جواہرِ جہاد (قسط۵)

جواہرِ جہاد (قسط۵)
از: امیر المجاہدین حضرت اقدس مولانا محمد مسعود ازہر صاحب دامت برکاتہم العالیہ
(شمارہ 578)
کیا دنیا میں بد امنی کی وجہ مسلمان ہیں؟
اللہ تعالیٰ ہم سب کو علم نافع عطاء فرمائے… میرا دوست ’’خیال جی‘‘ علم کے بارے صدر صاحب کی تقریر سن کر خوشی سے پھول گیا ہے… اس نے ماضی کی طرح اس بار بھی صدر صاحب کا چشم کشا خطاب خوب کان لگا کر سنا ہے… لیجئے اسی کی زبانی اس خطاب کے اہم نکات… اور ان کی خیالی تشریح ملاحظہ فرمائیے…
اس خطاب میں نہایت افسوس کے ساتھ بتا یا گیا کہ پوری دنیا میں شورش اور خلفشار کے ذمہ دار… مسلمان ہیں… ہم لاکھ صفائیاں دیں… مگر… مسلمانوں کے کرتوت ان صفائیوں پر پانی پھیر دیتے ہیں…
بالکل بجا فرمایا… مسلمان عجیب پاگل لوگ ہیں… چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑنے مرنے لگ جاتے ہیں… غلامی اور ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں… حالانکہ غلامی کو آئسکریم سمجھ کر… اور ظلم کو بسکٹ سمجھ کر قبول کرلینا چاہئے… یہودیوں نے مسجد اقصیٰ پر قبضہ کرلیا تو کیا ہوا؟… فلسطین چھین لیا تو کیا ہوا؟… بس اتنی معمولی سی بات پر یہودیوں سے لڑائی شروع کردی… امریکہ نے عراق تباہ کردیا… ایک لاکھ سویلین افراد مار دئیے… بالکل چھوٹی سی بات ہے… مگر وہاں کے پاگلوں نے لڑائی شروع کردی… افغانستان پر امریکہ نے قبضہ کیا تو مسلمانوں کو خوشی منانی چاہئے تھی کہ… ان کی سرپرستی ہورہی ہے مگر وہاں کے پاگل لڑائی پر اتر آئے… ادھر چیچن پاگلوں کو دیکھیں کہ اپنی سرزمین آزاد کرانے کیلئے لڑ رہے ہیں حالانکہ روس کو اپنا ملک دے دیں تو کیا ہوجائے گا… معمولی سی بات ہے۔
ادھر بوسنیا والوں کے صرف ایک رات میں… آٹھ ہزار افراد قتل ہوئے… معمولی سی بات ہے… مگر بہت سارے پاگلوں نے اسے دل سے لگا لیا ہے… کشمیر میں صرف نوے ہزار افراد مارے گئے ہیں تو سب جہاد جہاد کا شور کررہے ہیں… حالانکہ… کشمیر ہندوئوں کے حوالے کردیا جائے تو کیا ہوجائے گا؟… معمولی سی بات ہے… اب خود سوچیں کہ… ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑنا… اور الجھنا کہاں جائز ہے؟… پتہ ہے ان تمام باتوں کا کتنا بڑا نقصان ہوا؟… ٹونی بلیئر نے ہمیں غصے سے فون کیا… اور کافی ناراض ہوئے… دیکھا یہ کتنی… بڑی… اور غیر معمولی بات ہے… اس بات پر… اگر… پاکستان کے تمام انتہا پسندوں کو گولیوں سے بھون دیا جائے تو بھی کم ہے…
(محبت کا سیلاب اور ڈیم/ رنگ و نور، ج ۱)
زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
امریکہ اور نیٹو کے بم اسی لیے تو بنے تھے کہ اسلام سر نہ اٹھا سکے… مسلمان اپنے دین کو نافذ نہ کرسکیں… اقوام متحدہ بھی اسی لیے بنی تھی کہ مسلمان ’’خلافت‘‘ قائم نہ کرسکیں… نیٹو کا اتحاد بھی اسی لیے وجود میں آیا تھا کہ مسلمان ایک ’’امت‘‘ کے طور پر دوبارہ کھڑے نہ ہوسکیں… آپ باریکی سے جائزہ لیجئے… آپ کو اسلام دشمنی کا یہ جال اچھی طرح سے نظر آجائے گا… مگر اﷲ تعالیٰ ’’غالب‘‘ ہے… اور امت مسلمہ بہت سخت جان ہے… دنیا بھر کے کافرانہ معاشی نظام اور ظالمانہ فوجی نظام کے درمیان… شہداء کا خون چمکا… اور افغانستان میں ’’امارت اسلامیہ‘‘ کا اعلان ہوگیا… اقوام متحدہ نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا… او آئی سی نے طالبان کو اپنی رکنیت نہیں دی… بیرونی امداد تو درکنار کوئی ملک قرضہ دینے… اور افغان سفارتخانہ استعمال کرنے کی اجازت دینے کے لئے تیار نہ تھا… مگر اس کے باوجود سات سال تک یہ حکومت چلتی رہی… حالانکہ تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ… ایسی حکومت تو چند ماہ بھی نہیں چل سکتی… سات سال کے اس عرصے میں پوست کی کاشت پر پابندی لگادی گئی… جبکہ آج ساری دنیا مل کر بھی پوست کی کاشت کو نہیں روک پا رہی… طالبان کے زمانے میں لوگوں سے اسلحہ لے لیا گیا تھا… اور پورے ملک میں مثالی امن قائم ہوگیا تھا… جبکہ آج بدامنی ہی افغانستان کی اصل حکمران ہے… کفر اور ظلم کی تیز ہواؤں کے درمیان طالبان ایک شمع کی طرح… خود کو جلا کر روشنی پھیلا رہے تھے… تب دنیا بھر کے کفر نے ان پر حملہ کردیا… امارت اسلامیہ ختم ہوگئی… مگر طالبان باقی رہے… اور آج پھر افغانستان کے ایک قابل قدر حصے پر ان کی حکومت قائم ہے… وہ جہاد بھی کر رہے ہیں… اور عوام کی خدمت بھی… وہ دین پر عمل بھی کر رہے ہیں… اورغیر ملکی غاصبوں کا مقابلہ بھی… وہ زخمی بسمل کی طرح روز ایک نیازخم کھاتے ہیں مگر عجیب بات ہے کہ… ہر زخم کے ساتھ ہی ان میں ایک نئی زندگی پیدا ہوجاتی ہے… ؎
آج تو ہر وار پر اک تازہ دم بسمل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
طیارے اڑ رہے ہیں، ٹینک گرج رہے ہیں… طوفانوں جیسی بمباری علاقوں کے علاقے ملیامیٹ کر رہی ہے… ہیلی کاپٹر زہریلی گیس پھینک رہے ہیں… بکتر وزرہ بند فوجی اندھا دھند فائرنگ کر رہے ہیں… انڈیا بھی مجاہدین کے خلاف ہتھیار بھیج رہا ہے… پاکستان والے بھی طالبان کو پکڑ رہے ہیں… بحری بیڑوں سے تاک تاک کر میزائل مارے جارہے ہیں… سیٹلائٹ سیارچے ایک ایک پتھر کی نگرانی کر رہے ہیں… مگر ان سب کے درمیان میں سے… ہر دن ایک ’’طالب‘‘ سجدے سے سر اٹھاتا ہے… دعاء کے لئے ہاتھ پھیلاتا ہے… اور پھر بارود سے بھری گاڑی میں بیٹھ کر نیٹو کے کسی فوجی دستے سے جا ٹکراتا ہے…
لوگ پوچھتے ہیں کہ… یہ لوگ امریکہ سے کب تک لڑیں گے؟… امریکہ بہت بڑی طاقت ہے… اگر امریکہ چلا بھی گیا تو اس کی بمباری تو باقی رہے گی… طالبان اگر جیت بھی گئے تو ان کو حکومت کون بنانے دے گا؟… اس حکومت کو کوئی بھی تسلیم نہیں کرے گا… دور سے میزائل مار کر طالبان حکمرانوں کو ختم کردیا جائے گا… چھوٹے ایٹم بم استعمال کرکے آدھے ملک کو جلا کر راکھ کردیا جائے گا… اسی طرح کے اور سوالات، ایسے ہی خدشات اور اژدھوں جیسے خوفناک وسوسے…
انہیں خدشات اور اندیشوں نے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کو جہاد سے دور کردیا ہے… ماضی میں جہاد کے حامی ایک دانشور کو امریکہ والوں نے اپنے ملک بلا کر اپنی طاقت دکھائی تو وہ… کانپتے ہوئے واپس آئے اور فرمانے لگے… ہم جس دریا میں رہتے ہیں امریکہ اس دریا کا مگرمچھ ہے… اس لیے اس سے لڑ کر ہم زندہ نہیں رہ سکتے… ماضی میں طالبان کے کئی حامی اب طالبان کو ’’بے وقوف‘‘ سمجھ رہے ہیں… ہمارے ملک کی طاقتور فوج کا ہر بڑا افسر بس ایک ہی بات کہتا ہے کہ… امریکہ سے لڑنا ناممکن ہے… اس لیے اس کی فرمانبرداری کے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ ہی نہیں ہے… یہ تمام باتیں بہت مضبوط ہیں مگر… طالبان نے اپنی آنکھیں، اپنے کان اور اپنے دل قرآن پاک کے ساتھ جوڑ رکھے ہیں… اسی لیے وہ کٹ کٹ کر اٹھ رہے ہیں… اور اٹھ اٹھ کر کٹ رہے ہیں… وہ کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں… اور کچھ پا کر بھی بے آرام ہیں… ؎
حاصل عشق یہی ہے کہ نہ ہو کچھ حاصل
اس کو حاصل ہی نہ سمجھو کہ جو حاصل ہوجائے
قرآن پاک ان کو نقشے دکھاتا ہے… نمرود، اس کا ملک، فوج، لشکر بمقابلہ اکیلے حضرت ابراہیم علیہ السلام… نتیجہ نمرود ختم ابراہیم علیہ السلام کامیاب… فرعون اس کا ملک اور لشکر بمقابلہ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ہارون علیہ السلام… نتیجہ بالکل واضح… قوم عاد، قوم ثمود… حضرت نوح علیہ السلام کی عالمگیر قوم… اور پھر طوفان… اکیلے محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم… دوسری طرف پورے عالم کا کفر… قتل، گرفتاری اور ملک بدری کے منصوبے … بھونڈا تشدّد… عجیب جنگیں… نتیجہ بالکل واضح… ہم اگر قرآن پاک سے ہٹ کر دنیا کے حالات دیکھیں تو ہر طرف… امریکہ ہی امریکہ نظر آتا ہے… اور اگر قرآن پاک کی رہنمائی میں حالات دیکھیں تو ہر طرف اﷲ ہی اﷲ نظر آتا ہے… اور اب تو امریکہ کی بے بسی ظاہری طور پر بھی صاف دکھلائے دینے لگی ہے…
مجاہدین پر اعتراضات کرنے والے لوگ… اپنے پیٹ، معدے اور مفادات کے غلام ہیں… ان کے دل میں مسلمانوں کا درد نہیں ہے… اس لیے وہ کفر کی طاقت کا رونا رو کر… عشق کے تقاضوں سے غافل ہوچکے ہیں… جگر ؒ فرماتے ہیں ؎
وہ عشق کی وسعت کیا جانیں محدود ہے جن کی فکر و نظر
وہ درد کی عظمت کیا سمجھیں بے درد جو انساں ہوتے ہیں
یہ فیصلہ اپنے دل سے کر‘ ہونا ہے تجھے کس صف میں شریک
ہمدرد بھی انساں ملتے ہیں بے درد بھی انساں ہوتے ہیں
اس میں شک نہیں کہ اس وقت دنیا میں… مسلمانوں کے لئے کافی مشکلات ہیں… امریکہ اور اس کے حواریوں کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے… مگر مایوسی کی کوئی بات نہیں… ایمان کا دروازہ کھلا ہے… اسلام کا راستہ کھلا ہے… اور شہادت کا باغ بھی مہک رہا ہے…
(ان کا مطلوب، ہمارا محبوب/ رنگ و نور، ج ۲)
دین کی خاطر سب کچھ قربان
حکومت اپنی طاقت اور دباؤ کے ذریعے… امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سلسلہ روکنا چاہتی ہے… جماعتوں پر پابندی، اخبارات پر پابندی… علماء کرام کی گرفتاری… خطباء کی زبان بندی سب اسی سلسلے میں ہے… کچھ کمزور لوگ ڈر بھی گئے ہیں… مگر اﷲ پاک کے مخلص بندوں کو ڈرنے کی کیا ضرورت؟… وہ مارے جائیں تو شہید… زندہ رہیں تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سچے، حق گو، مجاہد امتی… ان کو راحت ملے تو نعمت… اور تکلیف پہنچے تو مغفرت… اس دنیا میں دین کی خاطر سب کچھ قربان کیا جاسکتا ہے… اور اس قربانی میں سعادت اور کامیابی ہے… جماعتوں کے نام قربان… خوبصورت نورانی پرچم قربان… بھرے بھرائے دفاتر قربان… خوب چلتے ہوئے رسائل اور اخبارات قربان… اپنا امن، چین اور سکون قربان… اور وقت آنے پر جان بھی قربان… یہ ساری قربانیاں سستی ہیں… مگر دین کو کسی چیز پر قربان نہیں کیا جاسکتا…
میراتھن دوڑ پر اپنی فتح کا اعلان کرنے والے بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں… ابھی حالات اتنے گدلے نہیں ہوئے کہ وہ خوشیاں منانے میں حق بجانب ہوں… اگر چند ہزار افراد میراتھن دوڑ میں نیکر پہن کر آگئے تو کیا ہوا؟… اسی لاہور کی بغل میں ڈیڑھ مہینہ پہلے بیس لاکھ مسلمان ایک تبلیغی اجتماع میں جمع تھے… اور وہ سب انتہا پسندوں کے لئے دعائیں مانگ رہے تھے… آپ کا دل خوش کرنے کیلئے عرض ہے کہ… تبلیغی اجتماع کے شرکاء نے تین دن میں جتنا پیشاب اور پاخانہ کیا… وہ بھی میراتھن دوڑ کے شرکاء سے زیادہ تھا… اس لیے ابھی فتح کی خوشی منانے میں جلدی نہ کریں… ملک کے دینی مدارس میں چوبیس لاکھ سے زیادہ طلبہ زیر تعلیم ہیں… یہ سب پورا لباس پہنتے ہیں اور چہروں پر داڑھیاں رکھتے ہیں… آپ کو تکلیف تو پہنچتی ہوگی مگر اﷲ تعالیٰ کی مرضی ہے صبر سے کام لیں… مدارس کے یہ بچے جب سڑکوں پر آجاتے ہیں تو آپ چلاّنے لگتے ہیں کہ… ان کو گمراہ کرکے لایا گیا ہے…
ابھی دو دن پہلے کی بات ہے… باجوڑ کے صدر مقام خار میں دسیوں ہزار افراد جمع تھے… وہ سب امریکہ کے خلاف نعرے لگا رہے تھے… اور بی بی سی پر ہم نے خود سنا کہ وہ ایک اور پیارا نعرہ بھی لگا رہے تھے… سبیلنا سبیلنا الجہاد الجہاد… یہ سب لوگ اپنے خرچ پر آئے تھے… ان کو چوہدری پرویز الٰہی نے ملکی خزانے کے زور پر گھروں سے نہیں نکالا تھا… ان کی حفاظت کے لئے سلامتی دستے بھی موجود نہیں تھے… پھر چند ہزار ننگے لوگ ان دسیوں ہزار داڑھی والوں کا مقابلہ کس طرح سے کرسکتے ہیں… ان سب باتوں کو چھوڑئیے… ایک طرف آپ کھڑے ہوجائیے… اور لوگوں کو اپنی بات سننے کے لئے بلائیے… اور دوسری طرف کوئی ایک غریب سا مولوی کھڑا ہوجاتا ہے… یقین جانیئے… آپ کے جلسے میں کوّے بولنے لگیں گے… جبکہ علماء میں ایسے بھی ہیں کہ… جہاں اپنا بوریہ اور چٹائی ڈال دیں وہاں لاکھوں مسلمان پروانہ وار جمع ہوجاتے ہیں… پھر فتح کی اتنی اونچی اونچی باتیں کرنا اچھا تو نہیں لگتا… ہم جانتے ہیں زمانہ فساد کی طرف جارہا ہے… اور قرب قیامت کی علامات ظاہر ہو رہی ہیں… مگر اس دین کی بنیادیں بہت مضبوط ہیں… حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لوگوں کو پہلے سے سمجھادیا کہ ایک وقت آئے گا… جب ہر طرف فتنے ہوں گے… اور ہر طرف فساد… مگر اس وقت بھی کچھ لوگ حق کے ساتھ چمٹے رہیں گے… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے ان امتیوں کے فضائل سوا چودہ سو سال پہلے بیان فرمادیئے… اﷲ تعالیٰ کا نور ہدایت حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سینہ مبارک کے ذریعے امت تک پہنچ چکا ہے… اب جو لوگ بھی اس پاکیزہ نورانی سینے سے چمٹے رہیں گے وہ کبھی… گمراہ نہیں ہوں گے… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے زمانے کے فساد کے وقت دین کو زندہ کرنے والے حضرات کے لئے… سو شہیدوں کے اجر کی فضیلت سنائی ہے… اور ایک حدیث صحیح میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے…
عِبَادَۃٌ فِیْ الْہَرَجِ کَہِجْرَۃٍ اِلَیَّ۔(مسلم)
’’فتنوں کے زمانے میں عبادت کرنا… (یعنی اﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور غلامی کے کاموں میں لگے رہنا) ایسا ہے جیسے میری طرف ہجرت کرنا‘‘…
خود سوچئے جن لوگوں نے اپنا سینہ… حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سینہ مبارک کے سامنے… بھیک کے پیالے کی طرح پھیلایا ہوا ہے تاکہ … ہدایت، رحمت، برکت… اور کامیابی کا فیض نصیب ہوجائے… وہ جب ایسی احادیث سنتے ہیں کہ… اس زمانے میں دین پر استقامت اختیار کرنا ایسا ہے… جیسے کوئی شخص حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کر جائے… تو اس کے لئے دین پر ثابت قدم رہنا آسان ہوجاتا ہے… ایسی احادیث مبارکہ سن کر… سچے مسلمان میراتھن دوڑ پر بھی تھوک دیتے ہیں… اور بسنت پر بھی… وہ ٹی وی چینلوں کی رنگینی میں بھی نہیں کھوتے… اور زمانے کے ظالموں سے امن اور زندگی کی بھیک بھی نہیں مانگتے… آپ نے خبروں میں بارہا سنا ہوگا کہ عراق وافغانستان میں متعین امریکی فوجی… اپنی حکومتوں کو گالیاں دیتے ہیں… ہم نے خود کشمیر میں انڈین فوجیوں کو اپنے ملک اور اپنی حکومت کو گالیاں دیتے سنا ہے… جبکہ دوسری طرف ستر سال کا ایک بوڑھا شخص… اپنے باوقار قدموں پر چل کر پھانسی کے تختے پر آتا ہے… وہ اپنی کڑک دار آواز میں پورا کلمہ شہادت پڑھتا ہے… وہ خود پر طعنے کسنے والوں کو کھرے کھرے جوابات دیتا ہے… خود سوچئے اس عمر کا آدمی تو شادی کی تقریب میں بھی … لنگڑا کر، کراہ کر یا سہارا لے کر جاتا ہے… مگر بوڑھا صدام… صدام حسین بن چکا تھا… اپنے ماضی سے تائب ایک مجاہد… ایک عجیب حوصلہ مند شخص… موت کی رسی آنکھوں کے سامنے جھول رہی ہو تو آواز پر رعشہ طاری ہوجاتا ہے… آپ آنکھیں بند کرکے اپنی پھانسی کا منظر سوچیں… جسم پر پسینہ آجائے گا… مگر توبہ قبول کرنے والے رب نے صدام حسین پر رحم فرمایا… معلوم نہیں رب کائنات کو اس کا کونسا عمل پسندآگیا… ایک کہاوت ہے… دھوبی کا کتا بھونکتا گدھے پر ہے اور کاٹتا بکری کو ہے… اسی طرح ایران… امریکہ کے خلاف بہت بولتا ہے… مگر وہ کام ہمیشہ امریکہ ہی کے آتا ہے… افغانستان سے لے کر عراق تک امریکہ کے اصل مفادات کو ایران نے ہی پورا کیا ہے… ایران کا انقلاب… اپنے گمان میں پورے عالم اسلام بلکہ پوری دنیا کے لئے تھا… ایران کی پہلی نظر نجف پر اور دوسری کعبہ شریف پر تھی… تب صدام نے اس فرقہ واریت کا راستہ روک کر… امت مسلمہ کو مزید ٹوٹنے سے بچایا تھا… اور زندگی کے آخری سالوں میں… صدام باقاعدہ ایک مجاہد تھا… اس کا آخری وقت میں پڑھا ہوا کلمہ شہادت… ابھی تک کانوں میں رس گھول رہا ہے… کسی زمانے میں جب صدام بعث پارٹی کا صدر تھا… حزب البعث العربی الاشتراکی… تب دل میں آتا تھا کہ… کاش یہ قوم پرست عرب رہنما سچا مسلمان بن جائے… لاشرقی ولا غربی… اﷲ پاک نے رحم فرمایا… اور صدام کو جہاد کی بارش میں دھو کر صاف ستھرا کردیا… چنانچہ اس نے شہادت کے وقت اﷲ تعالیٰ کا کلمہ پڑھا… جو عرب وعجم سب کا رب ہے… اور صدام نے آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دی… جو قیامت تک سب انس وجن کے لئے نبی، رسول… اور کامیابی کی واحد ضمانت ہیں…
اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہ۔ٗ
(اعلانِ فتح ٹھیک نہیں/رنگ و نور، ج۲)
٭…٭…٭