از: امیر المجاہدین حضرت اقدس مولانا محمد مسعود ازہر صاحب دامت برکاتہم العالیہ
(شمارہ 588)
خلاصہ سورۃ توبہ
سورۃ توبہ اوّل تا آخر جہادی معارف اور مضامین سے لبریز ہے اور یہ سورۃ چونکہ آخر میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے اس لئے اس کے تمام مضامین محکم، قطعی اور حرف آخر ہیں… یہ سورۃ مبارکہ اسلام کے کئی اہم غزوات کو بیان فرماتی ہے… جیسے فتح مکہ، غزوۂ تبوک غزوۂ حنین… حضرات مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سورۃ کی آیت قاتلوہم یعذبہم اﷲ بایدیکم (آیت۱۴) میں فتح مکہ کی ترغیب ہے… اور آیت انفروا خفافاً وثقالاً (آیت۴۱) کے ذریعے مشکل ترین جہادی سفر غزوۂ تبوک کی ترغیب ہے یعنی اس سورۃ میں جہاد کا مکمل نصاب موجود ہے… جہاد کی فرضیت، جہاد کی ترغیب، فرضیت جہاد کی وجوہات اور حکمتیں، جہاد کے فضائل، جہاد چھوڑنے کی وعیدیں، جہاد کرنے کے فائدے، شہادت کے عجیب فضائل، مشرکین کے خلاف جہاد، اہل کتاب کے خلاف جہاد، جہاد کے بارے میں منافقین کا طرز عمل، جہاد کے مخالف منافقین کی اقسام، ان منافقین کے سدا بہار بہانے، مسلمانوں کے لئے ایک عظیم اور خالص مرکز کا قیام، فضیلت ہجرت ونصرت، جہاد میں مال خرچ کرنے کی اہمیت اور فضیلت ، جنگ کرنے کا طریقہ ، منافقین کا طرز عمل اور ان سے نمٹنے کے طریقے اور بہت کچھ…
طلبۂ علم کی سہولت کے لئے سورۃ مبارکہ کے بعض ضروری جہادی مضامین کا خلاصہ درج ذیل ہے، ہر مضمون کے آخر میں اس آیت کا نمبر بھی لکھا جارہا ہے جس میں یہ مضمون مذکور ہے:
۱۔ جہاد فی سبیل اﷲ کی سات حکمتیں اور فائدے
قتال تو نام ہے لڑائی کا۔ کیا اس لڑائی میں کچھ فائدے اور حکمتیں ہیں کہ اﷲ پاک نے اس کا حکم دیا؟ جی ہاں قتال فی سبیل اﷲ میں بہت عظیم الشان ظاہری وباطنی حکمتیں اور فائدے ہیں سورۃ توبہ کی آیت (۱۴) اور (۱۵) میں سات بہت اونچی حکمتیں بیان فرمائی گئی ہیں:
۲۔ وہ پانچ باتیں جو جہاد سے رکنے کا عذر نہیں بن سکتیں
پانچ چیزیں ایسی ہیں جن کو عذر قرار دے کر لوگ جہاد سے رک سکتے ہیں سورۃ توبہ نے بیان فرمایا کہ یہ پانچ عذر جہاد چھوڑنے کا بہانہ نہیں بن سکتے :
(۱) دشمنان اسلام اگر بعض نیک کام کرتے ہوں تو ان کی وجہ سے ان کے خلاف جہاد رک نہیں جائے گا، مشرکین مکہ حرم شریف کے مجاور اور خادم تھے مگر اس نیکی کی وجہ سے ان کے خلاف جہاد ترک نہیں کیا گیا۔ آیت(۱۷)
(۲) مسلمان مسجد میں بیٹھ کر ذکر و فکر کرنے اور مساجد آباد رکھنے کو جہاد چھوڑنے کا عذر نہیں بنا سکتے۔ آیت(۱۹)
(۳) دشمنان اسلام سے اگر کوئی دنیاوی تعلق یا خونی رشتہ ہو تو اس کی وجہ سے ان کے خلاف جہاد بند نہیں ہوگا۔ آیت(۲۳)
(۴) قلت تعداد مانع جہاد نہیں ہوسکتی یعنی کم تعداد کو عذر بنا کر جہاد چھوڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ آیت(۳۵)
(۵) اگر دشمنان اسلام سے جہاد کرنے میں مسلمانوں کو اپنے اقتصادی اور مالی نقصان کا خطرہ ہو تو اس کی وجہ سے جہاد ترک نہیں کیا جائے گا یعنی اگر دشمنان اسلام سے مسلمانوں کو کچھ مالی مفادات مل رہے ہوں اور ان کے خلاف جہاد کرنے سے ان مفادات کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو تو اس کی قطعاً پرواہ نہ کی جائے۔ آیت(۲۸)(مفہوم تقریر حضرت لاہوریؒ)
۳۔ اہل کتاب کے خلاف جہاد
اہل کتاب یہود ونصاریٰ کے خلاف بھی جہاد ہوگا… سورۃ توبہ نے تفصیل سے بیان فرمایا ہے کہ اہل کتاب کے خلاف کب تک جہاد جاری رکھا جائے گا؟… اہل کتاب کے خلاف جہاد کیوں کیا جاتا ہے؟… اہل کتاب میں کون کون سی ایسی خرابیاں آگئی ہیں جن کی وجہ سے ان کو مغلوب کرنا ضروری ہے؟ (ورنہ ان کی یہ خرابیاں دنیا میں پھیل جائیں گی) آیت (۲۹ تا ۳۵)
۴۔ اپنے آپ کو جہاد سے مستثنیٰ رکھنا نفاق کی علامت ہے
کسی شرعی عذر کے بغیر جہاد سے رخصت مانگنا اور خود کو جہاد سے مستثنیٰ رکھنا نفاق کی علامت ہے اس اہم مضمون کا آغاز آیت (۴۵) سے ہوتا ہے… اور پھر سورۃ توبہ نے وہ پانچ طرح کے افراد بیان فرمائے ہیں جو خود کو جہاد سے مستثنیٰ رکھتے ہیں اور نفاق کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں:
(۱) وہ لوگ جو جہاد میں نکلنے کی تیاری نہیں کرتے پھر جب جہاد کا وقت آتا ہے تو بہانے بنا کر خود کو مستثنیٰ رکھتے ہیں اور رخصت مانگتے ہیں۔ آیت(۴۶)
(۲) وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم جہاد میں نکل بھی گئے تو ہم کمزور ہیں ہم کچھ نہیں کرسکیں گے بلکہ ہم گناہوں اور فتنوں میں مبتلا ہوجائیں گے۔ آیت (۴۹)
(۳) وہ جو اﷲ پاک کی رضا کے لئے نہیں مال کی خاطر جہاد کرتے ہیں بس جب ان کو مال کم ملتا ہے تو بگڑ جاتے ہیں اور ناراض ہو بیٹھتے ہیں۔ آیت (۵۸)
(۴) وہ جو حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہم خیال نہیں ہیں اور وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے بدگمان ہیں، ایسے لوگ حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے دین کی خاطر لڑنے کو درست نہیں سمجھتے۔ آیت (۶۱)
(۵) وہ جو عہد کرتے ہیں کہ ہمیں جب وسعت اور آسانی ملے گی تو ہم جہاد کریں گے پھر جب وسعت مل جاتی ہے تو اسی کے مزے میں پڑ جاتے ہیں اور جہاد نہیں کرتے۔ آیت (۷۵)(مفہوم تقریر حضرت لاہوریؒ)
۵۔ جہاد کی بدولت منافق بے نقاب ہوجاتے ہیں
بہت سے منافق جو خود کو مسلمان کہتے ہیں اور جماعت اسلام میں گھسے رہتے ہیں ان کی اصل حقیقت تب بے نقاب ہوتی ہے جب انہیں اسلام کے اہم فریضے جہاد فی سبیل اﷲ میں جانی اور مالی شرکت کے لئے بلایا جاتا ہے… نفاق اور منافقت کو سمجھنے کے لئے سورۂ توبہ کے مضامین بے حد صاف، واضح اور مفصل ہیں… اس میں منافقین کی اقسام کا بھی بیان ہے۔ مثلاً آیت (۱۰۱) میں ان منافقین کا تعارف ہے جو ’’ناقابل معافی‘‘ ہیں کیونکہ ان کا نفاق اعتقادی ہے اور ان کا نصب العین افتراق بین المسلمین ہے… جبکہ اس کے بعد والی آیت میں کئی مفسرین کے نزدیک ان منافقین کا بیان ہے جو ’’قابل معافی‘‘ ہیں کیونکہ ان کا نفاق عادی ہے اعتقادی نہیں۔ اس طرح آیت (۶۷) میں منافقین کا نصب العین اور ان کی سزا بیان کی گئی ہے جبکہ آیت (۱۰۷) میں مسجد ضرار کا تذکرہ ہے کہ کس طرح سے مسلمانوں میں گھسے ہوئے منافق اسلام دشمن کافروں کو مسلمانوں کے خلاف مدد، تعاون، مراکز اور اڈے فراہم کرتے ہیں۔ الغرض منافقین کی سوچ، ان کے خیالات ان کے طرز عمل، ان کے منشور اور ان کے طریقہ کار کو سمجھنے کے لئے سورۂ توبہ کے مضامین حرف آخر کا درجہ رکھتے ہیں۔ اوپر چند مثالیں پیش کردی گئی ہیں باقی تفصیل آیات کے ترجمے، تفسیر اور معارف سے انشاء اﷲ واضح ہوجائے گی کیونکہ اگر ان تمام مضامین کا صرف خلاصہ بھی لکھا جائے تو وہ بھی بہت مفصل ہوجائے گا۔ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ نفاق، منافقت اور منافقوں سے حفاظت کے لئے سورۃ توبہ کو اچھی طرح پڑھے اور سمجھے۔ واﷲ اعلم بالصواب۔ منافقین کی جہاد سے دوری، جہاد سے نفرت اور پہلو تہی، جہاد میں نہ جانے کے لئے ان کے نقلی عذر اور بہانے اور ان کے بہانوں کا جواب۔ یہ سورۃ توبہ کا ایک اہم ترین موضوع ہے۔
۶۔ ترک جہاد پر سخت وعیدیں
سورۂ توبہ کا ایک موضوع فریضہ جہاد کے ترک پر وعیدیں ہیں۔ ظاہر بات ہے یہ وعیدیں غزوۂ تبوک کے بیان کے ضمن میں آئی ہیں تو اس سے جہاد کا معنی بھی واضح ہوجاتا ہے کہ کون سا جہاد چھوڑنے پر یہ تمام وعیدیں آئی ہیں… ترک جہاد پر یہ وعیدیں کئی آیات میں وارد ہوئی ہیں مثلاً آیت (۱۳)، (۱۶)، (۲۴)، (۳۸)، (۳۹)، (۴۲)، (۴۵)، (۴۶)، (۴۷)، (۸۷)، (۹۳)، (۹۵)… اور بہت سی آیات…
دراصل سورۂ توبہ میں ترک جہاد پر منافقین کو بہت سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں چنانچہ اگر ان تمام آیات کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ فہرست کافی لمبی ہوجائے گی۔
تمام مسلمانوں سے گذارش ہے کہ وہ ان آیات کو جن کے نمبرات یہاں عرض کیے گئے ہیں ایک بار توجہ سے پڑھ لیں اور پھر ان آیات کی روشنی میں جہاد کے بارے میں اپنے عقیدے، فکر اور عمل کی اصلاح فرمائیں۔
۷۔ فرضیت وافضلیت جہاد
سورۂ توبہ جہاد فی سبیل اﷲ کی فرضیت کو بھی بیان فرماتی ہے اور دوسرے اعمال پر جہاد کی افضلیت کو بھی چنانچہ ملاحظہ کریں درج ذیل آیات: (۱۹)، (۲۰)، (۲۱)، (۲۲)، (۸۸)، (۸۹)، (۱۱۱)، (۱۱۲)، (۱۳۰)، (۱۳۱)، (۳۹)، (۳۶)، (۴۱)، (۴۴)، (۷۱)، (۷۲)، (۷۳)، (۱۱۷)، (۱۲۳) اور دیگر کئی آیات۔
اگر صرف یہی آیات ترجمے اور مختصر تشریح کے ساتھ پڑھ اور سمجھ لی جائیں تو انشاء اﷲ جہاد کی فرضیت، فضیلت اور عظمت سمجھنے کے لئے کافی ہیں۔
۸۔ طریق جنگ کی تعلیم
سورۂ توبہ میں مسلمانوں کو جنگ کے طریقے کی تعلیم بھی ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیے آیات (۱۲)،(۱۲۳)
۹۔ سورۂ انفال کا تتمہ اور مسلمانوں کا ایک خالص مرکز
سورۂ انفال کے آخر میں مسلمانوں کی ایک عالمی برادری اور جماعت قائم فرمائی گئی تھی اب اس جماعت اور برادری کے لئے ایک ایسے مرکز کی ضرورت تھی جو ان ہی کے لئے خاص اور خالص ہو اس کے لئے اﷲ تعالیٰ نے سرزمین حجاز کو منتخب فرمایا اور اس مرکز کی ترتیب کا پورا نقشہ سورۂ برأۃ میں نازل فرمادیا۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء کرام نے اسی نقشے کے تحت اسلامی مرکز کو قائم فرمایا جس کے بعد اسلام پوری دنیا پر چھاتا چلاگیا۔
سورۂ برأۃ کی ابتدائی آیات میں مسلمانوں کے لئے خالص مسلمان بننے اور زمین پر اﷲ تعالیٰ کے نظام کو قائم کرنے کے لئے واضح حکم اور سبق موجود ہے۔
۱۰۔ سورۂ برأۃ کے چھ حصے
شیخ عبداﷲ عزام شہیدؒ کے بیان کے مطابق سورۃ توبہ چھ اہم موضوعات پر مشتمل ہے:
(۱) المقطع الاوّل: من الآیۃ الاولیٰ الی الایۃ الثامنۃ والعشرین وہذہ کلہا تعلن الحرب علی مشرکی الجزیرۃ العربیۃ الخ۔
یعنی سورۂ برأۃ کا پہلا حصہ اور موضوع جو ابتدائی اٹھائیس آیات پر مشتمل ہے وہ ہے مشرکین عرب سے عمومی اعلان جنگ، معاہدوں وغیرہ کے ختم ہونے کی تفصیلات، چار مہینے کی مہلت، مشرکین سے قتال کرنے کی وجوہات وغیرہ۔
(۲) المقطع الثانی: حملۃ شدیدۃ علی اہل الکتاب، مبررات قتالہم
یعنی سورۃ کا دوسرا حصہ اور موضوع اہل کتاب کے خلاف قتال کے حکم اور ان کے خلاف قتال کی وجوہات پر مشتمل ہے۔
(۳) المقطع الثالث: تہدید ووعید وتانیب وتبکیت للذین یقعدون عن الجہاد مالکم اذا قیل لکم انفروا فی سبیل اﷲ اثاقلتم الی الارض (التوبۃ۳۸)
سورۃ کا تیسرا حصہ اور موضوع ان لوگوں کے لئے سخت تنبیہ، وعید، ڈانٹ پر مشتمل ہے جو جہاد پر نہیں نکلتے، جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مالکم اذا قیل لکم۔ الآیۃ
(۴) المقطع الرابع: وہو نصف السورۃ تقریباً کشف صفات المنافقین (ومنہم من عاہد اﷲ) (ومنہم الذین یوذون النبی) (ومنہم من یقول أذن لی) (والذین اتخذوا مسجدا ضراراو کفرا) الی آخرہ: ہذا نصف السورۃ تقریبا، سمیت البحوث لانہا بحثت عن عیوب المنافقین قال ابن عباسؓ: مازالت التوبۃ تنزل وتقول منہم ومنہم حتی قلنا لاتدع احدا بینت نہائیا صفاتہم ومؤ امراتہم، تخللہم فی داخل المجتمع المسلم، بث الاراجیف، الفساد تثبیط المسلمین عن الجہاد۔
یعنی سورۃ کا چوتھا حصہ اور موضوع جو تقریباً آدھی سورۃ پر مشتمل ہے وہ ہے منافقین کے حالات اور صفات کا انکشاف۔ سورۃ توبہ کا ایک نام سورۃ ’’البحوث‘‘ بھی ہے کیونکہ وہ منافقین کے عیوب کو کرید کرید کر نکالتی اور دکھاتی ہے حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں سورۃ توبہ کی آیات برابر نازل ہوتی رہیں اور بتاتی رہیں کہ ان منافقوں میں سے وہ بھی ہیں۔ اور وہ بھی ہیں۔ یہاںتک کہ ہم نے کہا یہ سورۃ کسی کو نہیں چھوڑے گی… اس سورۃ نے قطعی طور پر منافقین کی صفات، ان کی سازشیں، اسلامی معاشرے میں ان کا گھسنا، مسلمانوں میں خوف پھیلانا، فساد مچانا، مسلمانوں کو جہاد سے روکنا سب کچھ بیان فرمادیا۔
(۵) المقطع الخامس: تصنیف المجتمع المسلم
یعنی سورۃ کا پانچواں موضوع اسلامی معاشرے میں موجود افراد کی قسمیں بیان کرنا ہے۔
(۱) السابقون الاوّلون۔ یعنی ایمان اور ہجرت ونصرت میں سبقت کرنے والے مہاجرین وانصار۔ (۲)وہ کمزور ایمان والے جنہوں نے نیک وبداعمال خلط کیے۔ (۳) منافقین۔ (۴)وہ جن کی توبہ کا معاملہ مؤخر رکھا گیا۔ (۵) وہ جنہوں نے مسجد ضرار بنائی۔ (۶)بیعت رضوان والے۔ (۷)بدروالے۔ (۸)احد والے وغیرہ وغیرہ۔
(۶) المقاطع السادس: و مقطع طبیعۃ البیعۃ لہذا الدین (ان اﷲ اشتریٰ من المؤمنین انفسہم واموالہم بان لہم الجنۃ)
یعنی سورۃ کا چھٹا حصہ اور موضوع ان خاص مسلمانوں کے مزاج اور صفات کا بیان ہے جو اس دین کی خاطر خود کو بیچ دیتے ہیں یعنی جان ومال کی قربانی دیتے ہیں اور کسی بھی حالت میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کرنے سے پیچھے نہیں رہتے جیسے یہ آیات:
ان اﷲ اشتریٰ (الآیۃ)
ماکان لاہل المدینۃ (الآیۃ)۔ (فی ظلال سورۃ التوبۃ)
(منافقوں کے پردے چاک کرنے والی/ رنگ و نور، ج،۳)
٭…٭…٭