جواہرِ جہاد (قسط۱۹)

جواہرِ جہاد (قسط۱۹)
از: امیر المجاہدین حضرت اقدس مولانا محمد مسعود ازہر صاحب دامت برکاتہم العالیہ
(شمارہ 594)
سورۃ احزاب… غزوہ ٔاحزاب
اﷲ تعالیٰ اُمت مسلمہ پر حملہ آور ’’اتحادی افواج‘‘ کو شکست عطاء فرمائے… حضور اقدسﷺکے تیئس سالہ دور نبوّت میں قیامت تک کے لیے ہدایات موجود ہیں… آج کل اُمت مسلمہ پر ’’اتحادی افواج‘‘ کا حملہ ہے… قرآن پاک میں سورۃ ’’الاحزاب‘‘ موجود ہے… ’’احزاب‘‘ لشکروں کو کہتے ہیں… اُس زمانے کی اتحادی افواج نے مدینہ منورہ پر حملہ کیا تھا… اس اتحادی لشکر میں یہودی بھی تھے اور مشرک بھی… اور پیسوں کی خاطرلڑنے والے کرائے کے فوجی بھی… یہودیوں کا قبیلہ بنونضیر اس حملے کا اصل محرِّک تھا… جبکہ قیادت مکہ کے مشرک قریشی کر رہے تھے… آج کی اتحادی افواج کو بھی کھڑا کرنے والے یہودی ہیں جبکہ ان اتحادی افواج کی قیادت امریکہ کے مشرکین کر رہے ہیں… تین خدا ماننے والے مشرک… اُس لشکر میں غطفان کا قبیلہ کھجوروں کی لالچ میں شریک تھا جبکہ کرائے کے حبشی بھی ساتھ تھے… آج بھی ڈالروں کی خاطر، تیل کی خاطر بہت سے کرائے کے بے ضمیر ممالک اور فوجی اس ’’عالمی اتحاد‘‘ کا حصہ ہیں … مدینہ منورہ پر حملہ کرنے والے ’’اتحادی لشکروں‘‘ کا بھی ایک ہی اعلان تھا کہ حضرت محمدﷺاور ان کے ساتھیوں کا مکمل خاتمہ ہمارا مقصد ہے… آج کے اتحادی بھی اسی طرح کا نعرہ لگا رہے ہیں… اُن اتحادیوں کو ’’خندق‘‘ کی وجہ سے تیر اندازی کا سہارا لینا پڑا تھا… کیونکہ مسلمانوں نے بڑی محنت کرکے مدینہ منورہ کے راستے پر ساڑھے تین میل لمبی اور بہت گہری خندق کھود دی تھی… جبکہ آج کے اتحادیوں کو اپنی ’’بزدلی‘‘ کی وجہ سے بمباری کا سہارا لینا پڑ رہا ہے… اُس لڑائی میں بھی مسلمان اندر باہر سے گھیرے میں تھے… اِس لڑائی میں بھی مجاہدین اندر باہر سے گھیرے میں ہیں… سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم…
قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ وقت مسلمانوں کے لئے بہت سخت آزمائش کا تھا… اُن کی جان اُن کے حلق میں آرہی تھی… اور لوگ اﷲ تعالیٰ پر طرح طرح کے گمان کر رہے تھے… اﷲاکبرکبیرا … خود اندازہ لگائیے کہ جس آزمائش کو اﷲ تعالیٰ سخت آزمائش فر ما رہے ہیں اس کی شدّت اور سختی کا کیا عالم ہوگا… بعد کے لوگوں نے تو صرف محبت کے دعوے کرنے ہوتے ہیں… جبکہ ساتھ والوں کو ’’عملی اُمتحان‘‘ کا سامنا ہوتا ہے…
حضور اکرم ﷺکے بعد ایک نوجوان نے حضرت حذیفہ ذسے پوچھا کہ آپ لوگوں کا حضور اکرم ﷺکے ساتھ کیا معاملہ تھا؟ … اگر وہ ہمارے زمانے میں ہوتے تو ہم ان کو زمین پر پاؤں نہ رکھنے دیتے اور ان کو اپنی گردنوں پر اٹھا کر چلتے… اور جنگ میں ان کے آگے یوں لڑتے … اور یہ کرتے اور وہ کرتے… حضرت حذیفہؓنے فرمایا… بھتیجے کاش تم ہمیں آپ ﷺکے ساتھ غزوۂ خندق کی راتوں میں دیکھ لیتے…
ایک رات شدید سردی تھی… اور بہت اندھیرا … اتنا اندھیرا کہ کوئی شخص اپنا ہاتھ نہیں دیکھ سکتا تھا… ہم بھوکے تھے اور تیز ہوائیں تھپیڑے مار رہی تھیں… ابوسفیان کا بہت بڑا لشکر ہمارے سامنے تھا… اور اندر بنوقریظہ کے یہودی دشمنی پر اترے ہوئے تھے… اُس رات میرے پاس سردی سے بچنے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا… بس اپنی بیوی کی ایک اوڑھنی تھی جو میں نے گھٹنوں تک باندھ رکھی تھی… اور میں سردی، بھوک اور حالات کی سختی کی وجہ سے زمین پر گرا پڑا تھا… اس رات جیسی سردی اور اندھیرا میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا… ہوا کی آواز بجلی کی کڑک جیسی تھی اور اندر کے یہودیوں سے اپنے بیوی بچوں پر حملے کا خوف بھی تھا… اِس حالت میں حضور اکرم ﷺنے مجھے پکارا… اے حذیفہ اُٹھو اور مشرکین کے لشکر میں کچھ تازہ صورتحال پیدا ہوئی ہے وہ دیکھ کر آؤ… میں زمین کے ساتھ چپکا پڑا تھا اور آقا مدنی ﷺمجھے دشمنوں کے لشکر میں بھیج رہے تھے … میں کھڑا ہوگیا… تب آپﷺنے مجھے دعاء دی … آپ ﷺکا دعاء دینا تھا کہ سردی، بھوک اور خوف سب کچھ ختم ہوگیا… اورجب میں جار ہاتھا … اور واپس آرہا تھا تو یوں لگتا تھا کہ گرم حمام میں چل رہا ہوں… یہ قصہ بہت طویل اور دلچسپ ہے… ہم نے اس کا اختصار عرض کردیا ہے… اندازہ لگالیں کہ اس وقت حالات کیسے تھے… امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے افغانستان پر حملے کے وقت بھی حالات بہت عجیب تھے… اور بہت سخت … کئی عربی مجاہد شہزادے اپنی باپردہ بیویوں اور بیٹیوں کو ساتھ لیے خون کے آنسو بہا رہے تھے… اور افغان بھائیوں سے کہہ رہے تھے کہ ان کو کافروں کے ہاتھ نہ لگنے دینا… اس وقت ان کے نزدیک شہادت سب سے لذیذ اور آسان راستہ تھا… خیر قربانی دینے والے تو خوش نصیب رہے اب انشاء اﷲ جنّتوں کے مزے لوٹتے ہوں گے … مگر افسوس تو بے غیرتی دکھانے والوں پر ہے… ڈالروں کی خاطر بکنے والے… اپنے ہی کلمہ گو محمدی بھائیوں کو مارنے والے، پکڑنے والے… اور بمباری سے بچنے کا بہانہ بنا کر اتحادی لشکر کا ناپاک حصہ بننے والے… کاش اس عظیم گناہ سے پہلے یہ مر گئے ہوتے تو اتنا بڑا ظلم تو نہ کرتے… مگر وہ تو اب تک کر رہے ہیں… اور ابھی تک صلیبی اتحاد کا حصہ بنے ہوئے ہیں… انا ﷲ وانا الیہ راجعون…
اﷲ تعالیٰ ان کو توبہ کی توفیق عطاء فرمائے… اور ان کو سورۂ احزاب پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق بھی نصیب فرمائے… اور اگر ان کی قسمت میں توبہ نہیں ہے تو اﷲ تعالیٰ ان کے شر سے اُمت مسلمہ کی حفاظت فرمائے…
غزوۂ احزاب، جس کا دوسرا نام غزوۂ خندق ہے، اس میں ہم مسلمانوں کے لیے موجودہ حالات کے مطابق کئی اسباق موجود ہیں… اور حضور اکرم ﷺنے غزوۂ احزاب کے دوران جو دعائیں مانگیں اور اپنے صحابہ کرؓام کو سکھائیں… ان دعاؤں سے بھی آج ہمیں فائدہ اٹھانا چاہئے…
ایک بڑی خوشخبری
چوبیس، پچیس دن تک ’’اتحادی افواج‘‘ نے مدینہ منورہ کا محاصرہ جاری رکھا… جب مسلمانوں کی آزمائش اور اُمتحان پورا ہوا اور وہ اﷲ تعالیٰ کی خاطر جہاد میں ثابت قدم رہے تو اﷲ تعالیٰ نے غیبی نصرت بھیجی … مشرق کی طرف سے جو ہوا چلتی ہے اس کو عربی میں ’’صبا‘‘ کہتے ہیں … اردو میں اسے ’’پرُوا ہوا‘‘ کہا جاتا ہے… حضور اکرم ﷺکی اُمت کے لیے یہ ہوا خاص نصرت کا پیغام ہے…
غزوۂ احزاب کے موقع پر بھی اﷲ تعالیٰ نے تین نصرتیں بھیجیں:
۱ ۔صبا یعنی مشرقی ہوا
۲۔ایک ہزار فرشتے
۳ ۔رُعب
فرشتوں نے لڑائی تو نہیں کی مگر کافروں کو خوب ڈرایا… یہ فرشتے گھوڑوں پر سوار تھے اور انہوں نے عمامے باندھ رکھے تھے اور ان کے پاس اسلحہ بھی تھا… یہ سب باتیں مستند تفاسیر میں موجود ہیں … فرشتے مشرکین کے لشکر کے گرد تکبیر کے نعرے لگاتے تھے اور ان کو ڈراتے تھے… جبکہ صبا تیز آندھی بن کر آئی اور اس نے اتحادیوں کے لشکر کو اُلٹ کر رکھ دیا… جبکہ ’’رُعب‘‘ نے یہودیوں کو جکڑے رکھا وہ مدینہ منورہ کے اندر موجود تھے اور ان کے راستے میں کوئی خندق بھی نہیں تھی… مگر وہ ’’رُعب‘‘ کی گرفت میں رہے…
فرشتے عمومی طور پر نظر نہیں آرہے تھے… روح المعانی میں حضرت حذیفہ ذ کی روایت ہے کہ ان کو بیس فرشتے نظر آئے… جو اپنے گھوڑوں پر سوار تھے اور انہوں نے رسول اﷲﷺکے لیے سلام عرض کیا اور فتح کی بشارت دی… جبکہ حضرت جبرئیل علیہ السلام اِس جنگ کے بعد اگلی جنگ کی اطلاع دینے… حضرت دحیہ کلبیؒ کی صورت میں تشریف لائے … ان کو بعض ازواجِ مطہرات اور صحابہ کرامؓ نے بھی دیکھا … خلاصہ یہ کہ ’’اتحادی لشکر‘‘ بچاؤ بچاؤ کی آوازیں لگا کر بھاگ گیا… وہ بہت عجیب منظر تھا … قرآن پاک نے تھوڑا سا نقشہ کھینچا ہے… تب اس موقع پر آقا مدنی ﷺنے ارشاد فرمایا:
الآن نغزوہم ولا یغزوننا
’’اب ہم ان سے لڑیں گے اور یہ ہم سے نہیں لڑسکیں گے‘‘
یعنی آج کے بعد یہ ہم پر حملہ آور نہیں ہوسکیں گے، اب ہم ہی ان پر حملے کریں گے… یہ روایت بخاری اور مسند احمد میں موجود ہے… چنانچہ ایسا ہی ہوا… اس کے بعد حالات بدل گئے… مسلمانوں نے یہودیوں پر حملے کیے… ان کے تمام علاقے فتح کیے… بنوقریظہ اور خیبر کی زمینیں مسلمانوں کو ملیں… اور پھر مسلمان فاتحانہ طور پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور مکہ مکرمہ کو فتح کرلیا… اور پھر فتوحات کا یہ سلسلہ کئی بر اعظموں تک پھیلتا چلتا گیا… اس وقت بھی حالات ’’غزوۂ احزاب‘‘ سے ملتے جلتے ہیں… کافروں اور مشرکوں کے اتحادی لشکر اُمت مسلمہ پر حملہ آور ہیں… اہل ایمان اپنی طاقت کے مطابق ان کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں… غزوۂ احزاب میں حضرت سعد بن معاذؓجیسے عظیم صحابی زخمی ہوئے تھے… اور چند دن بعد وہ شہید ہوگئے … ان کے جنازے میں ستر ہزار فرشتوں نے شرکت کی اور ان کی شہادت پر اﷲ تعالیٰ کا عرش ہل گیا یا جھوم اٹھا… حضرت عمرؓ جیسے مضبوط انسان بھی اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے، حضرت امّاں عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں … میں اپنے والد حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓکے رونے کی آوازیں الگ الگ پہچان رہی تھی… یہی وہ لوگ تھے جن کو قرآن پاک نے ’’رحماء بینہم‘‘ قرار دیا تھا… آج کے اتحادی حملے میں بھی بڑے بڑے مسلمان شہید ہوچکے ہیں… جن کی یاد آتی ہے تو آنکھیں آنسو بہاتی ہیں… غزوۂ احزاب کے موقع پر بھی صحابہ کرامؓ کا جذبہ فدائی تھا… خود قرآن پاک نے اس بارے میں ان کو سچا قرار دیا ہے… اور آج بھی صحابہ کرامؓ کے بیٹے اتحادی لشکروں پر فدائی حملے کر رہے ہیں… اُس لڑائی میں بھی سخت حالات تھے اور جان حلق میں آرہی تھی… اور آج بھی حالات بہت سخت ہیں… بس اب انتظار ہے اس لمحے کا جب اﷲ تعالیٰ کی حتمی نصرت آئے گی… مشرق کی طرف سے ایک ہوا چلے گی… اور آسمان سے فرشتے اتریں گے… یہ پیشین گوئی نہیں بلکہ دعاء ہے… اور دل کی آرزو ہے… کیونکہ اﷲ تعالیٰ تو وہی ہے، قرآن پاک بھی وہی ہے… اور دین بھی وہی ہے… کچھ کمزوری ہم مسلمانوں میں ہے تو اس پر ہم توبہ کرتے ہیں اور استقاُمت اور ترقی کی دعاء کرتے ہیں… انشا ء اﷲتعالیٰ اس بار جب یہ اتحادی لشکر ناکام ونامراد واپس لوٹیں گے تو حالات کا رُخ بدل جائے گا… اور انشاء اﷲتعالیٰ مسلمانوں پر فتوحات کا بہت بڑا دروازہ کھل جائے گا…
(رنگ و نور/ ج، ۴/ فتوحات کا دروازہ)
٭…٭…٭