جواہرِ جہاد (قسط۳۳)

جواہرِ جہاد (قسط۳۳)
از: امیر المجاہدین حضرت اقدس مولانا محمد مسعود ازہر صاحب دامت برکاتہم العالیہ
(شمارہ 610)
فتنۂ انکار جہاد
اﷲ تعالیٰ مجھے اورآپ سب کو’’جہاد فی سبیل اﷲ‘‘ کی سمجھ عطاء فرمائے… کتنا عظیم اور کتنا واضح’’فریضہ‘‘ ہے…اﷲ تعالیٰ نے بار بار حکم فرمایا’’قاتلوا‘‘… مسلمانو! قتال کرو… اور رسول کریمﷺ تلوار لیکر زرہ باندھ کر میدان میں تشریف لے گئے… ڈٹ کر قتال فرمایا، کافر کو قتل فرمایا… خود زخم کھائے… اب بتائیے! مزید کسی دلیل کی کیا ضرورت ہے؟… ایک بات یاد رکھیں… جو کوئی بھی’’قتال فی سبیل اﷲ‘‘ کی عظمت کو کم کرتا ہے… اپنے بیان کے ذریعہ… کسی ضعیف روایت یا واقعہ کے ذریعہ… کسی ایس ایم ایس کے ذریعہ… وہ قرآن پاک کا مجرم ہے… قرآن پاک ’’قتال فی سبیل اﷲ‘‘ کی عظمت کو بڑھاتا ہے، سمجھاتا ہے…ایک بار نہیں، باربار… سینکڑوں بار… بالکل واضح الفاظ میں… سورتوں کی سورتیں… کیوں؟… تاکہ مسلمان’’قتال فی سبیل اﷲ‘‘ کی عظمت کو سمجھیں… اور مانیں… بغیر کسی تنقید کے عرض کرتا ہوں کہ… وہ لوگ مرنے سے پہلے پہلے توبہ کر لیں جو اپنے کسی قول، عمل، تحریر… یا تقریر کے ذریعہ’’قتال فی سبیل اﷲ‘‘ کی عظمت اور اہمیت کو گھٹاتے ہیں… فائدہ خود اُن کا اپنا ہو گا… قرآن پاک کی شکایت اور فریاد سے بچ جائیں گے… یہ بات اس لئے بطور خیر خواہی عرض کردی کہ… ڈاک میں ایک خط تھا کہ ایک صاحب… کوئی میسج چلا کر لوگوں کو سمجھا رہے ہیں کہ… نعوذ باﷲ’’قتال فی سبیل اﷲ‘‘ چھوٹا اور اصغر عمل ہے… استغفراﷲ، استغفراﷲ، استغفراﷲ… جس عمل کو اﷲ تعالیٰ نے ’’فوز عظیم‘‘ قرار دیا… جس عمل کو اﷲ تعالیٰ نے ایمان کی علامت قرار دیا… جس عمل کو اﷲ تعالیٰ نے افضل ترین قرار دیا… اُس کے بارے میں ایسی بات پھیلانے کا مقصد… اُس کی عظمت اور اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟… عربی سے ناواقف لوگ نہ اکبر کا معنیٰ سمجھتے ہیں اور نہ اصغر کا… نہ اُن کو اسم تفضیل کا استعمال معلوم ہے اور نہ روایات کا سیاق و سباق…
(رنگ و نور/ ج، ۷/ لشکر شکن)
اس وقت ’’انکار جہاد‘‘ کا فتنہ جتنا تیزی سے سرگرم ہے اسے دیکھ کر دل بہت پریشان ہوتا ہے… عجیب عجیب باتیں ہیں … بالکل مرزا قادیانی کی مکمل ترجمانی … بعض لوگوں نے تو نعوذ باﷲ … جہاد کے انکار یا جہاد کے معنیٰ تبدیل کرنے کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا ہے… ہر وہ روایت جس سے جہاد فی سبیل اﷲ کی اہمیت کچھ کم کی جاسکتی ہو … خوب مزے لے کر بیان کی جاتی ہے … ایسے میں نہ قبر کی زنجیریں یاد آتی ہیں…اور نہ جہنم کا عذاب… دوصحابی تھے… ایک شہید ہوگئے دوسرے ایک سال بعد وفات پا گئے …کسی صحابیذ نے خواب میں دیکھا کہ دوسرے صحابی جنہوں نے وفات پائی تھی پہلے جنت میں داخل ہوگئے …یہ روایت اب ہر کسی کو یاد ہے … حالانکہ پوری روایت پڑھیں تو جہاد ہی کی عظمت اور اہمیت اجاگر ہوتی ہے …
حضرات صحابہ کرام ڑکا اس واقعہ پر حیران ہونا کس وجہ سے تھا؟… معلوم ہوا کہ ان کو قرآن مجید نے اور حضور اقدسﷺ کی مبارک صحبت نے جو ’’علم‘‘ عطا فرمایا تھا اس کی روشنی میں جہاد اور شہادت کے برابر کوئی عمل نہیں تھا … ہم بھی یہی عرض کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو حضرات صحابہ کرام ڑ والا نظریہ اور حضرات صحابہ کرام ڑ والی سوچ اپنانی چاہئے… باقی جزوی واقعات سے دین کے کئی مسائل سمجھائے جاتے ہیں … اس روایت میں بھی سمجھایا گیا کہ … شہادت کی فضیلت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ … کوئی بھی زندہ رہنا گوارہ نہ کرے… مسلمان کی زندگی کا ہر لمحہ اور ہر عمل اس کے درجات کو بڑھانے کا ذریعہ ہوتے ہیں… اس روایت میں یہ کہیں مذکور نہیں کہ … دوسرے صحابی نے کبھی جہاد میں شرکت نہیں کی… یا اُن کے دل میں شہادت کی امنگ اور تمنا نہیں تھی … یا انہوں نے شہادت کی دعا نہیں مانگی تھی… جو اخلاص سے شہادت کی دعا مانگے اس کو بھی شہادت کا مقام ملتا ہے … اور ایک سال کے فرض، سنت اور نفل اعمال ان کے پاس زائد تھے اور اس روایت میں یہ بھی کہیں مذکور نہیں کہ… وہ صحابی تمام شہداء سے افضل ہوگئے اور تمام شہداء سے پہلے جنت میں گئے … جس طرح انبیاء اور صحابہ کے درجات ہیں … بعض بعض سے افضل ہوتے ہیں … اس طرح شہداء کے بھی درجات ہیں … کوئی اعلیٰ درجے کا شہید کوئی اس کے بعد کا… جبکہ ہمارے پاس صحیح حدیث موجود ہے کہ … رسول اﷲ ﷺ نے اپنے لئے شہادت کی تمنا فرمائی … بات ہی ختم … شہادت کا عام موت سے افضل ہونا قرآن پاک سے بھی ثابت ہے … اور احادیث مبارکہ سے بھی … کوئی ہے جو ایک دلیل اس کے برخلاف پیش کرسکے؟ … ہاں بعض جزوی واقعات میں … بعض وفات پانے والے افراد اگر شہید سے افضل ہو جائیں تو یہ ممکن ہے … مجھے ایک بزرگ نے فرمایا، صدیق کا مقام شہید سے افضل ہے… پھر حضرت صدیق اکبرذ کا تذکرہ فرمایا … بندہ نے عرض کیا … حضرت! کیا ایسا شخص جو اﷲ تعالیٰ کے لئے جان قربان نہ کرنا چاہتا ہو… وہ صدیق کا مقام پاسکتا ہے؟ … ہمیں تو صدیقوں کے ’’صدیق اکبرذ ‘‘ خود بدر، احد میں لڑتے نظر آتے ہیں … حضرت! مجھے صدیق کے ہاتھ میں تلوار نظر آرہی ہے … وہ بہت خوش ہوئے اور کافی دیر تک واہ، واہ فرماتے رہے … واقعی جو اﷲ تعالیٰ کے لئے قربانی دینے کا جذبہ نہیں رکھتا وہ صدیق کا مقام کیسے پاسکتا ہے؟ … بزدلی … اور صداقت؟ … جان سے پیار … اور ولایت؟ … قرآن پاک کھول کر دیکھو! وہ صادق اور صدیق کن کو قرار دے رہا ہے…
{من المؤمنین رجال صدقوا ماعاھدوااﷲ علیہ اولئک ہم الصادقون}
پھر ایک اور عجیب فتنہ … آپ نے بہت سے اعمال کی فضیلت پڑھی ہوگی کہ … اگر فلاں عمل کریں تو سو نوافل نماز کا ثواب ملتا ہے … فلاں عمل کریں تو ہزاررکعت نوافل کا اجر ملتا ہے… فلاں عمل کریں تو ساری رات نماز پڑھنے کا ثواب ملتا ہے … فلاں عمل کریں تو اتنے سال نماز پڑھنے کا اجر ملتا ہے … اب کوئی آدمی سائوتھ افریقہ کے پرتعیش ماحول میں بیٹھ کر … اپنے چند شاگردوں کو ایسی تمام روایات جمع کرنے پر لگا دے … اور علمی رعب ڈالنے کے لئے ہر روایت کے نیچے … کئی کئی کتابوں کے حوالے دے… اور نتیجہ یہ نکالے کہ اب پانچ نمازوں کی ضرورت نہیں ہے … جیسے ایک سنت زندہ کرنے پر سو شہیدوں کا اجر ملنے والی روایت سنا کر … یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ بس سنتیں زندہ کرو … جہاد کی حاجت اور ضرورت نہیں ہے… جہاد میں تو صرف ایک شہادت ملتی ہے … جبکہ سنت زندہ کرنے پر سو شہادتیں … اسی طرح کوئی ’’محقق‘‘ کہے کہ فلاں عمل کرنے سے تو کئی سال کی نماز کا اجر ملتا ہے… پھر روزآنہ پانچ نمازوں کی کیا ضرورت ہے؟ … نعوذ باﷲ، استغفراﷲ…
معلوم نہیں لوگوں کو کیا ہوگیاہے؟ … حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دن رات سنتوں کو زندہ کررہے تھے … پھر بھی شہادت کے لئے تڑپتے اور روتے تھے … حضرت فاروق اعظم ذ نے کتنی سنتیں زندہ کیں؟ کتنی سنتوں کو قیامت تک کے لئے مضبوط فرمایا؟ … مگر دعا کیا ہے؟ یا اﷲ شہادت نصیب فرما اور مدینہ منورہ میں نصیب فرما … حضرات صحابہ کرامؓ کا ذوق اور نظریہ دیکھیں کہ حضرت فاروق اعظمذ کی اس دعاء پر حضرت ام المؤمنین سیدہ حفصہؓنے سوال اُٹھایا … شہادت بھی اور مدینہ میں یہ کیسے ممکن ہے؟… دیکھیں حضور اقدس ﷺ کے گھر مبارک اور آپ کے صحابہ کرام کے نزدیک جہاد اور شہادت کا معنیٰ کتنا واضح تھا؟ … سوال کا مطلب یہ تھا کہ شہادت تو محاذ جنگ پر ملتی ہے اور اب محاذ جنگ مدینہ منورہ سے بہت دور منتقل ہوگئے ہیں … اور کافروں میں سے کسی کی ہمت نہیں بچی کہ مدینہ منورہ پر چڑھ آئے تو پھر … آپ کو مدینہ منورہ میں کیسے شہادت مل سکتی ہے؟ … حضرت عمرفاروق ؓنے فرمایا: اﷲ تعالیٰ اپنے کاموں پر غالب ہے … وہ ان دونوں کو جمع فرما سکتا ہے… آپ کا جواب درست نکلا اور مدینہ منورہ میں شہادت کا انتظام ہوگیا … شہادت کوئی معمولی چیز ہوتی تو حضرت فاروق اعظم ذ اسے مانگتے؟ … آپ نے تو شہادت کی خاطر یہاں تک انتظام کررکھا تھا کہ … اپنی ذات اور مدینہ منورہ کو مجاہدین کی چھائونی قرار دے دیا تھا… اور اس کی شرعی حیثیت کا اعلان تمام اسلامی لشکروں میں ہوچکا تھا کہ … تم میں سے جو پلٹ کر آنا چاہے تو میں اس کی چھائونی ہوں … یہ دراصل ایک شرعی مسئلہ ہے جو سورۃ انفال میں تاکید سے بیان ہوا ہے … کبھی موقع ہوا تو ان شاء اﷲ تفصیل سے عرض کردیا جائے گا… حضرت عمرؓ کو تمام صحابہ کرامؓ… اور اہل شوریٰ نے محاذ پر جانے سے روک رکھا تھا … ایک بار آپ اسلامی لشکر کے ساتھ نکل گئے تو مدینہ منورہ کے بڑے صحابہ کرامؓآپ کو واپس لے آئے … امیر مومنین کو مجاہدین کے جہاد کا پورا اجر و ثواب ملتا ہے… مگر اس کے بعد جہاد میں مزید شمولیت کے لئے آپ نے اعلان فرما دیا کہ … انا فئتکم
اب ایک شخص مجاہدین کی پہلی چھائونی میں ہو … اور وہاں اسے ایک مشرک خنجر سے قتل کردے تو… یہ محاذ ہی کی شہادت ہوئی … کیونکہ محاذ جنگ پہلی چھائونی سے شروع ہوکر … خطِ اوّل تک ہوتا ہے … کیا حضرت عمرؓ کو سنت زندہ کرنے والی روایت معلوم نہیں تھی؟ … کیا حضرت عمر ؓکو دو صحابیوں کا واقعہ معلوم نہیں تھا کہ … بعد میں وفات پانے والے آگے نکل گئے … یقیناً سب کچھ معلوم تھا … مگر وہ جانتے تھے کہ … ان روایات کا مقصد سنت اور اعمال کی فضیلت سمجھانا ہے نہ کہ … جہاد اور شہادت کے رتبے کو کم کرنا …
چکوال کے ایک جلسے میں ایک بزرگ نے بیان کے دوران سو شہیدوں کے اجر والی روایت پوچھی… بندہ نے عرض کیا … جناب! اگر آج اعلان ہو جائے کہ جو شخص فلاں کام کرے گا اسے سو وزرائِ اعظم کی تنخواہ دی جائے گی … ایک وزیراعظم کی تنخواہ ایک لاکھ ہے تو … اس آدمی کو فلاں کام پر سو لاکھ یعنی ایک کروڑ دیا جائے گا… اس آدمی نے وہ کام کرلیا اسے ایک کروڑ بھی مل گئے … لیکن کیا اس کو وزیراعظم والا مقام،رتبہ اور اختیارات بھی حاصل ہوں گے؟… جواب صاف ہے کہ بالکل نہیں… عرض کیا! … حدیث پاک میں اجر کا لفظ آیا ہے … یعنی سو شہیدوں کا اجر … جو یقیناً اس کو ملے گا… مگر شہید کا رتبہ اور مقام الگ چیز ہے جو بہت ہی اونچی ہے … آپ یقین کریں … شہید کے فضائل پڑھ کر انسان کے دل پر وجد طاری ہو جاتا ہے … اور بعض اوقات تو دل کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے … مثلاً ترمذی کی روایت ! … آپ ﷺ نے حضرت جابر بن عبداﷲ ؓ سے فرمایا … اﷲ تعالیٰ جس سے بھی بات فرماتے ہیں پردے میں فرماتے ہیں… مگر تمہارے والد سے بالکل سامنے بات فرمائی … ش،ش،ش …سوچیں تو دل کی دھڑکن تیز ہو جائے … اﷲ جلّ جلالہ وعزّشانہ کا بغیر پردے کے آمنے سامنے کلام فرمانا … حضرت عبداﷲ بن حرامؓ… احد کے دن شہید ہوئے تھے … اور آپ ﷺ نے یہ حدیث مبارک ان کی شہادت کے بارے ہی میںارشاد فرمائی ہے… اب ان لوگوں کا کیا بنے گا جو صبح شام ، رات دن… جہاد اور شہادت کے مقام کو گرانے کے لئے… دو چار روایات یاد کئے پھرتے ہیں … کیا ان کو اﷲ تعالیٰ کا خوف نہیں آتا؟ … یا اﷲ! امت مسلمہ پر رحم فرما …
(رنگ و نور/ ج،۷/ جامع نسخہ)
٭…٭…٭