جواہرِ جہاد (قسط۲۷)
از: امیر المجاہدین حضرت اقدس مولانا محمد مسعود ازہر صاحب دامت برکاتہم العالیہ
(شمارہ 603)
آپ تھوڑاسا سوچیں… ایک شخص دین کی باتیں کرتا ہے مگر جہاد کا نام تک نہیں لیتا… پھر اُسے کچھ لوگ مجبور کرتے ہیں کہ جناب جہاد کی بات بھی کرو… تب وہ خاص لوگوں کو جمع کرکے جہاد کی بات کرتا ہے… اور صاف کہہ دیتا ہے کہ … جہاد کا انکار تو کفر ہے… مگر ہم یہ کہتے ہیں کہ … ابھی جہاد کا وقت نہیں آیا… بہت سے لوگ اُس کی یہ ظالمانہ بات مان لیتے ہیں… استغفراللہ، استغفراللہ… حضور اقدس ﷺ کی صحیح احادیث میں فرمایا گیا ہے کہ… جہاد کبھی نہیں رُکے گا… جہاد ہمیشہ جاری رہے گا… مسلمانوں کی ایک جماعت تو ضرور جہاد میں لگی رہے گی اور یہ برحق جماعت ہوگی… محدّثین کرام نے ان احادیث کی روشنی میں لکھا ہے کہ… ایک دن کے لیے بھی روئے زمین پر جہاد نہیں رُکے گا… اور یہ اسلام کے مسلسل اور برحق ہونے کی دلیل ہے… جہادکا عمل جاری رہے گا یہاں تک کہ اُمت مسلمہ کے مجاہدین کی آخری جماعت دجّال کو قتل کردے گی… تب دنیا سے کفر کا خاتمہ ہو جائے گا تو جہاد کی ضرورت نہیں رہے گی… اللہ تعالیٰ کے نبیﷺ فرماتے ہیں کہ… جہاد ہمیشہ جاری رہے گا… ایک تقریر کرنے والا کہتا ہے کہ… آجکل جہاد کا وقت نہیں ہے… آپ بتائیے کہ ہم کس کی بات مانیں گے؟… اور یہ شخص اُمت مسلمہ کو کس طرف لے جا رہا ہے؟… الحمدللہ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ … آج بھی جہاد جاری ہے اور جہاد ممکن ہے… آج بھی جہاد میں اللہ تعالیٰ کی نصرت نازل ہورہی ہے… آج بھی الحمدللہ شہداء کرام کے خون سے مُشک اور کستوری کی خوشبو آرہی ہے… مگر بعض لوگ بڑے بڑے مجمعوں سے دھوکے میں پڑگئے ہیںاور وہ خود کو مسلمانوں کا خیر خواہ سمجھ رہے ہیں… وہ سمجھتے ہیں کہ جہاد کرنے سے مسلمان ختم ہو جائیں گے اس لیے مسلمانوں کو بچانے کے لیے قرآن پاک کا انکار کردو… انا للہ وانا الیہ راجعون… ارے اللہ کے بندو! مسلمان کی حفاظت اور ترقی اسلام کے تمام احکامات کو ماننے اور اُن پر عمل کرنے میں ہے… آج کے کُفار تو کسی ایک محاذ پر بھی مسلمانوں کو ختم نہیں کرسکے… اورنہ شکست دے سکے… اگر اپنی حفاظت کے لیے قرآن پاک کا انکار کروگے تو پھر… ایسی زندگی کا کیا فائدہ؟…
(رنگ و نور/ ج، ۵/ رب تعالیٰ کا فضل)
سلامتی کا پیغام
اﷲ اکبر کبیرا… عجیب شان ہے شہداء اسلام کی…
اِس وقت جو کچھ افغانستان،کشمیر،فلسطین اور عراق وغیرہ میں ہو رہا ہے اُس کا تعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ماضی کے تمام شہداء اسلام کے ساتھ ہے…کشمیر میں مشرکین کے خلاف جہاد ہے… جناب رسول کریم آقا مدنیﷺ نے… بدر، اُحد، خندق، فتح مکہ، حنین اور طائف کی جنگیں مشرکین کے خلاف لڑی تھیں… انڈیا کی بی جے پی نے اپنے ایک’’کتابچے‘‘ میں دعویٰ کیا ہے کہ مکہ کے مشرک’’ہندو‘‘ تھے… اور حضرت محمدﷺ نے اُن سے ’’کعبہ شریف‘‘ کوچھین لیا… افغانستان میں جن کفار کے خلاف جہاد ہو رہا ہے اُن میں سے اکثر کا تعلق’’یہودونصاریٰ‘‘ کے ساتھ ہے… کچھ ان میں بدھ مت بھی ہیں، کچھ کیمونسٹ ہیں… اور کچھ کھلم کھلا منافقین… منافقین کی بعض قسموں کے ساتھ’’ قتال ‘‘کرنا جائز ہے… افغانستان کے منافقین بھی اُسی قسم کے ہیں… عراق کا جہاد مجوس، نصاریٰ اور یہود کے مشترکہ اتحاد کے خلاف ہے جبکہ …فلسطین کے جانباز یہودیوں سے لڑ رہے ہیں… اﷲ تعالیٰ’’صومالیہ‘‘ کے مجاہدین کو سلامت رکھے انہوں نے ’’سمندری جہاد‘‘ بھی شروع کر دیا ہے… احادیث مبارکہ میں ’’سمندری جہاد‘‘ کی بہت فضیلت آئی ہے… حضور اقدسﷺ نے بنی قینقاع،بنی نضیر اور بنی قریظہ… اورپھر خیبر کی جہادی جنگیں یہودیوں کے خلاف قائم فرمائیں… اورآپﷺ نے ’’تبوک‘‘ کاسفر’’نصاریٰ‘‘ سے جہاد کے لئے فرمایا… اور آپﷺ نے ’’موتہ‘‘ کی طرف جو جہادی لشکر روانہ فرمایا وہ بھی ’’نصاریٰ‘‘ کے مقابلے کے لئے تھا…پھر آپﷺ نے مسلمانوں کو کئی جنگوں کی بشارتیںعطاء فرمائیں… ان بشارتوں میں ’’بحری جہاد‘‘ کی خوشخبری بھی تھی…میرا سلام اُن تمام’’مجاہدین‘‘ کوجو اِس زمانے میں رسول اﷲﷺ کی بشارتوں کا مصداق بنے ہوئے ہیں… دل چاہتا ہے کہ ان مجاہدین کے قدموں کی خاک جمع کر کے اُسے اپنی آنکھوں کا سرمہ بنالوں… ویسے آپ کو ایک سچی بات اور بتاتاہوں کہ اِس زمانے کے ’’مجاہدین‘‘ کا مقام ماشاء اﷲ بہت اونچا ہے…یہ بات تفصیل سے بیان نہیں کر سکتا کہ ’’مجاہدین‘‘ اُسے پڑھ کر’’تکبّر‘‘ میں مبتلا نہ ہو جائیں… اور جو تکبّر میں مبتلا ہوتا ہے وہ ’’جہاد‘‘ کے اونچے مقام سے پھسل کرنیچے گر جاتا ہے… آپ نے کبھی اس نکتے کو سوچا کہ اِس زمانے کا جہاد افغانستان میں کیوں شروع ہوا؟…پھر افغانستان سے کشمیر کے جہاد کا چراغ کیوں جلا؟… اور پھر عراق میں جہاد کے نعرے کیوں گونجے؟… کبھی سوچا آپ نے؟… دنیا تو بہت بڑی ہے اور مسلمان الحمدﷲ ہر جگہ موجود ہیں… اور کفار کا ظلم و ستم بھی تقریباً ہر جگہ موجود ہے… مگر افغانستان ہی سے اﷲ پاک نے اس زمانے کے جہاد کا آغاز فرمایا اس میں بڑی حکمتیں ہیں… ’’دسمبر‘‘ کے ٹھنڈے مہینے کو ’’عالمی میڈیا‘‘والے کئی حوالوں سے یاد کرتے ہیں… اور ہر سال دسمبر میں مزید کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا ہے جو سالہا سال تک یاد کیا جاتا ہے… بابری مسجد کی شہادت چھ(۶) دسمبر کو ہوئی، مسلمانوں کو اپنا یہ زخم یاد آتا ہے… انڈین طیارے کا اغواء بھی دسمبر میں ہوا انڈیا اپنے اس زخم کو کُھجاتا ہے… آج کل پیپلز پارٹی والے بے نظیر صاحبہ کی دوسری برسی منا رہے ہیں… عیسائی برادری اپنا کرسمس اور پاکستانی حکومت ’’جناح ڈے‘‘ بھی دسمبر میں مناتی ہے… یہ عجیب ٹھنڈا مہینہ ہے جو گرم گرم واقعات سے بھرا پڑا ہے… انہیں گرم واقعات میں سے ایک واقعہ تیس(۳۰) سال پہلے پیش آیا…تیئیس(۲۳)دسمبر۱۹۷۹ءسوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں… کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ’’سوویت یونین‘‘ کی موت اُسے افغانستان میں کھینچ لائی ہے… اس سے پہلے ’’سوویت اتحاد‘‘ نے کبھی شکست کا نام تک نہیں سنا تھا… تیمورلنگ جیسے فاتح کا شہر سمر قند… اور امام شاملؒ کا قفقاز بھی’’سوویت اتحاد‘‘ کا حصہ بن چکے تھے… افغانستان میں کیمونسٹوں کی دو طاقتور مقامی پارٹیاں موجود تھیں… ایک کا نام’’خلق‘‘ اور دوسری کا نام’’پرچم‘‘ تھا… سوویت یونین کابل میں تنہا نہیں تھا… بلکہ سالہا سال کی محنت نے افغانستان میں مقامی کیمونسٹوں اور کامریڈوں کا ایک پورا لشکر تیار کر دیا تھا… حفیظ اﷲ امین،نورمحمد ترکئی، ببرک کارمل… اور نجیب… یہ سب سوویت یونین کے نظریاتی اور جسمانی غلام تھے… روس کے جنگلات میں خونخوار’’گلم جم ملیشیا‘‘ کو تیار کیا گیا تھا… اس ملیشیا کی کمان’’عبدالرشید دوستم‘‘ کے ہاتھ میں تھی…ظاہری طور پر افغانستان… ایک ترلقمہ تھا… مگر اﷲ پاک کی شان دیکھیں کہ ’’سرخ ریچھ‘‘ بُری طرح پھنس گیا… ہمارے’’آلودماغ‘‘ دانشور ایک ہی بات فرماتے ہیں کہ امریکہ، پاکستان اور دیگر ممالک نے’’سوویت یونین‘‘ کو شکست دے دی… ان ممالک نے مجاہدین کی مدد کی… عرب ممالک سے مجاہدین کوبھرتی کرکے لے آئے… ساری دنیا سے مجاہدین کے لئے’’گدھے‘‘خریدے… ان گدھوں پر بیٹھ کر مجاہدین نے سوویت یونین کو شکست دے دی… اگر یہ بات سچی ہے تو آج امریکہ بھی موجود ہے اور اُس کے اتحادی بھی… وہ ساری دنیا سے ’’گدھے‘‘بھی خرید سکتے ہیں اور کرائے کے فوجی بھی بھرتی کر سکتے ہیں… تو کیا وجہ ہے کہ کئی سال گذر جانے کے باوجود بھی ’’طالبان‘‘ کو شکست نہیں دی جا سکی؟… عجیب بات یہ ہے کہ سوویت یونین ایک بڑی ایٹمی طاقت تھی… جبکہ’’طالبان‘‘ ظاہری طور پر ایک معمولی سی طاقت ہیں… دراصل یہ دانشور بیچارے کچھ نہیں سمجھتے، کچھ نہیں جانتے…اصل بات یہ ہے کہ افغانستان کے مجاہدین نے بغیر کسی بیرونی امداد کے افغانستان کا جہاد شروع کیا… یہ جہاد وہاں کی کیمونسٹ حکومت کے خلاف تھا… حکومت نے جب مجاہدین کا زور دیکھا تو اپنے آقا سوویت یونین کوبُلایا… تیئیس دسمبر۱۹۷۹ء کو سوویت یونین نے اپنی فوجیں افغانستان میں داخل کردیں… سوویت یونین کا یہ لشکر’’ڈیڑھ لاکھ‘‘ فوجیوں پر مشتمل تھا… بعد میں اس میں کمی اور زیادتی ہوتی رہی… مجاہدین نے اپنا جہاد جاری رکھا… نہ امریکہ کا تعاون تھا اور نہ پاکستان کا… سوویت فوجوں نے جب وسیع پیمانے پر بمباری اور قتل و غارت کا بازار گرم کیا تو’’ہجرت‘‘ شروع ہو گئی… پاکستان کو اﷲ پاک سلامت رکھے اُس نے اپنا سینہ کھول دیا… مہاجرین پاکستان آگئے تو ان کے ساتھ مجاہدین بھی آنے جانے لگے… جب دنیا نے دیکھا کہ مجاہدین بہت باعزم، مضبوط اور جنگ آزما ہیں تو ہر طرف سے امداد شروع ہو گئی… جہاد کے واقعات عام ہوئے اور شہداء کے خون کی خوشبو پھیلی تو دنیا بھر سے خوش قسمت’’روحیں‘‘ جہاد کے میدان کی طرف دوڑنے لگیں… اور وہ نام نہاد اسلامی ممالک جہاں کے حکمرانوں نے… دیندار مسلمانوں کو تنگ کر رکھا تھا وہاں کے کئی مسلمانوں نے بھی افغانستان کارُخ کیا… افغانستان کا جہاد جب اچھی طرح جم گیا تو امریکہ وغیرہ نے اس موقع کو اپنے لئے غنیمت سمجھا کہ اب سوویت یونین کوسبق سکھایا جا سکتا ہے… چنانچہ انہوں نے بھی افغان مجاہدین کا تعاون کیا… یہ سب کچھ کیا تھا؟… اﷲ رب العزت کا تکوینی نظام… جی ہاں اِس زمانے میں جہاد کے احیاء کا عالیشان انتظام… سوویت یونین کو شکست ہوگئی… اور وہ ٹوٹتا اور بکھرتا چلا گیا… کابل میں کیمونسٹ حکومت ختم ہوئی… مگر خالص مجاہدین بھی نہ آسکے… ایسا کیوں ہوا؟… یہ تفصیل پھر کبھی… مگر افغان جہاد کے تمام بیرونی معاونین ہاتھ جھاڑ کر واپس چلے گئے… اگر افغان جہاد امریکہ کی جنگ ہوتی تو امریکہ وہاں موجود رہتا… مگر امریکہ کا تو نام و نشان تک نہیں تھا… وہاں تو دو ماہ کیلئے’’مجدّدی‘‘ اور پھر دو سال کے لئے ’’ربّانی‘‘ آئے… احمد شاہ مسعود اور حکمت یار نے اپنے سینگ اڑائے… ہر صوبے پر الگ تنظیم نے حکومت قائم کی… اور گلم جم والے خوب دندنائے… اُدھر سے ایران بھی گُھس آیا… حزب وحدت اور حرکتِ اسلامی کے نام سے دو ایران نواز تنظیموں نے خوب اودھم مچایا… ہرات، بامیان اور مزار شریف کو وہ لے اُڑے… اس افراتفری کے عالم میں شہداء کرام کے خون نے کروٹ لی اور طالبان ’’رحمتِ حق‘‘ بن کر آئے… اور پچانوے فی صد افغانستان پر چھا گئے… اب دنیا بھر سے’’کفر ونفاق‘‘ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا… روس، انڈیا اور ایران نے’’شمالی اتحاد‘‘بنایا امریکہ اور یورپ نے بھی اس شمالی اتحاد کی مدد کی… یہ افغان جہاد کا دوسرا دور تھا… طالبان اکیلے تھے اور اُن کے مقابل شمالی اتحاد تھا جسے ہرطرف سے امداد اور گدھے مل رہے تھے… مگر اس بار امداد اور گدھے دونوں بُری طرح ہار رہے تھے… اسی اثناء میں’’نائن الیون‘‘ کا واقعہ ہو گیا… کچھ اچھے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ واقعہ امریکہ نے خود کرایا تاکہ طالبان پر حملہ کر سکے… یہ خیال حقائق کے مطابق نہیں ہے… امریکہ ایک منہ زور طاقت ہے اُسے کسی پر حملہ کرنے کے لئے اس طرح کے بہانوں کی ضرورت نہیں… اور بہانہ بھی ایسا جس نے امریکہ کی معیشت کا بھرکس نکال دیا… بہرحال قسمت کی بات کہ’’نائن الیون‘‘ ہو گیا… اور امریکہ کو اﷲ پاک نے اُس کے بِل سے نکال دیا… تب افغان جہاد کا تیسرا دور شروع ہو گیاجسے اب آٹھ سال ہو چکے ہیں… اس جہاد میں اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی طاقت مجاہدین کے ساتھ نہیں ہے… وجہ بالکل واضح ہے کہ سب امریکہ سے ڈرتے ہیں… مگر اﷲ تعالیٰ کو امریکہ کا کیا ڈر… اﷲ تعالیٰ چاہے تو ایک اشارے سے زمین و آسمان کو تباہ فرمادے… اﷲ تعالیٰ نے ایمان والوں کو اس جہاد کے لئے کھڑا فرما دیا… اسی سے آپ اِس زمانے کے مجاہدین کا مقام سمجھ سکتے ہیں کہ وہ اﷲ تعالیٰ کو کتنے پیارے ہیں…دراصل آخری زمانہ بھی اسلام کے پہلے زمانے کی طرح’’جہاد کا زمانہ‘‘ ہے… اور اس جہاد کا بڑا لشکر افغانستان، پاکستان اور انڈیا میں تیار ہونا ہے… طالقان کا علاقہ افغانستان میں ہے جہاں سے مجاہدین کے لئے ایک بڑا خزانہ نکلے گا… روایات میں اس کی بشارت موجود ہے… حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں خراسان سے کالے جھنڈوں والا لشکر روانہ ہو گا… مجاہدین کا اصل راستہ کشمیر سے گزر کر ہندوستان تک پہنچتا ہے… چنانچہ کشمیر بھی’’میدان جہاد‘‘ بن گیا… حضرت سید احمد شہیدؒ کا لشکر بھی کشمیر کی طرف روانہ تھا کہ راستے میں شہید کر دیاگیا… روایات میں ہے کہ افغانستان سے مجاہدین کا لشکرہندوستان پہنچے گا اور وہاں کے حکمرانوں کو زنجیروں سے باندھے گا… یہی وہ آخری زمانہ ہوگا جس میں بڑے بڑے واقعات پیش آئیں گے… حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کا آنا… حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا نازل ہونا… دجّال کا نکلنا… مسلمانوں کے تین بڑے لشکروں کا تذکرہ ملتا ہے… ملک شام والا لشکر تو جہاد فلسطین کے ذریعہ تیار ہو رہا ہے… خراسان کا لشکر افغانستان اور کشمیرمیں جوان ہو رہا ہے… اور عراق کا لشکر جہاد عراق سے پیدا ہو چکاہے… ساری دنیا کوگھیرنے کے لئے یہی تین لشکر کافی ہیں… اور وہ زمانہ تیزی سے قریب آرہا ہے جب رسول اﷲﷺ کی بشارت کے مطابق زمین پر پھر ’’خلافت‘‘ کا عادلانہ نظام قائم ہو گا… اور اسلام پوری دنیا پر غالب آجائے گا… جہاد کا نظریہ بہت تیزی سے مسلمانوں میں عام ہو رہا ہے… اور کئی ممالک میں تو جہاد کی گمنام تحریکیں بھی چل رہی ہیں… بے شک اِس زمانے کے مجاہدین مسلمانوں کے روشن مستقبل کی بنیاد بن رہے ہیں… یہاں ایک چھوٹا سا نکتہ اور بھی سمجھ لیں… اِس زمانے کے جہاد کا ظاہری نتیجہ سامنے نہیں آرہا…یعنی نہ افغانستان فتح ہوا، نہ کشمیر آزاد ہوااور نہ عراق میں اسلامی حکومت قائم ہوئی… بعض لوگ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ اگر یہ جہاد شرعی ہوتا تو اسلام غالب اور نافذ ہو جاتا… مگر کسی جگہ بھی ایسا نہیں ہوا تو ثابت ہوا کہ(نعوذ باﷲ) اِس زمانے کا جہاد غیر شرعی ہے… یہ اعتراض بالکل غلط ہے… اِس زمانے کا جہاد تو مسلمانوں کی عظمت کے لئے بنیاد فراہم کر رہا ہے… یعنی پہلے ایک جہادی اُمت تیار ہو گی جو آگے چل کر اسلام کو نافذ کرے گی… آج اگر فوری طور پر ان جہادی تحریکوں کا ظاہری نتیجہ نکل آئے توجہاد کو نقصان پہنچ سکتا ہے… وجہ یہ ہے کہ جب نتیجہ نکلے گا تو مجاہدین کی حکومت قائم ہو جائے گی… کچھ وزیر بنیں گے اور کچھ مشیر… جبکہ دنیا بھر کی سیاست اور معیشت پر یہود ونصاریٰ کا قبضہ ہے… اب جو حکومت بھی بنے گی اُسے اپنی کرنسی اور اپنے خارجہ معاملات کی وجہ سے کفار کا محتاج ہو نا پڑے گا… اور جہاد سے دستبردار ہونا پڑے گا… اوریوں تحریک جہاد ختم ہو جائے گی… جبکہ موجودہ حالات میں اگرچہ کسی جگہ اسلامی حکومت قائم نہیں ہو رہی مگر جہاد کوقوت مل رہی ہے… اُمت مسلمہ میں مجاہدین پیدا ہو رہے ہیں… اور کفر کی طاقت آہستہ آہستہ پگھل رہی ہے… بس یہ سلسلہ اگر کچھ عرصہ اور جاری رہا تو دنیا پر سے کفار کی’’دادا گیری‘‘ ختم ہو جائے گی… اور مسلمانوں میں بے شمار سچے مسلمان پیدا ہو جائیں گے… اور سچا مسلمان تو وہی ہوتا ہے جو جہاد سمیت پورے دین کو مانتا ہو… اور اس پر عمل کے لئے تیار رہتا ہو… جہاد کی موجودہ تحریکیں دیمک کی طرح کفار کے مضبوط قلعوں کو اندر ہی اندر سے کھاتی جارہی ہیں… آپ کو یقین نہ آئے تو صرف پندرہ بیس سالوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں… کچھ عرصہ پہلے تک دنیا میں کفار کو چیلنج کرنے والا کوئی بھی نہیں تھا… چنانچہ اس مستی میں انہوں نے’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کا اعلان کر دیا کہ اب… ساری دنیا ہماری غلام بن چکی ہے… اور اب وہی کچھ ہو گا جو ہم چاہیں گے… مگر آج حالات بدل چکے ہیں… ایک سپرپاور تو دنیا کے نقشے سے ہی مٹ چکی ہے… جبکہ دوسری سپر پاور اپنے فوجیوں کے تابوت اٹھارہی ہے… اسی لئے تو میں کہتا ہوں کہ اِس زمانے کے مجاہدین کا مقام بہت اونچا ہے… اﷲ تعالیٰ تکبر، حبّ دنیا اور ریاکاری سے بچائے اور استقامت عطاء فرمائے… ساری دنیا کے کفار کی خدمت میں گزارش ہے کہ’’اسلام‘‘ہی سلامتی کا واحد راستہ ہے… جنگ آپ لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے… حضرت محمدﷺ کے اُمّتی جب میدانوں میں اُتر آئیں تو پھر آسمان وزمین کے غیبی لشکر بھی اُن کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں… آپ لوگ مسلمانوں سے نہیں لڑ سکیں گے… اور ہر آنے والا دن آپ کے لئے نئی مصیبتیں لائے گا… اس لئے اسلام کی طرف رجوع کریں… آپ اسلام قبول کر لیں گے تو سلامتی پالیں گے اور ہمارے معزز بھائی بن جائیں گے… بس مجاہدین کی طرف سے دنیا بھر کے لئے یہی پیغام ہے… جی ہاں سلامتی کا پیغام…وَالسََّلَامُ عَلٰی مَنْ اِتَّبَعَ الْھُدٰی
(رنگ و نور/ ج، ۵/ سلامتی کا پیغام)