکرہ آپﷺ کے ایک فرمان عالی میں اس طرح کیا گیا ہے: میں نے جس کسی پر بھی اسلام پیش کیا وہ کچھ نہ کچھ ضرور جھجکا سوائے ا بوبکر کے۔ اس نے اسلام قبول کرنے میں ذرہ برابر توقف نہیں کیا۔ (عیون الاثر، جلد: 1ص: 95) آپ رضی اللہ عنہ کا تقدم فی الاسلام (سب سے پہلے اسلام لانا) تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مسلم و مشہور تھا، یہی وجہ ہے کہ خلیفہ راشد چہارم عم زادہ نبوت حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت فرمایا تھا: اے ابوبکر! اللہ تجھ پر رحم کرے، تم اسلام لانے میںپوری قوم سے سابق تھے۔ایمان میںسب سے زیادہ مخلص تھےاوریقین میںسب سےپختہ تھے۔(اسد الغابہ، جلد: 1ص: 90،91)
اشاعت و نصرت اسلام: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دامنِ ایمان سے وابستہ ہو تے ہی اپنا مال و متاع حضور اکرمﷺ کے قدموں میں ڈال دیا اور دعوت اسلام میں آپ کے دست بازو بن گئے ۔ اپنے احباب و مخلصین کو دعوت دینے لگے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی دعوتی کوششوں کے نتیجے میں حضرت عثمان بن عفان ، حضرت طلحہ بن عبید اللہ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبد الرحمن بن عوف اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہم جیسے لوگ مسلمان ہوئے جنہیں بعد میں نبوت کی زبان سے جنت کی خوشخبری دی گئی۔ (ـوللہ درّابی بکر رضی اللہ عنہ )
مکی زندگی کےشدائد و مصائب اور کفار کی ایذارسانی میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جان، مال، رائے مشورہ ، غرض ہر طرح سے آپﷺ کے پورے طور پر معاون رہے۔ قبائل عرب اور عام مجموں میں دعوت و تبلیغ کے وقت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضور اکرمﷺ کے ساتھ ہوتے تھےاور اگر کوئی کافر آپ پر دست درازی کرنے لگتا تو یہ مخلص جان نثار خود خطرے میں پڑ کر آپﷺ کا دفاع کرتا۔ بخاری شریف میں روایت ہے کہ ایک دن حضور اکرم ﷺ حطیم کعبہ میں نماز ادا کررہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط نے آپﷺ کی گردن میں کپڑا ڈال کر اس قدرزورسے کھینچا کہ گلامبارک کھٹنے لگااتنے میں ابوبکررضی اللہ عنہ آگئے، عقبہ نے دھکا دے کر پیچھے ہٹایااور یہ آیت پڑھی” اتقتلون رجلا ان یقول ربی اللہ “(حم المومن ) یعنی کیا تم ایک شخص کو اس لیے قتل کرنا چاہتے ہوکہ وہ کہتا ہے کہ میراپروردگاراللہ ہے( بخاری، جلد: 1ص: 544) اسی واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئےسیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے ایک دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایاتھا: ابوبکر سب سے زیادہ شجاع تھے۔ خدا کی قسم! ابوبکر رضی اللہ عنہ زندگی کی ایک گھڑی آل فرعون کے رجل مومن کی ساری زندگی سےبہتر ہے۔ رجل مومن نے تو ایمان کو چھپایا تھا لیکن ابوبکر نے ایمان کو ظاہر کیا اور رجل مومن نے صرف زبان سے اتقتلون رجلا کہا تھا اور ابوبکر نے تو زبان کے ساتھ ساتھ ہاتھ سے بھی محبوب کی نصرت و حمایت کی (مسند بزار)
ہجرت الیٰ دار الاسلام :سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ حبشہ کی طرف ہجرت کے ارادے سے گھر سےنکل کر برک الغماد تک پہنچ گئے تھے لیکن قبیلہ قارہ کے سردار ابن الدغنہ کی پناہ کی وجہ سے واپس آگئے تھے پھر جب حضور اکرمﷺنے مسلمانوں کو مدینہ طیبہ کی جانب ہجرت کا حکم دیاتو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بھی تیاری کی لیکن آپﷺ نے انہیں روک دیا او رفرمایا کی انتطار کرو اللہ تعالی مجھے ہجرت کا حکم فرمائیں گے تو میرے ساتھ چلنا، چنانچہ چار ماہ کے انتظار کےبعد ایک دن دوپہر کے وقت حضورﷺ سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے او رانہیں بتلایا کہ مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔ انہوں نے عرض کیا : حضور ! میر ے ماں باپ قربان ہوں آپ پر کیا بندہ ناچیز بھی آپ کا ہمسفر ہوگا؟ آپﷺ نے فرمایا : ہاں۔ ابوبکر رضی للہ عنہ فرط مسرت سے روپڑے۔اس روایت کی راویہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اس سے پہلے میرے گمان میں نہیں تھا کہ کوئی شخص خوشی سے بھی رویا کرتا ہے۔ (رواہ ابن اسحاق)
قارئین محترم! اس سعادت مند رفاقت کےلیے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا انتخاب خود خالقِ اکبر نے کیا تھا۔ یہ خدائے لم یزل کا ازلی انتخاب تھا جو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کےلیے دنیاو آخرت کی خوش بختیاں اپنے دامن میں لیے ہوئے تھے ۔ صاحبِ ذوالفقار علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے جبرائیل امین سے پوچھا کہ میرے ساتھ کون ہجرت کرے گا؟ جبرائیل امین نے عرض کیا : ابو بکر ۔ (رواہ الحاکم) اسی لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے : ابوبکر مجھ سے چار چیزوں میں سبقت لے گئے ۔
(1) نماز کی اقامت او رقوم کی پیشوائی(2)ہجرت (3)غار کی رفاقت نبوی (4)اسلام کا اظہار و اشاعت۔
(کنز العمال ، جلد: 6ص:318)
غارِ ثور میں معیتِ خیر الانام:اس قافلہ رحمت کی پہلی منزل غار ثور تھی جہاں جمالِ جہا ں آراء پیغمبر اور ان کے رفیق باکمال نے تین دن گذارے ۔ اسی قیام کے دوران جب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نبی اکرمﷺ کی حفظِ جان کے سلسلہ میں فکر مند ہوئے تو خالق کائنات نے اپنے حبیب کے رفیقِ لبیب کے قلبِ غمزدہ کو کیفِ سکون و اطمینان بخشااور فوجِ ملائک سے حفاظت و نصرت فرمائی۔ قرآن کریم کی سورۃ التوبہ کا وہ مقام جہاں ان پُر از سعادت لمحات اور لسانِ نبوت سے ادا ہونے والے تسلی آمیز کلمات لاتحزن ان اللہ معنامذکور ہیں ۔ ابوبکر کے لیے جہاں مقبولیت و محبوبیتِ خداوندی کا اعلان ہے وہیں ان کے ایمان و ایقان اور صحبت و صحابیت کی قطعی دلیل بھی ہے۔ (رضی اللہ عنہ وارضاہ)
ہجرت کے بعد جب اللہ تعالی کی جانب سے کفریہ نظام کے جبر و قہر کو مٹانے کے لیے جہادکا حکم ملا اور نبی مجاہدﷺدشمنان اسلام سے برسرِ پیکار ہوئے تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہمیشہ ایک باصلاحیت اور مدبر وزیر کی طرح حضور اکرمﷺ کے ہمرکاب رہے۔ غزوہ بدر سے غزوہ تبوک تک ہر معرکہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسلامی لشکر کے جانثار سپاہی بن کر غلبہ اسلام اور دفاعِ دین متین کے لیے بھر پور کردار ادا کیا۔ اسی بنا پر سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اشجع الناس (لوگوں سے زیادہ بہادر )فرمایا کرتے تھے۔ (تاریخ الخلفاء ص: 29)
انفاق فی سبیل اللہ ذی الجلال وا کرام:سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا شمار مکہ مکرمہ کے مالدار لوگوں میں ہوتا تھا۔ قبول اسلام کے بعد آپ نے اپنا سرمایہ راہِ حق میں نچھاور کردیا ۔ جس دن ایمان قبول کیا اس دن آپ کے پاس چالیس ہزار درہم موجود تھے۔ آپ نے وہ سب کے سب حضورﷺ کی خدمت میں پیش کردیے ۔ مکہ مکرمہ میں ایسے غلام اور لونڈیوں کی کثیرتعداد تھی جو نورِ ایمان سے مالامال ہوچکی تھی اور اپنے کافر آقائوں کے پنجہ جبر میں قید رہ کر گوناگوں اذیتوں کا سامنا کررہی تھی ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی جودو سخا نے انہیں ان کے جفا کار مالکوں سے خرید کر آزادی دلوائی۔ حضرت بلال حبشی ، عامر بن فہیرہ، حضرت نہدیہ وغیرہ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی کے کرم و جود کی بدولت نجات یافتہ ہوئے۔
مدینہ طیبہ میں اسلام کی پہلی مسجد، مسجد نبی کی تعمیر کےلیے جو جگہ خریدی گئی اس کی قیمت ادا کرنے کےلیے قرعہ قسمت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نام نکلا اور حضور اکرمﷺ کے حکم کی تعمیل میں آپ نے اپنا مال و زر پیش کیا۔ پھر بہ نفس نفیس بھی تعمیری کام میں رضاکارانہ طور پر حصہ لیا ۔
غزوہ تبوک کے مصارف میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا جذبہ انفاق تو ضرب المثل بن گیا۔ ساری جمع پونجی لاکر حاضر خدمت کی ۔ پوچھا گیا: اہل و عیال کےلیےکیا چھوڑ کر آئے ہو؟ عرض کیا: اللہ او راس کا رسول چھوڑ آیا ہوں ۔ یہی وہ موقع ہے جب حضر ت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنا نصف سرمایہ لے کر اس ارادے سے حاضر ہوئے تھےکہ آج ابوبکر سے سبقت لے جائوں گا، لیکن جذبہ صدیقی کا یہ عالم دیکھ کر کہہ اُٹھے : صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے میں کبھی سبقت نہیں لے سکتا۔ (ابو دائو، جلد:1ص:243)
محبت رسول ذی الاحتشامﷺ:حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اپنے محبوب دوست اور مقبول پیغمبرﷺکی محبت میں سرشار تھے۔ آپ کو حضورﷺکے ساتھ اپنی جان سے بڑھ کر پیار تھا۔ حضور اکرمﷺ کو خوش دیکھ کر دل باغ باغ ہوجاتا اور ادنی سی تکلیف دیکھ کر تڑپ جاتے۔ سفر ہجرت میں حضورﷺ کو شدت کی گرمی میں پیاسا دیکھ کر فکر مند ہو ئے۔ منا سب جگہ دیکھ کر استراحت کےلیے بستر بچھایا، آپﷺ آرام فرما ہوئے۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا کہ اچانک ایک گڈریا بکریوں کا ریوڑ لے کر گزرا، میں نے اس سے دودھ طلب کیا ، چنانچہ اس نے دے دیا ، میں نے اس میں پانی ملا کر ٹھنڈا کیا اور حضورﷺ کی خدمت میں پیش کیا ۔ آپﷺ نے نوش فرمایا۔ بخاری شریف میں سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں” فشرب رسول اللہ ﷺ حتی رضیت” یعنی آپﷺ نے نوش فرمایا یہاں تک کہ میں خوش ہوگیا۔ گویا آپ کی پیاس کا دور ہونا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی راحت قلب کا ذریعہ بنا۔
ایسا محب صادق یہ جانکاہ خبر قیامت اثر کیسے سن سکتا تھا کہ اس کے محبوب چند دنوں میں داغِ مفارقت دینے والے ہیں ، چنانچہ مرض الوفات سے کچھ پہلے جب حضورﷺ نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا کہ اللہ نے اپنے بندے کو دنیا و آخرت میں سے ایک کو پسند کرنے کا اختیا ر دیا ہے اور اس بندے نے آخرت کو پسند کرلیا ہے، تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فورا رونے لگے۔ اپنی رمزشناسی اور فراست سے معلوم کرلیا تھا کہ اس بندے سے مراد حضورﷺ خود ہیں اور آپ سفر آخرت کےلیے روانہ ہونے والے ہیں ۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کےیہ آنسو آنحضرت ﷺ کی جدائی پر بہنے والے سب سے پہلے آنسو تھے، لیکن چونکہ خالق اکبر نے اپنے اس مقبول بندے کو امت کے لیے ابر رحمت بنانا تھا اس لیے باوجود وفور محبت کے وفات نبوی کے وقت آپ سب سے بڑھ کر حوصلہ مند، ذی استقلال اور ثابت قدم رہے۔ مدینے میں آپﷺ کی وفات کا حادثہ فاجعہ پر تہلکہ مچ گیا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے ہوش اڑ گئے۔ عثمان رضی اللہ عنہ پر سکتہ طاری ہو گیا۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسا بہادر بے خود ہو کر کہنے لگا: جو شخص آنحضورﷺ کےبارے میں کہے گا کہ آپ فوت ہوگئے ہیں میں تلوار سے اس کی گردن اُڑدوں گا۔ اس نازک موقع پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی وہ شخص تھے جنہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو متنبہ کیا کہ یہ کیا کہہ رہے ہو؟ تم نے قرآن کریم کی یہ آیت نہیں پڑھی ” انک میت وانہم میتون””وناجعلنا لبشر من قلبک الخلد”اور پھر وہ عظیم خطبہ ارشاد فرمایا جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کےلیے رحمت و ہدایت کا پیغام ثابت ہو۔ حیرت و دشت کا عالم دور ہوگیا ۔ حضورﷺ کی وفات کا یقین ہوگیااور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے خیال سے رجوع فرمالیا۔ (فجزاہ اللہ خیر الجزا)
نیابت و خلافت سید الانس و الجان:
حضور اکرمﷺ کی وفات حسرت آیات کےبعد تقاضائے وقت یہ تھا کہ کسی شخص کو امیرِاسلام مقرر کیاجائے تاکہ اس نازک ترین حالت میں مسلمان اختلاف و انتشار کا شکار نہ ہوجائیں۔ عین ممکن تھا کہ حضور اکرمﷺ کی تجہیز و تکفین اور نماز جنازہ و تدفین جیسے ابتدائی مراحل ہی اختلاف کا ذریعہ بن جائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے وقت کے اس تقاضے کو محسوس کرتے ہوئے سب سے پہلے خلافت و سیادت کے نازک ترین مسئلے کو حل کیا ۔ اس موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی دودر درس نگاہیں جس نکتے پر مرکوز ہوئیں وہ یہ تھا کہ مرض الوفات کے دوران حضور اکرمﷺ کے مصلیٰ امامت کے لیے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اپنے نائب امام کی حیثیت سے منتخب فرمایا تھا۔ آپﷺ کی وفات تک بدستور مسلمانوں کی امامت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سپرد رہی ، حالانکہ سیدنا علی المرتضی ، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ جو آپ کے رشتہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ عالم و فاضل اور باصلاحیت بھی تھے۔ اسی طرح دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ باایں ہمہ قرعہ انتخاب سیدناا بوبکر رضی اللہ عنہ کے نام نکلنا اس بات کا واضح نشان تھا کہ امامت صغریٰ کی طرح امامت کبریٰ (خلافت) کے لیے بھی موزوں ترین شخصیت انہی کا ہے۔
سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ اسے نکتے کو خلافتِ صدیقی کی حقانیت کی دلیل کے طور پر پیش کیا کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی ہے” لما قبض النبیﷺ نظر نا فی امرنا فوجد النبیﷺ قدم ابابکر فی الصلوۃ فرضینا لدنیانا من رضی النبیﷺ لدیننافقدمناابابکر(طبقات ابن سعد )یعنی جب حضور اکرمﷺ کی وفات ہوئی تو ہم نے اس معاملے (خلافت )میں غور کیا۔ ہم نےدیکھا کہ نبی اکرمﷺ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ہماری نمازوں کا امام بنایا، تو ہم نے دنیاوی معاملے کے لیے بھی اسی کو پسند کر لیا جس کو حضور اکرمﷺ نے ہمارے دین کے لیے پسند کیا ، اس لیے ہم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو (خلافت کے لیے )مقدم کردیا ۔ الاستیعاب کی روایت میں فبایعنا ابابکر کے الفاظ ہیں یعنی ہم نے ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلی۔
خانوادہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت و اکرام: قارئین گرامی قدر!قرآن کریم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے جو اوصاف ذکر کئے ہیں ان میں ایک امتیازی وصف رحماء بینہم ہے۔ یعنی ان کے دلوں میں ایک دوسرے کےلیے محبت ، ہمدردی اور پیار کےدریا موجزن ہیں ان کی نفرتیں اور دشمنیاں،دشمنان اسلام کے لیے ہیں۔ آپس میں ان کا تعلق وہی ہے جو شیر و شکر کا ہوتا ہے۔وہ ایک دوسرے کے لیے شفقت و رافت کے زیورِ زریں سے آراستہ ہیں ، چنانچہ حسب بیان ِ قرآن تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وصف رحمت سے متصف تھے لیکن سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ذات با اوصاف میں یہ وصف ارحمیت کی حد کو پہنچا ہوا تھا۔ زبان نبوت سے انہیں ارحم امتی با امتی کہا گیاہے۔ اس لیے ان کا سینہ پوری امت کےلیے رحمت و رافت اور محبت و الفت کا خزینہ تھا۔ وہ اپنے محبوب دوست کی رحمۃ اللعالمینی کا سوفیصد عکس تھے۔ خصوصا امت کے وہ خوش نصیب جنہیں شرف صحابیت کےساتھ ساتھ ذو القربی ہونے کی نسبت عالیہ بھی حاصل تھی۔ ان کےاس ساتھ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ زیادہ غمگساری و غمخواری اور مہربانی و پاسداری کا سلوک فرمایا کرتے تھےبلکہ آنجناب رضی اللہ عنہ دوسرے لوگوں سے بھی فرمایا کرتےتھےاگر محمدﷺ کی عزت کرنی ہے تو ان کے اہل بیت کی عزت کرو۔(صحیح بخاری )
چنانچہ حضورﷺ کی زندگی میں بھی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کے قرابت داروں کے ساتھ قلبی و روحانی تعلق قائم رکھا۔ ان کی خوشی اور غمی میں ان کے شریک ِ حال اور معاون رہے۔ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کےلیے پیغام نکاح کا مشور ہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دیا۔(کتاب الامالی لشیخ طوسی ،جلد:1ص:38)پھر شادی کے سازوسامان کی خریداری اور تیاری میں بھی آپ رضی اللہ عنہ کا کردار قابل قدر تھا۔ (مناقب لاخطب خوارزم،ص:252،253)اور نکاح کے گواہوں میں بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام سر فہرست ہے۔ شیر خدا کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد کی وفات حضورﷺ کی زندگی میں ہوئی ان کو لحد میں اتارنے والے تین حضرات میں سے ایک تو حضورﷺ تھے ، دوسرے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اورتیسرے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔ (مجمع الزوائد،جلد:9ص:256،257)
حضورﷺ کے وفات کے چھ ماہ بعد خلافت صدیقی میں جگر گوشہ نبوت سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا۔ وفات سے پہلے جب سیدہ بیمار ہوئیں توا ن کی تیمارداری کی سعادت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ اسماء بنت عمیس کےحصے میں آئی۔ وفات تک انہوں نے خاتون جنت کی خدمت کی اور وفات کےبعد ان کے غسل وغیرہ کا انتظام بھی انہی کےہاتھوں اتمام پذیر ہوا۔(جلاء العیون۔اسد الغابہ)
قارئین ذی وقار! یہ اسماء بنت عمیس پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بھائی جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں ان کی شہادت کے بعد ان کا نکاح سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوا، پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت اسماء کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوا۔
سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہما کو حضورﷺ کے ہاں محبت و پیا ر کا جو مقام حاصل تھا وہ کسی مسلمان سے مخفی نہیں ۔ آپﷺ نے ان دونو ں کو دنیا و آخرت میں اپنے پھول قرار دیا ۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ان دونوں پھولوں کےساتھ بڑا والہانہ پیا ر رکھتے تھے۔ انہیں پیار سے اٹھالیتے ، کندھے پہ بٹھا لیتے۔ خلافت کے دوران خصوصی عطیات سےنوازتے رہے۔ (فتوح البلدان للبلاذری ص: 253)
رحلت الیٰ دار السلام :قارئین کرام! اس دنیا میں جو بھی “آیا جانے کے لیے آیا ۔ ہر ذی روح فطرت کے اس اٹل قانون کا پابند ہے۔ موت سے مبرّا کائنات میں اگر کوئی ہستی ہوسکتی تو صرف وہ ہے جس نے موت کو پیدا کیا ہے۔( وہوحی لا یموت و ہو الحی القیوم )اسی فطری اصول کے مطابق 17جمادی الثانیہ 13ہجری کو آسمانِ صداقت کا یہ سورج دنیائے بے ثبات سے غروب ہو کر اپنے حبیب محترم ، مرکز ایمان و یقین ، محمد امینﷺ کے ساتھ رفیق اعلیٰ میں جاپہنچا۔ جسد مبارک کو زمین کا وہ ٹکڑا نصیب ہوا جسے لسان رسالت (روضۃ من ریاض الجنۃ) فرماچکی ہے اور روح پُرنور اس مقام معلی میں جاگزیں ہوئی جس کو زبان نبوت نے (جنۃ الفردوس اور سقفہ عرش الرحمن)جس کی چھت اللہ کا عرش ہے فرمایا۔ جس طرح ہجرت کے موقع پر امانتوں کی سپردگی کےلیے علی المرتضی رضی اللہ عنہ کا انتخاب ہوا تھا اور معیت محمدیہ کے لیے صدیق عتیق رضی اللہ عنہ کا ، اسی طرح نازک ترین حالات میں امت کی ارشاد و اصلاح اور قیادت و ہدایت کی امانت عظیم کا بار گراں ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کندھوں پر رکھا گیا، چنانچہ یہ امانت عظیم اہل امانت کو سپر د کرکے دوسال کے فراق کے بعد واصلِ محبوب ہوئے۔( رضی اللہ عنہ و ارضاہ و جعل الفردوس مثواہ)سفر آخرت میں تو معیت ہوا نہیں کرتی وگرنہ میرا ایمان کہتا ہے کہ اگر اس کےلیے رفاقت ضابطہ خداوندی ہوتا تو حضورﷺ کی نظر انتخاب یقیناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر ہی پڑتی۔
چند اوّلیات و خصوصیات سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ
(1)مردوں میں سے سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے (2)اسلام کی پہلی مسجد گھر کے صحن میں بنائی۔ (3)سب سے پہلے قرآن کو دو تختوں میں جمع کیا(4) سب سے پہلے میر الحج بنائے گئے(5)سب سے پہلے حضور اکرمﷺ کی جدائی پر روئے (6) حضورﷺ کے بعد سب سے پہلے قبر سے اٹھیں گے (7) مت میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے(8) سفر ہجرت میں معیت اور غارثور کی رفاقت(9) عتیق کا خصوصی لقب(جہنم سے آزاد)(10) حضورﷺ کی موجودگی میں سترہ نمازوں میں صحابہ کی امامت کی اور حضورﷺ کے بعد پہلے نمبر پر خلافت(11) بعد از وفات نبویہ حضورﷺ کی میت کا بوسہ لینا(12) حضورﷺ کےپہلوئے اقدس میں دفن ہونا۔
اللہ عزوجل ہمیں محبت نبوی کے ساتھ ساتھ محبت صدیقی میں کمال و اتمام نصیب فرمائے۔ (آمین ثم آمین)