جواہرِ جہاد (قسط۶)
از: امیر المجاہدین حضرت اقدس مولانا محمد مسعود ازہر صاحب دامت برکاتہم العالیہ
(شمارہ 580)
ایمان والوں کو بہکانے کی سازشیں
اﷲ تعالیٰ استقامت عطاء فرمائے… جب بھی ’’ایمان والوں‘‘ پر مشکل وقت آتا ہے… انہیں گمراہ کرنے اور بہکانے کی کوششیں تیز ہوجاتی ہیں… ایک روایت میں آیا ہے کہ جب مسلمانوں کو غزوۂ احد میں ظاہری شکست ہوئی تو کچھ ’’یہودی‘‘ حضرت حذیفہ رضی اﷲ عنہ اور حضرت عمار بن یاسر رضی اﷲ عنہ کے پاس آئے… مفسرین نے اس یہودی ٹیم کے دو افسروں کے نام بھی لکھے ہیں… ایک تھا ’’فخاص بن عازورائ‘‘ اور دوسرا تھا ’’زید بن قیس‘‘… ان دونوں نے صحابہ کرام سے کہا… آپ لوگوں نے دیکھ لیا کہ اُحد کی لڑائی میں آپ کا کیا حشر ہوا ہے؟… اگر آپ لوگ حق پر ہوتے تو کبھی شکست نہ کھاتے… بس اب ’’اسلام‘‘ کو چھوڑو اور ہمارے ساتھ مل جاؤ… (یعنی ’’عالمی برادری‘‘ کا حصہ بن جاؤ)… اس کے بعد انہوں نے اپنے مذہب کے حق ہونے پر تقریر کی… حضرات صحابہ کرامؓ لمبی بحثوں میں نہیں پڑتے تھے… انہوں نے یہودیوں کے اس وفد کو جلد ہی نمٹا دیا… حضرت عمار رضی اﷲ عنہ نے جواب دینے کی بجائے خود یہودیوں سے پوچھا کہ آپ لوگوں کے مذہب میں عہد توڑنا کیسا ہے؟… انہوں نے کہا: بہت بڑا گناہ ہے… حضرت عمار رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: میں نے تو عہد کیا ہوا ہے کہ… مرتے دم تک حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہی کے ساتھ رہوں گا… یہودیوں نے یہ سن کر کہا یہ شخص تو ’’غلط آدمی‘‘ ہے… پھر وہ حضرت حذیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے… تو اسلام کے اس سچے عاشق نے کڑک کر فرمایا… ’’اﷲ میرا رب، محمد صلی اﷲ علیہ وسلم میرے نبی، اسلام میرا دین، قرآن میرا امام، کعبہ میرا قبلہ اور مسلمان میرے بھائی… میں اسی پر راضی، میں اسی پر پکا‘‘… یہودی ناکام ہو کر بھاگ گئے اور جب یہ قصہ آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم تک پہنچا تو آپ نے دونوں صحابہ سے فرمایا…
أَصَبْتُمَا خَیْراً وَ أَفْلَحْتُمَا…
’’آپ دونوں نے کامیابی اور بھلائی پا لی‘‘…
دنیا بھر کے عقوبت خانوں میں… مسلمان مجاہدین کو پہلے خوب مارا جاتا ہے… خوب ستایا جاتا ہے… پھر جب… کافروں اور ان کے یاروں کو یقین ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ تھک گئے ہیں اور ماریں کھا کھا کر کمزور ہو گئے ہیں تو پھر… جہاد اور اسلام کے خلاف ذہن سازی اور ’’موٹی ویشن‘‘ کا عمل شروع ہو جاتا ہے… اچانک کچھ آفیسر اس جیل اور عقوبت خانے کا دورہ کرتے ہیں… یہ لوگ اچھے لباس اور مہذب انداز میں آتے ہیں… وہ مظلوم قیدیوں سے دعاء سلام کے فوراً بعد چلاّ کر کہتے ہیں… ارے! یہ تو شریف لوگ ہیں خبردار اب اگر کسی نے ان کو ہاتھ لگایا… ساتھ ہی وہ ان لوگوں کو چند گالیاں بھی دیتے ہیں… جو اب تک ان قیدیوں کو مارتے رہے تھے… اور پھر کرسیوں پر بٹھا کر… یہودیوں والی تقریریں شروع ہو جاتی ہیں… امن، محبت، انسانیت کی باتیں، ملک کے مفاد کی باتیں، اسلام کی باتیں… اور دنیا میں دولت اور عزت پانے کی باتیں… تشدد کے ستائے ہوئے بعض قیدی حکمت عملی کے تحت مار سے بچنے کیلئے… ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں… تب… ان ’’لوٹوں‘‘ کی خوشی دیکھنے کے لائق ہوتی ہے… مگر کچھ قیدی بہت صاف اور سخت جواب دیتے ہیں، تب یہ مہذب لوگ واپس اپنی اصلیت پر آ جاتے ہیں اور ان کے اندر چھپے ہوئے زہریلے سانپ پھنکارنا شروع کردیتے ہیں…
میں نے یہ منظر بہت بار دیکھا ہے… اور مجھے اس منظر سے اتنی نفرت ہے کہ… بس اﷲ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے… میں نے خوبصورت سوٹ پہنے آفیسروں کو میٹھی میٹھی باتیں کرتے بارہا سنا ہے… مگر جب میں نے انہیں صاف جواب دیا تو ان کی ساری تہذیب ایک طرف رہ گئی… اور وہ غصے اور بے بسی سے کانپنے لگے… میں نے ایسا سری نگر میں بھی دیکھا اور جموں میں بھی… اور پھر میں نے یہی منظر پاکستان میں بھی دیکھا… سری نگر کے ایک عقوبت خانے میں تو انڈین آرمی کا ایک کرنل باقاعدگی سے کشمیری مجاہدین کو… گمراہ کرنے کیلئے آتا تھا… وہ بہت نرمی اور محبت سے بولتا تھا اور کئی کئی گھنٹے تقریر کرتا تھا… ہم سب انسان ایک جیسے ہیں… ہم سب کے جسموں میں سرخ خون ہے… زندگی بھگوان کی بڑی نعمت ہے، آؤ! مل جل کر شانتی اور پریم (امن و محبت) سے رہیں… وہ اپنے ساتھ انڈین فلموں کی ویڈیو کیسٹیں بھی لاتا تھا جو کشمیری مجاہدین کو دکھائی جاتی تھیں… کئی دن کی بھرپور محنت کے بعد اس کرنل کو شک گزرا کہ میں اس کی ساری محنت پر پانی پھیر دیتا ہوں… اور کشمیریوں کو دوسرا ذہن دیتا ہوں… چنانچہ… مجھ پر مزید سختی کردی گئی… اور میرا دروازہ چوبیس گھنٹے بند رہنے لگا… اسی عقوبت خانے میں ایک طرف محبت کا یہ راگ سنایا جاتا تھا، جبکہ دوسری طرف… اتنا سخت تشدد اور ٹارچر ہوتا تھا کہ… اس سے اﷲ کی پناہ… محبت کا درس دینے والے اپنے اصلی چہرے کو چھپا نہیں سکتے تھے… چنانچہ میں اس کرنل کی محنت پر کیا پانی پھیرتا… خود ان کی لاٹھیاں، ڈنڈے اور گالیاں ان کی حقیقت بتانے کے لئے کافی تھیں… مجھے آج بھی اس عقوبت خانے کے مناظر یاد آتے ہیں تو … میں سب کچھ بھول جاتا ہوں… اور مجھے صرف چیخیں سنائی دیتی ہیں… صرف چیخیں… ان بوڑھے کشمیری بزرگوں کی چیخیں جو پاکستان سے کشمیر کے الحاق کا خواب دیکھ رہے تھے… اور بڑھاپے میں اتنا خوفناک تشدد برداشت کر رہے تھے… میراتھن ریس کے پجاریو!… تم نے انہیں یاد رکھا یا بھلا دیا؟… وہ بھی چاہتے تو بمبئی اور دہلی کی حسیناؤں کو اپنی بغل میں لیے پھرتے… مگر وہ اسلام اور پاکستان کے لئے ماریں کھا رہے ہیں… پاکستان کے تنخواہ خور محافظوں کو اس بات کی کیا فکر کہ ان عقوبت خانوں میں کتنی جوانیاں آگ میں جلا دی گئیں… اور کتنی زبانیں پاکستان زندہ باد کہنے کے جرم میں کاٹ دی گئیں… ہمارے عہدہ پرست، تنخواہ خور محافظوں کو تو بس اپنے اسٹارز کی فکر ہے کہ ترقی کب ہوگی؟… ان کے دماغ سوچ سے اور دل جذبے سے خالی ہیں… اوپر والے جو کیسٹ ان کے دماغ میں ڈال دیں وہ ان کی زبانوں پر… فر فر چلنے لگتی ہے… حکمران مسلمان ہو تو یہ اسلام کی تعریف میں بولتے نہیں تھکتے… اور حکمران کوئی بددین، روشن خیال ہو تو پھر ان کی تقریریں بھی اسی کے ساتھ گھوم جاتی ہیں… ہاں! مجھے چیخیں سنائی دیتی ہیں… چھوٹے چھوٹے بچوں کی چیخیں… اور خوبصورت جوانوں کی چیخیں…
مجھے یاد ہے کہ عید کا مبارک دن تھا… ساری دنیا کے مسلمان گوشت اور مٹھائیاں کھا رہے تھے… جبکہ سری نگر کے اس عقوبت خانے میں… تمام مسلمان قیدی صرف اپنے آنسو پی رہے تھے… اور اپنے بستروں میں ہچکیاں لے لے کر رو رہے تھے… اگر جہاد کشمیر کو روشن خیالی کے ناپاک بت پر ذبح کرناتھا تو پھر اتنی دیر کیوں لگائی؟… کون جواب دے گا ہزاروں جوانیوں کا جو خاک کا پیوند بن گئیں؟… کون جواب دے گا ہزاروں سہاگوں کا جو دن دہاڑے اجڑ گئے؟… لوگوں نے اپنے کندھوں کے اسٹار بڑھا لیے… کئی کو موٹی موٹی پینشنیں مل گئیں… کئی کو زمینیں اور پلاٹ الاٹ ہو گئے… کیا ان لوگوں کے سینے میں دل نہیں ہے؟… کیا انہوں نے مرنے کے بعد اﷲ تعالیٰ کے دربار میں حاضری نہیں دینی؟… کیا امریکہ ان کو قبر کے عذاب سے بھی بچائے گا؟… معلوم نہیں یہ بے حس طبقہ کس مٹی سے بنا ہے؟… کاش! ان میں تھوڑا سادرد ہوتا…
بات چل رہی تھی… ذہن سازی کی… کہ مظلوم مسلمانوں کو کس طرح سے گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے… ایک بار سری نگر میں کسی بڑے افسر یا حکمران کا دورہ تھا… انڈین آرمی نے اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے… تمام غیر ملکی قیدیوں کو اس کے سامنے پیش کرنا تھا… چنانچہ… قیدیوں کے بکھرے بال زبردستی سیدھے کیے گئے… ان کے منہ صابن سے دھلوائے گئے اور صاف کپڑے پہنا کر ایک کمرے میں بٹھادیا گیا… تھوڑی دیر بعد… خفیہ ادارے کا ایک افسر بہت مہذب طریقے سے اندر آیا… جب اس نے بات شروع کی تو ہم پہچان گئے کہ وہ… کشمیری پنڈت ہے… اس نے مجاہدین کا ذہن بدلنے کیلئے لمبی چوڑی تقریر کی… مجبور قیدی خاموشی سے سنتے رہے… ہماری خاموشی نے اس کی ’’خطابت‘‘ کو چار چاند لگا دئیے… وہ بہت کچھ بکتا رہا اور ہمدردی کے پتے پھینکتا رہا… تب اﷲ تعالیٰ نے مجھے ہمت اور توفیق دی… میں نے… چند باتیں بلند آواز سے کر لیں… بس پھر کیا تھا؟… پنڈت غصے اور بے چینی سے بدحواس ہو گیا… تھوڑی دیر پہلے وہ ’’انسانیت‘‘ اور ’’ہمارا اور آپ کا خون ایک‘‘ کے موضوع پر خطاب کر رہا تھا… اور اب غصے میں گدھے کی طرح دھاڑ رہا تھا کہ… تم لوگ دہشت گرد ہو… میرا دل چاہتا ہے کہ ابھی، ابھی تمہیں فائرنگ اسکواڈ کے حوالے کردوں… وہ گولیاں مار کر تمہاری دھجیاں بکھیر دے… چونکہ مجلس کا رنگ بدل چکا تھا، اس لیے ایک مجاہد ساتھی نے کہا… پنڈت جی خالی ہاتھ مسلمانوں پر گرم ہو رہے ہو؟… ایک کلاشن میرے ہاتھ میں دو اور ایک خود پکڑو، پھر دیکھو میں تمہاری بہادری کس طرح سے نکالتا ہوں؟… پنڈت یہ سن کر غصے میں کچھ بکتا ہوا باہر نکل گیا… میں اکثر اس طرح کے افسروں سے کہا کرتا تھا کہ آپ کی تو ’’نوکری‘‘ ہے اور ہمارا نظریہ ہے… آپ لوگ ہم پر اتنی محنت نہ کریں… کیونکہ آپ کے بڑے لیڈروں نے اگر دہلی میں بیٹھ کر کوئی اور فیصلہ کر لیا تو پھر آپ کی اس محنت کا کیا بنے گا؟… اس لیے بس اپنی ڈیوٹی پوری کرو اور انسانیت وغیرہ کی باتیں چھوڑو… آپ لوگ تو روبوٹ ہیں… آپ کے اوپر والے آپ کو حکم دیں کہ دن کو رات اور رات کو دن کہو تو آپ پوری اطاعت کریں گے… جب آپ لوگوں کا کوئی ’’ایمان‘‘ اور ’’نظریہ‘‘ ہی نہیں ہے… تو پھر اتنی لمبی تقریریں کر کے اپنا گلا خشک کیوں کرتے ہو… ممکن ہے آپ ایک موضوع پر تقریر کرو… اور اچانک اوپر کے افسر کا حکم آ جائے کہ اب ہماری پالیسی اس کے بالکل الٹ ہے… تو آپ کو فوراً اپنی تقریر بدلنی پڑے گی… جبکہ مجاہدین… اللہ پاک کے فضل سے ایک واضح اور مضبوط نظریہ رکھتے ہیں… تم ان کو مارو یا کاٹو… ان شاء اللہ ان کے نظریات نہیں بدلیں گے… اور اگر تم ان کے جسم کو پاؤں کے انگوٹھے سے کاٹنا شروع کرو… اور ان کی گردن تک کاٹتے چلے جاؤ تو… ان شاء اللہ ان کی ہر بوٹی اور ہڈی میں… تمہیں وہی نظریہ نظر آئے گا… یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو ماننے والے ہیں… یہ حضرت محمد ا کے امتی ہیں… یہ اپنی جانیں اللہ تعالیٰ کو فروخت کر چکے ہیں… اور اب اپنا بیچا ہوا سامان حوالے کرنے کے لئے تڑپ رہے ہیں… ان لوگوں کو حوروں کے پیغام آتے ہیں… یہ لوگ جنت کی خوشبو سونگھتے ہیں… اور یہ لوگ… اس دنیا میں رہنا اپنے لئے بوجھ سمجھتے ہیں… چودہ سو سال ہو گئے… ہر فرعون اور نمرود نے جہاد ختم کرنے کی کوشش کی… مگر… کوئی بھی کامیاب نہ ہو سکا…اب بھی… ان شاء اللہ… سب ناکام ہو جائیں گے… اور جہاد جاری رہے گا…جہاد کی بیعت وہ عزت کا جھنڈا ہے جس کی خاطر دونوں بازو… اور پھر گردن خوشی سے کٹائی جا سکتی ہے… یہ بیعت ہمارے لئے رب تعالیٰ تک پہنچنے… اور اسے خوش کرنے کا ذریعہ ہے… اس کی خاطر تو ساری دنیا سے دشمنی مول لی جا سکتی ہے…
حکمران آتے جاتے رہتے ہیں… بے نظریہ لوگوں کی تقریریں چلتی رہتی ہیں… جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم اگر طالبان کا ساتھ دیتے تو مر جاتے… ہم نے امریکہ کا ساتھ دے کر خود کو بچا لیا ہے… اللہ کی قسم! یہ لوگ بھی اپنے وقت پر مر جائیں گے… تب انہیں معلوم ہو گا کہ… موت سے کوئی نہیں بچ سکتا، موت اپنے مقررہ وقت پر ہی آتی ہے… پھر موت سے بچنے کے لئے کافروں کا زر خرید غلام بننے سے کیا فائدہ؟… قرآن پاک اول تا آخر ہمیں یہی بات سمجھاتا ہے… اور طرح طرح کے سچے قصے سناتا ہے کہ… موت سے بھاگنے والے موت سے نہیں بچ سکتے… جنہوں نے کہا کہ اگر ہم امریکہ کا ساتھ نہ دیتے تو وہ ہمارا آملیٹ بنا دیتا اللہ پاک نے زلزلے کا ایک جھٹکا دے کر آملیٹ بنا دیا اور بستیوں کو اکھاڑ دیا… اب بلاؤ امریکہ کو کہ وہ تمہیں زلزلے سے بچائے… کاش! مسلمان قرآن پاک کو سمجھتے… اور کاش! مسلمان اس دنیا کی گندی اور تکلیف دہ زندگی کو اپنا مقصد نہ بناتے… زلزلے سے پہلے ملک کے محافظ… مجاہدین اور دینداروں کے خلاف آپریشن کی تیاری مکمل کر چکے تھے… ان عظیم لوگوں نے رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں… مجاہدین کے گھروں، مسجدوں اور اداروں پر چھاپے مارنے تھے… جیلوں اور عقوبت خانوں میں ان روزے داروں اور شب بیداروں پر… ڈنڈے برسانے کی پوری تیاریاں کر لی گئی تھیں… غیر ملکی سفیروں کو خوشخبری کے اشارے دیئے جا چکے تھے… مگر زلزلہ آگیا… ہمارے حکمرانوں کو ایک لاکھ افراد کے مارے جانے کا افسوس نہیں ہوا… البتہ… انہیں مجاہدین کے بچ جانے کا بے حد دکھ ہوا… انہوں نے آہ بھر کر کہا کہ… اس زلزلے نے تو مجاہدین کی لاٹری نکال دی ہے… دل کی وہ حسرت اب رنگ لائی ہے اور اللہ کے بندوں کو ستانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے… قرآن پاک بتاتا ہے کہ ایسے حالات ہمیشہ سے حق والوں پر آتے رہے ہیں… ایسے مواقع پر وہ نہ کمزور ہوتے تھے، نہ بزدلی دکھاتے تھے… اور نہ جھکتے تھے… ہاں بس ایک ہی دعا مانگا کرتے تھے۔
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِیْ اَمْرِنَا وَ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ۔ (اٰل عمران ۱۴۷)
’’اے ہمارے رب!… ہمارے گناہوں کو معاف فرما دے اور ہم نے اپنے کام میں جو غلطیاں کی ہیں وہ بھی معاف فرما دے اور ہمیں مضبوطی عطا فرما… اور کافروں کے مقابلے میں ہماری نصرت فرما‘‘…
کسی زمانے میں ایک اللہ والے بزرگ تھے… خفیہ اداروں نے ان کی شکایت خلیفہ تک پہنچائی… خلیفہ نے ان کو بلوایا… وہ نہ گھبرائے اور نہ جھکے… خلیفہ نے کوڑے مارنے کا حکم دیا… کوڑے برسے تو ان کی زبان پر یہی دعا جاری ہو گئی… سبحان اللہ!… اللہ تعالیٰ کے عاشق بھی عجیب ہیں… انڈین فوجیوں کو جب مار پڑتی ہے تو وہ انڈیا کو گالیاں دیتے ہیں… ایسے بے شمار واقعات مجھے معلوم ہیں… امریکہ کے فوجیوں پر مار پڑتی ہے تو وہ امریکہ اور اس کے صدر کو گالی دیتے ہیں کہ ہمیں مروا دیا… مگر جب اللہ کے عاشقوں کو مار پڑتی ہے تو تڑپ کر کہتے ہیں…
’’یا اللہ! قصور وار ہم ہیں… آپ ہمیں معاف فرما دیں… یا اللہ! معاف فرما دے… یا اللہ! معاف فرما دے…‘‘
وہ بزرگ بہت بوڑھے تھے … اللہ پاک نے انہیں زیادہ نہیں آزمایا… اور فوراً شہادت عطاء فرما دی…
سبحان اللہ!… کیسی خوش بختی کہ شہادت مل گئی… تکلیفوں والی زندگی سے نجات دے کر… مزے اور راحت والی زندگی عطاء ہو گئی… ان کو مارنے والے بھی چند دن بعد اپنے وقت پر مر گئے… آج وہ مردہ ہیں… اور جن کو مارا گیا وہ زندہ ہیں… یا رباّ! کتنی میٹھی ہے شہادت… کتنی پیاری ہے شہادت اور کتنی حسین ہے شہادت… اگر مجنوں شہادت کی ہلکی سی خوشبو سونگھ لیتا تو وہ لیلیٰ کو بھول جاتا… مگر ہم لوگ ذلت اور تکلیف کے ساتھ جینے کو شہادت پر ترجیح دیتے ہیں… اللہ پاک ہماری حالت پر رحم فرمائے… اور ہمیں زندگی، موت کا قرآنی عقیدہ سمجھنے اور اپنانے کی توفیق عطا فرمائے… معلوم نہیں مجھے آج یہ بکھری ہوئی باتیں کیوں یاد آ رہی ہیں؟… کیوں یاد آ رہی ہیں؟… میرے کان کیوں چیخیں سن رہے ہیں؟… مجھے سجاد شہید کا گلابی چہرہ کیوں یاد آ رہا ہے؟ مجھے ان کے جسم پر پڑے ہوئے نیلے نیلے داغ کیوں یاد آ رہے ہیں؟
مجھے نہیں معلوم میرے دل میں ایک ’’شعلہ‘‘ بار بار کیوں ابھر رہا ہے؟ ہاں مسلمانو! مجھے نہیں معلوم کے میرے دل و دماغ پر کیا گزر رہی ہے؟ کیا گزر رہی ہے؟
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِیْ اَمْرِنَا وَ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْن۔
٭…٭…٭